Tafseer-e-Jalalain - Hud : 6
وَ مَا مِنْ دَآبَّةٍ فِی الْاَرْضِ اِلَّا عَلَى اللّٰهِ رِزْقُهَا وَ یَعْلَمُ مُسْتَقَرَّهَا وَ مُسْتَوْدَعَهَا١ؕ كُلٌّ فِیْ كِتٰبٍ مُّبِیْنٍ
وَمَا : اور نہیں مِنْ : سے (کوئی) دَآبَّةٍ : چلنے والا فِي : میں (پر) الْاَرْضِ : زمین اِلَّا : مگر عَلَي : پر اللّٰهِ : اللہ رِزْقُهَا : اس کا رزق وَيَعْلَمُ : اور وہ جانتا ہے مُسْتَقَرَّهَا : اس کا ٹھکانا وَمُسْتَوْدَعَهَا : اور اس کے سونپے جانے کی جگہ كُلٌّ : سب کچھ فِيْ : میں كِتٰبٍ مُّبِيْنٍ : روشن کتاب
اور زمین پر کوئی چلنے پھر نے والا نہیں مگر اس کا رزق خدا کے ذمے ہے۔ وہ جہاں رہتا ہے اسے بھی جانتا ہے اور جہاں سونپا جاتا ہے اسے بھی۔ یہ سب کچھ کتاب روشن میں (لکھا ہوا) ہے۔
آیت نمبر 6 تا 8 ترجمہ : زمین پر چلنے پھرنے والے جتنے جاندار ہیں سب کا رزق اللہ کے ذمہ ہے، مِنْ زائدہ ہے) دَابَّۃ (اس جاندار کو کہتے ہیں جو زمین پر چلتا ہے، یعنی اللہ ہی ان کی روزی کا اپنے فضل سے کفیل ہے وہی ان کو رہنے سہنے کی جگہ کو جانتا ہے آیا دنیا میں ہے یا پشت پدر میں اور مرنے کے بعد اسکے سپرد کئے جانے کی جگہ کو یا رحم مادر میں ہے) اس کا مقام (کو جانتا ہے اور ہر چیز کا جو مذکور ہوئی وہ کتاب مبین میں ہے اور وہ لوح محفوظ ہے، اور وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا ان کا پہلا میدان یکشنبہ تھا اور آخری دن جمعہ کا اور آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے سے پہلے اس کا عرش پانی پر تھا اور پانی ہوا کے دوش پر تھا، تاکہ تم کو آزمائے) لِیَبْلُوَکم (خَلَقَ کے متعلق ہے یعنی ان دونوں کو اور ان میں جو کچھ ہے تمہارے منافع اور تمہاری مصلحتوں کیلئے پیدا کیا تاکہ تم کو آزمائے، کہ تم میں کون بہتر عمل کرنے والا ہے ؟ یعنی کون اللہ کا زیادہ تابع فرمان ہے، اور اگر) اے محمد (تم کہو کہ تم کو مرنے کے بعد) زندہ کرکے ( اٹھایا جائیگا، تو منکرین فوراً بول اٹھیں گے کہ یہ قرآن جو بعث بعد الموت کی بات کرتا ہے یا جو بات تم کرتے ہو وہ کھلا ہوا جادو ہے، اور ایک قراءت میں) سِحر (کے بجائے ساحِر ہے اور اس کے مصداق نبی ﷺ ہوں گے، اور اگر ہم ان سے متعین عذاب کو کچھ مدت کیلئے ملتوی کردیتے ہیں تو بطور استہزاء کہنے لگتے ہیں کہ اس عذاب کو آنے سے کس چیز نے روک رکھا ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا یاد رکھو جس دن وہ) عذاب (ان پر آپڑے گا تو ٹالے نہ ٹلے گا اور جس عذاب کا وہ مذاق اڑاتے تھے وہی ان کو آگھیرے گا۔ تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد قولہ : تکفلَ بہ فضلاً منہ یہ اضافہ ایک سوال مقدر کا جواب ہے کہ اِلاَّ علی اللہ رزقھا سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ پر رزق رسانی واجب ہے، حالانکہ وجوب اللہ پر محال ہے۔ جواب : کا حاصل یہ ہے کہ مخلوق کے لئے رزق رسانی کا اللہ پر لزوم و جوباً نہیں ہے بلکہ محض فضلاً وشفقۃً ہے۔ قولہ : کل مِمَّا ذکرَ اس میں اشارہ ہے کہ کلُّ ، کی تنوین مضاف الیہ کے عوض میں ہے۔ قولہ : بَیِّن، مبین کی تفسیر بَیّن سے کرکے اشارہ کردیا کہ متعدی بمعنی لازم ہے۔ قولہ : جماعۃ اوقات اس میں اشارہ ہے کہ اُمَّۃ سے مراد لوگوں کی جماعت نہیں ہے بلکہ اس سے اوقات کا محدود مجموعہ مراد ہے، اُمۃ اصل میں لوگوں کی جماعت کو کہتے ہیں ای طائفۃ من الناس، یہاں طائفۃ من الازمنۃ مراد ہے جیسا کہ شارح (رح) تعالیٰ نے لفظ اوقات کا اضافہ کرکے اشارہ کردیا ہے۔ قولہ : معدودۃ، معدودۃ سے مراد قلیلۃ ہے اس لئے کہ حصر بالعدد قلت پر دلالت کرتا ہے۔ تفسیر و تشریح ربط آیات : پچھلی آیات میں حق تعالیٰ کے علم محیط کا ذکر تھا جس سے کائنات کا کوئی زرہ اور دلوں کا کوئی راز بھی پوشیدہ نہیں، تو بھلا وہ جانداروں کو ان کی روزی کے معاملہ میں کیسے فراموش کرسکتا ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے جانداروں کی روزی کی کفالت اپنے ذمہ محض اپنے فضل سے لے لی ہے اللہ تعالیٰ پر کسی کی طرف سے نہ کوئی شئ واجب ہے اور نہ کسی کا دباو، اور روزی رسانی کا انتظام اسی وقت ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ کو ہر جاندار کا مقام مستقر معلوم ہو ورنہ روزی رسانی کا نظام ممکن ہی نہیں ہوسکتا، تو کفار کے یہ ارادے کہ اپنے کسی کام کو اللہ تعالیٰ سے چھپالیں جہالت اور بےوقوفی کے سوا کچھ نہیں۔ رزق سے متعلق ایک سوال اور اس کا جواب : سوال : یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب روزی رسانی کی ذمہ داری اللہ رب العٰلمین کی ہے تو پھر ہزار ہا جاندار بھوک اور پیاس سے کیوں مرجاتے ہیں ؟ جواب : یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر جاندار کی موت کے اسباب اپنے علم ازلی کے مطابق متعین فرما دیئے کہ فلاں مرض کی وجہ سے مرے گا اور فلاں جل کر مرے گا اور فلاں ڈوب کر مرے گا اور فلاں قتل ہو کر مرے گا ایسے ہی اسباب میں سے ایک سبب یہ بحی ہے کہ وہ بھوک سے مرے گا اسی سبب کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی روزی بند کردی جاتی ہے اس کا یہ مطلب نہیں کہ خدانخواستہ اللہ تعالیٰ کے خزانہ میں کوئی کمی آگئی ہے یا اس کے یہاں غذائی اسٹاک ختم ہوگیا ہے۔ ) نعوذ باللہ (۔ آیت میں " مستقر " اور " مستودع " کے دو لفظ استعمال ہوئے ہیں ان کی تعریف میں مفسرین کا اختلاف ہے، بعض حضرات کے نزدیک منتہائے سیر کا نام مستقر ہے اور جس کا ٹھکانا بنائے وہ مستودع ہے اور بعض کے نزدیک رحم مادر مستقر اور صلب پدر مستودع ہے، اور بعض کے نزدیک انسان یا حیوان جہاں بودوباش رکھتا ہے وہ مستقر ہے اور یہاں مرنے کے بعد دفن ہوگا وہ مستودع ہے) ابن کثیر ( بہرحال جو معنی بھی لئے جائیں مفہوم واضح ہے، چونکہ اللہ تعالیٰ کو ہر ایک کا مستقر ومستودع معلوم ہے اس لئے وہ ہر ایک کو روزی پہنچانے پر قادر ہے۔ اسباب کا اختیار کرنا توکل کے خلاف نہیں : علی اللہ رزقھا، اس سے یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ جب اللہ تعالیٰ نے ہر جاندار کی روزی رسانی کی ذمہ داری اپنے ذمہ لے لی ہے لہٰذا اب نہ کچھ کرنے کی ضرورت ہے اور نہ اسباب اختیار کرنے کی ضرورت، اسلئے کہ شریعت کی تعلیم ترک اسباب کی نہیں ہے اور نہ اسباب کا اختیار کرنا توکل کے خلاف ہے، حضرت تھانوی (رح) تعالیٰ نے فرمایا کہ اسباب کو اگر اس اعتقاد کے ساتھ اختیار کیا جائے کہ مسبب الاسباب اللہ ہی ہے اور یہ اعتقاد نہ رکھا جائے کہ بغیر اسباب کے رزق حاصل ہو ہی نہیں سکتا، تو یہ توکل کے منافی نہیں ہے، بلکہ اس عالم میں اسباب ظاہری کی پوری رعایت کرکے پھر توکل کیا جائے، عارف رومی نے اپنی مثنوی میں توکل کے صحیح طریقہ کی ایک حکایت بیان کی ہے۔ حکایت : بیان فرماتے ہیں کہ ایک اعرابی آپ کی خدمت میں مسجد نبوی میں حاضر ہوا، آپ نے دریافت فرمایا اونٹنی کو کیا کیا ؟ اس نے کہا خدا کے توکل پر یوں ہی چھوڑ دیا ہے، آپ نے فرمایا اسے باندھ دو اور پھر اللہ پر بھروسہ کرو۔ گفت پیغمبر بآواز بلند بر توکل زانوئے اشتربہ بند وھو الذی خَلَقَ السمٰوٰت والارض فی ستۃ ایام وکان عرشہ علی الماء، اس آیت میں حق تعالیٰ کے علم محیط اور قدرت ظاہرہ کا ایک اور مظہر ذکر کیا گیا ہے کہ اس نے تمام آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا فرمایا اور ان چیزوں کے پیدا کرنے سے پہلے عرش رحمان پانی پر تھا، آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان میں ہے ان کے چھ دن میں پیدا کرنے کی تفصیل سورة حم سجدہ میں اس طرح آئی ہے کہ وہ دن میں زمین بنائی گئی اور دو دن میں زمین کے پہاڑ دریا درخت اور جانداروں کی غذا پیدا فرمائی اور دو دن میں سات آسمان بنائے کائنات کو چھ دن میں پیدا کرنے کا مطلب : تفسیر مظہری میں ہے کہ آسمان سے مراد تمام علویات ہیں اور زمین سے مراد تمام سفلیات ہیں اور سن سے مراد وقت کی وہ مقدار ہے جو آسمان و زمین میں پیدا کرنے کے بعد آفتاب کے طلوع و غروب تک ہوتا ہے، اگرچہ آسمان و زمین کی پیدائش کے وقت نہ آفتاب تھا اور نہ اس کا طلوع و غروب۔ حق تعالیٰ کی قدرت کاملہ میں یہ بھی تھا کہ ان تمام کو ایک دن میں پیدا کر دے مگر اس نے اپنی حکمت سے اس عالم کے نظام کو تدریجی بنایا ہے جو انسان مزاج کے مناسب ہے، اس آیت کے آخر میں آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے کا مقصد بیان فرمایا ہے، لِیَبْلوَکم ایکم اَحْسَنُ عملاً ، یعنی یہ سب چیزیں اس لئے پیدا کی گئیں کہ ہم تمہارا امتحان لیں کہ کون تم میں سے زیادہ اچھا عمل کرتا ہے ؟ اس سے معلوم ہوا کہ آسمانوں اور زمین کی پیدائش مقصود بالذات نہیں تھی بلکہ اس کو عمل کرنے والے انسان کے لئے بنایا گیا تاکہ وہ ان چیزوں سے اپنے معاش کا فائدہ بھی حاصل کریں، اور ان میں غور و فکر کرکے اپنے رب حقیقی کو بھی پہچانیں۔ نکتہ : اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ نہیں فرمایا کہ کون زیادہ عمل کرتا ہے بلکہ فرمایا کون زیادہ اچھا عمل کرتا ہے اچھا عمل وہ ہوتا ہے جو رضائے الہیٰ کے لئے ہو اور یہ کہ سنت کے مطابق ہو اگر مذکورہ دونوں شرطیں نہ پائی جائیں گی تو وہ اچھا عمل نہیں رہے گا چاہے وہ کتنا بھی زیادہ عمل کیوں نہ ہو اللہ کے یہاں اس کی کوئی حیثیت نہیں۔ کان عرشہ علی الماء، یہ جملہ معترضہ ہے جو اس سوال کا جواب ہوسکتا ہے کہ آسمان اور زمین جب نہیں تھے تو اس وقت کیا تھا ؟ اس سوال کا جواب مختصر انداز میں یہ دیا گیا کہ پہلے پانی تھا، نہیں کہا جاسکتا کہ پانی سے کیا مراد ہے، مطلب یہ ہے کہ موجودہ عالم کو پیدا کرنے سے پہلے عالم آب تھا اور اسی پر اللہ تعالیٰ کی حکومت تھی عرش کے پانی پر ہونے کا مطلب اس کی حکومت کا پانی پر ہونا ہے۔ وَحَاقَ بھم ما کانوا بہ یَسْتھزءون، یہاں استعجال یعنی جلدی طلب کرنے کو استہزاء سے تعبیر کیا گیا ہے، کہ وہ استعجال بطور استہزاء ہی ہوتا تھا یہاں یہ بتانا مقصود ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تاخیر پر انسان کو غفلت میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے اس کی گرفت کسی وقت بھی آسکتی ہے۔
Top