Tafseer-e-Jalalain - Yunus : 11
وَ لَوْ یُعَجِّلُ اللّٰهُ لِلنَّاسِ الشَّرَّ اسْتِعْجَالَهُمْ بِالْخَیْرِ لَقُضِیَ اِلَیْهِمْ اَجَلُهُمْ١ؕ فَنَذَرُ الَّذِیْنَ لَا یَرْجُوْنَ لِقَآءَنَا فِیْ طُغْیَانِهِمْ یَعْمَهُوْنَ
وَلَوْ : اور اگر يُعَجِّلُ : جلد بھیجدیتا اللّٰهُ : اللہ لِلنَّاسِ : لوگوں کو الشَّرَّ : برائی اسْتِعْجَالَھُمْ : جلد چاہتے ہیں بِالْخَيْرِ : بھلائی لَقُضِيَ : تو پھر ہوچکی ہوتی اِلَيْهِمْ : ان کی طرف اَجَلُھُمْ : ان کی عمر کی میعاد فَنَذَرُ : پس ہم چھوڑ دیتے ہیں الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو لَا يَرْجُوْنَ : وہ امید نہیں رکھتے لِقَآءَنَا : ہماری ملاقات فِيْ : میں طُغْيَانِهِمْ : ان کی سرکشی يَعْمَهُوْنَ : وہ بہکتے ہیں
اور اگر خدا لوگوں کی برائی میں جلدی کرتا جس طرح وہ طلب خیر میں جلدی کرتے ہیں تو ان کی (عمر کی) میعاد پوری ہوچکی ہوتی۔ سو جن لوگوں کو ہم سے ملنے کو توقع نہیں انہیں ہم چھوڑے رکھتے ہیں کہ اپنی سرکشی میں بہکتے رہیں۔
آیت نمبر 11 تا 20 ترجمہ : اور (آئندہ) آیت اس وقت نازل ہوئی جبکہ مشرکین نے عذاب کے جلد آنیکا مطالبہ کیا، اور اگر اللہ لوگوں کیلئے شر کے معاملہ میں جلدی کرتا جیسا کہ یہ خیر کے معاملہ میں جلدی کرتے ہیں تو ان کا وعدہ پورا کردیا گیا ہوتا قُضِیَ مجھول اور معروف دونوں طرح پڑھا گیا ہے، (اَجَلُھُمْ ) رفع اور نصب کے ساتھ ہے بایں صورت کہ ان کو ہلاک کردیا گیا ہوتا، لیکن وہ ان کی مہلت دیتا ہے سو ہم ان کو جن کو ہمارے پاس آنے کی توقع نہیں ہے ان کی سرکشی میں بھٹکتا ہوا چھوڑے رہتے ہیں، (یعنی) تردد کے ساتھ حیران رہتے ہیں، اور جب کافر انسان کو مرض اور فقر وغیرہ کی تکلیف پہنچتی ہے تو ہم کو پکارنے لگتا ہے، لیٹے بھی بیٹھے بھی، کھڑے بھی، یعنی ہرحال میں، پھر جب ہم اس کی وہ تکلیف ہٹا دیتے ہیں، تو پھر اپنے کفر کی سابقہ حالت پر آجاتا ہے گویا کہ جو تکلیف اس کو پہنچی تھی اس کو ہٹانے کیلئے کبھی ہم کو پکارا ہی نہیں تھا (کان) مخففہ ہے اور اس کا اسم محذوف ہے کانَّہ، جس طرح کہ ان کیلئے بوقت تکلیف ہم سے دعاء کرنا اور بوقت خوشحالی اعراض کرنا خوشنما بنادیا گیا ہے اسی طرح مشرکوں کے اعمال کو ان کیلئے خوشنما بنادیا گیا ہے اے مکہ والوں بلاشبہ ہم نے تم سے پہلے بہت سی امتوں کو ہلاک کردیا ہے جبکہ انہوں نے شرک کرکے ظلم کیا، حالانکہ ان کے پاس ان کی پیغمبر اپنی سچائی پر دلائل لے کر آئے تھے اور وہ ایسے کہاں تھے کہ ایمان لے آتے ؟ اس کا عطف ظلموا پر ہے، جس طرح ہم نے ان لوگوں کو ہلاک کیا اسی طرح ہم کافروں مجرموں کو سزا دیتے ہیں اسے مکہ والو اب ان کے بعد ہم نے تم کو ان کی جگہ زمین میں جگہ دی ہے (خلٰئفَ ) خلیفۃ کی جمع ہے تاکہ ہم دیکھیں تم اس میں کیسے عمل کرتے ہو ؟ آیا تم ان سے عبرت حاصل کرتے ہو کہ ہمارے رسولوں کی تصدیق کرو، جب انھیں ہماری صاف صاف قرآنی باتیں سنائی جاتی ہیں بیناتٍ حال ہے، تو وہ لوگ جو ہم سے ملنے کی توقع نہیں رکھتے یعنی بعث کا خوف نہیں رکھتے کہتے ہیں اس کے بجائے کوئی اور قرآن لاؤ جس میں ہمارے معبودوں کی عیب جوئی نہ ہو یا اسی میں اپنی طرف سے کچھ ترمیم کردو (اے محمد) ان سے کہہ دو میرا یہ کام نہیں کہ میں اس میں اپنی طرف سے کچھ تغیر تبدل کروں میں تو صرف اس وغی کی پیروی کرتا ہوں جو میرے پاس بھیجی جاتی ہے، اگر میں اس میں ترمیم کرکے اپنے رب کی نافرمانی کروں تو مجھے ایک بڑے دن کے عذاب کا خوف ہے کہ وہ قیامت کا دن ہے، اور کہہ دو کہ اگر اللہ کی مشئیت یہی ہوتی تو میں تمہیں یہ قرآن کبھی نہ سناتا اور اللہ تم کو اس کی خبر تک نہ دیتا، اور لا نافیہ ہے اپنے ماقبل (یعنی لوشاء اللہ ماتلوتہ الخ) پر عطف ہے اور ایک قراءت میں لام کے ساتھ ہے جو اب لَوْ واقع ہونے کی وجہ سے یعنی میرے علاوہ کسی اور کی زبانی تم کو بتادیتا، آخر میں اس (قرآن کے نزول) سے پہلے تمہارے درمیان ایک عمر یعنی چالیس سال گزار چکا ہوں کہ میں نے تم سے (اپنی طرف سے) کوئی چیز بیان نہیں کی، کیا تم پھر بھی نہیں سمجھتے کہ یہ (قرآن) میری طرف سے نہیں ہے، پھر اس سے بڑا ظالم کون ہوگا ؟ کوئی نہیں، جس نے اللہ پر اس کی طرف شرک کی نسبت کرکے جھوٹا بہتان لگایا اس کی آیات یعنی قرآن کو جھٹلایا یقیناً شان یہ ہے کہ مجرم (مشرک) کبھی فلاح نہیں پاسکتے یہ لوگ اللہ کے سوا دوسروں کی بندگی کر رہے ہیں جو کہ نہ ان کو نقصان پہنچا سکتے ہیں اگر یہ ان کی بندگی نہ کریں، اور نہ ان کو کوئی فائدہ پہنچا سکتے ہیں اگر یہ ان کی بندگی کریں، اور وہ بت ہیں، اور ان بتوں کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ بت اللہ کے نزدیک ہمارے سفارشی ہیں (اے محمد) تم ان سے کہو کیا تم اللہ کو اس کی خبر دیتے ہو کہ اسے آسمانوں میں جانتا ہے اور نہ زمین میں استفہام انکاری ہے یعنی اگر اس کا کوئی شریک ہوتا تو وہ اس کو ضرور جانتا اسلئے کہ اس سے کوئی شئ پوشیدہ نہیں ہے وہ پاک ہے اور اس سے برتر ہے جس کو یہ اس کا شریک ٹھہراتے ہیں (ابتداء) سارے لوگ ایک ہی امت تھے، یعنی ایک ہی دین پر تھے اور وہ اسلام ہے، آدم (علیہ السلام) سے لے کر نوح (علیہ السلام) تک اور کہا گیا ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) کے زمانہ سے لیکر عمر و بن لحی کے زمانہ تک، بعد میں انہوں نے اختلاف کیا بایں طور کہ بعض اسلام پر ثابت قدم رہے اور بعض نے انکار کردیا، اگر تیرے رب کی طرف سے ایک بات کا (یعنی) قیامت تک تاخیر عذاب کا فیصلہ کرلیا گیا ہوتا تو لوگوں کے درمیان دنیا ہی میں کافروں کو عذاب کا فیصلہ کردیا گیا ہوتا جس دین کے بارے میں اختلاف کر رہے ہیں، اور اہل مکہ کہتے ہیں محمد پر اس کے رب کی طرف سے کوئی نشانی کیوں نہیں اتاری گئی ؟ جیسی کہ انبیاء سابقین پر اتاری گئی تھی، کہ وہ اونٹنی، عصا اور یدبیضاء میں، تو ان سے کہو کہ غیب کا یعنی جو چیز بندوں سے غائب ہے یعنی اللہ کا حکم، مالک و مختار تو صرف اللہ ہی ہے ان (نشانیوں کو) صرف وہی لاسکتا ہے میرے ذمہ تو صرف تبلیغ ہے اگر تم ایمان نہیں لاتے تو عذاب کا انتظار کرو، میں بھی تمہارا انتظار کرتا ہوں۔ تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد قولہ : ای کاسْتِعْجَالِھِمْ ۔ سوال : استعجالھم کی تفسیر کاستعجالھم سے کاف کے اضافہ کے ساتھ کرنے کا کیا فائدہ ؟ جواب : استعجال بالخیر بعینہٖ استعجال بالشر نہیں ہے، حرف تشبیہ کاف کا اگر اضافہ نہ کیا جائے تو دونوں کا ایک ہونا لازم آتا ہے اسی فرق کو واضح کرنے کیلئے استعجالھم کی تفسیر کا ستعجالھم سے کی اس سے یہ بھی معلوم ہوگیا استعجالھم، منصوب بنزع الخافض ہے۔ قولہ : بالرفع والنصب رفع قُضِیَ کا نائب فاعل ہونے کی وجہ سے اور نصب قضیٰ کے معروف ہونے کی صورت میں مفعول ہونے کی وجہ سے، اس صورت میں فاعل اللہ ہوگا۔ قولہ : یُمھلھم۔ سوال : یُمھِلُھُمْ ، کو محذوف ماننے کی کیا ضرورت پیش آئی ؟ جواب : فَنَذَرُ ، میں فاء عاطفہ ہے اس کو معطوف علیہ کی ضرورت ہے حالانکہ اس کا معطوف علیہ ما سبق میں مذکور نہیں ہے اور نہ اس کا عطف قُضِی پر صحیح ہے نہ لفظاً اور معناً ، لفظاً اس وجہ سے کہ لَقضِیَ جواب لو ہونے کی وجہ سے مجزوم ہے اگر فَنَدرُ کا عطف لَقُضِیَ پر ہو تو فَنَذَر مجزوم ہونا چاہیے حالانکہ مجزوم نہیں ہے معنی کے اعتبار سے عطف درست نہ ہونا فساد معنی کی وجہ سے ظاہر ہے، لہٰذا فَنَذَرُ کا عطف اس نفی پر ہوگا جو لَوْ شرطیہ سے مفہوم ہے اسلئے کہ لَوْ یُعَجِّل، نفی تعجیل کے معنی کو متضمن ہے اسی نفی تعجیل کے مفہوم بیان کرنے کیلئے مفسر علام نے ولکن یمھلھم کا اضافہ فرمایا ہے، خلاصہ یہ ہوا کہ فَنَذَر کا عطف یمھلھم محذود پر ہے نہ کہ فَقُضِیَ پر۔ قولہ : وَقد جاءتھم۔ سوال : وَجَاء تْھُمْ ظَلَموا سے حال ہے حالانکہ ماضی بغیر قد کے حال واقع نہیں ہوسکتا۔ جواب : اسی اعتراض کو دفع کرنے کے لئے مفسر علام نے قَدْ محذوف مانا ہے۔ قولہ : حالٌ یعنی بَیّنٰتٍ ، اٰیتُناَ سے حال ہے نہ کہ صفت اس لئے کہ آیتنا اضافت کی وجہ سے معرفہ ہے اور بیّنٰت نکرہ ہے حالانکہ موصوف و صفت میں مطابقت ضروری ہوتی ہے۔ قولہ : وفی قراء ۃٍ بلام یعنی لا ادراکم کے بجائے لَاَدْرَاکم ہے یعنی لام تاکید کے ساتھ۔ قولہ : جواب لَوْ ، یعنی جواب لَوْ پر عطف ہے جو مَاتَتْلُونَہٗ ہے۔ تفسیر و تشریح آیت کے دو مفہوم : وَلَوْ یُعَجّلُ اللہ للناس الشرَّ (الآیۃ) اس آیت کے دو مفہوم ہیں ایک یہ کہ انسان جس طرح خیر کے طلب کرنے میں جلدی کرتا ہے اسی طرح وہ شر (عذاب) کے طلب کرنے میں بھی جلدی مچاتا ہے گویا کہ یہ اس کی فطرت جلد بازی کا اثر ہے اسی جلد بازی کا نتیجہ ہے کہ اللہ کے نبی سے کہتا ہے کہ اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو تو وہ عذاب لے آؤ جس سے تم ہم کو ڈراتے ہو، ولَوْ یُعَجِّلُ اللہ للناس میں اگرچہ عام انسانوں کی یہ فطرت بیان کی گئی ہے مگر مراد یہاں منکرین بعث ہیں جب ان کو عذاب آخرت سے ڈرایا جاتا تھا تو وہ کہا کرتے تھے کہ وہ عذاب جس سے تم ڈراتے ہو کہاں ہے ؟ اگر سچے ہو تو وہ عذاب جلدی لے آؤ جیسا کہ قرطبی نے اپنی تفسیر میں ابن اسحٰق سے اور مقاتل نے اپنی تفسیر میں نقل فرمایا ہے کہ یہ قول نضر بن الحارث کا ہے کہ اس نے ایک موقع پر کہا تھا ” اللّٰھُمَّ ان کان ھذا ھو الحق مِنْ عندکَ فامطر عَلَیْنَا حجارۃً مِنَ السماءِ “ یا اللہ اگر یہ بات (نزول قرآن کی) سچی ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا دے، مذکورہ آیت میں اسی کا جواب دیا گیا ہے، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اگر ہم ان کے مطالبے کے مطابق جلدی عذاب بھیج دیتے تو یہ کبھی کے موت و ہلاکت سے دو چار ہوگئے ہوتے لیکن ہم مہلت دیکر انھیں پورا موقع دیتے ہیں کہ اب بھی اپنی سرکشی سے باز آجائیں، مگر یہ اپنی روش بدلنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ یہ امر واقعہ ہے کہ ابھی کچھ ہی مدت پہلے کا وہ مسلسل اور سخت بلا خیز قحط ختم ہوا تھا جس کی مصیبت سے اہل مکہ چیخ اٹھے تھے، اس قحط کے زمانے میں قریش کے متکبروں کی اکڑی ہوئی گردنیں کافی حد تک ڈھیلی پڑگئی تھیں بت پرستی میں بھی کمی آگئی تھی خدائے واحد کی طرف رجوع بھی بڑھ گیا تھا نوبت یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ آخر کار ابو سفیان نے آکر نبی ﷺ سے درخواست کی کہ آپ خدا سے اس بلا کو ٹالنے کے لئے دعاء فرمائیں آپ ﷺ نے دعاء فرمائی اور جب قحط ختم ہوگیا، بارش ہونے لگی اور خوشحالی کا دور دورہ شروع ہوگیا، تو ان لوگوں کی وہی سرکشیاں اور بداعمالیاں اور دین حق کے خلاف وہی سابقہ سرگر میاں پھر شروع ہوگئیں، جو دل خدا کی طرف رجوع ہونے لگے تھے وہ اپنی سابقہ غفلتوں میں پھر ڈوب گئے۔ آیت کا دوسرا مفہوم : دوسرا مفہوم یہ ہے کہ جس طرح انسان اپنے لئے خیر اور بھلائی کی دعائیں مانگتا ہے جنہیں ہم قبول کرتے ہیں اسی طرح انسان جب غصے یا تنگی میں ہوتا ہے تو اپنے لئے اور اپنی اولاد کے لئے اور اپنے مال وغیرہ کے لئے بددعائیں کرتا ہے جنہیں ہم اس لئے نظر انداز کردیتے ہیں کہ یہ زبان سے ہلاکت مانگ رہا ہے مگر دل میں اس کے ایسا ارادہ نہیں ہے، لیکن اگر ہم انسانوں کی بددعاؤں کے مطابق انھیں فوراً ہلاکت سے دوچار کرنا شروع کردیں تو پھر جلدی ہی یہ لوگ موت اور تباہی سے ہمکنار ہوجایا کریں اسی لئے حدیث شریف میں آتا ہے کہ تم اپنے لئے، اپنی اولاد کیلئے اور اپنے مال و کاروبار کیلئے بددعاء مت کیا کرو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہاری بددعائیں اس گھڑی کو پالیں جس میں اللہ کی طرف سے دعاء قبول کی جاتی ہے پس وہ تمہاری بددعاء قبول فرما لے۔ (سنن ابی داؤد کتاب الوتر، مسلم کتاب الزھد) وَاِذَا مسَّ الانسانَ الضُرُّ دعانَا، (الآیۃ) اس آیت میں منکرین توحید و آخرت بلکہ انسان کی اس حالت کا تذکرہ ہے جو انسان کی اکثریت کس شیوہ ہے بلکہ بہت سے اللہ کے ماننے والے بھی اس کوتاہی کا عام ارتکاب کرتے ہیں، مصیبت کے وقت تو خوب اللہ اللہ ہوتی ہے دعائیں کی جاتی ہیں نمازوں کی پابندی بھی ہوتی ہے مسجدیں خوب آبار نظر آتی ہیں لیکن جب اللہ تعالیٰ صمیبت کا وہ سخت وقت اپنی رحمت سے نکال دیتا ہے تو پھر انسان بارگاہِ الہیٰ میں دعاء و تضرع تو کجا فرائض سے بھی غافل ہوجاتا ہے۔ وَلَقَدْ اَھْلکنَا القرونَ الاولیٰ مِنْ قبلکم (الآیۃ) اس آیت میں کفار مکہ کو تنبیہ کی جا رہی ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی ڈھیل سے یہ نہ سمجھنا کہ دنیا میں عذاب آہی نہیں سکتا پہلی بہت سی امتوں کو ان ہی اسباب کی وجہ سے جو تم میں بدرجہ اتم موجود ہیں ہلاک کیا جاچکا ہے، ایسا نہ ہو کہ کہیں تم بھی پہلی امتوں کی طرح ہلاکت سے دو چار ہوجاؤ۔ قوموں کی ہلاکت کی دوسری صورت : قرآن کریم میں ” قرون “ کا لفظ استعمال ہوا ہے قرون قرن کی جمع ہے جس سے عربی زبان میں عام طور پر ایک عہد کے لوگ مراد ہوتے ہیں، لیکن قرآن نے جس انداز سے مختلف قوموں پر اس لفظ کا استعمال کیا ہے اس سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ قرن سے مراد وہ قوم ہے جو اپنے دور میں برسر عروج اور کلّی یا جزوی طور پر امامتِ عالم پر سرفراز رہی ہو ایسی قوم کی ہلاکت کے لازماً یہی معنی نہیں کہ اس کی نسل کو بالکل غارت ہی کردیا جائے، بلکہ اس کو مقام عروج و امامت سے گرا دیا جانا، اس کی تہذیب و تمدن کا تباہ ہوجانا، اس کے تشخص کا مٹ جانا اور اس کے اجزاء کا پارہ پارہ ہوجانا، یہ بھی ہلاکت ہی کی ایک صورت ہے ثم جَعَلْنا کم خَلٰئِفَ فی الارض، اس آیت میں خطاب خاص طور پر اہل مکہ کو اور عام طور پر اہل عرب کو ہے ان سے یہ کہا جا رہا ہے کہ پچھلی قوموں کو اپنے اپنے زمانہ میں کام کرنے اور اپنی اصلاح کرنے کا موقع دیا گیا تھا مگر انہوں نے نہ اپنی اصلاح کی طرف توجہ کی اور نہ کار مفوضہ کو انجام دیا بلکہ بغاوت و سرکشی کی روش اختیار کی، اور جو انبیاء (علیہم السلام) ہم نے ان کو راہ راست دکھانے کیلئے بھیجے تھے ان کی بھی ایک نہ سنی آخر کار وہ امتحان میں ناکام ہوئے اور انھیں میدان سے ہٹا دیا گیا، اے اہل مکہ ! اور اہل عرب ! اب تمہاری باری آئی ہے تمہیں ان کی جگہ کام کرنے کا موقع دیا جاتا ہے تم اسی امتحان گاہ میں کھڑے ہو جس سے تمہارے پیش رو نام کام ہونے کی وجہ سے نکالے جا چکے ہیں اگر تم نہیں چاہتے کہ تمہارا بھی انجام وہی ہو جو ان کا ہوا تو اس موقع سے جو تم کو دیا گیا ہے صحیح فائدہ اٹھاؤ، پچھلی قوموں کی تاریخ سے سبق لو اور ان غلطیوں کا اعادہ نہ کرو جو ان کی تباہی و ہلاکت کی موجب ہوئیں۔ مشرکین مکہ کی ناروا فرمائش اور اس کی تردید : واِذَا تتلی عَلَیْھم آیاتنا بینٰتٍ (الآیۃ) ان چار آیتوں میں مشرکین کی ناروا فرمائش کی تردید ہے مشرکین مکہ کی ناروا فرمائش یہ تھی کہ یہ قرآن تو ہمارے عقائد و نظریات کے خلاف ہے جن بتوں کی ہمارے باپ دادا ہمیشہ تعظیم کرتے آئے ہیں اور ان کو حاجت روا مانتے آئے ہیں قرآن ان سب کو باطل اور لغو قرار دیتا ہے اور بہت سی چیزیں جنہیں ہم استعمال کرتے چلے آئے ہیں قرآن ان سب کو حرام قرار دیتا ہے اور قرآن کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونا ہے اور حساب کتاب دینا ہوگا، یہ سب چیزیں ہماری سمجھ میں نہیں آتیں ان کو ہم ماننے کیلئے تیار نہیں ہیں اس لئے آپ یا تو ایسا کریں کہ اس قرآن کے بجائے کوئی دوسرا قرآن بنادیں جس میں یہ چیزیں نہ ہوں یا کم از کم اسی میں ترمیم کرکے ان چیزوں کا نکال دیں، مشرکین مکہ کا یہ خیال اول تو اس مفروضہ پر مبنی تھا کہ محمد ﷺ جو کچھ پیش کر رہے ہیں یہ خدا کی طرف سے نہیں ہے بلکہ ان کے اپنے دماغ کی تصنیف ہے اس کو خدا کی طرف منسوب کرکے صرف اس لئے پیش کیا ہے کہ ان کی بات کا وزن بڑھ جائے۔ قُلْ ما یکون لِیْ أنْ اُبَدِّلَہٗ ، یہ مذکورہ دونوں باتوں کا جواب ہے اس میں یہ بات صاف کردی گئی کہ اس کتاب کا مصنف میں نہیں ہوں بلکہ یہ تو وحی کے ذریعہ میرے پاس آئی ہے جس میں کسی ردو بدل کا مجھے اختیار نہیں اور نہ اس معاملہ میں مصالحت کا قطعاً کوئی امکان ہے، قبول کرنا ہو تو اس پورے دین کو قبول کرو ورنہ پورے کو رد کردو۔ قُل لَوْ شاء اللہ ما تَلَوْتُہ علیکم ولا ادراکم بہ، یعنی سارا معاملہ اللہ کی مشیت پر موقوف ہے وہ چاہتا تو میں نہ تمہیں پڑھ کر سنا تا نہ تمہیں اس کی کوئی اطلاع ہی ہوتی، بعض حضرات نے ” ما اددراکم بہ “ کے معنی کئے ہیں اَعْلمکم بہ علی لسانی، کہ وہ تم کو میری زبانی اس قرآن کی بات کچھ نہ بتلاتا، میری کیا طاقت کہ میں اپنی طرف سے کلام بنا کر پیش کروں اور کہہ دوں کہ یہ اللہ کا کلام ہے، آخر میری عمر کے چالیس سال تمہارے درمیان گزرے ہیں، اس قدر طویل مدت میں تمہیں میرے حالات سے متعلق ہر قسم کا تجربہ ہوچکا ہے میری دیانت اور صدق و عفات تم میں ضرب المثل ہے، میرا امی ہونا اور کسی ظاہری معلم کے سامنے زانوئے ادب تہ نہ کرنا ایک معروف و مسلم واقعہ ہے پھر چالیس سال تک جس نے نہ کوئی قصیدہ لکھا ہو اور نہ شاعروں میں شریک ہوا ہو نہ کبھی کتاب کھولی ہو اور نہ کبھی قلم ہاتھ میں پکڑا ہو اور نہ کسی درسگاہ میں بیٹھا ہو دفعۃً ایسا کلام بنا لائے جو اپنی فصاحت و بلاغت، شوکت و جزالت، جدّت اسلوب اور سلاست و روانی سے جن و انس کو عاجز کر دے یہ بات کسی کی سمجھ میں آسکتی ہے ؟ تم کو سوچنا چاہیے کہ جس پاک سرشت انسان نے چالیس سال تک کسی انسان پر جھوٹ نہ لگایا ہو وہ ایک دم ایسی جسارت کرسکتا ہے کہ معاذ اللہ خداوند قدوس پر جھوٹ باندھے ناچار ماننا پڑے گا جو کلام الہیٰ کو سنایا جا رہا ہے یہ خدائی کلام ہے اور کسی کو یہ اختیار نہیں کہ اسکے ایک زیر یا زبر کو بھی تبدیل کرسکے۔ وَیقولونَ لَوْلا انزلَ علیہ آیۃٌ من رّبہٖ ، اس سے مراد کوئی بڑا اور واضح معجزہ ہے، جیسے قوم ثمود کے لئے اونٹنی کا ظہور ہوا، ان کیلئے صفا پہاڑی کو سونے کا یا مکہ کے پہاڑوں کو ختم کرکے ان کی جگہ نہریں اور باغات بنانے کا یا اور کوئی اس قسم کا معجزہ صادر کرکے دکھلایا جائے، خدا تعالیٰ کو اس بات پر قدرت حاصل ہے کہ ان کی خواہشات کے مطابق معجزہ ظاہر فرما دے لیکن اس کے بعد بھی اگر وہ ایمان نہ لائے تو اللہ کا قانون یہ ہے کہ ایسی قوم کو فوراً ہلاک کردیتا ہے اس لئے اس بات کا علم صرف اسی کو ہے کہ ان کے مطلوبہ معجزے اگر ان کو دکھائے گئے تو انھیں کتنی مہلت دی جائے گی ؟ اسی لئے آگت فرمایا تم بھی انتظار کرو میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرنے والوں میں سے ہوں۔ دراصل یہ منکرین کی مریض ذہنیت کا بیان ہے کہ ان کو تسلی تو کسی معجزے یا کسی نشانی یا کسی آیت سے نہیں ہوتی اور ان کو تسلی مقصود نہیں بلکہ ہر اعجازی واقعہ کی کوئی نہ کوئی مادی توجیہ و تاویل کرلیتے ہیں اور فوراً ہی دوسرے معجزے کی فرمائش کردیتے ہیں۔
Top