Fi-Zilal-al-Quran - Faatir : 29
لِّئَلَّا یَعْلَمَ اَهْلُ الْكِتٰبِ اَلَّا یَقْدِرُوْنَ عَلٰى شَیْءٍ مِّنْ فَضْلِ اللّٰهِ وَ اَنَّ الْفَضْلَ بِیَدِ اللّٰهِ یُؤْتِیْهِ مَنْ یَّشَآءُ١ؕ وَ اللّٰهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیْمِ۠   ۧ
لِّئَلَّا يَعْلَمَ : تاکہ نہ جان پائیں اَهْلُ الْكِتٰبِ : اہل کتاب اَلَّا يَقْدِرُوْنَ : کہ نہیں وہ قدرت رکھتے عَلٰي شَيْءٍ : اوپر کسی چیز کے مِّنْ فَضْلِ اللّٰهِ : اللہ کے فضل سے وَاَنَّ الْفَضْلَ : اور بیشک فضل بِيَدِ اللّٰهِ : اللہ کے ہاتھ میں ہے يُؤْتِيْهِ : دیتا ہے اس کو مَنْ يَّشَآءُ ۭ : جس کو چاہتا ہے وَاللّٰهُ : اور اللہ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيْمِ : بڑے فضل والا ہے
(تم کو یہ روش اختیار کرنی چاہئے) تاکہ اہل کتاب کو معلوم ہوجائے کہ اللہ کے فضل پر ان کا کوئی اجارہ نہیں ہے۔ اور یہ کہ اللہ کا فضل اس کے اپنے ہی ہاتھ میں ہے ، جسے چاہتا ہے عطا فرماتا ہے ، اور وہ بڑے فضل والا ہے۔ “
لئلا یعلم ................ من یشاء (75 : 92) ” تاکہ اہل کتاب کو معلوم ہوجائے کہ اللہ کے فضل پر ان کا کوئی اجارہ نہیں ہے۔ اور یہ کہ اللہ کا فضل اس کے اپنے ہی ہاتھ میں ہے ، جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے “ اہل کتاب یہ گھمنڈ رکھتے تھے کہ وہ اللہ کی برگزیدہ قوم ہیں اور وہ اللہ کے بیٹے اور محبوب ہیں۔ وقالوا .................... تھتدوا ” وہ کہتے ہیں کہ یہودی بن جاؤ یا نصاریٰ بن جاؤ تمہیں ہدایت مل جائے گی “ تو اللہ تعالیٰ مومنین کو دعوت دیتا ہے کہ اللہ کی رحمت ، اس کی جنت ، اس کی مغفرت اور اس کے انعامات کے مستحق ہوجاؤ اور میں تم پر ان چیزوں کی بارش کروں گا تب اہل کتاب کو معلوم ہوجائے گا کہ وہ تو زعم باطل میں مبتلا ہیں۔ اور ان کے اختیار میں کچھ بھی نہیں ہے۔ فضل تو اللہ کے ہاتھ میں ہے اور وہ مسلمانوں پر ہوگیا ہے۔ یہ کسی کے اجارے میں نہیں دے دیا گیا اور نہ محدود کردیا گیا ہے۔ واللہ ................ العظیم (75 : 92) ” اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔ “ غرض یہ کہ ایک ایسی دعوت ہے جس میں مسلمانوں کو مقابلے کی دعوت دی گئی۔ کہ تم تقویٰ اور طہارت اور نیکی کی راہ میں آگے بڑھ جاؤ۔ اس پر یہ سورت ختم ہوتی ہے اور سورت کا خاتمہ اور آغاز باہم مل جاتے ہیں۔ کیونکہ اس پوری سورت میں یایھا الذین امنوا کی پکار ہے۔ کہ رب کے سامنے خضوع وخشوع اختیار کرو ، رب کے احکام بجا لاؤ، مالی ، بدنی اور روحانی فرائض پورے کرو۔ قرآن کریم جس انداز میں قلب انسانی کو خطاب کرتا ہے یہ سورت اس کا بہترین نمونہ ہے۔ پر اثرانداز میں انسانوں کو نیکیوں پر ابھارا جاتا ہے ، اس سورت کا آغاز انجام اور سیاق کلام سب انسانوں کو عمل صالح پر آمادہ کرنے والے ہیں۔ اس کی تصاویر ، ماحول اور اثر آفرینیاں قابل دید ہیں ، دعوت اسلامی کا کام کرنے والوں کے لئے اس میں درس عبرت ہیں۔ اس میں اشارات ہیں کہ لوگوں کو کس اسلوب میں خطاب کیا جائے اور کس انداز میں جوش دلایا جائے ........ یہ اللہ کا درس ہے۔ جس نے ہمارے دل بنائے ہیں اور جو ہر چیز کا خالق ہے۔ داعیوں کو چاہئے کہ وہ اس ربانی درسگاہ سے سیکھ کر نکلیں تاکہ ان کی دعوت کامیاب ہو۔
Top