Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer Ibn-e-Kaseer - Al-Baqara : 128
رَبَّنَا وَ اجْعَلْنَا مُسْلِمَیْنِ لَكَ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِنَاۤ اُمَّةً مُّسْلِمَةً لَّكَ١۪ وَ اَرِنَا مَنَاسِكَنَا وَ تُبْ عَلَیْنَا١ۚ اِنَّكَ اَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ
رَبَّنَا
: اے ہمارے رب
وَاجْعَلْنَا
: اور ہمیں بنادے
مُسْلِمَيْنِ
: فرمانبردار
لَکَ
: اپنا
وَ ۔ مِنْ
: اور۔ سے
ذُرِّيَّتِنَا
: ہماری اولاد
أُمَّةً
: امت
مُسْلِمَةً
: فرمانبردار
لَکَ
: اپنا
وَاَرِنَا
: اور ہمیں دکھا
مَنَاسِکَنَا
: حج کے طریقے
وَتُبْ
: اور توبہ قبول فرما
عَلَيْنَا
: ہماری
اِنَکَ اَنْتَ
: بیشک تو
التَّوَّابُ
: توبہ قبول کرنے والا
الرَّحِيمُ
: رحم کرنے والا
اے پروردگار، ہم کو اپنا فرمانبردار بنائے رکھیو۔ اور ہماری اولاد میں سے بھی ایک گروہ کو اپنا مطیع بنائے رہیو، اور (پروردگار) ہمیں طریق عبادت بتا اور ہمارے حال پر (رحم کے ساتھ) توجہ فرما۔ بے شک تو توجہ فرمانے والا مہربان ہے
تعمیر کعبہ پھر ایک مدت کے بعد حضرت ابراہیم کو اجازت ملی اور آپ تشریف لائے تو حضرت اسماعیل کو زمزم کے پاس ایک ٹیلے پر تیر سیدھے کرتے ہوئے پایا، حضرت اسماعیل باپ کو دیکھتے ہی کھڑے ہوگئے اور با ادب ملے جب باپ بیٹے ملے تو خلیل اللہ ؑ نے فرمایا اے اسماعیل مجھے اللہ کا ایک حکم ہوا ہے آپ نے فرمایا ابا جان جو حکم ہوا ہو اس کی تعمیل کیجئے، کہا بیٹا تمہیں بھی میرا ساتھ دینا پڑے گا۔ عرض کرنے لگے میں حاضر ہوں اس جگہ اللہ کا ایک گھر بنانا ہے کہنے لگے بہت بہتر۔ اب باپ بیٹے نے بیت اللہ کی نیو رکھی اور دیواریں اونچی کرنی شروع کیں، حضرت اسماعیل پتھر لا لا کردیتے جاتے تھے اور حضرت ابراہیم چنتے جاتے تھے جب دیواریں قدرے اونچی ہوگئیں تو حضرت ذبیح اللہ یہ پتھر یعنی مقام ابراہیم کا پتھر لائے، اس اونچے پتھر پر کھڑے ہو کر حضرت ابراہیم کعبہ کے پتھر رکھتے جاتے تھے اور دونوں باپ بیٹا یہ دعا مانگتے جاتے تھے کہ باری تعالیٰ تو ہماری اس ناچیز خدمت کو قبول فرمانا تو سننے اور جاننے والا ہے یہ روایت اور کتب حدیث میں بھی ہے کہیں مختصر اور کہیں مفصلاً ایک صحیح حدیث میں یہ بھی ہے کہ حضرت ذبیح اللہ کے بدلے جو دنبہ ذبح ہوا تھا اس کے سینگ بھی کعبۃ اللہ میں تھے اوپر کی لمبی روایت بروایت حضرت علی بھی مروی ہے اس میں یہ بھی ہے کہ ابراہیم ؑ جب بھی کعبۃ اللہ شریف کے قریب پہنچے تو آپ نے اپنے سر پر ایک بادل سا ملاحظہ فرمایا جس میں سے آواز آئی کہ اے ابراہیم جہاں جہاں تک اس بادل کا سایہ ہے وہاں تک کی زمین بیت اللہ میں لے لو کمی زیادتی نہ ہو اس روایت میں یہ بھی ہے کہ بیت اللہ بنا کر وہاں حضرت ہاجرہ اور حضرت اسماعیل کو چھوڑ کر آپ تشریف لے گئے لیکن روایت ہی ٹھیک ہے اور اس طرح تطبیق بھی ہوسکتی ہے کہ بنا پہلے رکھدی تھی لیکن بنایا بعد میں، اور بنانے میں بیٹا اور باپ دونوں شامل تھے جیسے کہ قرآن پاک کے الفاظ بھی ہیں ایک اور روایت میں ہے کہ لوگوں نے حضرت علی سے بناء بیت اللہ شروع کیفیت دریافت کی تو آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کو حکم دیا کہ میرا گھر بناؤ حضرت ابراہیم گھبرائے کہ مجھے کہاں بنانا چاہئے کس طرح اور کتنا بڑا بنانا چاہئے وغیرہ اس پر سکینہ نازل ہوا اور حکم ہوا کہ جہاں یہ ٹھہرے وہاں تم میرا گھر بناؤ آپ نے بنانا شروع کیا جب حجر اسود کی جگہ پہنچے تو حضرت اسماعیل سے کہا بیٹا کوئی اچھا سا پتھر ڈھونڈ لاؤ تو دیکھا کہ آپ اور پتھر وہاں لگا چکے ہیں، پوچھا یہ پتھر کون لایا ؟ آپ نے فرمایا اللہ کے حکم سے یہ پتھر حضرت جبرائیل آسمان سے لے کر آئے، حضرت کعب احبار فرماتے ہیں کہ اب جہاں بیت اللہ ہے وہاں زمین کی پیدائش سے پہلے پانی پر بلبلوں کے ساتھ جھاگ سی تھی یہیں سے زمین پھیلائی گئی، حضرت علی فرماتے ہیں کعبۃ اللہ بنانے کے لیے حضرت خلیل آرمینیہ سے تشریف لائے تھے حضرت سدی فرماتے ہیں حجر اسود حضرت جبرائیل ہند سے لائے تھے اس وقت وہ سفید چمکدار یا قوت تھا جو حضرت آدم نے بنا کی، مسند عبد الرزاق میں ہے کہ حضرت آدم ہند میں اترے تھے اس وقت ان کا قد لمبا تھا زمین میں آنے کے بعد فرشتوں کی تسبیح نماز و دعا وغیرہ سنتے تھے جب قد گھٹ گیا اور وہ پیاری آوازیں آنی بند ہوگئیں تو آپ گھبرانے لگے حکم ہوا کہ مکہ کی طرف رکھا اور اسے اپنا گھر قرار دیا، حضرت آدم یہاں طواف کرنے لگے اور مانوس ہوئے گھبراہٹ جاتی رہی حضرت نوح کے طوفان کے زمانہ میں یہ پھر اٹھ گیا اور حضرت ابراہیم کے زمانہ میں پھر اللہ تعالیٰ نے بنوایا حضرت آدم نے یہ گھر حرا طور زیتاحیل لبنان طور سینا اور جودی ان پانچ پہاڑوں سے بنایا تھا لیکن ان تمام روایتوں میں تفاوت ہے واللہ اعلم بعض روایتوں میں ہے کہ زمین کی پیدائش سے دو ہزار سال پہلے بیت اللہ بنایا گیا تھا، حضرت ابراہیم کے ساتھ بیت اللہ کے نشان بتانے کے لیے حضرت جبرائیل چلے تھے اس وقت یہاں جنگلی درختوں کے سوا کچھ نہ تھا کس دور عمالیق کی آبادی تھی یہاں آپ حضرت ام اسماعیل کو اور حضرت اسماعیل کو ایک چھپر تلے بٹھا گے ایک اور روایت میں ہے کہ بیت اللہ کے چار ارکان ہیں اور ساتویں زمین تک وہ نیچے ہوتے ہیں ایک اور روایت میں ہے کہ ذوالقرنین جب یہاں پہنچے اور حضرت ابراہیم کو بیت اللہ بناتے ہوئے دیکھا تو پوچھا یہ کیا کر رہے ہو ؟ تو انہوں نے کہا اللہ کے حکم سے اس کا گھر بنا رہے ہیں پوچھا کیا دلیل ؟ کہا یہ بھیڑیں گواہی دیں گی پانچ بھیڑوں نے کہا ہم گواہی دیتی ہیں کہ یہ دونوں اللہ کے مامور ہیں، ذوالقرنین خوش ہوگئے اور کہنے لگے میں نے مان لیا الرزقی کی تاریخ مکہ میں ہے کہ ذوالقرنین نے خلیل اللہ اور ذبیح اللہ کے ساتھ بیت اللہ کا طواف کیا واللہ اعلم صحیح بخاری میں ہے قواعد بنیان اور اساس کو کہتے ہیں یہ قاعدہ کی جمع ہے قرآن میں اور جگہ آیت (وَالْقَوَاعِدُ مِنَ النِّسَاۗءِ الّٰتِيْ لَا يَرْجُوْنَ نِكَاحًا فَلَيْسَ عَلَيْهِنَّ جُنَاحٌ اَنْ يَّضَعْنَ ثِيَابَهُنَّ غَيْرَ مُتَبَرِّجٰتٍۢ بِزِيْنَةٍ) 24۔ النور :60) بھی آیا ہے اس کا مفرد بھی قاعدۃ ہے حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے فرمایا کیا تم نہیں دیکھتیں کہ تمہاری قوم نے جب بیت اللہ بنایا تو قواعد ابراہیم سے گھٹا دیا میں نے کہا حضور ﷺ آپ اسے بڑھا کر اصلی بنا کردیں فرمایا کہ اگر تیری قوم نے جب بیت اللہ بنایا تو قواعد ابراہیم سے گھٹا دیا میں نے کہا حضور ﷺ آپ اسے بڑھا کر اصلی بنا کردیں فرمایا کہ اگر تیری قوم کا اسلام تازہ اور ان کا زمانہ کفر کے قریب نہ ہوتا تو میں ایسا کرلیتا حضرت عبداللہ بن عمر کو جب یہ حدیث پہنچی تو فرمانے لگے شاید یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ حجر اسود کے پاس کے دوستونوں کو چھوتے نہ تھے صحیح مسلم شریف میں ہے حضور ﷺ فرماتے ہیں اے عائشہ اگر تیری قوم کا جاہلیت کا زمانہ نہ ہوتا تو میں کعبہ کے خزانہ کو اللہ کی راہ میں خیرات کر ڈالتا اور دروازے کو زمین دوز کردیتا اور حطیم کو بیت اللہ میں داخل کردیتا صحیح بخاری میں یہ بھی ہے کہ میں اس کا دوسرا دروازہ بھی بنا دیتا ایک آنے کے لیے اور دوسرا جانے کے لیے چناچہ ابن زبیر نے اپنے زمانہ خلافت میں ایسا ہی کیا اور ایک روایت میں ہے کہ اسے میں دوبارہ بنائے ابراہیمی پر بناتا۔ دوسری روایت میں ہے کہ ایک دروازہ مشرق رخ کرتا اور دوسرا مغرب رخ اور چھ ہاتھ حطیم کو اس میں داخل کرلیتا جسے قریش نے باہر کردیا ہے نبی ﷺ کی نبوت سے پانچ سال پہلے قریش نے نئے سرے سے کعبہ بنایا تھا اس کا مفصل ذکر ملاحظہ ہو اس بنا میں خود حضور ﷺ کو بھی شریک تھے آپ کی عمر پینتیس سال کی تھی اور پتھر آپ بھی اٹھاتے تھے محمد بن اسحاق بن یسار ؒ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ کی عمر مبارک پینتیس سال کی ہوئی اس وقت قریش نے کعبۃ اللہ کو نئے سرے سے بنانے کا ارادہ کیا ایک تو اس لئے کہ اس کی دیواریں بہت چھوٹی تھیں چھت نہ تھی دوسرے اس لئے بھی کہ بیت اللہ کا خزانہ چوری ہوگیا تھا جو بیت اللہ کے بیچ میں ایک گہرے گڑھے میں رکھا ہوا تھا یہ مال " دویک " کے پاس ملا تھا جو خزائمہ کے قبیلے بنی ملیح بن عمرو کا مولی تھا ممکن ہے چوروں نے یہاں لا رکھا ہو لیکن اس کے ہاتھ اس چوری کی وجہ سے کاٹے گئے ایک اور قدرتی سہولت بھی اس کے لیے ہوگئی تھی کہ روم کے تاجروں کی ایک کشتی جس میں بہت اعلیٰ درجہ کی لکڑیاں تھیں وہ طوفان کی وجہ سے جدہ کے کنارے آ لگی تھی یہ لکڑیاں چھت میں کام آسکتی تھیں اس لیے قریشیوں نے انہیں خرید لیا اور مکہ کے ایک بڑھئی جو قبطی قبیلہ میں سے تھا کو چھت کا کام سونپا یہ سب تیاریاں تو ہو رہی تھیں لیکن بیت اللہ کو گرانے کی ہمت نہ پڑتی تھی اس کے قدرتی اسباب بھی مہیا ہوگئے بیت اللہ کے خزانہ میں ایک بڑا اژدھا تھا جب کبھی لوگ اس کے قریب بھی جاتے تو وہ منہ پھاڑ کر ان کی طرف لپکتا تھا یہ سانپ ہر روز اس کنویں سے نکل کر بیت اللہ کی دیواروں پر آ بیٹھتا تھا ایک روز وہ بیٹھا ہوا تھا تو اللہ تعالیٰ نے ایک بہت بڑا پرندہ بھیجا وہ اسے پکڑ کرلے اڑا قریشیوں نے سمجھ لیا کہ ہمارا ارادہ مرضی مولا کے مطابق ہے لکڑیاں بھی ہمیں مل گئیں بڑھئی بھی ہمارے پاس موجود ہے سانپ کو بھی اللہ تعالیٰ نے دفع کیا۔ اب انہوں نے مستقل ارادہ کرلیا کہ کعبۃ اللہ کو گرا کر نئے سرے سے بنائیں۔ سب سے پہلے ابن وہب کھڑا ہوا اور ایک پتھر کعبۃ اللہ کو گرا کر اتارا جو اس کے ہاتھ سے اڑ کر پھر وہیں جا کر نصب ہوگیا اس نے تمام قریشیوں سے خطاب کر کے کہا سنو بیت اللہ کے بنانے میں ہر شخص اپنا طیب اور پاک مال خرچ کرے۔ اس میں زنا کاری کا روپیہ سودی بیوپار کا روپیہ ظلم سے حاصل کیا ہوا مال نہ لگانا، بعض لوگ کہتے ہیں یہ مشورہ ولید بن مغیرہ نے دیا تھا اب بیت اللہ کے حصے بانٹ لئے گئے دروازہ کا حصہ بنو عبد مناف اور زہرہ بنائیں حجر اسود اور رکن یمانی کا حصہ بنی مخزوم بنائیں۔ قریش کے اور قبائل بھی ان کا ساتھ دیں۔ کعبہ کا پچھلا حصہ بنو حمج اور سہم بنائیں۔ حطیم کے پاس کا حصہ بنو عبد الدار بن قصف اور بنو اسد بن عبد العزی اور بنو عدی بن کعب بنائیں۔ یہ مقرر کر کے ابن بنی ہوئی عمارت کو ڈھانے کے لیے چلے لیکن کسی کو ہمت نہیں پڑتی کہ اسے مسمار کرنا شروع کرے آخر ولید بن مغیرہ نے کہا لو میں شروع کرتا ہوں کدال لے کر اوپر چڑھ گئے اور کہنے لگے اے اللہ تجھے خوب علم ہے کہ ہمارا ارادہ برا نہیں ہم تیرے گھر کو اجاڑنا نہیں چاہتے بلکہ اس کے آباد کرنے کی فکر میں ہیں۔ یہ کہہ کر کچھ حصہ دونوں رکن کے کناروں کا گرایا قریشیوں نے کہا بس اب چھوڑو اور رات بھر کا انتظار کرو اگر اس شخص پر کوئی وبال آجائے تو یہ پتھر اسی جگہ پر لگا دینا اور خاموش ہوجانا اور اگر کوئی عذاب نہ آئے تو سمجھ لینا کہ اس کا گرانا اللہ کو ناپسند نہیں پھر کل سب مل کر اپنے اپنے کام میں لگ جانا چناچہ صبح ہوئی اور ہر طرح خیریت رہی اب سب آگئے اور بیت اللہ کی اگلی عمارت کو گرا دیا یہاں تک کہ اصلی نیو یعنی بناء ابراہیمی تک پہنچ گئے یہاں سبز رنگ کے پتھر تھے کے ہلنے کے ساتھ ہی تمام مکہ کی زمین ہلنے لگی تو انہوں نے سمجھ لیا کہ انہیں جدا کر کے اور پتھر ان کی جگہ لگانا اللہ کو منظور نہیں اس لئے ہمارے بس کی بات نہیں اس ارادے سے باز رہے اور ان پتھروں کو اسی طرح رہنے دیا پھر ہر قبیلہ نے اپنے اپنے حصہ کے مطابق علیحدہ علیحدہ پتھر جمع کئے اور عمارت بننی شروع ہوئی یہاں تک کہ باقاعدہ جنگ کی نوبت آگئی فرقے آپس میں کھچ گئے اور لڑائی کی تیاریاں میں مشغول ہوگئے بنو عبد دار اور بنو عدی نے ایک طشتری میں خون بھر کر اس میں ہاتھ ڈبو کر حلف اٹھایا کہ سب کٹ مریں گے لیکن حجر اسود کسی کو نہیں رکھنے دیں گے اسی طرح چار پانچ دن گزر گئے پھر قریش مسجد میں جمع ہوئے کہ آپس میں مشورہ اور انصاف کریں تو ابو امیہ بن مغیرہ نے جو قریش میں سب سے زیادہ معمر اور عقلمند تھے کہا سنو لوگو تم اپنا منصف کسی کو بنا لو وہ جو فیصلہ کرے سب منظور کرلو۔ لیکن پھر منصف بنانے میں بھی اختلف ہوگا اس لئے ایسا کرو کہ اب جو سب سے پہلے یہاں مسجد میں آئے وہی ہمارا منصف۔ اس رائے پر سب نے اتفاق کرلیا۔ اب منتظر ہیں کہ دیکھیں سب سے پہلے کون آتا ہے ؟ پس سب سے پہلے حضرت محمد رسول اللہ ﷺ آئے۔ آپ کو دیکھتے ہی یہ لوگ خوش ہوگئے اور کہنے لگے ہمیں آپ کا فیصلہ منظور ہے ہم آپ کے حکم پر رضا مند ہیں۔ یہ تو امین ہیں یہ تو محمد ﷺ ہیں۔ پھر سب آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سارا واقعہ آپ کو کہہ سنایا آپ نے فرمایا جاؤ کوئی موٹی اور بڑی سی چادر لاؤ وہ لے آئے۔ آپ نے حجر اسود اٹھا کر اپنے دست مبارک سے اس میں رکھا پھر فرمایا ہر قبیلہ کا سردار آئے اور اس کپڑے کا کونا پکڑ لے اور اس طرح ہر ایک حجر اسود کے اٹھانے کا حصہ دار بنے اس پر سب لوگ بہت ہی خوش ہوئے اور تمام سرداروں نے اسے تھام کر اٹھا لیا۔ جب اس کے رکھنے کی جگہ تک پہنچے تو اللہ کے نبی ﷺ نے اسے لے کر اپنے ہاتھ سے اسی جگہ رکھ دیا اور وہ نزاع و اختلاف بلکہ جدال و قتال رفع ہوگیا اور اس طرح اللہ نے اپنے رسول ﷺ کے ہاتھ اپنے گھر میں اس مبارک پتھر کو نصب کرایا۔ حضور ﷺ پر وحی نازل ہونے سے پہلے قریش آپ کو امین کہا کرتے تھے۔ اب پھر اوپر کا حصہ بنا اور کعبۃ اللہ کی عمارت تمام ہوئی ابن اسحاق موررخ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ کے زمانہ میں کعبہ اٹھارہ ہاتھ کا تھا۔ قباطی کا پردہ چڑھایا جاتا تھا پھر چادر کا پردہ چڑھنے لگا۔ ریشمی پردہ سب سے پہلے حجاج بن یوسف نے چڑھایا۔ کعبہ کی یہی عمارت رہی یہاں تک کہ حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ کی خلافت کی ابتدائی زمانہ میں ساٹھ سال کے بعد یہاں آگ لگی اور کعبہ جل گیا۔ یہ یزید بن معاویہ کی ولایت کا آخری زمانہ تھا اور اس نے ابن زبیر کا مکہ میں محاصرہ کر رکھا تھا۔ ان دنوں میں خلیفہ مکہ حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ نے اپنی خالہ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے جو حدیث سنی تھی اسی کے مطابق حضور ﷺ کی تمنا پر بیت اللہ کو گرا کر ابراہیمی قواعد پر بنایا حطیم اندر شامل کرلیا، مشرق و مغرب دو دروازے رکھے ایک اندر آنے کا دوسرا باہر جانے کا اور دروازوں کو زمین کے برابر رکھا آپ کی امارت کے زمانہ تک کعبۃ اللہ یونہی رہا یہاں تک کہ ظالم حجاج کے ہاتھوں آپ شہید ہوئے۔ اب حجاج نے عبد الملک بن مروان کے حکم سے کعبہ کو پھر توڑ کر پہلے کی طرح بنا لیا۔ صحیح مسلم شریف میں یزید بن معاویہ کے زمانہ میں جب کہ شامیوں نے مکہ شریف پر چڑھائی کی اور جو ہونا تھا وہ ہوا۔ اس وقت حضرت عبداللہ نے بیت اللہ کو یونہی چھوڑ دیا۔ موسم حج کے موقع پر لوگ جمع ہوئے انہوں نے یہ سب کچھ دیکھا بعد ازاں آپ نے لوگوں سے مشورہ لیا کہ کیا کعبۃ اللہ سارے کو گرا کر نئے سرے سے بنائیں یا جو ٹوٹا ہوا ہے اسکی اصلاح کرلیں ؟ تو حضرت عبداللہ بن عباس نے فرمایا میری رائے یہ ہے کہ آب جو ٹوٹا ہوا ہے اسی کی مرمت کردیں باقی سب پرانا ہے رہنے دیں۔ آپ نے فرمایا اگر تم میں سے کسی کا گھر جل جاتا تو وہ تو خوش نہ ہوتا جب تک اسے نئے سرے سے نہ بناتا پھر تم اپنے رب عزوجل کے گھر کی نسبت اتنی کمزور رائے کیوں رکھتے ہو ؟ اچھا میں تین دن تک اپنے رب سے استخارہ کروں گا پھر جو سمجھ میں آئے گا وہ کروں گا۔ تین دن کے بعد آپ کی رائے یہی ہوئی کہ باقی ماندہ دیواریں بھی توڑی جائیں اور از سرے نو کعبہ کی تعمیر کی جائے چناچہ یہ حکم دے دیا لیکن کعبے کو توڑنے کی کسی کی ہمت نہیں پڑتی تھی۔ ڈر تھا کہ جو پہلے توڑنے کے لیے چڑھے گا اس پر عذاب نازل ہوگا لیکن ایک باہمت شخص چڑھ گیا اور اس نے ایک پتھر توڑا۔ جب لوگوں نے دیکھا کہ اسے کچھ ایذاء نہیں پہنچی تو اب ڈھانا شروع کیا اور زمین تک برابر یکساں صاف کردیا اس وقت چاروں طرف ستون کھڑے کر دئیے تھے اور ایک کپڑا تان دیا تھا۔ اب بناء بیت اللہ شروع ہوئی۔ حضرت عبداللہ نے فرمایا میں نے حضرت عائشہ ؓ سے سنا وہ کہتی تھی رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے اگر لوگوں کا کفر کا زمانہ قریب نہ ہوتا اور میرے پاس خرچ بھی ہوتا جس میں بنا سکوں تو حطیم میں سے پانچ ہاتھ بیت اللہ میں لے لیتا اور کعبہ کے دو دروازے کرتا ایک آنے کا اور ایک جانے کا حضرت عبداللہ نے یہ روایت بیان کر کے فرمایا اب لوگوں کے کفر کا زمانہ قریب کا نہیں رہا ان سے خوف جاتا رہا اور خزانہ بھی معمور ہے میرے پاس کافی روپیہ ہے پھر کوئی وجہ نہیں کہ میں حضور ﷺ کی تمنا پوری نہ کروں چناچہ پانچ ہاتھ حطیم اندر لے لی اور اب جو دیوار کھڑی کی تو ٹھیک ابراہیمی بنیاد نظر آنے لگی جو لوگوں نے اپنی آنکھوں دیکھ لی اور اسی پر دیوار کھڑی کی بیت اللہ کا طول اٹھارہ ہاتھ تھا اب جو اس میں پانچ ہاتھ اور بڑھ گیا تو چھوٹا ہوگیا اس لیے طول میں دس ہاتھ اور بڑھایا گیا اور دو دروازے بنائے گئے ایک اندر آنے کا دوسرا باہر جانے کا ابن زبیر کی شہادت کے بعد حجاج بن عبد الملک کو لکھا اور ان سے مشورہ لیا کہ اب کیا کیا جائے ؟ یہ بھی لکھ بھیجا کہ مکہ شریف کے عادلوں نے دیکھا ہے ٹھیک حضرت ابراہیم کی نیو پر کعبہ تیار ہوا ہے لیکن عبد الملک نے جواب دیا کہ طول کو تو باقی رہنے دو اور حطیم کو باہر کردو اور دوسرا دروازہ بند کردو۔ حجاج نے اس حکم کے مطابق کعبہ کو تڑوا کر پھر اسی بنا پر بنادیا لیکن سنت طریقہ یہی تھا کہ حضرت عبداللہ بن زبیر کی بناء کو باقی رکھا جاتا اس لئے کہحضور ﷺ کی چاہت یہی تھی لیکن اس وقت آپ کو یہ خوف تھا کہ لوگ بدگمانی نہ کریں ابھی نئے نئے اسلام میں داخل ہوئے ہیں لیکن یہ حدیث عبد الملک بن مروان کو نہیں پہنچی تھی اس لئے انہوں نے اسے تڑوا دیا جب انہیں حدیث پہنچی تو رنج کرتے تھے اور کہتے تھے کاش کہ ہم یونہی رہنے دیتے اور نہ تڑاتے چناچہ صحیح مسلم شریف کی ایک اور حدیث میں ہے کہ حارث عبید اللہ جب ایک وفد میں عبد الملک بن مروان کے پاس پہنچے تو عبد الملک نے کہا میرا خیال ہے کہ ابو حبیب یعنی عبداللہ بن زبیر نے (اپنی خالہ) حضرت عائشہ سے یہ حدیث سنی ہوگی حارث نے کہا ضرور سنی تھی خود میں نے بھی ام المومنین سے سنا ہے پوچھا تم نے کیا سنا ہے ؟ کہا میں نے سنا ہے آپ فرماتی تھیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک مرتبہ مجھ سے فرمایا کہ عائشہ تیری قوم نے بیت اللہ کو تنگ کردیا۔ اگر تیری قوم کا زمانہ شرک کے قریب نہ ہوتا تو میں نئے سرے سے ان کی کمی کو پورا کردیتا لیکن آؤ میں تجھے اصلی نیو بتادوں شاید کسی وقت تیری قوم پھر اسے اس کی اصلیت پر بنانا چاہے تو آپ نے حضرت صدیقہ کو حطیم میں سے قریباً سات ہاتھ اندر داخل کرنے کو فرمایا اور فرمایا میں اس کے دروازے بنا دیتا ایک آنے کے لیے اور دوسرا جانے کے لیے اور دونوں دروازے زمین کے برابر رکھتا ایک مشرق رخ رکھتا دوسرا مغرب رخ جانتی بھی ہو کہ تمہاری قوم نے دروازے کو اتنا اونچا کیوں رکھا ہے ؟ آپ نے فرمایا حضور ﷺ مجھے خبر نہیں فرمایا محض اپنی اونچائی اور بڑائی کے لیے کہ جسے چاہیں اندر جانے دیں اور جسے چاہیں داخل نہ ہونے دیں جب کوئی شخص اندر جانا چاہتا تو اسے اوپر سے دھکادے دیتے وہ گرپڑتا اور جسے داخل کرنا چاہتے اسے ہاتھ تھام کر اندر لے لیتے۔ عبد الملک نے کہا اسے حارث خود سنا ہے تو تھوڑی دیر تک تو عبد الملک اپنی لکڑی ٹکائے سوچتے رہے پھر کہنے لگے کاش کہ میں اسے یونہی چھوڑ دیتا صحیح مسلم شریف کی ایک اور حدیث میں ہے کہ عبد الملک بن مروان نے ایک مرتبہ طواف کرتے ہوئے حضرت عبداللہ کو کوس کر کہا کہ وہ حضرت عائشہ پر اس حدیث کا بہتان باندھنا تھا تو حضرت حارث نے روکا اور شہادت دی کہ وہ سچے تھے میں نے بھی حضرت صدیقہ سے یہ سنا ہے اب عبد الملک افسوس کرنے لگے اور کہنے لگے اگر مجھے پہلے سے معلوم ہوتا تو میں ہرگز اسے نہ توڑتا۔ قاضی عیاض اور امام نووی نے لکھا ہے خلیفہ ہارون رشید نے حضرت امام مالک سے پوچھا تھا کہ اگر آپ اجازت دیں تو میں پھر کعبہ کو حضرت ابن زبیر کے بنائے ہوئے کے مطابق بنا دوں، امام مالک نے فرمایا آپ ایسا نہ کیجئے ایسا نہ ہو کہ کعبہ بادشاہوں کا ایک کھلونا بن جائے جو آئے اپنی طبیعت کے مطابق توڑ پھوڑ کرتا رہے چناچہ خلیفہ اپنے ارادے سے باز رہے یہی بات ٹھیک بھی معلوم ہوتی ہے کہ کعبہ کو بار بار چھیڑنا ٹھیک نہیں۔ بخاری و مسلم کی ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کعبہ کو دو چھوٹی پنڈلیوں والا ایک حبشی پھر خراب کرے گا۔ حضور ﷺ فرماتے ہیں گویا میں اسے دیکھ رہا ہوں وہ سیاہ فام ایک ایک پتھر الگ الگ کر دے گا اس کا غلاف لے جائے گا اور اس کا خزانہ بھی وہ ٹیڑھے ہاتھ پاؤں والا اور گنجا ہوگا میں دیکھ رہا ہوں کہ گویا وہ کدال بجا رہا ہے اور برابر ٹکڑے کر رہا ہے غالباً یہ ناشدنی واقعہ (جس کے دیکھنے سے ہمیں محفوظ رکھے) یاجوج ماجوج کے نکل چکنے کے بعد ہوگا۔ صحیح بخاری شریف کی ایک حدیث میں ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں تم یاجوج ماجوج کے نکلنے کے بعد بھی بیت اللہ شریف کا حج وعمرہ کرو گے۔ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل اپنی دعا میں کہتے ہیں کہ ہمیں مسلمان بنالے یعنی مخلص بنا لے مطیع بنا لے موجود ہر شر سے بچا۔ ریا کاری سے محفوظ رکھ خشوع وخضوع عطا فرما۔ حضرت سلام بن ابی مطیع فرماتے ہیں مسلمان تو تھے ہی لیکن اسلام کی ثابت قدمی طلب کرتے ہیں جس کے جواب میں ارشاد باری ہوا قد فعلت میں نے تمہاری یہ دعا قبول فرمائی پھر اپنی اولاد کے لیے بھی یہی دعا کرتے ہیں جو قبول ہوتی ہے بنی اسرائیل بھی آپ کی اولاد میں ہیں اور عرب بھی قرآن میں ہے آیت (وَمِنْ قَوْمِ مُوْسٰٓي اُمَّةٌ يَّهْدُوْنَ بالْحَقِّ وَبِهٖ يَعْدِلُوْنَ) 7۔ الاعراف :159) یعنی موسیٰ کی قوم میں ایک جماعت حق عدل پر تھی لیکن روانی عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ عرب کے لیے یہ دعا گو عام طور پر دوسروں پر بھی مشتمل ہو اس لیے کہ اس کے بعد دوسری دعا میں ہے کہ ان میں ایک رسول بھیج اور اس رسول سے مراد حضرت محمد مصطفے ٰ ﷺ ہیں چناچہ یہ دعا بھی پوری ہوئی جیسے فرمایا آیت (ھو الذی بعث فی الامیین رسولا منھم) لیکن اس سے آپ کی رسالت خاص نہیں ہوتی بلکہ آپ کی رسالت عام ہے عرب عجم سب کے لیے جیسے آیت (قُلْ يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ اِنِّىْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَيْكُمْ جَمِيْعَا) 7۔ الاعراف :158) کہ دو کہ اے لوگو میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں۔ ان دونوں نبیوں کی یہ دعا جیسی ہے ایسی ہی ہر متقی کی دعا ہونی چاہئے۔ جیسے قرآنی تعلیم ہے کہ مسلمان یہ دعا کریں آیت (رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّيّٰتِنَا قُرَّةَ اَعْيُنٍ وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِيْنَ اِمَامًا) 25۔ الفرقان :74) اے ہمارے رب ہمیں ہماری بیویوں اور اولادوں سے ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں پرہیزگاروں کا امام بنا۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کی محبت کی دلیل ہے انسان یہ چاہے کہ میری اولاد میرے بعد بھی اللہ کی عابد رہے۔ اور جگہ اس دعا کے الفاظ یہ ہیں آیت (وَّاجْنُبْنِيْ وَبَنِيَّ اَنْ نَّعْبُدَ الْاَصْنَامَ) 14۔ ابراہیم :35) اے اللہ مجھے اور میری اولاد کو بت پرستی سے بچا۔ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں انسان کے مرتے ہی اس کے اعمال ختم ہوجاتے ہیں مگر تین کام جاری رہتے ہیں صدقہ، علم جس سے نفع حاصل کیا جائے اور نیک اولاد جو دعا کرتی رہے (مسلم) پھر آپ دعا کرتے ہیں کہ ہمیں مناسک دکھا یعنی احکام و ذبح وغیرہ سکھا۔ حضرت جبرائیل ؑ آپ کو لے کر کعبہ کی عمارت پوری ہوجانے کے بعد صفا پر آتے ہیں پھر مروہ پر جاتے ہیں اور فرماتے ہیں یہ شعائر اللہ ہیں پھر منی کی طرف لے چلے عقبہ پر شیطان درخت کے پاس کھڑا ہوا ملا تو فرمایا تکبیر پڑھ کر اسے کنکر مارو۔ ابلیس یہاں سے بھاگ کر جمرہ وسطی کے پاس جا کھڑا ہوا۔ یہاں بھی اسے کنکریاں ماریں تو یہ خبیث ناامید ہو کر چلا گیا۔ اس کا ارادہ تھا کہ حج کے احکام میں کچھ دخل دے لیکن موقع نہ ملا اور مایوس ہوگیا یہاں سے آپ کو مشعر الحرام میں لائے پھر عرفات میں پہنچایا پھر تین پوچھا کہو سمجھ لیا۔ آپ نے فرمایا ہاں دوسری روایت میں تین جگہ شیطان کو کنکریاں مارنی مروی ہیں اور یہ شیطان کو سات سات کنکریاں ماری ہیں۔
Top