Tafseer-e-Jalalain - Ibrahim : 13
وَ قَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لِرُسُلِهِمْ لَنُخْرِجَنَّكُمْ مِّنْ اَرْضِنَاۤ اَوْ لَتَعُوْدُنَّ فِیْ مِلَّتِنَا١ؕ فَاَوْحٰۤى اِلَیْهِمْ رَبُّهُمْ لَنُهْلِكَنَّ الظّٰلِمِیْنَۙ
وَقَالَ : اور کہا الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : جن لوگوں نے کفر کیا (کافر) لِرُسُلِهِمْ : اپنے رسولوں کو لَنُخْرِجَنَّكُمْ : ضرور ہم تمہیں نکال دیں گے مِّنْ : سے اَرْضِنَآ : اپنی زمین اَوْ : یا لَتَعُوْدُنَّ : تم لوٹ آؤ فِيْ مِلَّتِنَا : ہمارے دین میں فَاَوْحٰٓى : تو وحی بھیجی اِلَيْهِمْ : ان کی طرف رَبُّهُمْ : ان کا رب لَنُهْلِكَنَّ : ضرور ہم ہلاک کردینگے الظّٰلِمِيْنَ : ظالم (جمع)
اور جو کافر تھے انہوں نے اپنے پیغمبروں سے کہا کہ (یا تو) ہم تم کو اپنے ملک سے باہر نکال دیں گے یا (ہمارے) مذہب میں داخل ہوجاؤ۔ تو پروردگار نے ان کی طرف وحی بھیجی کہ ہم ظالموں کو ہلاک کر دینگے
آیت نمبر 13 تا 21 ترجمہ : اور کافروں نے اپنے رسولوں سے کہا ہم تم کو یقیناً ملک بدر کردیں گے الایہ کہ تم ہمارے مذہب میں داخل ہوجاؤ، تو ان کے پروردگار نے ان کی طرف وحی بھیجی کہ ہم ان ظالموں کافروں ہی کو غارت کردیں گے اور ان کے ہلاکت کے بعد تم کو ان کی زمین پر بسا دیں گے، یہ مدد اور وراثت ارضی اس کیلئے ہے جو میرے سامنے کھڑے ہونے کا ڈر رکھے گا اور عذاب کی وعید کا ڈر رکھے گا اور رسولوں نے اپنی قوم کے مقابلہ میں اللہ سے مدد طلب کی اور اللہ کی اطاعت کے مقابلہ میں ہر سرکشی کرنے والا ضدی حق کا دشمن نامراد ہوگیا، اس کے سامنے جہنم ہے جس میں وہ داخل ہوگا جہاں وہ پیپ کا پانی پلایا جائیگا، اور وہ ایسا پانی ہے کہ جو جہنمیوں کے اندر سے نکلے گا جو پیپ اور خون کا آمیزہ ہوگا جس کو وہ مجبوراً پیئے گا (یعنی) اس کی تلخی کی وجہ سے تھوڑا تھوڑا کرکے پیئے گا اس کی قباحت اور کراہت کی وجہ سے اس کو نگل نہ سکے گا، اور اس کی ہر طرف سے موت آتی نظر آئے گی یعنی موت کے اسباب جو موت کے متقاضی ہوں گے مختلف اقسام کے عذابوں سے، مگر وہ مرے گا نہیں اور اس عذاب کے بعد ایک نہ ختم ہونے والا سخت عذاب ہوگا اور اپنے رب کے ساتھ کفر کرنے والے لوگوں کے اعمال صالحہ مثلا صلہ رحمی اور صدقہ کی مثال ان سے منتفع نہ ہونے میں الذین کفروا مبتداء (مبدول منہ) اور اعمالھم بدل ہے اس راکھ کی سی ہے کہ جس پر آندھی کے دن تیز و تند ہوا چلی ہو (اور) اس کو اڑتا ہوا غبار کردیا کہ اس کے اجر کے پانے پر قادر نہ ہونگے (یعنی اپنے اعمال صالحہ کا اجر پانے پر قادر نہ ہو) اور مجرور (کرماد) مبتداء کی خبر ہے، جو بھی انہوں نے دنیا میں عمل (صالح) کیا کفار اسی پر یعنی اس کا اجر پانے پر اسکی شرط نہ پائے جانے کی وجہ سے قادر نہ ہوں گے یہی دور کی گمراہی ہلاکت ہے، اے مخاطب ! کیا تو نے نہیں دیکھا استفہام تقریری ہے، کہ امر واقعہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کو بامقصد پیدا کیا، بالحق، خلق کے متعلق ہے اگر وہ چاہے تو تم سب کو ختم کر دے اور تمہارے بجائے ایک نئی مخلوق پیدا کردے اور اللہ کیلئے یہ کوئی مشکل نہیں ہے، اور پوری مخلوق (روزمحشر) اللہ کے روبرو حاضر ہوگی اور تعبیر یہاں اور آئندہ صیغۂ ماضی کے ذریعہ یقینی الوقوع ہونے کی وجہ سے ہے اس وقت کمزور لوگ یعنی تابعین سربراہوں (یعنی) متبوعین سے کہیں گے ہم تو تمہارے تابعدار تھے تبعا، تابع کی جمع ہے تو کیا تم اللہ کے عذاب میں سے کچھ ہم سے دفع کرسکتے ہو پہلا من تبیین کیلئے ہے اور دوسرا تبعیض کیلئے ہے، مخدومین جواب دیں گے اگر اللہ ہمیں ہدایت دیتا تو ہم بھی تمہاری رہنمائی کرتے (یعنی) ہم تم کو ہدایت کی طرف دعوت دیتے، اب ہم خواہ وائے ویلا کریں یا صبر کریں دونوں ہمارے لئے برابر ہیں (اب) ہمارے لئے کوئی جائے پناہ نہیں ہے من زائدہ ہے۔ تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد قولہ : لتصیرن مفسر علام نے لتعودن کی تفسیر لتصیرن سے کرکے ایک سوال کا جواب دیا ہے۔ سوال : سوال یہ ہے کہ عود کیلئے پہلے اس حالت پر ہونا ضروری ہے جس سے عود کرے اس کا مطلب یہ ہوا کہ انبیاء (علیہ السلام) پہلے اپنی امت کے دین پر ہوتے تھے بعد میں اس سے نکل کر دین حق پر آتے تھے حالانکہ امر واقعہ ایسا نہیں ہے نبی ابتداء ہی سے دین حق پر ہوتے ہیں ؟ جواب : جواب کا حاصل یہ ہے تعودن، تصیرن کے معنی میں ہے، یعنی تم ہمارے دین پر ہوجاؤ۔ قولہ : بعدھلاکھم، اس میں حذف مضاف کی طرف اشارہ ہے۔ قولہ : یدخلھا، یدخلھا محذوف مان کر اشارہ کردیا کہ یسقی کا عطف محذوف پر ہے تاکہ عطف فعل علی الاسم لازم نہ آئے۔ قولہ : فیھا۔ سوال : (فیھا) مقدر ماننے کا کیا فائدہ ہے ؟ جواب : جب معطوف جملہ واقع ہوتا ہے تو اس میں عائد کا ہونا ضروری ہوتا ہے جو معطوف علیہ کی طرف راجع ہوتا ہے۔ قولہ : یتجرعہ، ای یتکلف۔ قولہ : یزدردہ، الازدراد خوشگواری اور سہولت سے کسی چیز کا حلق میں اتارنا۔ قولہ : اسبابہ المقتضیۃ للموت، اس میں اشارہ ہے کہ جہنم میں موت نہیں ہوگی اسلئے کہ موت کیلئے تو ایک ہی سبب کافی ہوتا ہے چہ جائے کہ بہت سے اسباب موجود ہوں اور پھر بھی موت نہ آئے، یہ موت نہ آنے کی دلیل ہے۔ قولہ : ویبدل منہ یہ ایک سوال کا جواب ہے۔ سوال : مبتداء اور خبر کے درمیان (اعمالھم) کا فصل بالاجنبی لازم آرہا ہے جو درست نہیں ہے۔ جواب : یہ فصل اجنبی نہیں ہے بلکہ وہ مبتداء سے بدل ہے اور بدل مبدل منہ سے اجنبی نہیں ہوتا۔ قولہ : فی یوم عاصف، عاصف کی یوم کی طرف اسناد مجاز کے طور پر ہے اور یوم عاصف، نھارہ صائم ولیلۃ قائم کے قبیل سے ہے۔ قولہ : من الاولی للتبیین یعنی من اپنے بعد واقع ہونے والے لفظ شئ کے بیان کیلئے ہے بیان جو کہ عذاب اللہ ہے مبین یعنی شئ پر مقدم ہے تقدیر عبارت یہ ہے، ” ھل انتم مغنون عنا بعض الشئ ھو بعض عذاب اللہ “۔ تفسیر و تشریح قال الذین۔۔۔ الخ حضرات انبیاء کے وعظ و تذکیر سے بجائے اس کے کہ منکرین کے دل کچھ نرم پڑتے اور ٹھنڈے دل سے اپنے رسول کی بتائی باتوں پر غور کرتے الٹے انہوں نے یہ کہنا شروع کردیا کہ تم ہی ہمارے دھرم میں آجاؤ ورنہ ہم تمہیں ملک بدر کردیں گے، اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ انبیاء (علیہم السلام) منصب نبوت پر فائز ہونے سے پہلے گمراہ لوگوں کے دین دھرم میں شامل ہوا کرتے تھے اور وحی ہدایت آنے کے بعد دین باطل کو ترک کرکے دین حق کی طرف آتے تھے بلکہ مطلب یہ ہے کہ نبوت سے پہلے چونکہ وہ ایک طرف خاموش زندگی بسر کرتے تھے کسی دین کی تبلیغ اور رائج الوقت دین کی تردید نہیں کرتے تھے اس لئے ان کی قوم یہ سمجھتی تھی کہ وہ بھی ہماری ملت میں ہیں، اور کار نبوت شروع کرنے کے بعد ان پر الزام لگایا جاتا تھا کہ وہ ملت آبائی سے نکل گئے ہیں۔ حالانکہ وہ نبوت سے پہلے بھی کبھی مشرکوں کی ملت میں شامل نہیں ہوئے تھے کہ ان پر اس سے خروج کا الزام عائد کیا جائے۔ ولنسکننکم الارض الخ اسی وعدہ کے مطابق اللہ تعالیٰ نے نبی ﷺ کی مدد فرمائی، اگرچہ آپ ﷺ کو بادل ناخواستہ مکہ سے نکلنا پڑا لیکن چند سالوں کے بعد ہی آپ فاتحانہ مکہ میں داخل ہوئے اور آپ کو نکلنے پر مجبور کرنے والے ظالم مشرکین سرجھکائے کھڑے آپ کے اشارۂ ابرو کے منتظر تھے، لیکن آپ نے خلق عظیم کا مظاہرہ کرتے ہوئے لاشریب علیکم الیوم کہہ کر سب کو معاف فرما دیا۔ مثل الذین۔۔۔ الخ یعنی جن لوگوں نے اپنے رب کے ساتھ بےوفائی، خودمختاری نافرمانی اور سرکشی کی روش اختیار کی اور اطاعت و بندگی کا وہ طریقہ اختیار کرنے سے انکار کردیا کہ جس کی دعوت انبیاء کرام لے کر آئے تھے، ایسے لوگوں کی زندگی بھر کا سرمایۂ عمل ایسا لاحاصل اور بےمعنی ثابت ہوگا جیسا کہ راکھ کا ایک ڈھیر تھا، مگر صرف ایک ہی دن کی آندھی نے اس کو ایسا اڑا دیا کہ اس کا ایک ایک ذرہ منتشر ہو کر رہ گیا، حتی کہ ان کی عبادتیں اور ان کی ظاہری نیکیاں اور ان کے خیراتی اور رفائی کارنامے بھی جن پر ان کو فخر و ناز تھا سب کے سب آخر کار راکھ کا ڈھیر ہی ثابت ہوں گے جسے یوم قیامت کی آندھی صاف کر دے گی اور عالم آخرت میں اس کا ایک ذرہ بھی ان کے پاس اس لائق نہ رہے گا کہ اے خدا کی میزان میں رکھ کر کچھ وزن پاسکیں۔ دوزخیوں کی آپس میں گفتگو : جہنمی آپس میں گفتگو کرتے ہوئے کہیں گے کہ جنتیوں کو جنت اس لئے ملی کہ وہ اللہ کے سامنے روتے اور گڑگڑاتے تھے آؤ ہم بھی اللہ کی بارگاہ میں آہ وزاری کریں چناچہ وہ رو رو کر خوب آہ وزاری کریں گے لیکن اس کا کوئی فائدہ نہ ہوگا، پھر کہیں گے جنتیوں کو جنت ان کے صبر کی وجہ سے ملی چلو ہم بھی صبر کرتے ہیں پھر وہ صبر کا بھرپور مظاہرہ کریں گے لیکن اس کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوگا، تو اس وقت کہیں گے کہ ہم صبر کریں یا جزع و فزع اب رہائی کی کوئی صورت نہیں یہ ان کی گفتگو جہنم کے اندر ہوگی۔
Top