Tafseer Ibn-e-Kaseer - Maryam : 75
قُلْ مَنْ كَانَ فِی الضَّلٰلَةِ فَلْیَمْدُدْ لَهُ الرَّحْمٰنُ مَدًّا١ۚ۬ حَتّٰۤى اِذَا رَاَوْا مَا یُوْعَدُوْنَ اِمَّا الْعَذَابَ وَ اِمَّا السَّاعَةَ١ؕ فَسَیَعْلَمُوْنَ مَنْ هُوَ شَرٌّ مَّكَانًا وَّ اَضْعَفُ جُنْدًا
قُلْ : کہہ دیجئے مَنْ كَانَ : جو ہے فِي الضَّلٰلَةِ : گمراہی میں فَلْيَمْدُدْ : تو ڈھیل دے رہا ہے لَهُ : اس کو الرَّحْمٰنُ : اللہ مَدًّا : خوب ڈھیل حَتّٰٓي : یہاں تک کہ اِذَا : جب رَاَوْا : وہ دیکھیں گے مَا يُوْعَدُوْنَ : جس کا وعدہ کیا جاتا ہے اِمَّا : خواہ الْعَذَابَ : عذاب وَاِمَّا : اور خواہ السَّاعَةَ : قیامت فَسَيَعْلَمُوْنَ : پس اب وہ جان لیں گے مَنْ : کون هُوَ : وہ شَرٌّ مَّكَانًا : بدتر مقام وَّاَضْعَفُ : اور کمزور تر جُنْدًا : لشکر
کہہ دو کہ جو شخص گمراہی میں پڑا ہوا ہے خدا اس کو آہستہ آہستہ مہلت دیئے جاتا ہے۔ یہاں تک کہ جب اس چیز کو دیکھ لیں گے جس کا ان سے وعدہ کیا جاتا ہے خواہ عذاب اور خواہ قیامت۔ تو (اس وقت) جان لیں گے کہ مکان کس کا برا ہے اور لشکر کس کا کمزور ہے
مشرکوں سے مباہلہ۔ ان کافروں کو جو تمہیں ناحق پر اور اپنے آپ کو حق پر سمجھ رہے ہیں اور اپنی خوش حالی اور فارغ البالی پر اطیمنان کئے بیٹھے ہوئے ہیں ان سے کہہ دیجئے کہ گمراہوں کی رسی دراز ہوتی ہے انہیں اللہ کی طرف سے ڈھیل دی جاتی ہے جب تک کہ قیامت نہ آجائے یا ان کی موت نہ آجائے۔ اس وقت انہیں پورا پتہ چل جائے گا کہ فی الواقع برا شخص کون تھا اور کس کے ساتھی کمزور تھے دنیا تو ڈھلتی چڑھتی چھاؤں ہے نہ خود اس کا عتبار نہ اس کے سامان اسباب کا۔ یہ تو اپنی سرکشی میں بڑھتے ہی رہیں گے۔ گویا اس آیت میں مشرکوں سے مباہلہ ہے جیسے یہودیوں سے سورة جمعہ میں مباہلہ کی آیت ہے کہ آؤ ہمارے مقابلہ میں موت کی تمنا کرو۔ اسی طرح سورة آل عمران میں مباہلے کا ذکر ہے کہ جب تم اپنے خلاف دلیلیں سن کر بھی عیسیٰ ؑ کے ابن اللہ ہونے کے مدعی ہو تو آؤ بال بچوں سمیت میدان میں جاکر جھوٹے پر اللہ کی لعنت پڑنے کی دعا کریں۔ پس نہ تو مشرکین مقابلے پر آئے نہ یہود کی ہمت پڑتی نہ نصرانی مرد میدان بنے۔
Top