Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer-e-Jalalain - Yunus : 93
وَ لَقَدْ بَوَّاْنَا بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ مُبَوَّاَ صِدْقٍ وَّ رَزَقْنٰهُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ١ۚ فَمَا اخْتَلَفُوْا حَتّٰى جَآءَهُمُ الْعِلْمُ١ؕ اِنَّ رَبَّكَ یَقْضِیْ بَیْنَهُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ فِیْمَا كَانُوْا فِیْهِ یَخْتَلِفُوْنَ
وَلَقَدْ بَوَّاْنَا
: اور البتہ ہم نے ٹھکانہ دیا
بَنِيْٓ اِسْرَآءِيْلَ
: بنی اسرائیل
مُبَوَّاَ
: ٹھکانہ
صِدْقٍ
: اچھا
وَّرَزَقْنٰھُمْ
: اور ہم نے رزق دیا انہیں
مِّنَ
: سے
الطَّيِّبٰتِ
: پاکیزہ چیزیں
فَمَا اخْتَلَفُوْا
: سو انہوں نے اختلاف نہ کیا
حَتّٰى
: یہاں تک کہ
جَآءَھُمُ
: آگیا ان کے پاس
الْعِلْمُ
: علم
اِنَّ
: بیشک
رَبَّكَ
: تمہارا رب
يَقْضِيْ
: فیصلہ کرے گا
بَيْنَھُمْ
: ان کے درمیان
يَوْمَ الْقِيٰمَةِ
: روز قیامت
فِيْمَا
: اس میں جو
كَانُوْا
: وہ تھے
فِيْهِ
: اس میں
يَخْتَلِفُوْنَ
: وہ اختلاف کرتے
اور ہم نے بنی اسرائیل کو رہنے کو عمدہ جگہ دی اور کھانے کو پاکیزہ چیزیں عطا کیں لیکن وہ باوجود علم حاصل ہونے کے اختلاف کرتے رہے۔ بیشک جن باتوں میں وہ اختلاف کرتے رہے ہیں تمہارا پروردگار قیامت کے دن ان میں ان باتوں کا فیصلہ کر دے گا۔
آیت نمبر 93 تا 103 ترجمہ : اور ہم نے بنی اسرائیل کو بہت اچھا ٹھکانہ دیا اور وہ شام اور مصر تھا، اور ہم نے ان کو پاکیزہ چیزیں کھانے کو دیں، پھر انہوں نے اختلاف نہیں کیا مگر اس وقت جبکہ علم ان کے پاس آچکا بایں طور کہ بعض لوگ ایمان لائے اور بعض نے انکار کیا، یقیناً تیرا رب قیامت کے دن ان کے درمیان اس چیز کا فیصلہ کر دے گا جس امر دین میں وہ اختلاف کرتے رہے ہیں مومنین کو نجات دے کر اور کافروں کو عذاب دیکر، پس اے محمد ! بالفرض اگر تم ان قصوں کے بارے میں جو ہم نے تمہاری طرف نازل کئے ہیں، شک میں ہو تو ان لوگوں سے پوچھ دیکھئے جو تم سے پہلی کتاب تورات کو پڑھتے ہیں اس لئے کہ وہ نازل کردہ (واقعات) ان کے نزدیک ثابت ہیں وہ ان کی صداقت کی تم کو خبر دیں گے، آپ ﷺ نے جواب دیا کہ نہ مجھے شک ہے اور نہ میں پوچھتا ہوں، بیشک تمہارے پاس تمہاے رب کی طرف سے حق آیا ہے لہٰذا تم اس میں شک کرنے والوں میں سے نہ ہو اور نہ لوگوں میں سے ہو جنہوں نے اللہ کی آیتوں کو جھٹلایا کہیں آپ زیاں کاروں میں نہ جائیں، یقیناً وہ لوگ جن پر تمہارے رب کے عذاب کا فیصلہ ثابت ہوچکا ہے وہ ایمان نہ لائیں گے اگرچہ ان کے سامنے تمام نشانیاں کیوں نہ آجائیں یہاں تک کہ وہ درد ناک عذاب کو نہ دیکھ لیں مگر اس وقت ان کو (ایمان سے) کوئی فائدہ نہ ہوگا، چناچہ کسی بستی والے، بستی سے بستی والے مراد ہیں، ایمان نہ لائے ان پر عذاب نازل ہونے سے پہلے کہ ایمان لانا ان کیلئے نافع ہوا ہو سوائے یونس (علیہ السلام) کی قوم کے کہ جب وہ عذاب موعود کے دیکھنے کے وقت ایمان لائے اور انہوں نے عذاب کے نزول تک (ایمان) کو مؤخر نہیں کیا تو ہم نے ان سے دنیا کی زندگی میں رسوائی کے عذاب کو ٹال دیا اور ان کو ایک (خاص وقت) تک کیلئے زندگی سے فائدہ اٹھانے کا موقع دیا (یعنی) ان کی مدت عمر پوری ہونے تک، اور اگر آپ کا رب چاہتا تو روئے زمین کے سب لوگ ایمان لے آتے تو کیا آپ لوگوں کو اس چیز پر مجبور کرسکتے ہیں جو اللہ ان سے نہ چاہے یہاں تک رہ مومن ہی ہوجائیں ایسا نہیں ہوسکتا، حالانکہ کسی شخص کیلئے ممکن نہیں کہ خدا کے ارادہ کے بغیر ایمان لے آئے اور اللہ تعالیٰ ان لوگوں پر عذاب ڈال دیتا ہے جو لوگ اللہ کی آیتوں میں غور و فکر نہیں کرتے آپ کفار سے کہہ دیجئے کہ تم غور کرو کہ کیا کیا چیزیں آسمانوں اور زمین میں ہیں اللہ کی وحدانیت پر دلالت کرنے والی نشانیوں میں سے اور جو لوگ اللہ کے علم میں ایمان لانے والے نہیں ہیں، ان کو نشانیاں اور ڈرانے والے یعنی رسول کوئی فائدہ نہیں دیتے نُذُر نذیر کی جمع ہے یعنی مرسلین سو اب یہ لوگ تیری تکذیب کرکے اس کے سوا اور کسی چیز کے منتظر ہیں کہ ویسے ہی (برے) دن دیکھیں جو ان سے پہلے گزرے ہوئے لوگ دیکھ چکے ہیں، تو ان سے کہو اس کا انتظار کرو میں تمہارے ساتھ انتظار کر رہا ہوں، پھر ہم اپنے رسولوں کو اور ان لوگوں کو جو ایمان لائے ہوں عذاب سے بچالیتے ہیں، (نُنجی) حالت ماضیہ کی حکایت کرنے کیلئے مضارع کا صیغہ ہے، اسی طرح ہمارے ذمہ ہے کہ ہم ایمان والوں کو بچا لیا کرتے ہیں۔ تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد قولہ : بَوَّأنا، تَبْوئۃً ، سے ماضی جمع متکلم، ٹھکانہ دینا، مناسب جگہ فروکش کرنا۔ قولہ : مُبوَّأ، صِدقٍ ، مُبَوَّأ اسم مکان ہے یا مصدر ہے اور مصدق کی جانب اضافت عرب کی عادت کے مطابق ہے عرب جب کسی شئی کی تعریف کا ارادہ کرتے ہیں تو اس کی اضافت صدق کی جانب کردیتے ہیں، مثلاً ھذا رجل صدق، وقدم صدق مراد یہاں منزل محمود ہے، مقام صدق سے بعض حضرات نے مصر اعر بعض نے اردن و فلسطین اور بعض نے شام مراد لیا ہے۔ قولہ : المضارع لحکایۃ الحال الماضیۃ، یہ عبارت ایک سوال مقدر کا جواب ہے۔ سوال : یہ ہے کہ نُنجی مضارع کا صیغہ ہے جو کہ حال و استقبال پر دلالت کرتا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل کو نجات زمانہ حال میں دی جا رہی ہے یا آئندہ دی جائے گی حالانکہ نجات زمانہ ماضی میں دی جا چکی ہے۔ جواب : یہ حکایت حال ماضیہ کے طور پر فرمایا گیا ہے گویا کہ حالات ماضیہ کی فی الحال منظر کشی کی جا رہی ہے۔ تفسیر و تشریح ربط آیات : وَلَقَدْ بَوَّأنا الخ یہ کلام مستانف ہے نعمت نجات کے بیان کے بعد ان نعمتوں کا بیان ہے جو فرعون سے نجات کے بعد بنی اسرائیل پر پانی کی طرح بہائی گئیں، ان ہی میں سے ایک نعمت مقام محمود میں سکونت پذیری عطاء کرنا ہے، بعض مفسرین نے جائے سکونت مصر کو قرار دیا ہے مگر مشہور یہ ہے کہ بنی اسرائیل غرق فرعون کے بعد مصر واپس نہیں آئے، اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کا ظاہری اور معنوی بہت سی نعمتوں سے نوازا تھا، ملک شام میں سکونت عطاء کی جو کہ اپنی سرسبزی اور شادابی کیلئے آج تک مشہور تورات میں بھی شام اور اس اطراف کے علاقوں کی شادابی کا ذکر ہے۔ میں نازل ہوا ہوں کہ انھیں مصریوں سے چھڑاؤں اور اس زمین سے نکال کر اچھی وسیع زمین میں جہاں دودھ اور شہد موج مارتا ہے کنعانیوں کی جگہ میں لاؤں۔ (خروج 30 ء 8) ان میں سے بہت سے لوگوں نے اقتدار پانے کے بعد اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی قدر نہ کی اور اس کی اطاعت سے پھرگئے تورات میں جو نشانیاں رسول کریم ﷺ کی یہ لوگ پڑھتے تھے اس کا تقاضا یہ تھا کہ آپ ﷺ کے تشریف لانے کے بعد سے پہلے یہی لوگ ایمان لاتے مگر یہ عجیب بات ہوئی کہ آنحضرت ﷺ کی تشریف آوری سے پہلے تو یہ سب لوگ نبی آخر الزمان پر اعتقاد رکھتے تھے اور آپ ﷺ کے وسیلہ سے دعائیں کیا کرتے تھے، مگر جب آخری نبی اپنی پوری شہادت اور تورات کی بتلائی ہوئی نشانیوں کے ساتھ تشریف لائے تو یہ لوگ آپس میں اختلاف کرنے لگے، کچھ لوگ ایمان لائے اور باقی نے انکار کردیا، اس آیت میں آپ ﷺ کے تشریف لانے کو جاءھم العلم سے تعبیر کیا ہے یہاں علم سے مراد یقین بھی ہوسکتا ہے یعنی مشاہدہ کے ساتھ یقین کے اسباب بھی جمع ہوگئے تو یہ لوگ اختلاف کرنے لگے، بعض مفسرین نے علم سے معلوم مراد لیا ہے، یعنی جب وہ ہستی آگئی جو تورات کی پیشین گویوں کے ذیعہ معلوم تھی تو اختلاف کرنے لگے۔ (یعنی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) ۔ فاِن کنت فی شک، اگرچہ بظاہرخطاب محمد ﷺ کو ہے مگر مخالف امت ہے اس لئے کہ آپ کو وحی میں شک ہونے کا احتمال ہی نہیں ہے۔ فَلَوْ لا، فَھَلَّا، لَوْلا یہاں تحضیضیہ ہَلَّا کے معنی میں ہے، یعنی جن بستیوں کو ہم نے ہلاک کیا ان میں کوئی ایک بستی بھی ایسی کیوں نہ ہوئی جو ایمان لے آتی جا اس کے لئے فائدہ مند ہوتا۔ ہاں صرف یونس (علیہ السلام) کی قوم ایسی ہوئی ہے کہ عذاب کی علامات دیکھنے کے بعد ایمان لے آئی تو اللہ نے اس سے عذاب ٹال دیا۔ اس کا مختصر حال یہ ہے کہ یونس (علیہ السلام) نے جب دیکھا کہ انکی تبلیغ و دعوت سے ان کی قوم متاثر نہیں ہورہی تو اپنی قوم میں اعلان کو دیا کہ فلاں فلاں دن تم پر عذاب آجائیگا اور خودوہاں سے نکل گئے جب عذاب بادل کی طرح امڈ آیا تو وہ بچوں، عورتوں حتی کہ جانوروں کو لیکر ایک میدان میں جمع ہوگئے اور بارگاہ الہیٰ میں عاجزی و انکساری اور توبہ و استغفار شروع کردی، اللہ نے ان کی توبہ قبول فرمائی اور عذاب کو ٹال دیا، تو حضرت یونس (علیہ السلام) نے اپنی تکذیب کے بعد اپنی قوم میں جانا پسند نہیں کیا، بلکہ ان سے ناراض ہو کر کسی دوسری طرف نکل گئے، جس پر کشتی کا واقعہ پیش آیا۔ مفسرین کا اس بات میں اختلاف ہے کہ قوم یونس (علیہ السلام) ایمان کب لائی ؟ عذاب دیکھ کر لائی ؟ جبکہ ایمان نافع نہیں ہوتا، یا ابھی عذاب کا وہ مرحلہ نہیں آیا تھا کہ جب ایمان نافع نہیں ہوتا، لیکن قرآن کریم نے قوم یونس (علیہ السلام) کا الاَّ کے ساتھ جو استثناء کیا ہے وہ پہلی تفسیر کی تائید کرتا ہے۔ قرآن کریم نے دنیوی عذاب کے دور کرنے کی صراحت تو کی ہے اخروی عذاب کی بابت صراحت نہیں کی اسلئے بعض مفسرین کے قول کے مطابق ان سے اخروی عذاب ختم نہیں کیا گیا، لیکن قرآن نے جب یہ وضاحت کردی کہ دنیوی عذاب ایمان کی وجہ سے ٹالا گیا تھا، تو پھر اخروی عذاب کی بابت صراحت کرنے کی ضرورت ہی نہیں رہ جاتی، اسلئے کہ اخروی عذاب کا فیصلہ تو ایمان اور عدم ایمان ہی کی بنیاد پر ہوتا ہے اگر ایمان لانے کے بعد قوم یونس (علیہ السلام) اپنے ایمان پر قائم رہی ہوگی، (جس کی صراحت یہاں نہیں ہے) تو یقیناً وہ اخروی عاب سے بھی محفوظ رہے گی، البتہ بصورت دیگر عذاب سے بچنا صرف دنیا کی حد تک ہی ہوگا، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ دنیا کا عذاب سامنے آجانے کے بعد بھی توبہ کا دروازہ بند نہیں ہوتا، البتہ آخرت کا عذاب سامنے آجانے کے وقت توبہ قبول نہیں ہوتی، اور عذاب آخرت کا سامنے آجانا قیامت کے روز ہوگا یا پھر موت کے وقت خواہ طبی موت ہو یا کسی دنیوی عذاب میں مبتلا ہو کر جیسے فرعون کو پیش آیا۔ اس لئے قوم یونس (علیہ السلام) کی توبہ قبول ہوجانا عام ضابطہ الہٰیہ کے خلاف نہیں بلکہ ضابطہ کے تحت ہی ہے کیونکہ انہوں نے اگرچہ عذاب کو دیکھ کر توبہ کی مگر عذاب میں مبتلا ہونے اور موت سے پہلے توبہ کرلی نخلاف فرعون کے جس نے موت کے وقت غرغرہ کی حالت میں توبہ کی اور ایمان کا اقرار کیا اسلئے اس کا ایمان معتبر نہ ہوا اور توبہ قبول نہ ہوئی۔ حضرت یونس (علیہ السلام) کا مفصل واقعہ : حضرت یونس (علیہ السلام) کا واقعہ اجمالاً سابق میں بیان کیا جا چکا ہے اس واقعہ کا کچھ حصہ تو قرآن میں مذکور ہے اور کچھ روایات حدیث سے ثابت ہے وہ یہ ہے کہ یونس (علیہ السلام) کی قوم عراق میں موصل کے مشہور مقام نینویٰ میں رہتی تھی، ان کی تعداد قرآن کریم میں ایک لاکھ سے زیادہ بتائی گئی ہے، ان کی ہدایت کیلئے اللہ تعالیٰ نے یونس (علیہ السلام) کو بھیجا تھا مگر قوم نے ایمان لانے سے انکار کردیا اللہ نے حکم دیا کہ ان کو آگاہ کردو کہ تین دن کے اندر اندر تم پر عذاب آنے والا ہے، حضرت یونس (علیہ السلام) نے اس کا اعلان کردیا، قوم یونس نے آپس میں مشورہ کیا تو اس پر سب کا اتفاق ہوگیا کہ ہم نے کبھی یونس (علیہ السلام) کو جھوٹ بولتے نہیں دیکھا اسلئے ان کی بات نظر انداز کرنے کے لائق نہیں، مشورہ میں یہ بھی طے ہوا کہ یہ دیکھا جائے کہ یونس (علیہ السلام) رات کو ہمارے درمیان اپنی جگہ مقیم رہتے ہیں تو سمجھ لو کہ کچھ نہیں ہوگا اور اگر وہ یہاں سے کہیں چلے جاتے ہیں تو یقین کرلو کہ صبح کو ہمارے اوپر عذاب آئیگا، حضرت یونس رات کو اس بستی سے نکل گئے، جب صبح ہوئی تو عذاب کا ایک سیاہ بادل دھوئیں کی شکل میں سروں پر منڈلانے لگا، اور یہ دیکھ کر حضرت یونس (علیہ السلام) کو تلاش کیا کہ ان کے ہاتھ پر مشرف باسلام ہوجائیں اور کفر و انکار سے توبہ کرلیں مگر یونس (علیہ السلام) کو نہ پایا تو خود ہی اخلاص نیت کے ساتھ توبہ و استغفار میں لگ گئے بستی سے ایک میدان میں نکل آئے عورتیں بچے اور جانور سب اس میدان میں جمع کر دئیے گئے ٹاٹ کے کپڑے پہن کر عجزو زاری کے ساتھ اس میدان میں توبہ کرنے اور عذاب سے پناہ مانگنے میں اس طرح مشغول ہوئے کہ پورا میدان آہ و بکاء سے گونجنے لگا، اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرمالی اور عذاب کو ان سے ٹال دیا جیسا کہ اس آیت میں مذکور ہے روایات میں آیا ہے کہ یہ عاشورہ یعنی دس محرم کا دن تھا۔ ادھر حضرت یونس (علیہ السلام) بستی سے باہر اس انتظار میں تھے کہ اب اس قوم پر عذاب نازل ہوگا قوم کو ان کی توبہ و استغفار کا حال معلوم نہ تھا، جب عذاب ٹل گیا تو ان کو فکر ہوئی کہ مجھے جھوٹا قرار دیا جائے گا کیونکہ میں نے اعلان کیا تھا کہ تین دن کے اندر عذاب آئیگا، اس قوم میں قانون یہ تھا کہ جس شخص کا جھوٹ ثابت ہوجائے اور وہ اپنے کلام پر کوئی شہادت پیش نہ کرے تو اس کو قتل کردیا جاتا تھا، یونس (علیہ السلام) کو فکر ہوئی کہ مجھے جھوٹا قرار دیکر قتل کردیا جائیگا۔ انبیاء (علیہم السلام) ہر گناہ سے معصوم ہوتے ہیں : مگر انبیاء انسانی فطرت و طبیعت سے جدا نہیں ہوتے اس وقت یونس (علیہ السلام) پر طبعی طور پر یہ ملال ہوا کہ میں نے بحکم الہیٰ اعلان کیا تھا اور اب میں اعلان کی وجہ سے جھوٹا قرار دیا جاؤں تو کس منہ سے جاؤں اور قومی قانون کے مطابق گردن زدنی بنوں اس رنج و غم اور پریشانی کے عالم میں اس شہر سے نکل جانے کا ارادہ کرکے چل دئیے یہاں تک کہ بحر روم کے کنارہ پر پہنچ گئے وہاں ایک کشتی دیکھی جس میں لوگ سوار تھے، یونس (علیہ السلام) کو ان لوگوں نے پہچان لیا اور بغیر کرایہ کے سوار کرلیا، کشتی روانہ ہو کر جب وسط دریا میں پہنچی تو وہ دفعۃً ٹھہر گئی نہ آگے بڑھتی ہے اور نہ پیچھے ہٹتی ہے کشتی والوں نے منادی کرا دی کہ ہماری کشتی کی منجانب اللہ یہی شان ہے کہ جب اس میں کوئی ظالم گنہگار یا بھاگا ہوا غلام سوار ہوجاتا ہے تو یہ کشتی خودبخود رک جاتی ہے اس آدمی کو ظاہر کردینا چاہیے تاکہ ایک آدمی کی وجہ سے سب پر غضب نہ آئے۔ حضرت یونس (علیہ السلام) بول اٹھے کہ وہ بھاگا ہوا گنہگار غلام میں ہوں بغیر اذن خداوندی بستی چھوڑ کر چلے آنا پیغمبر انہ شان کی وجہ سے گناہ قرار دیا کہ پیغمبر کی کوئی نقل و حرکت بغیر اذن خداوندی کے نہ ہونی چاہیے تھی اسلئے فرمایا کہ مجھے دریا میں ڈال دو کشتی والے اس پر تیار نہ ہوئے بلکہ انہوں نے قرعہ اندازی کی تاکہ قرعہ میں جس کا نام نکل آئے اس کو دریا میں ڈال دیا جائے اتفاق سے قرعہ حضرت یونس (علیہ السلام) ہی کے نام سے نکل آیا، ان لوگوں کو اس پر تعجب ہوا تو کئی مرتبہ قرعہ اندازی کی ہر مرتبہ حضرت یونس (علیہ السلام) ہی کے نام قرعہ نکلتا رہا، قرآن کریم میں بھی اس قرعہ اندازی کا ذکر موجود ہے، ” فَسَاھم فکانَ من المدحضین “ یونس (علیہ السلام) کے ساتھ حق تعالیٰ کا یہ معاملہ ان کے مخصوص پیغمبرانہ مقام کی وجہ سے تھا کہ اگرچہ انہوں نے اللہ کے کسی حکم کی خلاف ورزی نہیں کی تھی جس کو گناہ اور معصیت کہا جائے اور کسی پیغمبر سے اس کا امکان بھی نہیں ہے اسلئے کہ وہ معصوم ہوتے ہیں لیکن بغیر اجازت چلے جانا پیغمبرانہ شان بلند کے مناسب نہیں تھا اس خلاف شان عمل پر بطور عتاب یہ معاملہ کیا گیا۔ ادھر حضرت یونس (علیہ السلام) کو دریا میں آئیں تو ان کو اپنے پیٹ میں جگہ دے جس کو حق تعالیٰ نے پہلے سے حکم دے رکھا تھا، اور بتادیا تھا کہ یونس (علیہ السلام) تیری غذا نہیں ہے بلکہ تیرا پیٹ اس کا مسکن ہے چناچہ ایسا ہی ہوا، حضرت عبد اللہ بن مسعود کی روایت ہے کہ حضرت یونس (علیہ السلام) مچھلی کے پیٹ میں چالیس دن رہے، بعض حضرات نے سات دن اور بعض نے پانچ اور بعض نے ایک دن چند گھنٹے مدت بتائی ہے، اس حالت میں حضرت یونس (علیہ السلام) نے یہ دعاء کی ” لا اِلہٰ اِلا انت سبحانک اِنّی کنت من الظَّلمین “ اللہ تعالیٰ نے اس دعاء کو قبول فرما لیا اور بالکل صحیح سالم حضرت یونس (علیہ السلام) کو دریا کے کنارے ڈال دیا۔ مچھلی کے پیٹ کی گرمی سے آپ کے بدن پر کوئی بال نہیں رہا تھا، اللہ نے ان کے قریب ایک کدو کا درخت اگا دیا جس کے پتوں کا سایہ حضرت یونس (علیہ السلام) کیلئے درخت کا سایہ بن گیا، اور ایک جنگلی بکری کو اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا کہ وہ صبح و شام ان کے پاس جاکر کھڑی ہوجایا کرے چناچہ وہ ایسا ہی کرتی اور حضرت یونس (علیہ السلام) اس کا دودھ پی لیتے تھے، اس طرح حضرت یونس (علیہ السلام) کو اس لغزش پر تنبیہ ہوگئی اور بعد میں ان کی قوم کو بھی پورا حال معلوم ہوگیا۔ اس قصہ کے جتنے اجزاء قرآن میں مذکور ہیں یا مستند روایات سے ثابت ہیں وہ تو یقینی ہیں باقی اجزاء تاریخی روایات کے ہیں جن پر کسی شرعی مسئلہ کا مدار نہیں رکھا جاسکتا۔ (معارف القرآن) فائدہ : حضرت یونس (علیہ السلام) کو تنبیہ کسی معصیت یا فرائض منصبی میں کوتاہی کا نتیجہ نہیں تھی جیسا کہ بعض مفسرین کو دھوکا ہوا ہے، اس لئے کہ یہ بات بالاتفاق طے ہے کہ انبیاء معصوم ہوتے ہیں اختلاف صرف اس بات میں ہے کہ صغائر سے بھی معصوم ہوتے ہیں یا نہیں اہل سنت والجماعت کا مسلک ہے کہ صغائر سے بھی معصوم ہوتے ہیں، البتہ خلاف اولی کا صدور ہوسکتا ہے مگر اس کو معصیت نہیں کہا جاسکتا اور نہ اس پر مواخذہ ہوتا ہے البتہ انبیاء کی شان بلند کی نسبت سے ان کو تنبیہ کردی جاتی ہے، حضرت یونس (علیہ السلام) کے متعلق یہ خیال کہ انہوں نے رسالت کے فرض منصبی میں کوتاہی کی تھی جس کی وجہ سے ان کو سزا دی گئی یہ کسی طرح بھی اہل سنت والجماعت کے مسلک سے میل نہیں کھاتا۔
Top