Tafseer-e-Jalalain - Hud : 36
وَ اُوْحِیَ اِلٰى نُوْحٍ اَنَّهٗ لَنْ یُّؤْمِنَ مِنْ قَوْمِكَ اِلَّا مَنْ قَدْ اٰمَنَ فَلَا تَبْتَئِسْ بِمَا كَانُوْا یَفْعَلُوْنَۚۖ
وَاُوْحِيَ : اور وحی بھیجی گئی اِلٰي نُوْحٍ : نوح کی طرف اَنَّهٗ : کہ بیشک وہ لَنْ يُّؤْمِنَ : ہرگز ایمان نہ لائے گا مِنْ : سے قَوْمِكَ : تیری قوم اِلَّا : سوائے مَنْ : جو قَدْ اٰمَنَ : ایمان لا چکا فَلَا تَبْتَئِسْ : پس تو غمگین نہ ہو بِمَا : اس پر جو كَانُوْا يَفْعَلُوْنَ : وہ کرتے ہیں
اور نوح کی طرف وحی کی گئی کہ تمہاری قوم میں جو لوگ ایمان لاچکے ان کے سوا اور کوئی ایمان نہیں لائے گا۔ تو جو کام یہ کر رہے ہیں انکی وجہ سے غم نہ کھاؤ۔
آیت نمبر 36 تا 49 ترجمہ : اور نوح (علیہ السلام) کی طرف وحی بھیجی گئی کہ تیری قوم میں سے جو ایمان لاچکے ان کے سوا اب کوئی ایمان لانے والا نہیں لہٰذا تم ان کے شرکیہ کرتوتوں پر غم نہ کرو چناچہ نوح (علیہ السلام) نے ان کیلئے ربِّ لاتذر الخ کہہ کر بددعاء کردی اور اللہ تعالیٰ نے ان کی بددعاء کو قبول فرما لیا اور حکم دیا کہ ہماری نگرانی اور حفاظت میں ہمارے حکم کے مطابق ایک کشتی بناو اور دیکھو جن لوگوں نے کفر کیا ہے ان کو ہلاک نہ کرنے کے بارے میں مجھ سے کوئی سفارش نہ کرنا یقیناً وہ غرق ہونے والے ہیں) نوح (علیہ السلام) ( کشتی بنا رہے تھے یہ حال ماضی کی حکایت ہے اور جب کبھی ان کے پاس سے ان کی قوم کے لوگ گزرتے تو اس کا مذاق اڑاتے) نوح (علیہ السلام) ( نے کہا اگر تم ہم پر ہنستے ہو تو) عنقریب ( ہم تم پر ہنسیں گے جس طرح تم ہنستے ہو جب ہم نجات پائیں گے اور تم غرق ہوگے، عنقریب تم کو معلوم ہوجائیگا کہ وہ رسوا کن عذاب کس پر آتا ہے ؟ مَنْ موصولہ تعلمون کا مفعول ہے اور وہ دائمی عذاب کس پر نازل ہوتا ہے ؟ یہاں تک کہ ان کی ہلاکت کا ہمارا حکم آگیا اور تنور نے پانی ابال دیا اور یہ نوح (علیہ السلام) کیلئے علامت تھی، ہم نے حکم دیا کہ) حیوانات ( میں سے ہر قسم کا ایک جوڑا کشتی میں چڑحالو، یعنی نر اور مادہ کا) اثنین ( احمل کا مفعول ہے قصہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے نوح (علیہ السلام) کے لئے درندوں اور پرندوں کو جمع کردیا چناچہ جب حضرت نوح (علیہ السلام) ہر نوع پر ہاتھ ڈالتے تو حضرت نوح کا دایاں ہاتھ نر پر اور بایاں ہاتھ مادہ پر پڑتا، اور ان کو کشتی میں سوار کرلیتے، اور اپنے گھر والوں یعنی بیوی اور بچوں کو باستثناء اس کے کہ ان میں سے جس پر ہلاکت کا حکم نافذ ہوچکا ہے، اور وہ ان کی بیوی اور ان کا بیٹا کنعان تھا بخلاف سام، حام، یافث کے کہ ان کو اور ان تینوں کی بیویوں کو سوار کرلیا، اور) ان کے علاوہ ( ان کو بھی جو ایمان لائے اور بجز قلیل آدمیوں کے ان کے ساتھ کوئی ایمان نہیں لایا کہا گیا کہ چھ مرد اور ان کی بیویاں تھیں اور کہا گیا ہے کہ کشتی میں سوار ہونے والوں کی کل تعداد اسّی تھی ان میں نصف مرد تھے اور نصف ان کی نیویاں، نوح (علیہ السلام) نے کہا اس میں سوار ہوجاو، اللہ ہی کے نام سے اس کا چلنا بھی ہے اور ٹھہرنا بھی) مجریھا اور مرسھا ( دونوں میم کے فتحہ اور ضمہ کے ساتھ مصدر ہیں یعنی اس کا چلنا اور ٹھہرنا یعنی اپنے انتہاء سفر پر جاکر ٹھہرجانا) اللہ ہی کے حکم سے ہے ( میرا رب بڑا غفور و رحیم ہے کہ اس نے ہم کو ہلاک نہیں کیا، اور کشتی ان کو لے کر عظیم اور بلند ہونے میں پہاڑ جیسی موجوں کے درمیان چل رہی تھی اور نوح (علیہ السلام) نے اپنے بیٹے کنعان سے آواز دیکر کہا اور وہ کشتی سے فاصلہ پر تھا، اے میرے پیارے بیٹے ہمارے ساتھ سوار ہوجا، اور کافروں کے ساتھ نہ رہ) اس نے ( جواب دیا کہ میں ابھی کسی پہاڑ کی پناہ لئے لیتا ہوں جو مجھے پانی میں غرق ہونے سے بچا لے گا) نوح (علیہ السلام) ( نے کہا آج کوئی چیز اللہ کے عذاب سے بچانے والی نہیں بجز اس کے کہ اس پر اللہ رحم فرمائے صرف وہی بچ سکتا ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا، ) اتنے میں ( ایک موج ان کے درمیان حائل ہوگئی اور وہ ڈوبنے والوں میں شامل ہوگیا، حکم ہوا اے زمین تو اپنا پورا پانی جو تجھ سے نکلا ہے نگل لے) جذب کرلے ( چناچہ زمین نے پورا پانی جذب کرلیا سوائے اس پانی کے جو آسمان سے برسا، سو) زمین سے نکلا ہوا پانی ( نہروں اور دریاوں میں شامل ہوگیا، اور اے آسمان) بادل ( تو پانی برسانا بند کر دے، چناچہ اس نے بند کردیا اور پانی کم ہوگیا، اور قوم نوح کی ہلاکت کے فیصلے پر عمل درآمد کردیا گیا، اور کشتی جودی پہاڑ پر ٹھہر گئی) جودی ( موصل کے قریب جزیرہ کا ایک پہاڑ ہے اور کافروں کی ہلاکت کا حکم دیا گیا اور نوح (علیہ السلام) نے اپنے رب کو پکارا اور کہا اے میرے رب میرا بیٹا کنعان میرے اہل سے ہے اور تو نے میرے اہل کی نجات کا وعدہ فرمایا ہے اور بلاشبہ تیرا وعدہ سچ ہے کہ اس میں تخلف نہیں ہے، اور تو سب حاکموں سے بہتر حاکم ہے یعنی سب سے زیادہ علم والا اور سب سے زیادہ انصاف والا ہے، اللہ کی طرف سے جواب ملا کہ اے نوح وہ تیرے نجات پانے والے اہل سے نہیں ہے یا تیرے اہل دین سے نہیں ہے، بلاشبہ مجھ سے ان کی نجات کا تیرا سوال نامناسب ہے اسلئے کہ وہ کافر ہے اور کافر کی نجات نہیں ہے، اور ایک قراءت میں عَمِلَ فعل کے ساتھ اور غیر کے نصب کے ساتھ ہے اس صورت میں ضمیر ابن کی طرف راجع ہوگی، لہٰذا تو مجھ سے اس بات کی درخواست نہ کر) تسئلَن ( نون کی تخفیف اور تشدید کے ساتھ ہے، جس بات کو تجھے علم نہیں ہے اور وہ بات تیرے بیٹے کی نجات کا سوال ہے، میں تجھے نصیحت کرتا ہوں کہ جس چیز کو تو نہیں جنتا اس کا سوال کرکے خود کو نادانوں میں شامل نہ کر، ) نوح (علیہ السلام) نے ( عرض کیا اے میرے رب میں اس بات سے تیری پناہ چاہتا ہوں کہ میں تجھ سے کسی ایسی چیز کا سوال کروں جس کا مجھے علم نہیں اور اگر آپ میری غلطی کو معاف نہ فرمائیں گے اور رحم نہ فرمائیں گے تو میں زیاں کاروں میں شامل ہوجاوں گا، حکم ہوا اے نوح تم کشتی سے ہمارے امن یا سلام کے ساتھ اور اپنے اور ان جماعتوں پر جو کشتی میں تیرے ساتھ ہیں یعنی ان کی اولاد کے ساتھ اور وہ مومنین ہیں برکت کے ساتھ اترو اور کچھ لوگ تمہارے ساتھ ایسے بھی ہیں جن کو ہم دنیا میں سامان عیش بخشیں گے اور پھر آخرت میں ہماری طرف سے ان کو دردناک عذاب پہنچے گا اور وہ کافر ہیں، یہ آیات جو نوح (علیہ السلام) کے قصہ پر مشتمل ہیں اے محمد تمہاری طرف غیب کی خبریں ہیں یعنی ان چیزوں کی خبریں ہیں جو تم سے مخفی ہیں اور نزول قرآن سے پہلے نہ تم ان کو جانتے تھے اور نہ تیری قوم، لہٰذا تم تبلیغ پر اور اپنی قوم کی ایذا رسانی پر صبر کرو جس طرح نوح (علیہ السلام) نے صبر کیا، بہتر انجام متقیوں ہی کے لئے ہے۔ تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد قولہ : واُوحِیَ اِلی نوح انَّہ لَنْ یومِنَ مِنْ قومِک اِلاَّ مَنْ قَدْ آمَنَ ، اُوْحِیَ فعل ماضی مجھول انَّہ لن یومِنَ نائب فاعل ای او حیَ الیہ عدم ایمان بعض قومِہ۔ قولہ : تبتئسْ ) ابتئاس افتعال ( سے مضارع واحد مذکر حاضر یہاں چونکہ حرف حرف نہی داخل ہے اس لئے نہی ہے، تو رنج نہ کر قولہ : بمرایً ، مِنَّا وحفظنا، یہ اضافہ ایک سوال کا جواب ہے۔ سوال : یہ ہے کہ باَعْیُنِنَا سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اَعْضاء ہیں اور جس کے اعضاء ہوں وہ مجسم ہوتا ہے لہٰذا اللہ کے لئے جسم ہونا ثابت ہوا جیسا کہ مجسمیہ کا عقیدہ ہے۔ جواب : کا حاصل یہ ہے کہ باعیننا یہ حفظ اور رویت سے کنایہ ہے جیسا کہ بَسَط اللہ یدہ، جو دو سخاوت سے کنایہ ہے، باعْینِنَا، محلا حال ہے، تقدیر یہ ہے متلبسًا باَعْیُنِنَا۔ قولہ : حکایۃ حال ماضیۃ، یہ ایک سوال کا جواب ہے۔ سوال : سوال یہ ہے کہ یَصْنَعُ ، مضارع کا صیغہ ہے جو حال اور استقبال پر دلالت کرتا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کشتی بنانا خبر دینے کے بعد حالانکہ کشتی زمانہ ماضی میں بنائی جا چکی تھی۔ جواب : جواب یہ ہے کہ زمانہ ماضی کی حالت کی حکایت ہے، یعنی کشتی بنانے کا منظر کشی کی جاری ہے۔ قولہ : مَنْ موصولۃ مفعول العلم مَنْ یاتیہِ میں مَنْ موصولہ ہے اور تعلمون کا مفعول بہ ہے ترکیب سے یہ شبہ ختم ہوگیا کہ مَنْ استفہامیہ ہے اس کو صدارت کی ضرورت ہے۔ قولہ : غایۃ للصنع، یعنی حَتّٰی صنع کی غایت ہے یتیہ یا یحلُّ کی غایت نہیں ہے جیسا کہ قریب کی وجہ سے شبہ ہوتا ہے، حتّٰی ابتدائیہ ہے جو کہ جملہ شرطیہ پر داخل ہے اور واصنع الفلک کی غایت ہے۔ قولہ : فی السفینۃِ ، اس اضافہ میں اس سوال کے جواب کی طرف اشارہ ہے کہ فیھا کی ضمیر ماقبل میں مذکور الفلکَ کی طرف راجع ہے جو کہ مذکر ہے حالانکہ فیھا ضمیر مونث ہے جواب یہ ہے کہ فلک، سفینۃ کے معنی میں ہے فلا شبھۃ۔ قولہ : اِنَّہ سوالک ایای بنجاتِہ، مفسر علام نے اِنَّہ کی ضمیر کے مرجع کی تعیین کرتے ہوئے فرمایا کہ مرجع اپنے بیٹے کنعان کی نجات کے بارے میں سوال ہے یعنی تمہارا مناسب نہیں ہے، جمہور مفسرین نے، ہ، ضمیر کا مرجع ابن کو قرار دیا ہے یعنی کنعان تمہارے اہل میں سے نہیں ہے، اس سے مجاز لازم آتا ہے اس لئے کہ حقیقۃً اہل سے نفی درست نہیں ہے جس کی وجہ سے مجازی معنی یعنی دینی اہل مراد لینے ہوں گے۔ قولہ : وفی قراءۃ بکسر میم عَمِلَ فعل ونصب غیرَ فالضمیر لابنہ اس عبارت کے اضافہ کا مقصد، عمل کے اعراب کو بتانا ہے جمہور کی قراءت میں عَمَل مصدر ہے اور غیر صالح اس کی صفت ہے مطلب یہ ہے کہ تمہارا اپنے بیٹے کنعان کی نجات کی سفارش عمل نامناسب ہے، اسلئے کہ وہ کافر ہے اور کافر کی نجات نہیں ہے، اور ایک قراءت میں عَمِلَ فعل ماضی کا صیغہ ہے اس صورت میں غَیْرَ مصدر محذوف کی صفت ہونے کی وجہ سے منصوب ہوگا تقدیر عبارت یہ ہوگی اِنَّہ عَمِلَ عَمَلاً غیرَ صالح، اس صورت میں اِنَّہ کی ضمیر ابن کی طرف راجع ہوگی یعنی کنعان نے عمل غیر صالح کئے، مفسر علام نے پہلی صورت کو اختیار کیا ہے کہ نوح (علیہ السلام) کا اپنے کافر بیٹے کی نجات کی سفارش عمل نامناسب ہے اسلئے کہ آگے فرمایا گیا ہے " انی اعظک ان تکون مِن الجاھلین " اس سے نوح (علیہ السلام) کی طرف جہل کی نسبت لازم آتی ہے۔ قولہ : فلاتَسئلنِ بالتخفیف والتشدید یعنی نون کی تشدید کے ساتھ ماقبل کے فتحہ کے ساتھ اور یہ نافع کی قراءت ہے اور ابن کثیر اور ابن عامر اور باقیوں نے لام کے سکون اور نون کی تخفیف کے ساتھ پڑھا ہے اور حالت وصل میں نون کے بعد یاء کو باقی رکھا ہے نہ وقف میں، اور ورش و ابو عمرو نے وقف اور وصل دونوں صورتوں میں یاء کو باقی رکھا ہے۔ قولہ : بسلامَۃ اَوْ بتحیۃ اس اضافہ کا مقصد سلام کے دو معنی کو بیان کرنا ہے بسلامۃ کہہ کر امن و سلامتی کے معنی کی طرف اشارہ کردیا اور بتحیۃ کہہ کر سلام و تحیہ کی طرف اشارہ ہے مطلب یہ ہے یہاں دونوں معنی درست ہیں۔ قولہ : وَاُمم بالرفع ممن مَعَکَ ، اُمَم رفع کے ساتھ ہے مبتداء ہونے کی وجہ سے اور سَنُمَتِّعُھُمْ اس کی خبر ہے، نہ کہ امم سابق پر معطوف ہونے کی وجہ سے مجرور، اسلئے کہ یہ لوگ سلامتی اور برکت میں داخل نہیں ہیں۔ سوال : اُمَم کا نکرہ ہونے کی وجہ سے مبتداء واقع ہونا درست نہیں ہے ؟ جواب : اُمَم موصوف ہے اور ممن معک اس کی صفت ہے لہٰذا اُمَم کا نکرہ موصوفہ ہونے کی وجہ سے مبتداء بننا صحیح ہے مفسر علام نے ممن معک کا اضافہ کرکے اسی تقدیر کی طرف اشارہ کیا ہے۔ قولہ : ای ھذہ الاٰیات المتضمنۃ الخ یہ ایک سوال مقدر کا جواب ہے سوال یہ ہے کہ تلک اسم اشارہ مونث مبتداء ہے حالانکہ اس کی تین خبریں ہیں اور تینوں مذکر ہیں، 1۔ من ابناء الغیب، 2۔ نوحیھا الیک، 3۔ ماکنت تعلمھا۔ لہٰذا خبر کی رعایت کی وجہ سے مبتداء بھی مذکر ہونا چاہیے۔ جواب کا حاصل یہ ہے کہ ھذہ کا مشار الیہ مذکورہ خبریں نہیں ہیں، بلکہ اس کا مشار الیہ الآیات، محذود ہے جس کی طرف مفسر علام نے اشارہ کیا ہے لہٰذا اب کوئی اعتراض نہیں۔ تفسیر و تشریح قرآن عزیز میں حضرت نوح (علیہ السلام) کا تذکرہ : قرآن کریم نے معجزہ نما نظم کلام کی یہ سنت ہے کہ وہ تاریخی واقعات میں سے جب کسی واقعہ کو بیان کرتا ہے تو اپنے مقصد " وعظ و تذکیر " کے پیش نظر واقعہ کی ان ہی جزیات کو بیان کرتا ہے جو مقصد کیلئے ضروری ہوں چناچہ اسی اسلوب کے پیش نظر قرآن عزیز نے حضرت نوح (علیہ السلام) کے واقعہ کا اجمالی و تفصیلی ذکر سولہ جگہ کیا ہے۔ ) قصص القرآن سیوھاروی (۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کو حق تعالیٰ نے تقریباً ایک ہزار سال کی عمر دراز عطا فرمائی تھی، آپ اس طویل مدت میں ہمیشہ اپنی قوم کو دین حق اور کلمہ توحید کی دعوت دیتے رہے، قوم کی طرف سے سخت ایذاوں کا سامنا کرنا پڑا مگر آپ اپنی قوم کے لئے یہ دعاء کرتے کہ یا اللہ میری قوم کو معاف کر دے یہ بیوقوف و جاہل ہیں جانتے ہیں، آپ ہدایت کی امید پر ایک نسل کے بعد دوسری اور دوسری کے بعد تیسری کو ہدایت کی دعوت دیتے رہے مگر بہت قلیل لوگوں کے علاوہ کوئی ایمان نہ لایا۔ جب اس پر صدیاں گذر گئیں تو اللہ رب العزت کے سامنے ان کی حالت زار کی شکایت کی جو سورة نوح میں مذکور ہے، " ربِّ انی دعوت قومی لَیْلاً ونھارا، فلم یزدھم دعائی اِلاَّ فرارا " اتنے طویل زمانہ تک اپنی قوم کے ہاتھون مصائب برداشت کرنے کے بعد اس مرد خدا کی زبان پر یہ دعاء آئی " ربِّ انصرنی بما کذبون " اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے " وَاُوْحِی الی نوح انَّہ لن یومِنَ مِنْ قومِکَ اِلاَّ آمَنْ الخ " یعنی اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تیری قوم میں جس کو ایمان لانا تھا لاچکے اب کوئی شخص ایمان نہ لائیگا، اب آپ اس قوم کا غم نہ کھائیں اور ان کے ایمان قبول نہ کرنے پر پریشان نہ ہوں۔ دوسری بات یہ فرمائی کہ اب ہم اس قوم پر پانی کے طوفان کا عذاب بھیجنے والے ہیں اس لئے آپ ہماری نگرانی میں وحی کے حکم نے مطابق ایک کشتی تیار کریں جس میں آپ کے اہل و عیال اور مومنین مع اپنی ضروریات کے سما سکیں حضرت نوح (علیہ السلام) نے حکم کے مطابق کشتی بنائی، پھر جب طوفان کے ابتداء کی علامتیں ظاہر ہونے لگیں کہ زمین سے پانی ابلنے لگا تو حضرت نوح (علیہ السلام) کو حکم دیا گیا کہ خود مع اپنے اہل و عیال اور ان لوگوں کے جو ایمان لاچکے ہیں کشتی میں سوار ہوجائیں، اور انسان ضروریات جن جانوروں سے متعلق ہیں مثلاً گائے، بیل، بکری، گھوڑا، گدھا وغیرہ کا ایک ایک جوڑا رکھ لیں۔ کشتی کی وسعت اور پیمائش : یہ کشتی کس ساخت کی تھی اور اس کی پیمائش کیا تھی اس کی تفصیلات بائبل میں ہیں قرآن نے ان سے یکسر صرف نظر کرلی ہے اس لئے کہ ان تفصیلات سے حاصل کچھ بھی نہیں اور نہ ان تفصیلات کے درپے ہونا کوئی مفید خدمت ہے بس اتنا معلوم ہونا کافی ہے کہ کشتی میں اتنی گنجائش تھی کہ اس وقت مومن آبادی جس کی تعداد بہ اختلاف روایات 40 تا 80 تھی اور ضروری جانوروں کے جوڑے اس میں سما گئے تھے۔ کشتی سازی کا حکم : غرضیکہ حضرت نوح (علیہ السلام) کی دعاء قبول ہوئی اور اپنے قانون جزاء اعمال کے مطابق سرکشوں کی سرکشی اور متمردوں کے تمرد کی سزا کا اعلان کردیا اور حفظ ما تقدم کیلئے کشتی بنانے کا حکم دیا، جب نوح (علیہ السلام) نے کشتی بنانی شروع کی تو کفار نے ہنسی اڑانا اور مذاق بنانا شروع کردیا، کہ پانی پینے اور دیگر ضروریات کیلئے تو میسر نہیں بھلا کشتی چلنے کے لئے پانی کہاں سے آئیگا، معلوم ہوتا ہے اب کشتیاں صحراء کے ریت میں چلا کریں گی، ادھر کشتی بن کر تیار ہوئی ادھر طوفان کی ابتدائی علامات کا ظہور ہونے لگا، " حتی اذا جاء امرنا وفار التنور " لفظ تنور کئی معنی میں مستعمل ہے سطح زمین کو بھی تنور کہتے ہیں روٹی پکانے کے تنور کو بھی تنور کہا جاتا ہے، زمین کے بلند حصہ کو بھی تنور کہا جاتا ہے بعض حضرات نے تنور سے سطح زمین مراد لی اور بعض نے معروف تنور، کہا جاتا ہے کہ آدم (علیہ السلام) کا تنور ملک شام میں مقام عین الوادہ میں تھا بعض نے کہا کہ نوح (علیہ السلام) کا تنور کوفہ میں تھا وہ مراد ہے اکثر مفسرین مثلاً حضرت حسن، مجاہد، شعبی اور حضرت عبد اللہ بن عباس وغیرہ نے آخری قول کا اختیار کیا ہے، غرضیکہ پانی ہر جگہ سے ابل پڑا جس میں روئے زمین کے علاوہ معروف تنور بھی شامل ہے اور آسمان سے موسلا دھار بارش ہونے لگی تمام منکرین حق غرق ہوگئے اور کشتی پانی پر تیرنے لگی اور طوفان ختم ہوگیا تو کشتی جودی پہاڑ پر ٹھہر گئی، جودی پہاڑ آج بھی اسی نام سے موجود ہے اس کا محل وقوع حضرت نوح (علیہ السلام) کے وطن اصلی عراق، موصل کے شمال میں جزیرہ ابن عمر کے قریب آرمینیہ کی سرحد پر ہے یہ ایک کوہستانی سلسلہ ہے جس کے ایک حصہ کا نام جودی ہے اسی کے ایک حصہ کو اراراط کہا جاتا ہے موجودہ تورات میں کشتی ٹھہرنے کا مقام کوہ اراراط بتایا گیا ہے ان دونوں روایتوں میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ کشتی کے بعض حصے موجود ہیں : قدیم تاریخوں میں مذکور ہے کہ بعض مقامات پر اسی کشتی کے ٹکڑے اب تک موجود ہیں جن کو تبرک کے طور پر رکھا گیا ہے۔ تاریخ بغوی میں ہے کہ نوح (علیہ السلام) ماہ رجب کی دس تاریخ کو کشتی میں سوار ہوئے تھے، چھ ماہ تک کشتی پانی پر تیرتی رہی جب بیت اللہ پر پہنچی تو سات مرتبہ بیت اللہ کا طواف کیا پھر 10 محرم کو طوفان مکمل طور پر ختم ہوا اور کشتی جودی پہاڑ پر ٹھہر گئی حضرت نوح (علیہ السلام) اور مومنین نے شکرانہ کے طور پر اس روز، روزہ رکھا۔ کشتی کی پیمائش : بعض تاریخی روایات سے کشتی نوح (علیہ السلام) کی پیمائش یہ معلوم ہوئی ہے کہ لمبائی تین سو گز اور چوڑائی 50 گز اور اونچائی 30 گز تھی اور یہ سہ منزلہ تھی اس میں روشندان اور دروازے بھی تھے۔
Top