Tafseer Ibn-e-Kaseer - Al-Baqara : 139
قُلْ اَتُحَآجُّوْنَنَا فِی اللّٰهِ وَ هُوَ رَبُّنَا وَ رَبُّكُمْ١ۚ وَ لَنَاۤ اَعْمَالُنَا وَ لَكُمْ اَعْمَالُكُمْ١ۚ وَ نَحْنُ لَهٗ مُخْلِصُوْنَۙ
قُلْ : کہہ دو اَتُحَآجُّوْنَنَا : کیا تم ہم سے حجت کرتے ہو فِي ۔ اللہِ : میں۔ اللہ وَهُوْ : وہی ہے رَبُّنَا : ہمارا رب وَرَبُّكُمْ : اور تمہارا رب وَلَنَا : اور ہمارے لئے اَعْمَالُنَا : ہمارے عمل وَ : اور لَكُمْ : تمہارے لئے اَعْمَالُكُمْ : تمہارے عمل وَنَحْنُ : اور ہم لَهُ : اسی کے ہیں مُخْلِصُوْنَ : خالص
(ان سے) کہو، کیا تم خدا کے بارے میں ہم سے جھگڑتے ہو، حالانکہ وہی ہمارا اور تمھارا پروردگار ہے اور ہم کو ہمارے اعمال (کا بدلہ ملے گا) اور تم کو تمھارے اعمال (کا) اور ہم خاص اسی کی عبادت کرنے والے ہیں
مشرکین کے اعمال پر بیزاری مشرکوں کے جھگڑے کو دفع کرنے کا حکم رب العالمین اپنے نبی ﷺ کو دے رہا ہے کہ " تم ہم سے اللہ کی توحید، اخلاص، اطاعت وغیرہ کے بارے میں کیوں جھگڑتے ہو ؟ وہ صرف ہمارا ہی نہیں بلکہ تمہارا رب بھی تو ہے، ہم پر اور تم پر قابض و متصرف بھی وہی اکیلا ہے۔ ہمارے عمل ہمارے ساتھ ہیں وہ تمہارے عمل تمہیں کام آئیں گے، ہم تم سے اور تمہارے شرک سے بیزار ہیں " اور جگہ فرمایا آیت (فَاِنْ كَذَّبُوْكَ فَقُلْ رَّبُّكُمْ ذُوْ رَحْمَةٍ وَّاسِعَةٍ) 6۔ الانعام :147) یعنی " اگر یہ تجھے جھٹلائیں تو تو کہہ دے کہ میرے لیے میرا عمل ہے اور تمہارے لئے تمہارا عمل ہے تم میرے (نیک) کام سے اور میں تمہارے اعمال سے بیزار ہوں۔ " اور جگہ ارشاد ہے آیت (فَاِنْ حَاۗجُّوْكَ فَقُلْ اَسْلَمْتُ وَجْهِيَ لِلّٰهِ وَمَنِ اتَّبَعَنِ) 3۔ آل عمران :20) " اگر یہ تجھ سے جھگڑیں تو تو کہہ دے میں نے اور میرے ماننے والوں نے اپنے منہ اللہ کی طرف کر دئے۔ " حضرت ابراہیم ؑ نے بھی اپنی قوم سے یہی فرمایا تھا آیت (اَتُحَاۗجُّوْۗنِّىْ فِي اللّٰهِ وَقَدْ هَدٰىنِ) 6۔ الانعام :80) کیا تم اللہ کے بارے میں مجھ سے اختلاف کرتے ہو ؟ اور جگہ ہے ؟ آیت (اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْ حَاۗجَّ اِبْرٰھٖمَ فِيْ رَبِّهٖٓ اَنْ اٰتٰىهُ اللّٰهُ الْمُلْكَ) 2۔ البقرۃ :258) تو نے اسے بھی دیکھا جو ابراہیم ؑ سے اس کے رب کے بارے میں جھگڑنے لگا۔ پس یہاں ان جھگڑالو لوگوں سے کہا گیا کہ ہمارے اعمال ہمارے لئے اور تمہارے اعمال تمہارے لئے۔ ہم تم سے الگ۔ ہم عبادت اور توجہ میں اخلاص اور یکسوئی کرنے والے لوگ ہیں۔ پھر ان لوگوں کے دعوے کی تردید ہو رہی ہے کہ حضرت ابراہیم نہ تو یہودی، نہ نصرانی، تم اے یہودیو اور اے نصرانیو کیوں یہ باتیں بنا رہے ہو ؟ کیا تمہارا علم اللہ سے بھی بڑھ گیا ہے اللہ نے تو صاف فرما دیا آیت (مَا كَانَ اِبْرٰهِيْمُ يَهُوْدِيًّا وَّلَا نَصْرَانِيًّا وَّلٰكِنْ كَانَ حَنِيْفًا مُّسْلِمًا ۭ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ) 3۔ آل عمران :67) ابراہیم ؑ نہ تو یہودی تھے، نہ نصرانی، نہ مشرک، بلکہ خالص مسلمان تھے، ان کا حق کی شہادت کو چھپا کر بڑا ظلم کرنا یہ تھا کہ اللہ کی کتاب جو اس کے پاس آئی اس میں انہوں نے پڑھا کہ حقیقی دین اسلام ہے۔ محمد ﷺ کے سچے رسول ہیں۔ ابراہیم، اسمٰعیل، اسحاق، یعقوب وغیرہ یہودیت اور نصرانیت سے الگ تھے لیکن پھر نہ مانا اور اتنا ہی نہیں بلکہ اس بات کو بھی چھپا دیا۔ پھر فرمایا تمہارے اعمال اللہ سے پوشیدہ نہیں، اس کا محیط علم سب چیزوں کو گھیرے ہوئے ہے، وہ ہر بھلائی اور برائی کا پورا پورا بدلہ دے گا۔ یہ دھمکی دے کر پھر فرمایا کہ یہ پاکباز جماعت تو اللہ کے پاس پہنچ چکی۔ تم جب ان کے نقش قدم پر نہ چلو تو صرف ان کی اولاد میں سے ہونا تمہیں اللہ کے ہاں کوئی عزت اور نفع نہیں دے سکتا ہے۔ ان کے نیک اعمال میں تمہارا کوئی حصہ نہیں اور تمہاری بد اعمالیوں کا ان پر کوئی بوجھ نہیں " جو کرے سو بھرے " تم نے جب ایک نبی کو جھٹلایا تو گویا تمام انبیا کو جھٹلایا بالخصوص اے وہ لوگو ! جو نبی آخر الزمان ﷺ کے مبارک زمانہ میں ہو۔ تم تو بڑے ہی وبال میں آگئے، تم نے تو اس نبی کو جھٹلایا جو سید الانبیاء جو ختم المرسلین ہیں، جو رسول رب العالمین ہیں جن کی رسالت تمام انسانوں اور جنوں کی طرف ہے۔ جن کی رسالت کے ماننے کا ہر ایک شخص مکلف ہے۔ اللہ تعالیٰ کے بیشمار درود وسلام آپ پر نازل ہوں اور آپ کے سوا تمام انبیاء کرام پر بھی۔
Top