Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer-e-Jalalain - Yunus : 83
فَمَاۤ اٰمَنَ لِمُوْسٰۤى اِلَّا ذُرِّیَّةٌ مِّنْ قَوْمِهٖ عَلٰى خَوْفٍ مِّنْ فِرْعَوْنَ وَ مَلَاۡئِهِمْ اَنْ یَّفْتِنَهُمْ١ؕ وَ اِنَّ فِرْعَوْنَ لَعَالٍ فِی الْاَرْضِ١ۚ وَ اِنَّهٗ لَمِنَ الْمُسْرِفِیْنَ
فَمَآ
: سو نہ
اٰمَنَ
: ایمان لایا
لِمُوْسٰٓى
: موسیٰ پر
اِلَّا
: مگر
ذُرِّيَّةٌ
: چند لڑکے
مِّنْ
: سے
قَوْمِهٖ
: اس کی قوم
عَلٰي خَوْفٍ
: خوف کی وجہ سے
مِّنْ
: سے (کے)
فِرْعَوْنَ
: فرعون
وَمَلَا۟ئِهِمْ
: اور ان کے سردار
اَنْ
: کہ
يَّفْتِنَھُمْ
: وہ آفت میں ڈالے انہیں
وَاِنَّ
: اور بیشک
فِرْعَوْنَ
: فرعون
لَعَالٍ
: سرکش
فِي
: میں
الْاَرْضِ
: زمین
وَاِنَّهٗ
: اور بیشک وہ
لَمِنَ
: البتہ۔ سے
الْمُسْرِفِيْنَ
: حد سے بڑھنے والے
تو موسیٰ پر کوئی ایمان نہ لایا مگر اس کی قوم میں سے چند لڑکے (اور وہ بھی) فرعون اور اس کے اہل دربار سے ڈرتے ڈرتے کہ کہیں وہ ان کو آفت میں نہ پھنسا دے اور فرعون ملک میں متکبر اور متغلب اور (کبر و کفر میں) حد سے بڑھا ہوا تھا۔
آیت نمبر 83 تا 92 ترجمہ : فرعون کی قوم کے نوجوانوں میں سے ایک مٹھی بھر نوجوانوں کے علاوہ کسی نے فرعون اور اپنے سرداروں کے خوف کی وجہ سے موسیٰ (علیہ السلام) کی بات نہیں مانی کہ وہ ان کو تکلیف دیکر ان کے دین سے پھیر دیں گے اور اس میں شک نہیں کہ فرعون ملک مصر میں (زور وتکبر میں) بہت چڑھا ہوا تھا، اور وہ تھا ہی دعوائے ربوبیت کرکے حد سے تجاوز کرنے والوں میں اور موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا اے میری قوم اگر تم اللہ پر ایمان رکھتے ہو تو اسی پر بھروسہ کرو اگر تم فرمانبردار ہو، انہوں نے عرض کیا کہ ہم نے اللہ ہی پر بھروسہ کیا اے ہمارے پروردگار تو ہم کو ظالموں کے لئے تختہ مشق نہ بنا یعنی تو ان کو ہم پر غالب نہ فرما کہ وہ یہ سمجھنے لگیں کہ وہ حق پر ہیں پھر ہم کو تختہ شق بنائیں، اور تو ہم کو اپنی رحمت سے کافر قوم سے نجات عطا فرما اور ہم نے موسیٰ اور ان کے بھائی کو وحی بھیجی کہ تم دونوں اپنی قوم کیلئے مصر میں گھر برقرار رکھو اور اپنے گھروں کو قبلہ (یعنی) جائے نماز بنا لو کہ ان میں نماز پڑھو تاکہ تم خوف سے مامون رہو اور فرعون نے ان کو نماز پڑھنے سے منع کردیا تھا، اور نماز کو مکمل طریقہ پر قائم کرو اور اے موسیٰ تم نصرت اور جنت کی مسلمانوں کو خوشخبری سنا دو ، اور موسیٰ (علیہ السلام) نے عرض کیا اے ہمارے پروردگار تو نے فرعون کو اور اس کے سرداروں کو سامان زینت اور طرح طرح کے مال دنیوی زندگی میں دئیے اے ہمارے پروردگار یہ چیزیں تو نے ان کو عطا کیں تاکہ وہ اس کے نتیجے میں تیرے راستہ سے (لوگوں کو) گمراہ کرے، اے ہمارے رب ان کے مالوں کو نیست و نابود کر دیجئے اور ان کے قلوب کو (اور زیادہ) سخت کر دیجئے ان کے قلوب پر مہر لگا دیجئے اور مسدود کر دیجئے کہ پھر وہ ایمان نہ لاسکیں یہاں تک کہ دردناک عذان کو دیکھ لیں، موسیٰ (علیہ السلام) نے ان کیلئے بددعاء کی اور ہارون (علیہ السلام) نے ان کی بددعاء پر آمین کہی، اللہ تعالیٰ نے فرمایا ” تمہاری دعاء قبول کرلی گئی “ جس کی وجہ سے ان کے مال (سیم وزر) پتھروں میں تبدیل کر دئیے گئے، اور فرعون ایمان نہ لایا حتی کہ وہ غرق کردیا گیا، اور تم دونوں تبلیغ و دعوت پر قائم رہو یہاں تک کہ ان پر دردناک عذاب آجائے، اور تم ایسے لوگوں کے طریقہ کی پیروی نہ کرو جو قضا کے معاملہ میں جلد بازی کے انجام کو نہیں جانتے روایت کیا گیا ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) بددعاء کے بعد ان میں چالیس سال مقیم رہے، اور ہم نے بنی اسرائیل کو دریا سے پار کردیا پھر فرعون اور اس کے لشکر نے ظلم و زیادتی کے ارادہ سے ان کا پیچھا کیا بغیاً وعدوا (اتبعھم کا) مفعول لہٗ ہے حتی کہ جب فرعون ڈوبنے لگا تو بول اٹھا کہ میں نے مان لیا کہ معبود حقیقی اس کے سوا نہیں ہے کہ جس پر بنو اسرائیل ایمان لائے، أنَّہ اصل میں بأنّہ ہے، اور ایک قراءت میں انّہ کسرہ کے ساتھ ہے جملہ مستانفہ ہونے کی وجہ سے، اور میں بھی سرِ طاعت خم کردینے والوں میں ہوں، اس نے ایمان اور تسلیم کو مکرر ذکر کیا تاکہ قبول کرلیا جائے، مگر قبول نہیں کیا گیا، اور جبرائیل (علیہ السلام) نے اس کے منہ میں دریا کی کیچڑ ٹھونس دی اس اندیشہ سے کہ کہیں اس کی طرف رحمت متوجہ نہ ہوجائے (جبرائیل نے) اس کو جواب دیا اب ایمان لاتا ہے حالانکہ تو اس سے پہلے نافرمانی کرتا رہا اور تو خود گمراہ ہوا اور دوسروں کو ایمان سے گمراہ کرنے کی وجہ سے فساد برپا کرنے والوں میں سے تھا، اب تو ہم تیری لاش ہی کو کہ جو بےروح ہے دریا سے نکالیں گے تاکہ تو بعد کی نسلوں کے لئے نشان عبرت بنے تاکہ وہ تیرے بندہ ہونے کو جان لیں، اور تیرے جیسے اقدام کی جرأت نہ کریں، اور حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ بعض بنی اسرائیل نے فرعون کی موت میں شک کیا تو اس کی لاش نکالی گئی تاکہ اس کو دیکھ لیں، اور واقعہ یہ ہے کہ بہت سے لوگ اہل مکہ ایسے ہیں جو ہماری آیتوں (قدرت کی نشانیوں) سے غفلت برتتے ہیں، یعنی ان سے عبرت حاصل نہیں کرتے۔ تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد قولہ : فَمَا اٰمَنَ لِموسیٰ اِلاَّ ذُرَّیّۃ من قومِہٖ ، فاء عاطفہ ہے معطوف علیہ محذوف ہے جو سیاق سے مفہوم ہے اور وہ ” فالقیٰ موسیٰ عَصَاہ فاِذَا ھِیَ تلقفُ مَا یأفکون “ ہے، (اعراب القرآن) فما اٰمَنَ لموسیٰ کے معنی ہیں موسیٰ (علیہ السلام) کی بات نہیں مانی، اس کو ایمان بالتسلیم کہتے ہیں، یہ متعدی بالام ہوتا ہے اور ایک ایمان بالتصدیق ہوتا ہے وہ متعدی بالباء ہوتا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا قول ہے یؤمن باللہ ویؤمن للمؤمنین۔ قولہ : ذرّیۃ، ذّریۃ بتثلیث الذال، ذرّیۃ الرجل، اولاد، نسل جمع ذراری وذُرّیات، ذّریۃ، یہاں قلت عدد کے معنی میں مستعمل ہے مفسر علام نے ذرّیۃ کی تفسیر طائفۃ سے کرکے اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے یعنی مٹھی بھر لوگ، تفسیر کبیر میں ہے ” ھٰھُنا مَعناھا التقلیل ” (کبیر) حضرت ابن عباس کا قول ہے کہ ذرّیۃ کا لفظ جب کسی قوم پر بولا جاتا ہے تو مقصود اس کی تحقیر یا تصغیر ہوتی ہے۔ قال ابن عباس ؓ لفظ الذریۃ یعبربہ عن القوم علی وجہ التحقیر والتصغیر (کبیر) چونکہ یہاں تحقیر کا کوئی قرینہ نہیں اس لئے مقصود تصغیر عدد ہی ہے۔ قولہ : من قومہٖ ، قومہٖ ، کی ضمیر نے دو مختلف معنی پیدا کر دئیے ہیں مراد قوم موسیٰ بھی ہوسکتی ہے اور قوم فرعون بھی، پہلی صورت میں مراد یہ لی جائے گی کہ فرعون اور فرعونیوں کے ڈر سے ابتداء میں اسرائیلیوں کے بہت تھوڑے لوگوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی بات کی تصدیق کی، اور دوسری شق کی صورت میں فرعونیوں کی ایک جماعت مراد ہوگی، جس میں وہ جادوگر شامل ہیں جو موسیٰ (علیہ السلام) کا مقابلہ کرنے کیلئے آئے تھے ان کے علاوہ فرعون کی بیوی آسیہ اور فرعون کا خازن اور اس کی بیوی اور بنت فرعون کی مشاطہ (بال سنوارنے والی) اور رجل من آل فرعون بھی، مفسر علام نے دوسری شق کو اختیار کرکے قومہٖ کی ضمیر فرعون کی طرف لوٹائی ہے۔ قولہ : ارض مصر، اس سے اشارہ کردیا کہ فی الارض میں الف لام عہد کا ہے۔ قولہ : وأمَنَ ہارون علی دعاءہ، یہ اس سوال کا جواب ہے کہ بددعا تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کی تو پھر ” قد اجیبت دعوتکما “ میں تثنیہ کا صیغہ کیوں استعمال ہوا ہے ؟ جواب کا حاصل یہ ہے کہ دعاء کرنا اور دعاء پر آمین کہنا ایک ہی درجہ میں ہیں۔ قولہ : حمأۃ، کالی مٹی، کیچڑ۔ تفسیر و تشریح فَمَا اٰمَنَ لِمُوْسٰی اِلاَّ ذُرَّیَۃٌ مِنْ قومِہٖ ، قومِہٖ کے ضمیر کے مرجع میں مفسرین کا اختلاف ہے، بعض نے اس کا مرجع حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو قرار دیا ہے اسلئے کہ آیت میں ماقبل میں ان ہی کا ذکر ہے، مطلب یہ ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم میں سے بہت تھوڑے آدمی ایمان لائے، لیکن امام ابن کثیر وغیرہ نے اس کا مرجع فرعون کو قرار دیا ہے یعنی فرعون کی قوم میں سے بہت تھوڑے آدمی ایمان لائے، ان کی دلیل یہ ہے کہ بنی اسرائیل کے لوگ ایک رسول اور نجات دہندہ کے انتظار میں تھے جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی صورت میں ان کو مل گیا اس اعتبار سے تمام بنی اسرائیل (سوائے قارون کے) ان پر ایمان رکھتے تھے اسلئے صحیح اور راجح بات یہی ہے ذرّیۃ من قومہٖ سے فرعون کی قوم کے تھوڑے لوگ مراد ہیں جن میں فرعون کی بیوی آسیہ اور فرعون کا خازن اور اس کی بیوی، اذر بنت فرعون کی مشاطہ (بال سنوارنے والی) اور رجل من آل فرعون شامل ہیں۔ وَاجْعَلوا بُیُوتکم قبلۃً ، پہلی امتوں کو عبادت خانوں کے علاوہ میں عبادت کرنے کی اجازت نہیں تھی مگر فرعون نے عبادت خانوں میں نماز پڑھنے پر پابندی عائد کردی تھی اس لئے بنی اسرائیل کو حکم دیا گیا کہ گھروں ہی میں نماز پڑھ لیا کرو۔ فرعون کے زرو جواہر کا پتھروں میں تبدیل ہوجانا : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جب فرعون کی اصلاح سے مایوس ہوگئے اور اس کے مال و دولت سے دوسروں کے گمراہ ہونے کا خطرہ محسوس کیا تو ربنا اطمس علی اموالھم کہہ کر بددعاء کردی یعنی اے میرے پروردگار اس کے اموال کی صورت بدل کر مسخ کر دے۔ حضرت قتادہ کا بیان ہے کہ اس دعاء کا اثر یہ ہوا کہ تمام فرعون کے تمام زیورات اور زرو جواہر اور نقد سکے اور باغوں اور کھیتوں کی سب پیداوار پتھروں کی شکل میں تبدیل ہوگئے، حضرت عمر بن عبد العزیز کے زمانہ میں ایک تھیلہ دستیاب ہوا جس میں فرعون کے زمانہ کی چیزیں تھیں ان میں انڈے اور بادام بھی تھے جو بالکل پتھر تھے۔ (معارف) بنی اسرائیل کا خروج اور فرعون کا تعاقب : جب فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) کے تمام معجزوں کو جھٹلا دیا اور وہ کسی طرح بھی موسیٰ (علیہ السلام) کی بات ماننے کیلئے تیار نہ ہوا تو اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ تم بنی اسرائیل کو ساتھ لے کر اپنے آباء و اجداد کی سرزمین فلسطین کی طرف نکل جاؤ مصر سے فلسطین جانے کے دوراستے ہیں ایک خشکی کا راستہ ہے اور وہ قریب کا راستہ ہے اور دوسرا راستہ بحر احمر (قلزم) کا راستہ ہے اس راستہ میں دریا عبور کرکے صحراء سینا (تیہ) سے گذرتا ہوتا ہے، اور یہ راستہ دور کا ہے، مگر خدا کی مصلحت کا تقاضا یہی ہوا کہ قریب اور آسان راستہ چھوڑ کر دور کا اور دشوار گذار راستہ اختیار کریں، اس طویل راستہ کی حکمتوں اور مصلحتوں میں سے ایک بڑی مصلحت یہ تھی کہ درعون کو غرق دریا کیا جائے۔ غرض یہ کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بنی اسرائیل کو لے کر راتوں رات بحر احمر کے راستہ سے روانہ ہو لئے اور روانہ ہونے سے پہلے مصری عورتوں کے زیورات اور قیمتی پارچہ جات جو ایک تہوار کے بہانہ مستعار لئے تھے وہ بھی واپس نہ کرسکے، فرعون کو جب بنی اسرائیل کے نکلنے کا علم ہوا تو فرعون نے ایک زبردست فوج کے ساتھ بنی اسرائیل کا تعاقب کیا اور صبح ہونے سے پہلے ہی ان کے سروں پر جا پہنچا، تورات کے مطابق بنی اسرائیل کی تعداد چھ لاکھ تھی، صبح ہونے کے بعد جب بنو اسرائیل نے فرعون کو اپنے سروں پر دیکھا تو گھبرا گئے اور اپنی مصیبتوں اور پریشانیوں کا سارا الزام موسیٰ (علیہ السلام) کو دینے لگے۔ فرعون کا غرق ہونا : موسیٰ (علیہ السلام) نے بنی اسرائیل کو تسلی دی اور فرمایا خوف نہ کرو خدا کا وعدہ سچا ہے وہ تم کو ضرور نجات دیگا، اور پھر بارگاہ الہیٰ میں دست بدعاء ہوگئے، اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعہ موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ اپنا عصا دریا پر مارو چناچہ موسیٰ (علیہ السلام) نے دریائے قلزم پر اپنا عصا مارا تو پانی پھٹ کر دونوں جانب پہاڑوں کے مانند کھڑا ہوگیا، اور حضرت موسیٰ اور بنی اسرائیل درمیانی راستہ سے بخیر عافیت نکل گئے۔ جب فرعون نے دریا کو دو لخت دیکھا تو اپنی قوم سے کہنے لگا یہ میری کرشمہ سازی ہے کہ دریا نے راستہ دیدیا لہٰذا بڑھے چلو، چناچہ وہ اور اس کا پورا لشکر بنی اسرائیل کے پیچھے اسی راستہ پر ہولیا جب بنی اسرائیل کا ہر فرد دریا پار ہوگیا تو پانی بحکم الہیٰ اپنی پہلی حالت پر آگیا، اسی میں فرعون اور اس کا پورا لشکر غرق ہوگیا۔ جب فرعون غرق ہونے لگا اور ملائکہ عذاب نظر آنے لگے تو پکار کر کہنے لگا ” میں اسی وحدہ لاشریک لہٗ پر ایمان لاتا ہوں جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے، اور میں فرماں برداروں میں سے ہوں “ ، مگر یہ ایمان چونکہ مضطر بانہ حالت نزع کا تھا اس لئے خدا کی جانب سے جواب ملا ” آلاٰنَ وقد عصیت قبلُ وکنت من المفسدین “ یعنی خدا کو خوب معلوم ہے کہ تو مسلمین میں سے نہیں ہے بلکہ مفسدین میں سے ہے مصری عجائب خانہ میں فرعون کی لاش : فالیون نُنَجِّیکَ بِبَدَنکَ لِتکونَ لِمَنْ خلفکَ آیۃ، یہ معلوم ہی ہے کہ فرعون کسی خاص شخص کا نام نہیں ہے بلکہ شاہان مصر کا لقب ہے جس طرح چین کے بادشاہ کو خاقان اور روس کے بادشاہ کو زار اور روم کے بادشاہ کو قیصر اور ایران کے بادشاہ کو کسریٰ کہتے تھے اسی طرح مصر کے بادشاہ کو فرعون کہتے تھے۔ فرعون اصل میں فارا، اَوْہ تھا، مصری زبان میں فارا محل کو کہتے ہیں اور اَوْہ کے معنی اونچا کے ہیں فارا اوہ کے معنی ہوئے اونچا محل، اس سے شاہ مصر کی ذات مراد ہوتی تھی، جیسے خلافت عثمانی کے زمانہ میں باب عالی سے مراد خلیفہ کی ذات ہوتی تھی، موسیٰ (علیہ السلام) کو جس فرعون نے پرورش کیا تھا اس کا نام رعمیس یا رعمسیس دوم تھا اور رعمیس کے بیٹے منفتاح کے زمانہ میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی بعثت ہوئی اور اسی سے مقابلہ ہوا اور یہی 1491 قبل مسیح میں غرق ہوا، (لغات القرآن، عبد الدائم جلالی) جب فرعون غرق کردیا گیا تو اس کی موت کا بہت سے لوگوں کو یقین نہیں آیا، اللہ نے سمندر کو حکم دیا کہ فرعون کی لاش کو دریا کے کنارے پر ڈال دے چناچہ دریا نے فرعون کی لاش کو دریا کے کنارہ پر ڈال دیا، اس وقت لوگوں نے اس کی لاش کا مشاہدہ کیا اور اس کے مرنے کا یقین آگیا، مشہور ہے کہ آج بھی وہ لاش مصر کے عجائب خانہ میں محفوظ ہے۔ (واللہ اعلم بالصواب) مصری مقالہ نگار کی رائے : اگر مصری مقالہ نگار کی رائے صحیح ہے کہ منفتاح (رعمیس یا رعمیس ثانی) ہی فرعون موسیٰ تھا تب تو بلاشبہ اس کی لاش آج تک مصری عجائب خانہ میں محفوظ ہے اور سمندر میں تھوڑی دیر غرق رہنے کی وجہ سے اس کی ناک کو مچھلی نے کھالیا ہے۔ آج تک وہ مقام جزیرہ نمائے سینا کے مغربی ساحل پر موجود ہے جہاں فرعون کی لاش سمندر میں تیرتی ہوئی ملی تھی، اس کا نام موجودہ زمانہ میں جبل فرعون ہے، اور اسی کے قریب ایک گرم چشمہ ہے جس کو مقامی آبادی نے حمام فرعون کے نام سے موسوم کر رکھا ہے اس کی جائے وقوع ابوزنیمہ سے چند میل اوپر شمال کی جانب ہے اور علاقہ کے باشندے نشاندہی کرتے ہیں کہ فرعون کی لاش اسی جگہ پڑی ملی تھی۔ اگر یہ ڈوبنے والا ہی فرعون منفتاح ہے جس کو زمانہ حال کی تحقیق نے فرعون موسیٰ قرار دیا ہے تو اس کی لاش آج تک قاہرہ کے عجائب خانہ میں موجود ہے، 1907 ء میں سرگرزفئن الیٹ سمتھ نے جب اس کی ممی سے پٹیاں کھولی تھیں تو اس کی لاش پر نمک کی ایک تہ جمی ہوئی تھی جو کھارے پانی میں اس کی غرقابی کی ایک کھلی علامت تھی۔ فائدہ : رعمیس، رعمسیس اور رعیس اور عمیسس یہ شخص کے نام میں تلفظ کا فرق ہے۔
Top