Tafseer Ibn-e-Kaseer - Al-Fath : 4
هُوَ الَّذِیْۤ اَنْزَلَ السَّكِیْنَةَ فِیْ قُلُوْبِ الْمُؤْمِنِیْنَ لِیَزْدَادُوْۤا اِیْمَانًا مَّعَ اِیْمَانِهِمْ١ؕ وَ لِلّٰهِ جُنُوْدُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ عَلِیْمًا حَكِیْمًاۙ
هُوَ الَّذِيْٓ : وہی وہ جس نے اَنْزَلَ : اتاری السَّكِيْنَةَ : سکینہ (تسلی) فِيْ قُلُوْبِ : دلوں میں الْمُؤْمِنِيْنَ : مومنوں لِيَزْدَادُوْٓا : تاکہ وہ بڑھائے اِيْمَانًا : ایمان مَّعَ : ساتھ اِيْمَانِهِمْ ۭ : ان کے ایمان کے وَلِلّٰهِ : اور اللہ کیلئے جُنُوْدُ : لشکر (جمع) السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَالْاَرْضِ ۭ : اور زمین وَكَانَ اللّٰهُ : اور ہے اللہ عَلِيْمًا : جاننے و الا حَكِيْمًا : حکمت والا
وہی تو ہے جس نے مومنوں کے دلوں پر تسلی نازل فرمائی تاکہ ان کے ایمان کے ساتھ اور ایمان بڑھے۔ اور آسمانوں اور زمین کے لشکر (سب) خدا ہی کے ہیں۔ اور خدا جاننے والا (اور) حکمت والا ہے
اطمینان و رحمت سکینہ کے معنی ہیں اطمینان رحمت اور وقار کے۔ فرمان ہے کہ حدیبیہ والے دن جن باایمان صحابہ نے اللہ کی اور اس کے رسول ﷺ کی بات مان لی اللہ نے ان کے دلوں کو مطمئن کردیا اور ان کے ایمان اور بڑھ گئے اس سے حضرت امام بخاری وغیرہ ائمہ کرام نے استدلال کیا ہے کہ دلوں میں ایمان بڑھتا ہے اور اسی طرح گھٹتا بھی ہے۔ پھر فرماتا ہے کہ اللہ کے لشکروں کی کمی نہیں وہ اگر چاہتا تو خود ہی کفار کو ہلاک کردیتا۔ ایک فرشتے کو بھیج دیتا تو وہ ان سب کو برباد اور بےنشان کردینے کے لئے بس تھا لیکن اس نے اپنی حکمت بالغہ سے ایمانداروں کو جہاد کا حکم دیا جس میں اس کی حجت بھی پوری ہوجائے اور دلیل بھی سامنے آجائے اس کا کوئی کام علم و حکمت سے خالی نہیں ہوتا۔ اس میں ایک مصلحت یہ بھی ہے کہ ایمانداروں کو اپنی بہترین نعمتیں اس بہانے عطا فرمائے۔ پہلے یہ روایت گذر چکی ہے کہ صحابہ نے جب حضور ﷺ کو مبارک باد دی اور پوچھا کہ حضور ﷺ ہمارے لئے کیا ہے ؟ تو اللہ عزوجل نے یہ آیت اتاری کہ مومن مرد و عورت جنتوں میں جائیں گے جہاں چپے چپے پر نہریں جاری ہیں اور جہاں وہ ابدالآباد تک رہیں گے اور اس لئے بھی کہ اللہ تعالیٰ ان کے گناہ اور ان کی برائیاں دور اور دفع کر دے انہیں ان کی برائیوں کی سزا نہ دے بلکہ معاف فرما دے درگذر کر دے بخش دے پردہ ڈال دے رحم کرے اور ان کی قدر دانی کرے دراصل یہی اصل کامیابی ہے جیسے کہ اللہ عزوجل نے فرمایا آیت (فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَاُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ ۭ وَمَا الْحَيٰوةُ الدُّنْيَآ اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ01805) 3۔ آل عمران :185) ، یعنی جو جہنم سے دور کردیا گیا اور جنت میں پہنچا دیا گیا وہ مراد کو پہنچ گیا۔ پھر ایک اور وجہ اور غایت بیان کی جاتی ہے کہ اس لئے بھی کہ نفاق اور شرک کرنے والے مرد و عورت جو اللہ تعالیٰ کے احکام میں بدظنی کرتے ہیں رسول ﷺ اور اصحاب رسول کے ساتھ برے خیال رکھتے ہیں یہ ہیں ہی کتنے ؟ آج نہیں تو کل ان کا نام و نشان مٹا دیا جائے گا اس جنگ میں بچ گئے تو اور کسی لڑائی میں تباہ ہوجائیں گے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ دراصل اس برائی کا دائرہ انہی پر ہے ان پر اللہ کا غضب ہے یہ رحمت الہی سے دور ہیں ان کی جگہ جہنم ہے اور وہ بدترین ٹھکانا ہے دوبارہ اپنی قوت، قدرت اپنے اور اپنے بندوں کے دشمنوں سے انتقام لینے کی طاقت کو ظاہر فرماتا ہے کہ آسمانوں اور زمینوں کے لشکر سب اللہ ہی کے ہیں اور اللہ تعالیٰ عزیز و حکیم ہے۔
Top