Tafseer Ibn-e-Kaseer - At-Tawba : 73
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَ الْمُنٰفِقِیْنَ وَ اغْلُظْ عَلَیْهِمْ١ؕ وَ مَاْوٰىهُمْ جَهَنَّمُ١ؕ وَ بِئْسَ الْمَصِیْرُ
يٰٓاَيُّھَا : اے النَّبِيُّ : نبی جَاهِدِ : جہاد کریں الْكُفَّارَ : کافر (جمع) وَالْمُنٰفِقِيْنَ : اور منافقین وَاغْلُظْ : اور سختی کریں عَلَيْهِمْ : ان پر وَمَاْوٰىهُمْ : اور ان کا ٹھکانہ جَهَنَّمُ : جہنم وَبِئْسَ : اور بری الْمَصِيْرُ : پلٹنے کی جگہ
اے پیغمبر! کافروں اور منافقوں سے لڑو۔ اور ان پر سختی کرو۔ اور ان کا ٹھکانہ دورخ ہے اور وہ بری جگہ ہے
چار تلواریں ؟ کافروں منافقوں سے جہاد کا اور ان پر سختی کا حکم ہوا۔ مومنوں سے جھک کر ملنے کا حکم ہوا۔ کافروں کی اصلی جگہ جہنم مقرر فرما دی۔ پہلے حدیث گذر چکی ہے کہ حضور ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے چار تلواروں کے ساتھ مبعوث فرمایا ایک تلوار تو مشرکوں میں فرماتا ہے (آیت فاذا انسلح الاشھر الحرم فاقتلو المشرکین) حرمت والے مہینوں کے گذرتے ہی مشرکوں کی خوب خبر لو۔ دوسری تلوار اہل کتاب کے کفار میں فرماتا ہے (قاتلوا الذین لایومنون الح،) جو اللہ پر قیامت کے دن ایمان نہیں لاتے اللہ رسول کے حرام کئے ہوئے کو حرام نہیں مانتے۔ دین حق کو قبول نہیں کرتے ان اہل کتاب سے جہاد کرو جب تک کہ وہ ذلت کے ساتھ جھک کر اپنے ہاتھ سے جزیہ دینا منظور نہ کرلیں۔ تیسری تلوار منافقین ہیں۔ ارشاد ہوتا ہے۔ (آیت جاھد الکفار والمنافقین) کافروں اور منافقوں سے جہاد کرو۔ چوتھی تلوار باغیوں میں فرمان ہے (آیت فقاتلو اللتی تبغی حتی تفئی الی امر اللہ) باغیوں سے لڑو جب تک کہ پلٹ کر وہ اللہ کے احکام کی حکم برداری کی طرف نہ آجائیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ منافق جب اپنا نفاق ظاہر کرنے لگیں تو ان سے تلوار سے جہاد کرنا چاہئے۔ امام ابن جریر کا پسندیدہ قول بھی یہی ہے۔ ابن مسعود ؓ فرماتے ہیں ہاتھ سے نہ ہو سکے تو ان کے منہ پر ڈانٹ ڈپٹ سے۔ ابن عباس فرماتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے کافروں سے تلوار کے ساتھ جہاد کرنے کا حکم دیا ہے اور منافقوں کے ساتھ زبانی جہاد کو فرمایا ہے اور یہ کہ ان پر نرمی نہ کی جائے۔ مجاہد کا بھی تقریبا یہی قول ہے۔ ان پر حد شرعی کا جاری کرنا بھی ان سے جہاد کرنا ہے مقصود یہ ہے کہ کبھی تلوار بھی ان کے خلاف اٹھانی پڑے گی ورنہ جب تک کام چلے زبان کافی ہے جیسا موقعہ ہو کرلے۔ قسمیں کھا کھا کر کہتے ہیں کہ انہوں نے ایسی کوئی بات زبان سے نہیں نکالی۔ حالانکہ درحقیقت کفر کا بول بول چکے ہیں اور اپنے ظاہری اسلام کے بعد کھلا کفر کرچکے ہیں۔ یہ آیت عبداللہ بن ابی کے بارے میں اتری ہے ایک جہنی اور ایک انصاری میں لڑائی ہوگئی۔ جہنی شخص انصاری پر چھا گیا تو اس منافق نے انصار کو اس کی مدد پر ابھارا اور کہنے لگا واللہ ہماری اور اس محمد ﷺ کی تو وہی مثال ہے کہ " اپنے کتے کو موٹا تازہ کر کہ وہ تجھے ہی کاٹے " واللہ اگر ہم اب کی مرتبہ مدینے واپس گئے تو ہم ذی عزت لوگ ان تمام کمینے لوگوں کو وہاں سے نکال کر باہر کریں گے۔ ایک مسلمان نے جا کر حضور ﷺ سے یہ گفتگو دہرادی۔ آپ نے اسے بلوا کر اس سے سوال کیا تو یہ قسم کھا کر انکار کر گیا پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ حضرت انس فرماتے ہیں کہ میری قوم کے جو لوگ حرہ کی جنگ میں کام آئے ان پر مجھے بڑی ہی رنج و صدمہ ہو رہا تھا اس کی خبر حضرت زید بن ارقم کی پہنچی تو اس نے مجھے خط میں لکھا کہ رسول اللہ ﷺ سے میں نے سنا ہے آپ دعا کرتے ہیں کہ یا اللہ انصار کو اور انصار کے لڑکوں کو بخش دے۔ نیچے کے راوی ابن الفضل کو اس میں شک ہے کہ آپ نے اپنی اس دعا میں ان کے پوتوں کا نام بھی لیا یا نہیں ؟ پس حضرت انس ؓ نے موجود لوگوں میں سے کسی سے حضرت زید کی نسبت سوال کیا تو اس نے کہا یہی وہ زید ہیں جن کے کانوں کی سنی ہوئی بات کی سچائی کی شہادت خود رب علیم نے دی۔ واقعہ یہ ہے کہ حضور ﷺ خطبہ پڑھ رہے تھے کہ ایک منافق نے کہا اگر یہ سچا ہے تو ہم تو گدھوں سے بھی زیادہ احمق ہیں حضرت زید نے کہا واللہ آنحضرت ﷺ بالکل سچے ہیں اور بیشک تو اپنی حماقت میں گدھے سے بڑھا ہوا ہے۔ پھر آپ نے یہ بات حضور ﷺ کے گوش گذار کی لیکن وہ منافق پلٹ گیا اور صاف انکار کر گیا اور کہا کہ زید نے جھوٹ بولا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری اور حضرت زید کی سچائی بیان فرمائی۔ لیکن مشہور بات یہ ہے کہ یہ واقعہ غزوہ بنی المطلق کا ہے ممکن ہے راوی کو اس آیت کے ذکر میں وہم ہوگیا ہو اور دوسری آیت کے بدلے اسے بیان کردیا ہو۔ یہی حدیث بخاری شریف میں ہے لیکن اس جملے تک کہ زندہ وہ ہیں جن کے کانوں کی سنی ہوئی بات کی سچائی کی شہادت خود رب علیم نے دی۔ ممکن ہے کہ بعد کا حصہ موسیٰ بن عقبہ راوی کا اپنا قول ہو۔ اسی کی ایک روایت میں یہ پچھلا حصہ ابن شہاب کے قول سے مروی ہے واللہ اعلم۔ مغازی اموی میں حضرت کعب بن مالک ؓ کے بیان کردہ تبوک کے واقعہ کے بعد ہے کہ جو منافق موخر چھوڑ دیئے گئے تھے اور جن کے بارے میں قرآن نازل ہوا انمیں سے بعض آنحضرت ﷺ کے ساتھ بھی تھے۔ ان میں جلاس بن عوید بن صامت بھی تھا ان کے گھر میں عمیر بن سعد کی والدہ تھیں جو اپنے ساتھ حضرت عمیر کو بھی لے گئی تھیں جب ان منافقوں کے بارے میں قرآنی آیتیں نازل ہوئیں تو جلاس کہنے لگا کہ واللہ اگر یہ شخص اپنے قول میں سچا ہے تو ہم تو گدھوں سے بھی بدتر ہیں حضرت عمیر بن سعد ؓ یہ سن کر فرمانے لگے کہ یوں تو آپ مجھے سب سے زیادہ محبوب ہیں اور آپ کی تکلیف مجھ پر میری تکلیف سے بھی زیادہ شاق ہے لیکن آپ نے اسوقت تو ایسی بات منہ سے نکالی ہے کہ اگر میں اسے پہنچاؤں تو رسوائی ہے اور نہ پہنچاؤں تو ہلاکت ہے، رسوائی یقینا ہلاکت سے ہلکی چیز ہے۔ یہ کہہ کر یہ بزرگ حاضر حضور ﷺ ہوئے اور ساری بات آپ کو کہہ سنائی۔ جلاس کو جب یہ پتہ چلا تو اس نے سرکار نبوت میں حاضر ہو کر قسمیں کھا کھا کر کہا کہ عمیر جھوٹا ہے میں نے یہ بات ہرگز نہیں کہی۔ اس پر یہ آیت اتری۔ مروی ہے کہ اس کے بعد جلاس نے توبہ کرلی اور درست ہوگئے یہ توبہ کی بات بہت ممکن ہے کہ امام محمد بن اسحاق کی اپنی کہی ہوئی ہو، حضرت کعب کی یہ باتیں نہیں واللہ اعلم۔ اور روایت میں ہے کہ جلاس بن سوید بن صامت اپنے سوتیلے بیٹے حضرت مصعب ؓ کے ساتھ قبا سے آ رہے تھے دونوں گدھوں پر سوار تھے اس وقت جلاس نے یہ کہا تھا اس پر ان کے صاحبزادے نے فرمایا کہ اے دشمن رب میں تیری اس بات کی رسول اللہ ﷺ کو خبر کروں گا فرماتے ہیں کہ مجھے تو ڈر لگ رہا تھا کہ کہیں میرے بارے میں قرآن نہ نازل ہو یا مجھ پر کوئی عذاب الٰہی نہ آجائے یا اس گناہ میں میں بھی اپنے باپ کا شریک نہ کردیا جاؤں چناچہ میں سیدھا حاضر ہوا اور تمام بات حضور ﷺ کو مع اپنے ڈر کے سنا دی۔ ابن جریر میں ابن عباس سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ ایک سائے دار درخت تلے بیٹھے ہوئے فرمانے لگے کہ ابھی تمہارے پاس ایک شخص آئے گا اور تمہیں شیطان دیکھے گا خبردار تم اس سے کلام نہ کرنا اسی وقت ایک انسان کیری آنکھوں والا آیا آپ نے اس سے فرمایا تو اور تیرے ساتھی مجھے گالیاں کیوں دیتے ہو ؟ وہ اسی وقت گیا اور اپنے ساتھیوں کو لے کر آیا سب نے قسمیں کھا کھا کر کہا ہم نے کوئی ایسالفظ نہیں کہا یہاں تک کہ حضور ﷺ نے ان سے درگذر فرما لیا پھر یہ آیت اتری۔ اس میں جو یہ فرمایا گیا ہے کہ انہوں نے وہ قصد کیا جو پورا نہ ہوا مراد اس سے جلاس کا یہ ارادہ ہے کہ اپنے سوتیلے لڑکے کو جس نے حضور ﷺ کی خدمت میں بات کہہ دی تھی قتل کر دے۔ ایک قول ہے کہ عبداللہ بن ابی نے خود حضور ﷺ کے قتل کا ارادہ کیا تھا۔ یہ قول بھی ہے کہ بعض لوگوں نے ارادہ کرلیا تھا کہ اسے سرداربنا دیں گو رسول اللہ ﷺ راضی نہ ہوں۔ یہ بھی مروی ہے کہ دس سے اوپر اوپر آدمیوں نے غزوہ تبوک میں راستے میں حضور ﷺ کو دھوکہ دے کر قتل کرنا چاہا تھا۔ چناچہ حضرت حذیفہ ؓ فرماتے ہیں میں اور حضرت عمار آنحضرت ﷺ کی اونٹنی کے آگے پیچھے تھے ایک چلتا تھا دوسرا نکیل تھامتا تھا ہم عقبہ میں تھے کہ بارہ شخص منہ پر نقاب ڈالے آئے اور اونٹنی کو گھیر لیا حضور ﷺ نے انہیں للکارا اور وہ دم دباکر بھاگ کھڑے ہوئے آپ نے ہم سے فرمایا کیا تم نے انہیں پہچانا ؟ ہم نے کہا نہیں لیکن انکی سواریاں ہماری نگاہوں میں ہیں آپ نے فرمایا یہ منافق تھے اور قیامت تک ان کے دل میں نفاق رہے گا۔ جانتے ہو کہ کس ارادے سے آئے تھے ؟ ہم نے کہا نہیں فرمایا اللہ کے رسول کو عقبہ میں پریشان کرنے اور تکلیف پہنچانے کے لئے۔ ہم نے کہا حضور ﷺ انکی قوم کے لوگوں سے کہلوا دیجئے کہ ہر قوم والے اپنے دشمنوں سے لڑے ان پر فتح حاصل کرکے پھر اپنے ان ساتھیوں کو بھی قتل کر ڈالا۔ آپ نے ان کے لئے بددعا کی کہ یا اللہ ان کے دلوں پر آتشیں پھوڑے پیدا کر دے۔ اور روایت میں ہے کہ غزوہ تبوک سے واپسی میں حضور ﷺ نے اعلان کرا دیا کہ میں عقبہ کے راستے میں جاؤں گا۔ اسکی راہ کوئی نہ آئے حضرت حذیفہ ؓ آپ کی اونٹنی کی نکیل تھامے ہوئے تھے اور حضرت عمار ؓ پیچھے سے چلا رہے تھے کہ ایک جماعت اپنی اونٹنیوں پر سوار آگئی حضرت عمار ؓ نے ان کی سواریوں کو مارنا شروع کیا اور حضرت حذیفہ ؓ نے حضور ﷺ کے فرمان سے آپ کی سواری کو نیچے کی طرف چلانا شروع کردیا جب نیچے میدان آگیا آپ سواری سے اتر آئے اتنے میں عمار ؓ بھی واپس پہنچ گئے۔ آپ نے دریافت فرمایا کہ یہ لوگ کون تھے پہچان بھی ؟ حضرت عمار ؓ نے کہا منہ تو چھپے ہوئے تھے لیکن سواریاں معلوم ہیں پوچھا انکا ارادہ کیا تھا جانتے ہو ؟ جواب دیا کہ نہیں آپ نے فرمایا انہوں نے چاہا تھا کہ شور کر کے ہماری اونٹنی کو بھڑکا دیں اور ہمیں گرا دیں۔ ایک شخص سے حضرت عمار ؓ نے انکی تعداد دریافت کی تو اسنے کہا چودہ۔ آپ نے فرمایا اگر تو بھی ان میں تھا تو پندرہ۔ حضور ﷺ نے ان میں سے تین شخصوں کے نام گنوائے انہوں نے کہا واللہ ہم نے تو منادی کی ندا سنی اور نہ ہمیں اپنے ساتھیوں کے کسی بد ارادے کا علم تھا۔ حضرت عمار ؓ فرماتے ہیں کہ باقی کے بارہ لوگ اللہ رسول سے لڑائی کرنے والے ہیں دنیا میں اور آخرت میں بھی۔ امام محمد بن اسحاق نے ان میں سے بہت سے لوگوں کے نام بھی گنوائے ہیں واللہ اعلم۔ صحیح مسلم میں ہے کہ اہل عقبہ میں سے ایک شخص کے ساتھ حضرت عمار ؓ کا کچھ تعلق تھا تو اس کو آپ نے قسم دے کر اصحاب عقبہ کی گنتی دریافت کی لوگوں نے بھی اس سے کہا کہ ہاں بتادو اس نے کہا کہ ہمیں معلوم ہے کہ وہ چودہ تھے اگر مجھے بھی شامل کیا جائے تو پندرہ ہوئے۔ ان میں سے بارہ تو دشمن اللہ اور رسول ﷺ ہی تھے اور تین شخصوں کی قسم پر کہ نہ ہم نے منادی کی نہ ندا سنی نہ ہمیں جانے والوں کے ارادے کا علم تھا اس لئے معذور رکھا گیا۔ گرمی کا موسم تھا پانی بہت کم تھا آپ نے فرما دیا تھا کہ مجھ سے پہلے وہاں کوئی نہ پہنچے لیکن اس پر بھی کچھ لوگ پہنچ گئے تھے آپ نے ان پر لعنت کی آپ کا فرمان ہے کہ میرے ساتھیوں میں بارہ منافق ہیں جو نہ جنت میں جائیں گے نہ اس کی خوشبو پائیں گے آٹھ کے کندھوں پر تو آتشی پھوڑا ہوگا جو سینے تک پہنچے گا اور انہیں ہلاک کر دے گا۔ اسی باعث حضرت حذیفہ ؓ کو رسول اللہ ﷺ کا راز دار کہا جاتا تھا آپ نے صرف انہی کو ان منافقوں کے نام بتائے تھے واللہ اعلم۔ طبرانی میں ان کے نام یہ ہیں معتب بن قشیر ودیعہ بن ثابت جدین بن عبداللہ بن نبیل بن حارث جو عمرو بن عوف کے قبیلے کا تھا اور حارث بن یزید، طائی اوس بن قیطی، حارث بن سوید، سفیہ بن دراہ، قیس بن فہر، سوید، داعن قبیلہ بنو جعلی کے، قیس بن عمرو بن سہل، زید بن لصیت اور سلالہ بن ہمام یہ دونوں قبیلہ بنو قینقاع کے ہیں یہ سب بظاہر مسلمان بنے ہوئے تھے۔ اس آیت میں اس کے بعد فرمایا گیا ہے کہ انہوں نے اسی بات کا بدلہ لیا ہے کہ انہیں اللہ نے اپنے فضل سے اپنے رسول کے ہاتھوں مالدار بنایا۔ اگر ان پر اللہ کا پورا فضل ہوجاتا تو انہیں ہدایت بھی نصیب ہوجاتی جیسے کہ حضور ﷺ نے انصار سے فرمایا کیا میں نے تمہیں گمراہی کی حالت میں نہیں پایا تھا کہ پھر اللہ نے میری وجہ سے تمہاری رہبری کی تم متفرق تھے اللہ تعالیٰ نے میری وجہ سے تم میں الفت ڈال دی۔ تم فقیر بےنوا تھے اللہ نے میرے سبب سے تمہیں غنی اور مالدار کردیا۔ ہر سوال کے جواب میں انصار ؓ فرماتے جاتے تھے کہ بیشک اللہ کا اور اس کے رسول ﷺ کا اس سے زیادہ احسان ہے۔ الغرض بیان یہ ہے کہ بےقصور ہونے کے بدلے یہ لوگ دشمنی اور بےایمانی پر اتر آئے۔ جیسے سورة بروج میں ہے کہ ان مسلمانوں میں سے ایک کافروں کا انتقام صرف ان کے ایمان کے باعث تھا۔ حدیث میں ہے کہ ابن جمیل صرف اس بات کا انتقام لیتا ہے کہ وہ فقیر تھا اللہ نے اسے غنی کردیا۔ پھر فرماتا ہے کہ اگر یہ اب بھی توبہ کرلیں تو ان کے حق میں بہتر ہے اور اگر وہ اپنے اسی طریقہ پر کاربند رہے تو انہیں دنیا میں بھی سخت سزا ہوگی قتل، صدمہ و غم اور دوزخ کے ذلیل و پست کرنے والے ناقابل برداشت عذاب کی سزا بھی۔ دنیا میں کوئی نہ ہوگا جو ان کی طرف داری کرے ان کی مدد کرے ان کے کام آئے ان سے برائی ہٹائے یا انہیں نفع پہنچائے یہ بےیارو مددگار رہ جائیں گے۔
Top