Maarif-ul-Quran - Al-Qasas : 51
اَثُمَّ اِذَا مَا وَقَعَ اٰمَنْتُمْ بِهٖ١ؕ آٰلْئٰنَ وَ قَدْ كُنْتُمْ بِهٖ تَسْتَعْجِلُوْنَ
اَثُمَّ : کیا پھر اِذَا : جب مَا وَقَعَ : واقع ہوگا اٰمَنْتُمْ : تم ایمان لاؤ گے بِهٖ : اس پر آٰلْئٰنَ : اب وَقَدْ كُنْتُمْ : اور البتہ تم تھے بِهٖ : اس کی تَسْتَعْجِلُوْنَ : تم جلدی مچاتے تھے
کیا پھر جب عذاب واقع ہوچکے گا تب اس پر یقین کرو گے اب قائل ہوئے اور تم اسی کا تقاضہ کرتے تھے۔
(آیت) اَثُمَّ اِذَا مَا وَقَعَ اٰمَنْتُمْ بِهٖ ۭ اٰۗلْــٰٔنَیعنی کیا تم ایمان اس وقت لاؤ گے جب تم پر عذاب واقع ہوجائے گا خواہ موت کے وقت یا اس سے پہلے ہی، مگر اس وقت تمہارے ایمان کے جواب میں یہ کہا جائے گا اٰۗلْــٰٔنَ کیا اب ایمان لائے ہو، جب کہ ایمان کا وقت گزر چکا، جیسے غرق ہونے کے وقت فرعون نے جب کہا (آیت) اٰمَنْتُ اَنَّهٗ لَآ اِلٰهَ اِلَّا الَّذِيْٓ اٰمَنَتْ بِهٖ بَنُوْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ ، جواب میں کہا جائے گا اٰۗلْــٰٔنَ ، اور اس کا یہ ایمان قبول نہیں کیا گیا، کیونکہ حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ بندے کی توبہ قبول کرتا ہی رہتا ہے جب تک کہ وہ غرغرہ موت میں گرفتار نہ ہوجائے یعنی غرغرہ موت کے وقت کا ایمان اور توبہ اللہ کے نزدیک معتبر نہیں، اسی طرح دنیا میں وقوع عذاب سے پہلے پہلے توبہ قبول ہوسکتی ہے، جب عذاب آپڑے پھر توبہ قبول نہیں ہوتی، آخر سورت میں قوم یونس ؑ کا جو واقعہ آرہا ہے کہ ان کی توبہ قبول کرلی گئی، وہ اسی ضابطے کے ما تحت ہے کہ انہوں نے عذاب کو دور سے آتا ہوا دیکھ کر سچے دل سے الحاح وزاری کے ساتھ توبہ کرلی اس لئے عذاب ہٹا لیا گیا، اگر عذاب ان پر واقع ہوجاتا پھر توبہ قبول نہ ہوتی۔
Top