Tafseer-e-Jalalain - Yunus : 41
وَ اِنْ كَذَّبُوْكَ فَقُلْ لِّیْ عَمَلِیْ وَ لَكُمْ عَمَلُكُمْ١ۚ اَنْتُمْ بَرِیْٓئُوْنَ مِمَّاۤ اَعْمَلُ وَ اَنَا بَرِیْٓءٌ مِّمَّا تَعْمَلُوْنَ
وَاِنْ : اور اگر كَذَّبُوْكَ : وہ آپ کو جھٹلائیں فَقُلْ : تو کہ دیں لِّيْ : میرے لیے عَمَلِيْ : میرے عمل وَلَكُمْ : اور تمہارے لیے عَمَلُكُمْ : تمہارے عمل اَنْتُمْ : تم بَرِيْٓئُوْنَ : جواب دہ نہیں مِمَّآ : اس کے جو اَعْمَلُ : میں کرتا ہوں وَاَنَا : اور میں بَرِيْٓءٌ : جواب دہ نہیں مِّمَّا : اس کا جو تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے ہو
اور اگر یہ تمہاری تکذیب کریں تو کہہ دو کہ مجھ کو میرے اعمال (کا بدلہ ملے گا) اور تم کو تمہارے اعمال (کا) تم میرے عملوں کے جوابدہ نہیں ہو اور میں تمہارے عملوں کا جوابدہ نہیں ہوں۔
آیت نمبر 41 تا 53 ترجمہ : اگر یہ تجھے جھٹلا رہے ہیں تو ان سے کہہ دیں کہ میرا عمل میرے لئے ہے اور تمہارا عمل تمہارے لئے ہے یعنی ہر شخص کو اسی کے عمل کی جزاء ہے، جو کچھ میں کرتا ہوں اس کی ذمہ داری سے تم بری اور جو کچھ تم کر رہے ہو اس کی ذمہ داری سے میں بری اور یہ آیت سیف کے ذریعہ منسوخ ہے، اور ان میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جو تیری بات سنتے ہیں جن تو قرآن پڑھتا ہے، مگر کیا تو بہروں کو سنائیگا کفار کو قرآن سے فائدہ نہ اٹھانے میں بہروں کے ساتھ تشبیہ دی ہے خواہ وہ بہرے ہونے کے ساتھ کچھ سمجھتے بھی نہ ہوں (یعنی) غور و فکر نہ کرتے ہوں، اور ان میں بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو آپ کو دیکھتے ہیں تو پھر کیا آپ اندھوں کو راستہ دکھلانا چاہتے ہیں گو ان کو بصیرت بھی نہ ہو، ان (کفار) کو اندھوں کے ساتھ عدم ہدایت میں تشبیہ دی ہے، بلکہ یہ ان سے بھی بڑھ کر ہیں اسلئے کہ یہ آنکھوں کے اندھے نہیں ہیں، بلکہ دل کے اندھے ہیں جو کہ ان کے سینوں میں ہے، یہ یقینی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ لوگوں پر کچھ بھی ظلم نہیں کرتا لیکن وہ خود ہی اپنے آپ کو تباہ کرتے ہیں، (ان کو وہ دن یاد دلاؤ) کہ جس دن اللہ ان کو اس کیفیت سے جمع کرے گا (کہ وہ منظر کی ہولناکی کی وجہ سے سمجھیں گے) کہ گویا وہ دنیا میں یا قبروں میں دن کی ایک گھڑی ہی رہے ہیں، اور جملہ تشبیہ (یحشرھم) کی ضمیر مفعول سے حال ہے، آپس میں ایک دوسرے کو پہچانیں گے جبکہ ان کو (قبروں سے) اٹھایا جائیگا، پھر ہولناکی کی شدت کی وجہ سے یہ تعارف ختم ہوجائیگا، اور جملہ (یحشرھم) کی ضمیر حم سے حال مقدرہ ہے یا (یومَ ) ظرف کے متعلق ہے، واقعی سخت خسارے میں پڑے وہ لوگ جنہوں نے بعث کے ذریعہ اللہ کی علامات کو جھٹلایا اور وہ ہدایت پانے والے نہ تھے اور جس عذاب کا ہم ان سے وعدہ کر رہے ہیں (اِمّا) میں نون شرطیہ کا ما ذائدہ میں ادغام ہے اس کا کچھ حصہ آپ کی زندگی میں آپ کو دکھا دیں، اور جواب شرط محذوف ہے یعنی یہ بھی ہوسکتا ہے، یا ان کو عذاب دینے سے پہلے ہی ہم آپ کو وفات دیدیں بہرحال ان کو ہمارے پاس تو آنا ہی ہے پھر اللہ ان کے سب افعال سے باخبر ہے خواہ وہ ان کی تکذیب کے قبیل سے ہو یا کفر و نکار کے قبیل سے، لہٰذا وہ ان کو شدید عذاب دے گا اور ہر امت کیلئے ایک رسول ہے جب کسی امت کے پاس اس کا رسول آجاتا ہے اور وہ اس کو جھٹلا دیتے ہیں تو اس کا فیصلہ پورے انصاف کے ساتھ چکا دیا جاتا ہے چناچہ ان کو عذاب دیا جاتا ہے اور رسول اور اس کی تصدیق کرنے والوں کو نجات دی جاتی ہے اور ان پر ظلم نہیں کیا جاتا کہ ان کو بغیر ظلم کے سزا دیدی جائے پس ان کے ساتھ بھی ایسا ہی کیا جائیگا، یہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ عذاب کا وعدہ کب ہوگا ؟ اگر تم وعدہ میں سچے ہو، (اے نبی) کہہ دو کہ میرے اختیار میں خود اپنا نقصان نہیں کہ اس کو دفع کرسکوں یا حاصل کرسکوں، مگر اتنا ہی جتنا اللہ چاہے، یہ کہ میں اس پر قادر ہوں، تو مجھے تم پر عذاب نازل کی قدرت کہاں ہوگی ؟ ہر امت کی ہلاکت کی ایک مدت مقررہ ہوتی ہے جب وہ مدت پوری ہوجاتی ہے تو اس سے گھڑی بھر بھی تقدیم و تاخیر نہیں ہوسکتی ان سے کہو مجھے بتاؤ اگر اللہ کا عذاب رات میں یا دن میں تم پر آپڑے (تو تم کیا کرسکتے ہو) آخر عذاب ایسی کونسی چیز ہے جس کیلئے مجرم مشرک جلدی مچائیں، اس میں ضمیر کی جگہ اسم ظاہر کو رکھا گیا ہے جملہ استفہامیہ جواب شرط ہے، جیسا کہ اس مثال میں، ” ان اَتَیْتک مَا ذا تعطینی “ اور مراد اس سے ہولناکی کو بیان کرنا ہے یعنی جس کی یہ لوگ جلدی مچا رہے ہیں کس قدر عظیم ہے ! ! کیا جب وہ عذاب ان پر آپڑے گا اس وقت اس پر ایمان لائیں گے یعنی اللہ پر یا عذاب پر اس کے نزول کے وقت، اور ہمزہ انکار تاخیر کیلئے ہے تو تمہارا وہ ایمان مقبول نہ ہوگا، اور تم سے کہا جائے گا اب ایمان لاتے ہو حالانکہ تم خود ہی استہزاء اس کے جلدی لانے کا تقاضا کرتے تھے پھر ظالموں سے کہا جائیگا کہ اب دائمی عذاب کا مزا چکھو یعنی ایسے عذاب کا کہ جس میں تم ہمیشہ رہو گے، تم کو تمہارے ہی کئے کا بدلہ ملا ہے آپ سے دریافت کرتے ہیں کہ عذاب کیا واقعی امر ہے ؟ یعنی جس عذاب اور بعث کا تم نے وعدہ کیا ہے (کیا وہ امر واقعی ہے) آپ کہہ دیجئے ہاں قسم ہے میرے رب کی وہ واقعی امر ہے اور تم کسی طرح خدا کو عاجز نہیں کرسکتے یعنی اس کے عذاب سے بچ کر نہیں جاسکتے۔ تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد قولہ : ھذا منسوخ بآیۃ السیف، فھی قولہٗ تعالیٰ ، فاقتلوھم حیث وجدتموھم الخ۔ قولہ : بل ھو اعظم، کفار کو اندھوں کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے اندھے مشبہ بہ ہیں اور کفار مشبہ، عدم البصیرۃ بہ نسبت عدم البصر کے زیادہ شدید ہوتی ہے، کفار چونکہ عدم البصیرۃ ہیں لہٰذا کفار ضلالت و گمراہی میں اندھوں سے بڑھے ہوئے ہیں۔ قولہ : کانھم، اس میں اشارہ ہے کہ کان مخففہ عن المثقلہ ہے اور اس کا اسم محذوف ہے۔ قولہ : وجملۃ التشبیہ حالٌ من الضمیر اس لئے کہ یوم کی صفت قرار دینے کی صورت میں تقدیر یہ ہوگی، حال کو نھم مشبھین بمَنْ لم یلبثْ اِلا سَاعۃ الخ۔ قولہ : والجملہ حال مقدرۃ، یہ ایک سوال مقدر کا جواب ہے۔ سوال : یتعارفون، یحشرھم کی ضمیر، ھم سے حال ہے اور حال و ذوالحال کا زمانہ ایک ہوتا ہے حالانکہ حشر پہلے ہوگا اور تعارف بعد میں ہوگا لہٰذا دونوں کا زمانہ ایک نہ ہوا۔ جواب : یہ حال مقدرہ ہے کہ کفار کو جمع کیا جائیگا حال یہ ہے کہ ان کیلئے تعارف مقدر کردیا گیا، ای حَالَ کو نھم مقدرین التعارف لا اَنَّھُم متعارفون بالفعل۔ قولہ : او متعلق الظرف، اور وہ یَوْمَ ہے تقدیر یہ ہے یتعارفونَ یحشرہ۔ قولہ : و جواب الشرط محذوف، ای فذاک یہ اضافہ ایک سوال کا جواب ہے۔ سوال : اِمَّا نُرِیَّنَکَ اور اَوْنتوفینّکَ ، دو شرط ہیں اور جزاء ایک ہے اور وہ فَاِلَیْنا مرجعھم، ہے، حالانکہ اِمَّا نرینک پر فَاِلَیْنَا مرجعھم کا ترتب فساد معنی کی وجہ سے درست نہیں ہے۔ جواب : کا حاصل یہ ہے کہ فالینا مرجعھم دونوں شرطوں کی جزاء نہیں ہے بلکہ اِمَّا نرینّکَ ، کی جزاء محذوف ہے جس کی طرف مفسر علام نے فذاک، محذوف مان کر اشارہ کردیا ہے۔ سوال : فذاک جزاء ہے حالانکہ جزاء مفرد نہیں ہوتی۔ جواب : وضع الظاھر موضع المضمر۔ سوال : یستعجل منہ المجرمون فرمایا یستعجلون منہ نہیں فرمایا حالانکہ یہ اس کے مقابلہ میں اخصر ہے۔ جواب : اخصر کے مقابلہ میں مختصر تعبیر کو اختیار کرنے کی وجہ یہ ہے کہ مختصر میں سبب ترک استعجال پر دلالت ہے اور وہ جرم ہے، اس کے علاوہ اس میں ان کی صفت قبیح پر بھی دلالت ہے۔ قولہ : وجملۃ الاستفھام جواب الشرط ہے اور ان اَتٰکم عذابہ شرط ہے اور مَاذَا یستعجلُ تقدیر فاء کے ساتھ، جواب شرط ہے اسلئے کہ جملہ استفہامیہ بغیر فاء کے جزاء واقع نہیں ہوتا۔ قولہ : اِنْ اَتَیْتُکَ مَاذا تعطینی یہ مثال استبعاد کو دور کرنے کے لئے ہے یعنی یہ بتانے کیلئے کہ کلام عرب میں جملہ استفہامیہ بغیر فاء کے بھی جزاء واقع ہوتا ہے لہٰذا کوئی اعتراض نہیں۔ قولہ : والمراد بہ التھویل یعنی استفہام سے مراد استعلام نہیں ہے بلکہ ہولناکی کو بیان کرنا ہے۔ قولہ : ویقال لکم، اس عبارت کی تقدیر ایک سوال کے جواب کیلئے ہے۔ سوال : ثم قیل لھم، کا عطف اَلْئٰنَ وقد کنتم بہ تستعجلون پر ہے حالانکہ معطوف علیہ جملہ اسمیہ اور معطوف جملہ فعلیہ ہے۔ جواب : معطوف علیہ کے ماقبل فعل محذوف ہے جس کو مفسر علام نے ویقال لکم کہہ کر ظاہر کردیا ہے لہٰذا اب کوئی اشکال نہیں۔ قولہ : تؤمنون۔ سوال : اَلْئٰنَ ، یقال لکم کا مقولہ ہے حالانکہ مقولہ جملہ ہوا کرتا ہے اور اَلْئٰن مفرد ہے۔ جواب : عبارت محذوف ہے تقدیر عبارت یہ ہے اَلْئٰنَ یؤمنون، جیسا کہ مفسر علام نے ظاہر کردیا ہے، لہٰذا اب کوئی اعتراض نہیں ہے تفسیر و تشریح وَاِنْ کَذَّبوکَ فقُلْ لی عَمَلِی وَلکم عملکم یعنی تمام تر سمجھانے اور دلائل پیش کرنے کے بعد بھی اگر وہ جھٹلانے سے باز نہ آئیں تو آپ ان سے کہہ دیں کہ خواہ مخواہ جھگڑنے اور کج بحثی کرنے کی اس میں کیا ضرورت ہے اگر میں افتراء پردازی کر رہا ہوں تو اپنے عمل کا میں خود ذمہ دار ہوں، تم پر اس کی کوئی ذمہ داری نہیں، اور اگر تم سچی بات کو جھٹلا رہے ہو تو میرا کچھ نہیں بگاڑتے اپنا ہی کچھ بگاڑتے ہو، میرا کام دعوت و تبلیغ ہے میں وہ کرچکا سب کو خدا کی بارگاہ میں پیش ہونا ہے، وہاں ہر شخص سے اس کے اچھے اور برے عمل کے بارے میں باز پرس ہوگی، یہی وہ بات ہے جو سورة کافرون میں ” لکم دینکم ولی دین “ میں فرمائی گئی ہے۔ وَمنھم مَنْ یستمعون اِلَیک الخ یعنی ظاہری طور پر قرآن سنتے ہیں لیکن سننے کا مقصد چونکہ طلب ہدایت نہیں ہے اسلئے انھیں اسی طرح کوئی فائدہ نہیں ہوتا جس طرح ایک بہرے کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا بالخصوص جبکہ بہرا غیر عاقل بھی ہو اسلئے کہ عقل مند بہرا بھی اشاروں سے کچھ نہ کچھ سمجھ لیتا ہے، اس طرح تو جانور بھی سن لیتے ہیں مگر جس طرح جانوروں کو معنی کی طرف توجہ نہیں ہوتی ان کو بھی توجہ نہیں ہوتی جو لوگ کسی تعصب میں مبتلا ہوں اور جنہوں نے پہلے سے فیصلہ کرلیا ہو کہ وہ اپنے موروثی عقیدوں اور طریقوں کے خلاف اور اپنے نفس اور دلچسپیوں کے خلاف کوئی بات خواہ وہ کیسی ہی معقول کیوں نہ ہو، مان کر نہ دیں گے وہ سب کچھ سنکر بھی کچھ نہیں سنتے، اسی طرح وہ لوگ بھی کچھ سنکر نہیں دیتے جو دنیا میں جانوروں کی طرح غفلت کی زندگی بسر کرتے ہیں اور چرنے چگنے کے سوا کسی چیز سے دلچسپی نہیں رکھتے یا نفس کی خواہشوں اور لذتوں کے پیچھے ایسے مست ہوتے ہیں کہ انہیں اس بات کی کوئی فکر نہیں ہوتی کہ ہم یہ جو کچھ کر رہے ہیں یہ صحیح بھی ہے یا نہیں ایسے ہی سب لوگ کانوں کے بہرے نہیں ہوتے مگر دل کے بہرے ہوتے ہیں۔ یتعارفون بینھم یعنی قبروں سے نکلنے کے بعد لوگ ایک دوسرے کو پہچانیں گے جیسے کسی سے طویل زمانہ کے بعد ملاقات ہوئی ہو تو پہچان لیا ہے مگر بعد میں محشر کی ہولناکیوں کی وجہ سے ذہول ہوجائیگا اور یادداشت منقطع ہوجائے گی جس طرح کہ دنیا میں بھی کسی بڑی مصیبت کے وقت یادداشت غائب ہوجاتی ہے، بعض روایات میں ہے کہ پہچان تو رہے گی مگر ہیبت کی وجہ سے بات نہ کرسکیں گے۔ اَثُمَّ اِذَا مَا وَقعَ آمنْتُمْ بہ اٰلئٰن مشرکین سے کہا جا رہا ہے کہ تم ایمان اس وقت لاؤ گے جب تم پر عذاب واقع ہوجائیگا مگر اس وقت تمہارے ایمان کے جواب میں یہ کہا جائیگا ” آلئٰن “ کیا اب ایمان لائے ہو جبکہ ایمان کا وقت گذر چکا جیسے غرق ہونے کے وقت فرعون نے کہا تھا ” آمنتُ انّہ لا اِلہَ اِلا الّذِیْ اٰمَنَتْ بہ بنو اسرائیل “ تو جواب میں کہا گیا تھا ” آلئٰن “ اور اس کا یہ ایمان قبول نہیں کیا گیا، کیونکہ حدیث شریف میں آپ نے فرمایا ” اللہ تعالیٰ بندے کی توبہ قبول کرتا ہی رہتا ہے جب تک کہ وہ غرغرہ موت میں گرفتار نہ ہوجائے “ اسی طرح دنیا میں وقوع عذاب سے پہلے تو بہ قبول ہوسکتی ہے جب عذاب آپڑا تو پھر یہ قبول نہیں ہوتی، آگے حضرت یونس (علیہ السلام) کا واقعہ آرہا ہے کہ ان کی قوم کی توبہ قبول کرلی گئی اور وہ اس ضابطہ کے ماتحت ہے کہ انہوں نے عذاب کو دور سے آتا ہوا دیکھ کر سچے دل سے الحاح وزاری کے ساتھ توبہ کرلی اس لئے عذاب ہٹا لیا گیا اگر عذاب ان پر واقع ہوجاتا تو پھر توبہ قبول نہ ہوتی
Top