Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Tafseer-e-Jalalain - Ar-Ra'd : 1
الٓمّٓرٰ١۫ تِلْكَ اٰیٰتُ الْكِتٰبِ١ؕ وَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ مِنْ رَّبِّكَ الْحَقُّ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یُؤْمِنُوْنَ
الٓمّٓرٰ
: الف لام میم را
تِلْكَ
: یہ
اٰيٰتُ
: آیتیں
الْكِتٰبِ
: کتاب
وَالَّذِيْٓ
: اور وہ جو کہ
اُنْزِلَ
: اتارا گیا
اِلَيْكَ
: تمہاری طرف
مِنْ رَّبِّكَ
: تمہارے رب کی طرف سے
الْحَقُّ
: حق
وَلٰكِنَّ
: اور لیکن (مگر)
اَكْثَرَ النَّاسِ
: اکثر لوگ
لَا يُؤْمِنُوْنَ
: ایمان نہیں لاتے
المر (اے محمد ﷺ یہ کتاب (الہٰی) کی آیتیں ہیں۔ اور جو تمہارے پروردگار کی طرف سے تم پر نازل ہوا ہے حق ہے۔ لیکن اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے
بسم اللہ الرحمن الرحیم آیت نمبر 1 تا 7 ترجمہ : شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان بڑا رحم والا ہے، المر، اس سے اپنی مراد کو اللہ ہی بہتر جانتا ہے، یہ آیتیں قرآن کریم کی آیتیں ہیں اور (آیاتُ الکتاب) میں اضافت بمعنی مِنْ ہے اور جو کچھ آپ کی طرف آپ کے رب کی طرف سے اتارا جاتا ہے سب حق ہے (یعنی) اس میں کوئی شک نہیں ہے، (وَالَّذِیْ اُنزلَ اِلیک الخ) مبتداء ہے اور الحقُّ اس کی خبر ہے، لیکن اکثر لوگ اس پر ایمان نہیں لاتے کہ یہ منجانب اللہ ہے اور وہ اہل مکہ ہیں، اللہ وہ ہے جس نے آسمانوں کو ایسے ستونوں کے بغیر بلند فرمایا جو تم کو نظر آتے ہوں، العمد، عمادٌ کی جمع ہے اور وہ ستون ہیں اور عدم رویت اس وقت بھی صادق آتی ہے جبکہ ستون ہی نہ ہوں پھر وہ تخت شاہی پر جلوہ فرما ہوا ایسی جلوہ فرمائی کہ جو اس کے شایان شان ہے اور اس نے شمس و قمر دونوں کو قانون کا پابند بنایا ان میں سے ہر ایک اپنے مدار پر ایک مدت (یعنی) قیامت تک کیلئے جاری ہے (وہی اللہ) ہر کام کی تدبیر کرتا ہے (یعنی) اپنے کے معاملات طے کرتا ہے اور وہ اپنی قدرت کی دلالتوں کو خوب کھول کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ اے اہل مکہ بعث کے ذریعہ تم اپنے رب کی ملاقات کا یقین کرو اور وہ ایسی ذات ہے کہ اس نے زمین کو پھیلایا اور اس میں نہ ہلنے والے پہاڑ پیدا کئے اور نہریں پیدا کیں اور زمین میں ہر قسم کے پھلوں کے دہرے دہرے جوڑے پیدا کئے وہ رات کی تاریکی کے ذریعہ دن کو چھپا دیتا ہے یقیناً اس مذکور میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کی بہت سی نشانیاں ہیں اللہ کی صنعت میں غور و فکر کرنے والوں کیلئے، اور زمین میں الگ الگ خطے پائے جاتے ہیں جو ایک دوسرے سے متصل واقع ہیں، ان میں زرخیز بھی ہیں اور بنجر بھی اور قلیل النفع بھی ہیں اور کثیر النفع بھی، یہ بھی خدا کی قدرت کی نشانیوں میں سے ہے، اور انگور کے باغات ہیں، اور کھیتیاں ہیں (زرعٌ) رفع کے ساتھ جنات پر عطف کی وجہ سے اور جر کے ساتھ بھی اعناب پر عطف کی وجہ سے، اور کھجور کے درخت ہیں (صنوان) صنوٌ کی جمع ہے کھجور کے ان درختوں کو کہتے ہیں جن کی جڑ ایک ہو اور اوپر اس میں متعدد شاخیں ہوں اور کچھ اکہرے بھی ہیں سب کو ایک ہی پانی سیراب کرتا ہے (تسقٰی) کی ضمیر مذکور کی طرف راجع ہوگی مگر مزے میں ہم بعض کو بہتر بنا دیتے اور بعض کو کمتر (نفضل) نون اور یاء کے ساتھ ہے (الاُکُلُ ) کاف کے ضمہ اور اس کے سکون کے ساتھ (دو قراءتیں ہیں) بعض ان میں شیریں اور بعض ترش ہوتے ہیں یہ بھی خدا کی قدرت کے دلائل میں سے ہے، بلاشبہ ان مذکورہ باتوں میں غور و فکر کرنے والوں کیلئے نشانیاں ہیں اور اگر اے محمد آپ کو کفار کے آپ کی تکذیب کرنے سے تعجب ہوتا ہے تو درحقیقت منکرین بعث کا یہ قول قابل تعجب ہے کہ جب ہم مر کر مٹی ہوجائیں گے تو کیا ہم نئے سرے سے پیدا کئے جائیں گے ؟ اس لئے کہ جو ذات سابقہ نمونے کے بغیر ازسر نو پیدا کرنے اور مذکورہ چیزوں پر قادر ہے وہ ان کو دوبارہ پیدا کرنے پر بھی قادر ہے، اور دونوں ہمزوں میں دونوں جگہ تحقیق اور پہلے کی تحقیق اور ثانی کی تسہیل اور دونوں صورتوں میں دونوں ہمزوں کے درمیان الف داخل کرکے اور ادخال کو ترک کرکے (سب جائز ہے) اور ایک قراءت اول میں استفہام اور ثانی میں خبر اور دوسری قراءت میں اس کا برعکس یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب کا کفر کیا اور یہ وہ لوگ ہیں کہ جن کی گردنوں میں طوق ہے، یہ جہنمی ہیں اور جہنم میں ہمیشہ رہیں گے، اور ان کے بطور استہزاء عذاب کے بارے میں جلدی مچانے کے بارے میں (آئندہ) آیت نازل ہوئی یہ لوگ نیکی یعنی رحمت سے پہلے برائی کیلئے جلدی مچا رہے ہیں حالانکہ ان سے پہلے عبرتناک مثالیں گذر چکی ہیں مثلات، مَثلۃ کی جمع ہے سَمُرَۃ کے وزن پر، یعنی ان جیسے تکذیب کرنے والوں کی سزائیں (گذر چکی ہیں) کیا اس سے عبرت حاصل نہیں کرتے ؟ حقیقت یہ ہے کہ تیرا رب لوگوں کی زیادتی کے باوجود ان کو معاف بھی کرتا ہے ورنہ تو وہ روئے زمین پر کوئی چلنے والا (یعنی ذی روح) نہ چھوڑے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ تیرا رب لوگوں کی زیادتی کے باوجود ان کو معاف بھی کرتا ہے ورنہ تو وہ روئے زمین پر کوئی چلنے والا (یعنی ذی روح) نہ چھوڑے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ تیرا رب اپنی نافرمانی کرنے والوں کو سخت سزا دینے والا ہے اور کافر کہتے ہیں کس لئے محمد ﷺ پر نہیں اتاری گئی اس کے رب کی طرف سے کوئی نشانی جیسا کہ عصا (موسیٰ (علیہ السلام) اور ید (بیضاء) اور اونٹنی (ناقۂ صالح علیہ الصلوٰۃ والسلام) اللہ تعالیٰ نے فرمایا آپ تو کافروں کا محض آگاہ کرنے والے ہیں (یعنی ڈرانے والے ہیں، معجزات کا لانا آپ کے ذمہ نہیں ہے، اور ہر قوم کیلئے رہنما ہوتا ہے (یعنی) نبی ہوتا ہے جو لوگوں کو ان معجزات کے ذریعہ جو اس کو اللہ عطا کرتا ہے ان کے رب کی طرف بلاتا ہے نہ کہ ان معجزات کے ذریعہ جن کو وہ تجویز کرے۔ تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد قولہ : سورة الرعد مکیۃ سورة الرعد مبتداء ہے مکیۃ خبر اول ہے اور ثلث الخ خبرثانی ہے، مکی مدنی ہونے کے بارے میں پانچ قول ہیں (1) یوری سورت مکی سوائے ” ولا یزال الذین کفروا (الآیۃ) کے (2) پوری سورت مکی ہے سوائے ھو الذی یریکم البرق، الی قولہ، لہ دعوۃ الحق (3) پوری سورت مدنی ہے سوائے وَلَوْ انَّ قرآنا (دو آیتیں) (4) کہا گیا ہے کہ پوری سورت مدنی ہے، (5) کہا گیا ہے کہ پوری سورت مکی ہے۔ قولہ : الاضافۃ بمعنی من، یہ اس سوال کا جواب ہے کہ آیات الکتاب میں اضافت الشئ الی نفسہٖ لازم آرہی ہے اسلئے کہ آیات اور کتاب ایک ہی شئ ہے، جواب کا حاصل یہ ہے کہ اضافت الشی الی نفسہ اس وقت لازم آتی جب اضافت بمعنی لام ہوتی یہاں اضافت بمعنی من ہے فلاحرج۔ قولہ : بانّہ من عندہ یہ جملہ یؤمنون کا مفعول بہ ہے۔ سوال : یُؤْمِنُ متعدی بالی استعمال ہوتا ہے نہ کہ متعدی بالباء۔ جواب : یُؤْمنون، یقرّون کے معنی کو متضمن ہے لہٰذا تعدیہ بالباء درست ہے۔ قولہ : اللہ الذی رفع السمٰوات الخ اللہ مبتداء ہے اور اَلَّذِیْ الخ اس کی خبر ہے۔ قولہ : وھو صادق بان لا عَمَدَ اصْلا یہ اس شبہ کا جواب ہے کہ جمع کی نفی بطور مفہوم کے ثبوت واحد پر دلالت کرتی ہے یعنی ایک ستون ہے، جواب کا حاصل یہ ہے کہ مقید کی نفی مطلق کی نفی پر دلالت کرتی ہے، یہاں نفی موصوف اور صفت دونوں کی طرف راجع ہے۔ قولہ : جَعَلَ ، یہ اس شبہ کا جواب ہے کہ جعل متعدی بدو مفعول ہوتا ہے حالانکہ یہاں دو مفعول نہیں ہیں۔ جواب : جَعَلَ بمعنی خَلَقَ ہے نہ کہ بمعنی صَیَّرَ ۔ قولہ : من کل نوعٍ من کُلّ الثمرات کی تفسیر ہے۔ قولہ : یغشی الَّیل النھارَ یہ جملہ مستانفہ ہے اور ماقبل میں مذکور افعال کے فاعل سے حال بھی ہوسکتا ہے، یُغَشِی کا فاعل ضمیر ھو مستتر ہے جو اللہ کی طرف راجع ہے، الّیْل مفعول اول ہے اور النھارَ مفعول ثانی یعنی اللہ تعالیٰ رات کے ذریعہ دن کو چھپا دیتا ہے۔ قولہ : صِنوان، بالتثلیث، نخلۃ لھا رأسان واصلھا واحد، ایسا کھجور کا درخت کہ جس کی جڑ ایک ہو سر دو ہوں۔ قولہ : بالتاء والیاء تُسْقٰی مؤنث کی صورت میں اس کا نائب فاعل الجنات ہوگا اور یُسٌقٰی مذکر کی صورت میں اسکا فاعل مذکور ہوگا۔ قولہ : بالیاء، یعنی نُفضِّلُ میں یاء اور نون دونوں جائز ہیں مذکر غائب کی صورت میں یُدَبِّرُ کے ساتھ مطابقت ہوگی۔ قولہ : حقیق بالعجب۔ سوال : فعجبٌ کی تفسیر حقیق سے کس مقصد کے پیش نظر کی ہے ؟ جواب : اسکا مقصد ایک سوال کا جواب ہے سوال : کیا ہے ؟ سوال یہ ہے کہ عجبٌ خبر مقدم ہے اور قولھم مبتداء مؤخر ہے، اور عجبٌ مصدر ہے اور مصدر کا حمل قولھم پر درست نہیں۔ جواب : حقیق محذوف مانا تاکہ حمل درست ہوجائے۔ تفسیر و تشریح فضائل سورة رعد : سورة رعد کا مختصر (قریب المرگ شخص) کے پاس پڑھنا مستحب ہے اس سے روح نکلنے ہونے میں آسانی ہوتی ہے، ابن ابی شیبہ نے جابر بن زید سے روایت کیا ہے، قال ! کان یستحب اذا احتضر المیت أن یقرأ عندہٗ سورة الرعد فاِن ذلک یخفف عن المیت واِنہ اھون لقبضہ وأیسرُ لشانِہٖ ۔ (فتح القدیر شوکانی) المرٰ ، تلک اٰیٰت الکتب (الآیۃ) حروف مقطعات کے متعلق الم کے شروع میں بحث گذر چکی ہے وہاں دیکھ لی جائے احوط اور مناسب طریقہ یہی ہے کہ اس کے بارے میں زیادہ بحث نہ کی جائے اور اس کی حقیقی مراد کو اللہ کے حوالہ کیا جائے، اس سورت میں جو کچھ پڑھا جانے والا ہے وہ اس عظیم الشان قرآن کی آیتیں ہیں، یہ کتاب جو آپ پر آپ کے پروردگار کی طرف سے اتاری گئی ہے یقیناً حق و صواب ہے، لیکن تعجب کا مقام ہے کہ ایسی صاف اور واضح حقیقت کے ماننے سے بھی لوگ انکار کرتے ہیں۔ سورت کا مرکزی مضمون : پہلی آیت میں مرکزی مضمون کی مناسبت سے تمہیدی مضمون تھا دوسری آیت سے اصل مضمون شروع ہو رہا ہے، یہ بات پیش نظر رہے کہ نبی ﷺ اس وقت جس چیز کی طرف لوگوں کو دعوت دے رہے تھے وہ تین بنیادی باتوں پر مشتمل تھی ایک یہ کہ خدائی پوری کی پوری اللہ ہی کی ہے اس کے علاوہ کوئی مستحق بندگی نہیں، دوسرےؔ یہ کہ اس زندگی کے بعد ایک دوسری زندگی ہے جس میں سب کو اپنے اپنے اعمال کی جوابدہی کرنی ہوگی تیسرےؔ یہ کہ میں اللہ کا رسول ہوں جو کچھ پیش کر رہا ہوں وہ اپنی طرف سے نہیں بلکہ خدا کی طرف سے ہے یہی تین باتیں ہیں جنہیں لوگ ماننے سے انکار کر رہے ہیں۔ دوسری آیت (اللہ الذی رفع السمٰوات بغیر عمدٍ ترونھا) میں اللہ تعالیٰ کے وجود اور اس کی توحید کے دلائل مذکور ہیں کہ اس کی مخلوقات اور مصنوعات کو ذرا غور سے دیکھو تو یقین کرنا پڑے گا کہ اس کو بنانے والی کوئی ایسی ذات ہے کہ جو قادر مطلق اور تمام مخلوقات و کائنات اس کے قبضۂ قدرت میں ہے۔ کیا آسمان کا جرم آنکھوں سے نظر آتا ہے ؟ عام طور سے یہ کہا جاتا ہے کہ یہ نیلا رنگ جو ہم کو نظر آتا ہے آسمان کا رنگ ہے، مگر فلاسفہ کا کہنا یہ ہے کہ یہ رنگ روشنی اور اندھیرے کی آمیزش سے محسوس ہوتا ہے جیسا کہ گہرے پانی پر روشنی پڑتی ہے تو وہ نیلا نظر آتا ہے، مگر ان دونوں باتوں میں کوئی تضاد نہیں ہے دونوں باتیں ایک جگہ جمع ہوسکتی ہیں۔ ثم استوی علی العرش، پھر تخت سلطنت پر جلوہ فرما ہوگیا جیسی جلوہ فرمائی کہ اس کی شایان شان ہے اس جلوہ فرمائی کی کیفیت کو کوئی نہیں سمجھ سکتا، اتنا اعتقاد رکگنا کافی ہے کہ جس طرح کا استویٰ شان الٰہی کے لائق ہے وہ مراد ہے۔ وسخر الشمس والقمر، سورج اپنا دورہ ایک سال اور چاند ایک ماہ میں پورا کرتا ہے، لِاَجل مُسَمّٰی کے معنی اگر وقت مقرر تک کیلئے جائیں تو مطلب یہ ہوگا کہ چاند سورج قیامت تک اسی طرح چلتے رہیں گے کائناتی دلائل کو پیش کرنے اور ان میں غور و فکر کی دعوت دینے کا مقصد یہ ہے کہ جو ذات اتنی عظیم الشان مخلوق پیدا کرسکتی ہے اس کیلئے تمہارا دوبارہ پیدا کرنا کیا مشکل ہے ؟ ! شمس و قمر کو مسخر کرنے سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دونوں کو جس ضابطہ کا پابند بنادیا ہے ہزارہا سال گذر گئے مگر اسی ضابطہ کی پابندی کے ساتھ رفتار میں کمی بیشی کے بغیر چل رہے ہیں نہ تھکتے ہیں اور نہ اپنے کام سے انحراف کرتے ہیں یہ نظام قدرت بآواز بلند کہہ رہا ہے کہ اس کائنات کو بنانے اور چلانے والی کوئی ایسی ہستی ضرور ہے جو انسان کے ادراک و شعور سے بالاتر ہے۔ یدبر الامر، اللہ ہر امر کا انتظام حکمت اور مصلحت کے ساتھ کرتا رہتا ہے یعنی وہ محض صانع اور خالق ہی نہیں کہ جو ایک مرتبہ تخلیق کے بعد معطل ہو کر بیٹھ گیا ہو جیسا کہ بعض گمراہ فرقوں کا عقیدہ ہے بلکہ حاکم اور متصرف بھی ہے۔ وھو الذی مد الارض، کرۂ ارض جو کہ دیگر بہت کروں کے مقابلہ میں مثل ذرہ کے ہے پھر بھی اس کی وسعت کا اندازہ لگانا ایک عام آدمی کیلئے نہایت دشوار ہے، اور بلند وبالا پہاڑوں کے ذریعہ زمین میں گویا میخیں گاڑدی ہیں، نہروں، دریاؤں اور چشموں کا ایسا سلسلہ قائم کیا ہے کہ جس سے انسان خود بھی مستفید ہوتے ہیں اور کھیتوں کو بھی سیراب کرتے ہیں جن سے انواع و اقسام کے غلے اور پھل پیدا ہوتے ہیں جن کی شکلیں بھی ایک دوسرے سے مختلف اور ذائقے بھی جدا گانہ ہوتے ہیں اور ان میں مختلف انواع و اقسام کے ساتھ ساتھ جوڑے بھی پیدا کئے، اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ نر اور مادہ دونوں بنائے جیسا کہ جدید تخلیق نے بھی اس کی تصدیق کردی ہے اور دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جوڑے سے مراد میٹھا اور کھٹا، سرد اور گرم، سیاہ وسفید، ذائقہ دار اور بد ذائقہ اس طرح ایک دوسرے سے مختلف اور متضاد قسمیں پیدا کیں۔ وفی الارض قطع متجاورات، یعنی صانع حکیم نے پوری روئے زمین کو یکساں نہیں بنایا، بلکہ اس میں بیشمار خطے پیدا کئے جو متصل ہونے کے باوجود شکل میں، رنگ میں، مادۂ ترکیب میں، خاصیتوں میں، قوتوں اور صلاحیتوں میں، کیمیاوی یا معدنی خزانوں میں ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں، ان مختلف خطوں کی پیدائش اور ان کے اندر طرح طرح کا تفاوت و اختلاف کی موجودگی اپنے اندر اتنی حکمتیں اور مصلحتیں رکھتی ہے کہ ان کا شمار نہیں ہوسکتا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پوری کائنات کی تخلیق یقیناً کسی حکیم مطلق کے سوچے سمجھے اور اس کے دانشمندانہ ارادہ کا نتیجہ ہے اسے محض ایک اتفاقی حادثہ قرار دینا ایک بڑی جرأت اور ہٹ دھرمی کی بات ہے۔ کھجور کے درختوں میں بعض ایسے ہوتے ہیں کہ جڑ سے ایک ہی تنا نکلتا ہے اور بعض میں ایک جڑ سے دو یا زیادہ نکلتے ہیں، ان باتوں سے خدا کی قدرت اور حکمت کے نشانات ملتے ہیں جو اس کی توحید اور قادر مطلق ہونے پر دلالت کرتے ہیں۔ جو شخص ان باتوں پر گور کرے گا وہ کبھی دیکھ کر پریشان نہ ہوگا کہ انسانی طبائع اور میلانات اور مزاجوں میں اتنا اختلاف کیوں ہے ؟ اگر اللہ چاہتا تو تمام انسانوں کو ہر حیثیت سے یکساں بنا دیتا مگر جس حکمت پر اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کو پیدا کیا ہے وہ یکسانی نہیں بلکہ تنوع اور رنگارنگی کی متقاضی ہے، سب کو یکساں بنا دینے کے بعد تو یہ سارا ہنگامۂ ہست و بود ہی بےمعنی ہو کر رہ جاتا، چمن اسی کو کہتے ہیں جس میں ہمہ قسم کے پھول ہوں ہر پھول کا رنگ اور مہک الگ ہو، گویا کہ کارخانہ قدرت ایک چمن ہے جس میں بیلا بھی ہے اور چنبیلی بھی، جو ہی بھی ہے اور موگھرا بھی، گلاب بھی ہے اور گل ہزارہ بھی، رات کی رانی بھی ہے اور دن کا راجہ بھی غرضیکہ ہر ایک اپنی مہک سے مشام جان کو معطر کر رہا ہے اور اپنی خوش رنگی سے آنکھوں کا نور اور دل کو سرور بخش رہا ہے، اگر کسی باغ میں گلاب ہی گلاب ہوں جو کہ پھولوں کا راجہ ہے تو اس کو چمن نہیں کہا جاسکتا البتہ اس کو گلاب کا کھیت کہہ سکتے ہیں چمن نہیں۔ وان تعجب۔۔۔۔ خلق جدید، اس آیت میں خطاب نبی کریم ﷺ کو ہے کہ کفار آپ کے کھلے معجزات اور آپ کی نبوت پر کھلی نشانیاں دیکھنے کے باوجود آپ کی نبوت کا انکار کرتے ہیں، اس کے برخلاف ایسے پتھروں کو پوجتے ہیں کہ جن میں نہ حس ہے اور نہ حرکت اور نہ عقل ہے نہ شعور وہ خود اپنے نفع نقصان کے بھی مالک نہیں یہ قابل تعجب بات ہے۔ اس سے بھی زیادہ تعجب کی بات یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ کیسا ایسا ہوسکتا ہے کہ جب ہم مر کر مٹی ہوجائیں گے تو ہمیں دوبارہ پیدا کیا جائیگا ؟ حالانکہ وہ اس بات کے قائل ہیں کہ پہلی مرتبہ تمام کائنات کو بیشمار حکمتوں کے ساتھ اسی نے پیدا کیا ہے، پھر دوبارہ پیدا کردینا اس کیلئے مشکل اور عقل کے اعتبار سے اس میں کیا استحالہ ہے ؟ حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے اللہ کی قدرت کو پہچانا نہیں ہے اس کی قدرت کو اپنی قدرت پر قیاس کرتے ہیں۔ خلاصہ یہ کہ کھلی ہوئی نشانیوں کے باوجود جس طرح ان کا نبوت سے انکار قابل تعجب ہے اس سے زیادہ قیامت میں دوبارہ زندہ ہونے اور حشر کے دن سے انکار تعجب کی چیز ہے۔ باوجود یہ کہ قوموں اور بستیوں کی تباہی کی مثالیں پہلے گذر چکی ہیں اور اپنے سفر کے دوران ان کی ہلاکت کی نشانیاں دیکھتے ہیں مگر ایک بےعقل و شعور حیوان کی طرح چشم عبرت بند کرکے گذر جاتے ہیں اس کے باوجود جلدی مانگتے ہیں، یہ کفار کے اس سوال کے جواب میں کہا گیا کہ اے پیغمبر اگر تو سچا ہے تو وہ عذاب ہم پر لے آ جس سے تو ہمیں ڈراتا ہے۔ ویقول الذین۔۔۔۔ من ربہ، اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہر نبی کو حالات اور ضروریات اور اپنی منشا کے مطابق کچھ نشانیاں اور معجزات عطا فرمائے، لیکن کافر اپنے حسب منشا معجزات کے طالب ہوتے رہے ہیں جیسا کہ کفار مکہ آپ ﷺ سے کہتے تھے کہ کوہ صفا کو سونے کا بنادیا جائے یا پہاڑوں کی جگہ نہریں اور چشمے جاری ہوجائیں وغیرہ وغیرہ، جب ان کے مطلوبہ معجزے نہ دکھائے جاتے تو کہتے کہ ان پر کوئی نشانی نازل کیوں نہیں کی گئی ؟ اللہ نے فرمایا اے پیغمبر تمہارا کام صرف انذار و تبلیغ ہے وہ تم کرتے رہو کوئی مانے یا نہ مانے اس سے تم کو کوئی غرض نہیں اسلئے کہ ہدایت دینا ہمارا کام ہے تمہارا کام راستہ دکھانا ہے۔ ولکل قوم ھاد، گذشتہ ہر قوم میں ہادی ہوتے چلے آئے ہیں اور ہر نبی کا وظیفہ اور کار منصبی یہ تھا کہ وہ قوم کو ہدایت کریں، اللہ کے عذاب سے ڈرائیں، معجزات کا ظاہر کرنا کسی نبی کے اپنے اختیار میں نہیں ہوتا یہ سب اللہ کے اختیار وقدرت میں ہوتا ہے۔
Top