Tafseer Ibn-e-Kaseer - Ash-Shu'araa : 196
وَ اِنَّهٗ لَفِیْ زُبُرِ الْاَوَّلِیْنَ
وَاِنَّهٗ : اور بیشک یہ لَفِيْ : میں زُبُرِ : صحیفے الْاَوَّلِيْنَ : پہلے (پیغمبر)
اور اس کی خبر پہلے پیغمبروں کی کتابوں میں (لکھی ہوئی) ہے
بشارت و تصدیق یافتہ کتاب فرماتا ہے کہ اللہ کی اگلی کتابوں میں بھی اس پاک اور اللہ کی آخری کلام کی پیشن گوئی اور اسکی تصدیق وصفت موجود ہے۔ اگلے نبیوں نے بھی اسکی بشارت دی یہاں تک کہ ان تمام نبیوں کے آخری نبی جن کے بعدحضور ﷺ تک اور کوئی نبی نہ تھا۔ یعنی حضرت عیسیٰ ؑ بنی اسرائیل کو جمع کر کے جو خطبہ دیتے ہیں اس میں فرماتے ہیں کہ اے بنی اسرائیل ! میں تمہاری جانب اللہ کا بھیجا ہوا رسول ہوں جو اگلی کتابوں کو سچانے کے ساتھ ہی آنے والے حضرت محمد ﷺ کی بشارت تمہیں سناتا ہوں۔ زبور حضرت داؤد ؑ کی کتاب کا نام ہے یہاں زبر کا لفظ کتابوں کے معنی میں ہے جیسے فرمان ہے۔ آیت (وَكُلُّ شَيْءٍ فَعَلُوْهُ فِي الزُّبُرِ 52؀) 54۔ القمر :52) جو کچھ یہ کررہے ہیں سب کتابوں میں تحریر ہے۔ پھر فرماتا ہے کہ اگر یہ سمجھیں اور ضد اور تعصب نہ کریں تو قرآن کی حقانیت پر یہی دلیل کیا کم ہے کہ خود بنی اسرائیل کے علماء اسے مانتے ہیں۔ ان میں سے جو حق گو اور بےتعصب ہیں وہ توراۃ کی ان آیتوں کا لوگوں پر کھلے عام ذکر کر رہے ہیں جن میں حضور ﷺ کی بعثت قرآن کا ذکر اور آپ کی حقانیت کی خبر ہے۔ حضرت عبداللہ بن سلام ؓ ، حضرت سلمان فارسی ؓ اور ان جیسے حق گو حضرات نے دنیا کے سامنے توراۃ و انجیل کی وہ آیتیں رکھ دیں جو حضور ﷺ کی شان والا شان کو ظاہر کرنے والی تھیں۔ اس کے بعد کی آیت کا مطلب یہ ہے کہ اگر اس فصیح وبلیغ جامع بالغ حق کلام کو ہم کسی عجمی پر نازل فرماتے پھر بھی کوئی شک ہی نہیں ہوسکتا تھا کہ یہ ہمارا کلام ہے۔ مگر مشرکین قریش اپنے کفر اور اپنی سرکشی میں اتنے بڑھ گئے ہیں کہ اس وقت بھی وہ ایمان نہ لاتے۔ جیسے فرمان ہے کہ اگر آسمان کا دروازہ بھی ان کے لئے کھول دیا جاتا اور یہ خود چڑھ کر جاتے تب بھی یہی کہتے ہمیں نشہ پلادیا گیا ہے۔ ہماری آنکھوں پر پردہ ڈال دیا گیا ہے۔ اور آیت میں ہے اگر ان کے پاس فرشتے آجاتے اور مردے بول اٹھتے تب بھی انہیں ایمان نصیب نہ ہوتا۔ ان پر عذاب کا کلمہ ثابت ہوچکا، عذاب ان کا مقدر ہوچکا اور ہدایت کی راہ مسدود کردی گئی۔
Top