Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer Ibn-e-Kaseer - At-Tawba : 118
وَّ عَلَى الثَّلٰثَةِ الَّذِیْنَ خُلِّفُوْا١ؕ حَتّٰۤى اِذَا ضَاقَتْ عَلَیْهِمُ الْاَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ وَ ضَاقَتْ عَلَیْهِمْ اَنْفُسُهُمْ وَ ظَنُّوْۤا اَنْ لَّا مَلْجَاَ مِنَ اللّٰهِ اِلَّاۤ اِلَیْهِ١ؕ ثُمَّ تَابَ عَلَیْهِمْ لِیَتُوْبُوْا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ۠ ۧ
وَّعَلَي
: اور پر
الثَّلٰثَةِ
: وہ تین
الَّذِيْنَ
: وہ جو
خُلِّفُوْا
: پیچھے رکھا گیا
حَتّٰى
: یہانتک کہ
اِذَا
: جب
ضَاقَتْ
: تنگ ہوگئی
عَلَيْهِمُ
: ان پر
الْاَرْضُ
: زمین
بِمَا رَحُبَتْ
: باوجود کشادگی
وَضَاقَتْ
: اور وہ تنگ ہوگئی
عَلَيْهِمْ
: ان پر
اَنْفُسُھُمْ
: ان کی جانیں
وَظَنُّوْٓا
: اور انہوں نے جان لیا
اَنْ
: کہ
لَّا مَلْجَاَ
: نہیں پناہ
مِنَ
: سے
اللّٰهِ
: اللہ
اِلَّآ
: مگر
اِلَيْهِ
: اس کی طرف
ثُمَّ
: پھر
تَابَ عَلَيْهِمْ
: وہ متوجہ ہوا ان پر
لِيَتُوْبُوْا
: تاکہ وہ توبہ کریں
اِنَّ اللّٰهَ
: بیشک اللہ
ھُوَ
: وہ
التَّوَّابُ
: توبہ قبول کرنیوالا
الرَّحِيْمُ
: نہایت مہربان
اور ان تینوں پر بھی جن کا معاملہ ملتوی کیا گیا تھا۔ یہاں تک کہ جب اُنہیں زمین باوجود فراخی کے ان پر تنگ ہوگئی اور ان کے جانیں بھی ان پر دوبھر ہوگئیں۔ اور انہوں نے جان لیا کہ خدا (کے ہاتھ) سے خود اس کے سوا کوئی پناہ نہیں۔ پھر خدا نے ان پر مہربانی کی تاکہ توبہ کریں۔ بےشک خدا توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے
جنگ تبوک میں عدم شمولیت سے پشیمان حضرت کعب بن مالک ؓ کے صاحبزادے حضرت عبید اللہ جو آپ کے نابینا ہوجانے کے بعد آپ کا ہاتھ تھام کرلے جایا لے آیا کرتے تھے۔ کہتے ہیں کہ جنگ تبوک کے موقع پر میرے والد کے رہ جانے کا واقعہ خود کی زبانی یہ ہے کہ فرماتے ہیں میں اس کے سوا کسی اور غزوے میں پچھے نہیں رہا۔ ہاں غزوہ بدر کا ذکر نہیں، اس میں جو لوگ شامل نہیں ہوئے تھے ان پر کوئی سرزنش نہیں ہوئی۔ رسول اللہ ﷺ تو قافلے کے ارادے سے چلے تھے لیکن وہاں اللہ کی مرضی سے قریش کے جنگی مرکز سے لڑائی ٹھیر گئی۔ تو چونکہ یہ لڑائی بیخبر ی میں ہوئی اس لیے میں اس میں حاضر نہ ہوسکا اس کے بجائے الحمد اللہ میں لیلۃ العقبہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھا جب کہ ہم نے اسلام پر موافقت کی تھی اور میرے نزدیک تو یہ چیز بدر سے بھی زیادہ محبوب ہے گو بدر کی شہرت لوگوں میں بہت زیادہ ہے۔ اچھا اب غزوہ تبوک کی غیر حاضری کا واقعہ سنئے اس وقت مجھے جو آسانی اور قوت تھی وہ اس سے پہلے کبھی میسر نہ آئی تھی۔ اس وقت میرے پاس دو دو اونٹنیاں تھیں۔ حضور ﷺ جس غزوے میں جاتے توریہ کرتے یعنی ایسے الفاظ کہتے کہ لوگ صاف مطلب نہ سمجھیں۔ لیکن چونکہ اس وقت موسم سخت گرم تھا، سفر بہت دور دراز کا تھا، دشمن بڑی تعداد میں تھا، پس آپ نے مسلمانوں کے سامنے اپنا مقصد صاف صاف واضح کردیا کہ وہ پوری پوری تیاری کرلیں۔ آنحضرت ﷺ کے ساتھ اس وقت مسلمانوں کی تعداد بھی اتنی زیادہ تھی کہ رجسٹر میں ان کے نام نہ آسکے۔ پس کوئی باز پرس نہ تھی جو بھی چاہتا کہ میں رک جاؤں وہ رک سکتا تھا اور آنحضرت ﷺ پر اس کا رکنا مخفی رہ سکتا تھا۔ ہاں اللہ کی وحی آجائے یہ تو بات ہی اور ہے۔ اس لڑائی کے سفر کے وقت پھل پکے ہوئے تھے سائے بڑھے ہوئے تھے۔ مسلمان صحابہ اور خود حضور تیاریوں میں تھے، میری یہ حالت تھی کہ صبح نکلتا تھا کہ سامان تیار کرلوں لیکن ادھر ادھر شام ہوجاتی اور میں خالی ہاتھ گھر لوٹ جاتا۔ اور کہتا کوئی بات نہیں روپیہ ہاتھ تلے ہے، کل خرید لوں گا اور تیاری کرلوں گا۔ یہاں تک کہ یوں ہی صبح شام صبح شام آج کل آج کل کرتے کوچ کا دن آگیا اور لشکر اسلام بجانب تبوک چل پڑا میں نے کہا کوئی بات نہیں ایک دو دن میں میں بھی پہنچتا ہوں۔ یونہی آج کا کام کل پر ڈالا اور کل کا پرسوں پر یہاں تک کہ لشکر دور جا پہنچا۔ گرے پڑے لوگ بھی چل دیئے میں نے کہا خیر دور ہوگئے اور کئی دن ہوگئے تو کیا میں تیز چل کر جا ملوں گا لیکن افسوس کہ یہ بھی مجھ سے نہ ہوسکا ارادوں ہی ارادوں میں رہ گیا۔ اب تو یہ حالت تھی میں بازاروں میں نکلتا تو مجھے سوائے منافقوں اور بیمار لولے لنگڑے اندھے مریضوں اور معذور لوگوں کے اور کوئی نظر نہ آتا۔ رسول اللہ ﷺ نے تبوک پہنچ کر مجھے یاد فرمایا کہ کعب بن مالک نے کیا کیا ؟ اس پر بنو سلمہ کے ایک شخص نے کہا اسے تو اچھے کپڑوں اور جسم کی راحت رسانی نے روک رکھا ہے۔ یہ سن کر حضرت معاذ بن جبل نے فرمایا آپ یہ درست نہیں فرما رہے یارسول اللہ ﷺ ہمارا خیال تو کعب کی نسبت بہتر ہی ہے۔ حضور ﷺ خاموش ہو رہے۔ جب مجھے معلوم ہوا کہ اب آپ لوٹ رہے ہیں تو میرا جی بہت ہی گھبرایا۔ اور میں حیلے بہانے سوچنے لگا کہ یوں یوں بہانہ بنا کر حضور ﷺ کے غصے سے نکل جاؤں گا اپنے والوں سے بھی رائے ملا لوں گا۔ یہاں تک کہ مجھے معلوم ہوا کہ حضور ﷺ مدینے شریف کے قریب آگئے تو میں دل سے باطل اور جھوٹ بالکل الگ ہوگیا۔ اور میں نے سمجھ لیا کہ جھوٹے حیلے مجھے نجات نہیں دلوا سکے۔ سچ ہی کا آخر بول بالا رہتا ہے۔ پس میں نے پختہ ارادہ کرلیا کہ جھوٹ بالکل نہیں بولوں گا۔ صاف صاف سچ سچ بات کہہ دونگا۔ آپ خیر سے تشریف لائے اور حسب عادت پہلے مسجد میں آئے دو رکعت نماز ادا کی اور وہیں بیٹھے۔ اسی وقت اس جہاد میں شرکت نہ کرنے والے آنے لگے اور عذر معذرت حیلے بہانے کرنے لگے۔ یہ لوگ اسی سے کچھ اوپر اوپر تھے۔ آپ ان کی باتیں سنتے اور اندرونی حالت سپرد اللہ کر کے ظاہری باتوں کو قبول فرما کر ان کے لیے استغفار کرتے۔ میں بھی حاضر ہوا اور سلام کیا۔ آپ ﷺ نے غصے کے ساتھ تبسم فرمایا اور مجھے اپنے پاس بلایا میں قریب آن کر بیٹھ گیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا تم کیسے رک گئے ؟ تم نے سواری بھی خرید لی تھی۔ میں نے کہا یا رسول اللہ اگر آپ کے سوا کسی اور کے پاس میں بیٹھا ہوتا تو بیسیوں باتیں بنا لیتا۔ بولنے میں اور باتیں بنانے میں میں کسی سے پیچھے نہیں ہوں۔ لیکن میں جانتا ہوں کہ آج اگر جھوٹ سچ ملا کر آپ کے غصے سے میں آزاد ہوگیا تو ممکن ہے کل اللہ تعالیٰ آپ کو حقیقت حال سے مطلع فرما کر پھر مجھ سے ناراض کر دے۔ اور آج میرے سچ کی بناء پر اگر آپ مجھے سے بگڑے تو ہوسکتا ہے کہ میری سچائی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ آپ کو مجھ سے پھر خوش کر دے۔ حضور ﷺ سچ تو یہ ہے کہ واللہ مجھے کوئی عذر نہ تھا۔ مجھے اس وقت جو آسانی اور فرست تھی اتنی تو کبھی اس سے پہلے میسر بھی نہیں ہوئی۔ آپ ﷺ نے فرمایا ہے تو سچا ہے۔ اچھا تم جاؤ اللہ تعالیٰ ہی تمہارے بارے میں جو فیصلہ کرے گا وہی ہوگا۔ میں کھڑا ہوگیا، بنو سلمہ کے چند شخص بھی میرے ساتھ ہی اٹھے اور ساتھ ہی چلے اور مجھ سے کہنے لگے اس سے پہلے تو تم سے کبھی کوئی اس قسم کی خطا نہیں ہوئی۔ لیکن عجب ہے کہ تم نے کوئی عذر معذرت پیش نہیں کی جیسے کہ اوروں نے کی، پھر آنحضرت ﷺ تمہارے لیے استغفار کرتے تو تمہیں یہ کافی تھا۔ الغرض کچھ اس طرح یہ لوگ میرے پیچھے پڑے کہ مجھے خیال آنے لگا کہ پھر واپس جاؤں اور حضور ﷺ کے سامنے اپنی پہلی بات کو جھٹلا کر کوئی حیلہ غلط سلط میں بھی پیش کردوں۔ پھر میں نے پوچھا کیوں جی کوئی اور بھی میرے جیسا اس معاملے میں اور ہے ؟ انہوں نے کہا ہاں ہاں دو شخص اور ہیں اور انہیں بھی وہی جواب ملا ہے جو تمہیں ملا ہے۔ میں نے کہا وہ کون کون ہیں انہوں نے جواب دیا مرارہ بن ربیع عامری اور حلال بن امیہ واقفی ان دونوں صالح اور نیک بدری صحابیوں کا نام جب میں نے سنا تو مجھے پورا اطمینان ہوگیا اور گھر چلا گیا۔ آنحضرت ﷺ نے ہم تینوں سے کلام کرنے سے مسلمانوں کو روک دیا تھا۔ لوگ ہم سے الگ ہوگئے کوئی ہم سے بولتا چالتا نہ تھا یہاں تک کہ مجھے تو اپنا وطن پر دیس معلوم ہونے لگا کہ گویا میں یہاں کی کسی چیز سے واقف ہی نہیں۔ پچاس راتیں ہم پر اسی طرح گزر گئیں۔ وہ دو بدری بزرگ تو تھک ہار کر اپنے اپنے مکان میں بیٹھ رہے باہر اندر آنا جانا بھی انہوں نے چھوڑ دیا۔ میں ذرا زیادہ آنے جانے والا اور تیز طبیعت والا تھا۔ نہ میں نے مسجد جانا چھوڑا، نہ بازاروں میں جانا آنا ترک کیا۔ ہاں مجھ سے کوئی بولتا نہ تھا۔ نماز کے بعد جب کہ حضور ﷺ لوگوں کے مجمع میں تشریف فرما ہوتے تو میں آتا اور سلام کرتا اور اپنے جی میں کہتا کہ میرے سلام کے جواب آپ ﷺ کے ہونٹ ہلے بھی یا نہیں پھر آپ کے قریب ہی کہیں بیٹھ جاتا اور کنکھیوں سے آپ کو دیکھتا رہتا۔ جب میں نماز میں ہوتا تو آپ کی نگاہ مجھ پر پڑتی لیکن جہاں میں آپ کی طرف التفات کرتا، آپ میری طرف سے منہ موڑ لیتے۔ آخر اس ترک کلامی کی طویل مدت نے مجھے پریشان کردیا۔ ایک روز میں اپنے چچا زاد بھائی ابو قتادہ کے باغ کی دیوار سے کود کر ان کے پاس گیا۔ مجھے ان سے بہت ہی محبت تھی۔ میں نے سلام کیا لیکن واللہ انہوں نے جواب نہ دیا۔ میں نے کہا ابو قتادہ تجھے اللہ کی قسم کیا تو نہیں جانتا کہ میں اللہ رسول ﷺ سے محبت رکھتا ہوں ؟ اس نے خاموشی اختیار کی میں نے دوبارہ انہیں قسم دی اور پوچھا وہ پھر بھی خاموش رہے میں نے سہ بارہ انہیں قسم دے کر یہی سوال کیا اس کے جواب میں بھی وہ خاموش رہے اور فرمایا اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے۔ اب تو میں اپنے دل کو نہ روک سکا۔ میری دونوں آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اور بہت غمگین ہو کر پھر دیوار پر چڑھ کر باہر نکل گیا۔ میں بازار میں جا رہا تھا کہ میں نے شام کے ایک قبطی کو جو مدینے میں غلہ بیچنے آیا تھا یہ پوچھتے ہوئے کہ کوئی مجھے کعب بن مالک کا پتہ بتادے لوگوں نے اسے میری طرف اشارہ کر کے بتادیا وہ میرے پاس آیا اور مجھے شاہ غسان کا خط دیا۔ میں لکھا پڑھا تو تھا ہی۔ میں نے پڑھا تو اس میں لکھا تھا ہمیں معلوم ہوا ہے کہ تمہارے سردار نے تم پر ظلم کیا ہے تم کوئی ایسے گرے پڑے آدمی نہیں ہو تم یہاں دربار میں چلے آؤ ہم ہر طرح کی خدمت گذاریوں کے لیے تیار ہیں۔ میں نے اپنے دل میں سوچا یہ ایک اور مصیبت اور منجانب اللہ آزمائش ہے۔ میں نے تو جا کر چولھے میں اس رقعے کو جلا دیا۔ چالیس راتیں جب گذر چکیں تو میں نے دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ کا قاصد میرے پاس آرہا ہے اس نے آکر آپ ﷺ کا پیغام پہنچایا تم اپنی بیوی سے علیحدہ رہو۔ میں نے پوچھا یعنی کیا طلاق دے دوں یا کیا کروں ؟ اس نے کہا نہیں طلاق نہ دو لیکن ان سے ملو جلو نہیں۔ میرے دونوں ساتھیوں کے پاس بھی یہی پیغام پہنچا۔ میں نے تو اپنی بیوی سے کہہ دیا کہ تم اپنے میکے چلی جاؤ اور وہیں رہو جب تک کہ اللہ تعالیٰ اس امر کا فیصلہ نہ کردے ہاں حضرت ہلال بن امیہ کی بیوی نے آن کر رسول اللہ ﷺ سے کہا کہ میرے خاوند بہت بوڑھے ہیں، کمزور بھی ہیں اور گھر میں کوئی خادم بھی نہیں اگر آپ اجازت دیں تو میں ان کا کام کاج کردیا کروں۔ آپ نے فرمایا اس میں کوئی حرج نہیں لیکن وہ تم سے ملیں نہیں۔ انہوں نے کہا واللہ ان میں تو حرکت کی سکت ہی نہیں اور جب سے یہ بات پیدا ہوئی ہے تب سے لے کر آج تک ان کے آنسو تھمے ہی نہیں۔ مجھ سے بھی میرے بعض دوستوں نے کہا کہ تم بھی اتنی اجازت تو حاصل کرلو جتنی حضرت ہلال کے لیے ملی ہے۔ لیکن میں نے جواب دیا کہ میں اس بارے میں حضور ﷺ سے کچھ نہیں کہوں گا۔ اللہ جانے آپ جواب میں کیا ارشاد فرمائیں ؟ ظاہر ہے کہ وہ بوڑھے آدمی ہیں اور میں جوان ہوں۔ دس دن اس بات پر بھی گزر گئے اور ہم سے سلام کلام بند ہونے کی پوری پچاس راتیں گزر چکیں۔ اس پچاسویں رات کو صبح کی نماز میں نے اپنے گھر کی چھت پر ادا کی اور میں دل برداشتہ حیران و پریشان اسی حالت میں بیٹھا ہوا تھا جس کا نقشہ قرآن کریم نے کھینچا ہے کہ اپنی جان سے تنگ تھا، زمین باوجود اپنی کشادگی کے مجھ پر تنگ تھی کہ میرے کان میں سلع پہاڑی پر سے کسی کی آواز آئی کہ وہ با آواز بلند کہہ رہا تھا کہ اے کعب بن مالک خوش ہوجا۔ واللہ میں اس وقت سجدے میں گڑ پڑا اور سمجھ گیا کہ اللہ عزوجل کی طرف سے قبولیت توبہ کی کوئی خبر آگئی۔ بات بھی یہی تھی صبح کی نماز کے بعد رسول کریم ﷺ نے یہ خبر صحابہ سے بیان فرمائی تھی اور یہ سنتے ہی وہ پیدل اور سوار ہم تینوں کی طرف دوڑ پڑے تھے کہ ہمیں خبر پہنچائیں۔ ایک صاحب تو اپنے گھوڑے پر سوار میری طرف خوشخبری لیے ہوئے آرہے تھے لیکن اسلم کے ایک صاحب نے دوڑ کر پہاڑ پر چڑھ کر باآواز بلند میرا نام لے کر مجھے خوشخبری پہنچائی سوار سے پہلے ان کی آواز میرے کان میں آگئی۔ جب یہ صاحب میرے پاس پہنچے تو میں نے اپنے پہنے ہوئے دونوں کپڑے انہیں بطور انعام دے دیئے واللہ اس دن میرے پاس اور کچھ بھی نہ تھا۔ دو کپڑے اور ادھار لے کر میں نے پہنے اور آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہونے کے لیے گھر سے نکلا۔ راستے میں جوق در جوق لوگ مجھ سے ملنے لگے اور مجھے میری توبہ کی بشارت مبارکباد دینے لگے۔ کہ کعب اللہ تعالیٰ کا تمہاری توبہ کو قبول فرما لینا تمہیں مبارک ہو۔ میں جب مسجد میں پہنچا تو رسول اللہ ﷺ تشریف فرما تھے اور دیگر صحابہ بھی حاضر حضور ﷺ تھے۔ مجھے دیکھتے ہی حضرت طلحہ بن عبداللہ ؓ کھڑے ہوگئے اور دوڑتے ہوئے آگے بڑھ کر مجھ سے مصافحہ کیا اور مجھے مبارک باد دی۔ مہاجرین میں سے سوائے ان کے اور کوئی صاحب کھڑے نہیں ہوئے۔ حضرت کعب حضرت طلحہ کی اس محبت کو ہمیشہ ہی اپنے دل میں لیے رہے۔ جب میں نے جا کر رسول اللہ ﷺ سے سلام کیا، اس وقت آپ کے چہرہ مبارک کی رگیں خوشی سے چمک رہی تھیں۔ آپ نے فرمایا کعب تم پر تمہاری پیدائش سے لے کر آج تک آج جیسا خوشی کا دن کوئی نہیں گزرا۔ میں نے کہا یا رسول ﷺ اللہ یہ خوشخبری آپ کی طرف سے ہے یا اللہ تعالیٰ عزوجل کی جانب سے ؟ آپ نے فرمایا نہیں نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے۔ حضور ﷺ کو جب کوئی خوشی ہوتی تو آپ کا چہرہ مثل چاند کے ٹکڑے کے چمکنے لگ جاتا تھا اور ہر شخص چہرے مبارک کو دیکھتے ہی پہنچان لیا کرتا تھا۔ میں نے آپ کے پاس بیٹھ کر عرض کیا کہ یا رسول ﷺ اللہ میں نے نذر مانی ہے کہ اللہ تعالیٰ میری توبہ قبول فرما لے تو میرا سب مال اللہ کے نام صدقہ ہے۔ اس کے رسول کے سپرد ہے۔ آپ نے فرمایا تھوڑا بہت مال اپنے پاس رکھ لو، یہی تمہارے لیے بہتر ہے۔ میں نے کہا جو حصہ میرا خیبر میں ہے وہ تو میرا رہا باقی للہ خیرات ہے۔ یا رسول اللہ ﷺ میری نجات کا ذریعہ میرا سچ بولنا ہے میں نے یہ بھی نذر مانی ہے کہ باقی زندگی بھی سوائے سچ کے کوئی کلمہ زبان سے نہیں نکالوں گا۔ میرا ایمان ہے کہ سچ کی وجہ سے جو نعمت اللہ تعالیٰ نے مجھے عطا فرمائی وہ کسی مسلمان کو نہیں ملی۔ اس وقت سے لے کر آج تک بحمد اللہ میں نے کبھی جھوٹ نہیں بولا۔ اور جو عمر باقی ہے، اس میں بھی اللہ تعالیٰ سے مجھے یہی امید ہے۔ اللہ رب العزت نے (آیت لقد تاب اللہ) سے کئی آیتیں تک ہماری توبہ کے بارے نازل فرمائیں۔ اسلام کی نعمت کے بعد مجھ پر اللہ تعالیٰ کی بڑی نعمت یہ بھی ہے کہ میں نے اس دن رسول اللہ ﷺ کے سامنے کوئی جھوٹ بات نہ کہی جیسے کہ اوروں نے جھوٹی باتیں بنائیں ورنہ میں بھی ان کی طرح ہلاک ہوجاتا۔ ان جھوٹے لوگوں کو کلام اللہ شریف میں بہت ہی برا کہا گیا۔ فرمایا (آیت سیحلفون باللہ لکم الخ،) یعنی تمہارے واپس آنے کے بعد یہ لوگ قسمیں کھا کھا کر چاہتے ہیں کہ تم ان سے چشم پوشی کرلو۔ اچھا تم چشم پوشی کرلو لیکن یاد رہے کہ اللہ کے نزدیک یہ لوگ گندے اور پلید ہیں۔ ان کا ٹھکانا جہنم ہے جو ان کے عمل کا بدلہ ہوگا۔ یہ تمہیں رضامند کرنے کے لیے حلف اٹھا رہے ہیں تم گو ان سے راضی ہوجاؤ لیکن ایسے فاسق لوگوں سے اللہ خوش نہیں۔ تم تینوں کے امر ان لوگوں کے امر سے پیچھے ڈال دیا گیا تھا۔ ان کے عذر تو رسول اللہ ﷺ نے قبول فرمائے تھے، ان سے دوبارہ بیعت کرلی تھی اور ان کے لیے استغفار بھی کیا تھا۔ اور ہمارا معاملہ تاخیر میں پڑگیا تھا جس کا فیصلہ خود اللہ تعالیٰ نے فرما دیا۔ اسی لیے آیت کے الفاظ (آیت وعلی الثلاثۃ الذین خلفوا) ہیں۔ پس اس پیچھے چھوڑ دئیے جانے سے مراد غزوے سے رک جانا نہیں بلکہ ان لوگوں کے جھوٹے عذر کے قبول کئے جانے سے ہمارا معاملہ موخر کردینا ہے۔ یہ حدیث بالکل صحیح ہے بخاری مسلم دونوں میں ہے۔ الحمد اللہ اس حدیث میں اس آیت کی پوری اور صحیح تفسیر موجود ہے۔ کہ تینوں بزرگ انصاری تھے ؓ اجمعین۔ ایک روایت میں مرارہ بن ربیعہ کے بدلے ربیع بن مرارہ آیا ہے۔ ایک میں ربیع بن مرار یا مرار بن ربیع ہے۔ لیکن صحیح وہی ہے جو بخاری و مسلم میں ہے یعنی مرارہ بن ربیع ؓ۔ ہاں زہری کی اوپر والی روایت میں جو یہ لفظ ہے کہ وہ دونوں بدری صحابی تھے جو حضرت کعب کی طرح چھوڑ دئیے گئے تھے یہ خطا ہے۔ ان تینوں بزرگوں میں سے ایک بھی بدری نہیں واللہ اعلم۔ چونکہ آیت میں ذکر تھا کہ کسی طرح ان بزرگوں نے صحیح سچا واقع کہہ دیا جس سے گو کچھ دنوں تک وہ رنج و غم میں رہے لیکن آخر سلامتی اور ابدی راحت ملی۔ اس کے بعد ہی فرماتا ہے کہ اے مومنو سچ بولا کرو اور سچائی کو لازم پکڑے رہو سچوں میں ہوجاؤ تاکہ ہلاکت سے نجات پاؤ، غم رنجم سے چھوٹ جاؤ۔ مسند احمد میں ہے رسول للہ ﷺ فرماتے ہیں کہ لوگو سچائی کو لازم کرلو، سچ بھلائی کی رہبری کرتا ہے اور بھلائی جنت کی رہبری کرتی ہے۔ انسان کے سچ بولنے اور سچ پر کار بند رہنے سے اللہ کے ہاں صدیق لکھ لیا جاتا ہے۔ جھوٹ سے بچو۔ جھوٹ بولتے رہنے سے اللہ کے ہاں کذاب لکھ لیا جاتا ہے۔ یہ حدیث بخاری مسلم میں بھی ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں قصداً یا مذاقاً کسی حالت میں بھی جھوٹ انسان کے لائق نہیں۔ کیونکہ اللہ مالک الملک فرماتا ہے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھی بن جاؤ، پس کیا تم اس میں کسی کے لیے بھی رخصت پاتے ہو ؟ بقول حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سچوں سے مراد آنحضرت ﷺ اور آپ ﷺ کے اصحاب ہیں۔ اگر سچوں کے ساتھ بننا چاہتے ہو تو دنیا میں بےرغبت رہو اور مسلمانوں کو نہ ستاؤ۔
Top