Tafseer Ibn-e-Kaseer - Al-Hajj : 30
ذٰلِكَ١ۗ وَ مَنْ یُّعَظِّمْ حُرُمٰتِ اللّٰهِ فَهُوَ خَیْرٌ لَّهٗ عِنْدَ رَبِّهٖ١ؕ وَ اُحِلَّتْ لَكُمُ الْاَنْعَامُ اِلَّا مَا یُتْلٰى عَلَیْكُمْ فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَ اجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِۙ
ذٰلِكَ : یہ وَمَنْ : اور جو يُّعَظِّمْ : تعطیم کرے حُرُمٰتِ اللّٰهِ : شعائر اللہ (اللہ کی نشانیاں) فَهُوَ : پس وہ خَيْرٌ : بہتر لَّهٗ : اس کے لیے عِنْدَ رَبِّهٖ : اس کے رب کے نزدیک وَاُحِلَّتْ : اور حلال قرار دئیے گئے لَكُمُ : تمہارے لیے الْاَنْعَامُ : مویشی اِلَّا : سوا مَا يُتْلٰى : جو پڑھ دئیے گئے عَلَيْكُمْ : تم پر۔ تم کو فَاجْتَنِبُوا : پس تم بچو الرِّجْسَ : گندگی مِنَ : سے الْاَوْثَانِ : بت (جمع) وَاجْتَنِبُوْا : اور بچو قَوْلَ : بات الزُّوْرِ : جھوٹی
یہ (ہمارا حکم ہے) جو شخص ادب کی چیزوں کی جو خدا نے مقرر کی ہیں عظمت رکھے تو یہ پروردگار کے نزدیک اس کے حق میں بہتر ہے۔ اور تمہارے لئے مویشی حلال کردیئے گئے ہیں۔ سوا ان کے جو تمہیں پڑھ کر سنائے جاتے ہیں تو بتوں کی پلیدی سے بچو اور جھوٹی بات سے اجتناب کرو
بت پرستی کی گندگی سے دور رہو فرماتا ہے یہ تو تھے احکام حج اور ان پر جو جزا ملتی ہے اس کا بیان۔ اب اور سنو جو شخص حرمات الٰہی کی عزت کرے یعنی گناہوں سے اور حرام کاموں سے بچے، ان کے کرنے سے اپنے آپ کو روکے اور ان سے بھاگا رہے اس کے لئے اللہ کے پاس بڑا اجر ہے۔ جس طرح نیکیوں کے کرنے پر اجر ہے اسی طرح برائیوں کے چھوڑنے پر بھی ثواب ہے۔ مکہ حج عمرہ بھی حرمات الٰہی ہیں۔ تمہارے لئے چوپائے سب حلال ہیں ہاں جو حرام تھے وہ تمہارے سامنے بیان ہوچکے ہیں۔ یہ جو مشرکوں نے بحیرہ، سائبہ، وصیلہ اور حام نام رکھ چھوڑے ہیں یہ اللہ نے نہیں بتلائے۔ اللہ کو جو حرام کرنا تھا بیان فرما چکا جیسے مردار جانور بوقت ذبح بہا ہوا خون سور کا گوشت اللہ کے سوا دوسرے کے نام پر مشہور کیا ہوا، گلا گھٹا ہوا وغیرہ۔ تمہیں چاہے کہ بت پرستی کی گندگی سے دور رہو، " من " یہاں پر بیان جنس کے لئے ہے۔ اور جھوٹی بات سے بچو۔ اس آیت میں شرک کے ساتھ جھوٹ کو ملادیا جیسے آیت (قُلْ اِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَالْاِثْمَ وَالْبَغْيَ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَاَنْ تُشْرِكُوْا باللّٰهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهٖ سُلْطٰنًا وَّاَنْ تَقُوْلُوْا عَلَي اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ 33؀) 7۔ الاعراف :33) یعنی میرے رب نے گندے کاموں کو حرام کردیا خواہ وہ ظاہر ہوں خواہ پوشیدہ۔ اور گناہ کو سرکشی کو اور بےعلمی کے ساتھ اللہ پر باتیں بنانے کو۔ اسی میں جھوٹی گواہی بھی داخل ہے۔ بخاری و مسلم میں ہے حضور ﷺ نے پوچھا کیا میں تمہیں سب سے بڑا کبیرہ گناہ بتاؤں ؟ صحابہ نے کہا ارشاد ہو فرمایا اللہ کے ساتھ شریک کرنا ماں باپ کی نافرمانی کرنا پھر تکیہ سے الگ ہٹ کر فرمایا اور جھوٹ بولنا اور جھوٹی شہادت دینا۔ اسے بار بار فرماتے رہے یہاں تک کہ ہم نے کہا کاش کہ آپ اب نہ فرماتے۔ مسند احمد میں حضور ﷺ نے اپنے خطبے میں کھڑے ہو کر تین بار فرمایا جھوٹی گواہی اللہ کے ساتھ شرک کرنے کے برابر کردی گئی پھر آپ نے مندرجہ بالا فقرہ تلاوت فرمایا۔ اور روایت میں ہے کہ صبح کی نماز کی بعد آپ نے کھڑے ہو کر یہ فرمایا۔ ابن مسعود ؓ کا یہ فرمان بھی مروی ہے اللہ کے دین کو خلوص کے ساتھ تھام لوباطل سے ہٹ کر حق کی طرف آجاؤ۔ اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھیرانے والوں میں نہ بنو۔ پھر مشرک کی تباہی کی مثال بیان فرمائی کہ جیسے کوئی آسمان سے گرپڑے پس یا تو اسے پرند ہی اچک لے جائیں گے یا ہوا کسی ہلاکت کے دور دراز گڑھے میں پہنچا دے گی۔ چناچہ کافر کی روح کو لے کر جب فرشتے آسمان کی طرف چڑھتے ہیں تو اس کے لیے آسمان کے دروازے نہیں کھلتے اور وہیں سے وہ پھینک دی جاتی ہے اسی کا بیان اس آیت میں ہے۔ یہ حدیث پوری تفصیل کے ساتھ سورة ابراہیم میں گزر چکی ہے سورة انعام میں ان مشرکوں کی ایک اور مثال بیان فرمائی ہے یہ اس کی مثل کے ہے جسے شیطان باؤلا بنا دے۔ الخ۔
Top