Tafseer-e-Jalalain - Ibrahim : 42
وَ لَا تَحْسَبَنَّ اللّٰهَ غَافِلًا عَمَّا یَعْمَلُ الظّٰلِمُوْنَ١ؕ۬ اِنَّمَا یُؤَخِّرُهُمْ لِیَوْمٍ تَشْخَصُ فِیْهِ الْاَبْصَارُۙ
وَلَا : اور نہ تَحْسَبَنَّ : تم ہرگز گمان کرنا اللّٰهَ : اللہ غَافِلًا : بیخبر عَمَّا : اس سے جو يَعْمَلُ : وہ کرتے ہیں الظّٰلِمُوْنَ : ظالم (جمع) اِنَّمَا : صرف يُؤَخِّرُهُمْ : انہیں مہلت دیتا ہے لِيَوْمٍ : اس دن تک تَشْخَصُ : کھلی رہ جائیں گی فِيْهِ : اس میں الْاَبْصَارُ : آنکھیں
اور (مومنو ! ) مت خیال کرنا کہ یہ ظالم جو عمل کر رہے ہیں خدا ان سے بیخبر ہے۔ وہ ان کو اس دن تک مہلت دے رہا ہے جب کہ (دہشت کے سبب) آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جائیں گی۔
آیت نمبر 42 تا 52 ترجمہ : مکہ کے کافر جو کچھ کرتے ہیں اس سے تم خدا کو ہرگز غافل نہ سمجھو، وہ تو ان کو عذاب سے اس دن تک کے لئے مہلت دئیے ہوئے ہیں کہ جس دن منظر کی ہولناکی کی وجہ سے آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی، کہا جاتا ہے شخص بصر فلان، یعنی اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں جس کو وہ بند نہ کرسکا، حال یہ کہ وہ آسمان کی طرف اپنے سروں کو اٹھائے ہوئے (داعی کی آواز کی طرف) تیزی سے دوڑے چلے جا رہے ہوں گے (ایک لمحہ کیلئے بھی) ان کی پلک نہ جھپکے گی اور ان کے قلوب ان کے خوف کی وجہ سے عقل سے خالی ہوں گے اور اے محمد ﷺ آپ کافر لوگوں کو اس دن سے ڈراؤ جس دن ان پر عذاب آویگا اور وہ قیامت کا دن ہوگا، اور ظالم کافر کہیں گے اے ہمارے پروردگار، تو ہمیں تھوڑے وقت کی مہلت دے بایں صورت کہ تو ہمیں دنیا کی طرف لوٹا دے تاکہ ہم تیری توحیدی دعوت قبول کرلیں اور تیرے رسولوں کی اتباع کریں تو ان سے جھڑکی کے طور پر کہا جائیگا، کیا تم اس سے پہلے دنیا میں قسم کھا کر نہیں کہا کرتے تھے کہ ہمارے لئے تو دنیا سے آخرت کی طرف ٹلنا ہی نہیں ہے حالانکہ تم دنیا میں ان کی بستیوں میں رہ چکے ہو کہ جنہوں نے امم سابقہ میں سے کفر کرکے اپنے اوپر ظلم کیا اور تمہارے لئے ظاہر ہوچکا تھا کہ ہم نے ان کے ساتھ عذاب کا کیسا معاملہ کیا تھا ؟ پھر بھی تم باز نہیں آئے، اور ہم نے تمہارے (سمجھانے) کیلئے قرآن میں طرح طرح کی مثالیں بیان کیں مگر تم نے عبرت حاصل نہ کی، اور یہ لوگ نبی ﷺ کے ساتھ اپنی چالیں چل رہے ہیں اس طریقہ پر کہ ان لوگوں نے آپ کے قتل کا یا قید کرنے کا یا وطن سے نکالنے کا ارادہ کیا اور اللہ کو ان کے مکر کا علم ہے یا اللہ کے پاس ان کی سزا ہے، اور ان کی چالیں اگرچہ کتنی ہی عظیم ہوں ایسی نہ تھیں کہ ان سے پہاڑ اپنی جگہ سے ٹل سکیں، معنی یہ ہیں کہ ان کی چالیں قابل توجہ نہ تھیں اور وہ اپنا ہی نقصان کر رہے ہیں اور پہاڑوں سے مراد حقیقۃ پہاڑ ہی ہیں، یا اسلام احکام ہیں جن کی ثبات وقرار میں پہاڑوں کے ساتھ تشبیہ دی اور ایک قراءت میں (لتزول) کے لام کے فتحہ اور فعل کو رفع کے ساتھ ہے اور ان مخففہ ہے اور مقصد ان کے مکر کے عظیم ہونے کو بیان کرنا ہے اور کہا گیا ہے کہ مکر سے مراد ان کا کفر ہے اور تکاد السمٰوات یتفطرن (الآیۃ) ثانی قراءت کے مناسب ہے، اور پہلی قراءت کے مناسب وہی ہے جو پڑھا گیا ہے، (یعنی) وما کان مکرھم الخ آپ ہرگز یہ خیال نہ کریں کہ اللہ تعالیٰ اپنے نبیوں سے نصرت کے بارے میں وعدہ خلافی کرے گا اللہ تعالیٰ غالب ہے اس کو کوئی چیز عاجز نہیں کرسکتی اور اپنے نافرمانی کرنے والے سے بدلہ لینے والا ہے (اور) اس دن کو یاد کرو کہ موجودہ زمین دوسری زمین سے بدل دی جائے گی اور آسمان بھی اور وہ قیامت کا دن ہوگا، تو لوگوں کو ایک صاف ستھری سفید زمین پر جمع کیا جائیگا، جیسا کہ صحیحین کی حدیث میں ہے، اور روایت کی مسلم نے ایک حدیث جس میں سوال کیا گیا رسول ﷺ سے کہ (تبدیلی ارض) کے دن لوگ کہاں ہوں گے ؟ آپ نے فرمایا پل صراط پر، اور (سب لوگ) قبروں سے نکل کر خدائے واحد غالب کے روبرو حاضر ہوں گے اور اے محمد آپ اس دن مجرموں کافروں کو بیڑیوں میں یا طوقاں میں شیاطین کے ساتھ جکڑے ہوئے دیکھو گے حال یہ ہے کہ ان کا لباس گندھک (یا تارکول) کا ہوگا، اسلئے کہ گندھک آگ بھڑکانے والی بہت زیادہ ہوتی ہے اور آگ ان کے چہروں پر بھی چھائی ہوئی ہوگی تاکہ اللہ ہر شخص کو اس کے اعمال نیک و بد کا بدلہ دے، لیجزی، برزوا کے متعلق ہے بلاشبہ اللہ تعالیٰ بہت جلد حساب لینے ولاا ہے اللہ تعالیٰ پوری مخلوق کا حساب دنیا کے دنوں کے اعتبار سے نصف دن میں لے گا اس مضمون کی حدیث کی وجہ سے یہ قرآن تمام لوگوں کیلئے اطلاع نامہ ہے یعنی لوگوں کی تبلیغ کیلئے نازل کیا گیا ہے تاکہ اس کے ذریعہ ان کو آگاہ کردیا جائے اور تاکہ لوگ ان دلائل کو جان لیں جو قرآن میں ہیں کہ اللہ ایک اکیلا معبود ہے اور تاکہ اہل عقل (و بصیرت) اس سے نصیحت حاصل کریں، (لیذکر) اصل میں یاء ذال میں ادغام کے ساتھ ہے۔ تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد قولہ : تشخص (ف) مضارع واحد مؤنث غائب، مصدر شخوص، ٹکٹکی باندھ کردیکھنا، آنکھوں کا کھلا رہ جانا، آنکھوں کا چڑھ جانا۔ قولہ : مھطعین یہ مھطع اسم فاعل کی جمع ہے (افعال) اھطاع سرجھکانا تیزی سے دوڑنا مھطعین، اصحاب مضاف محذوف سے حال ہے تقدیرع عبارت یہ ہے، اصحاب الابصار مھطعین۔ قولہ : مقنعی، اقناع سے اسم فاعل اٹھائے ہوئے، (افعال) اصل میں مقنعین تھا، نون اضافت کی وجہ سے حذف ہوگیا، مادہ قنع ہے قولہ : افئدتھم، افئدۃ، فؤاد کی جمع ہے بمعنی دل۔ قولہ : ھواء یہ اسم ہے بمعنی خالی، خوف اور گھبراہٹ کی وجہ سے دل کا خالی ہونا ہر بھلائی سے خالی، ہواء اس فضاء کو کہتے ہیں جو آسمان اور زمین کے درمیان ہے، محاورہ میں ڈر پوک دل کی صفت واقع ہوتی ہے۔ قولہ : نجب یہ اخرنا امر کا جواب ہے۔ قولہ : یقال لھم، ماقبل سے ربط پیدا کرنے کیلئے اس کے محذوف ماننے کی ضرورت پیش آئی۔ قولہ : تبین، اس کا فاعل دلالت کلام کی وجہ سے مضمر ہے اور وہ حال ہے، تقدیر عبارت یہ ہے تبین لکم کیف فعلنا بھم ؟ قولہ : ان ما، اس میں اشارہ ہے کہ ان نافیہ ہے اور لتزول میں لام تاکید نفی کیلئے ہے، وفی قراءت بفتح لام الاولی ورفع الاخیرۃ ای لتزول، اس صورت میں ان مخففہ عن الثقیلہ ہوگا، مطلب یہ ہوگا کہ ان کا مکر اتنا شدید تھا کہ پہاڑ بھی اپنی جگہ سے ٹل جائے، (لتزول) کا لام، مخففہ اور نافیہ کے درمیان فارقہ ہے۔ خلاصہ : ثانی قراءت یعنی أن مخففہ کی صورت میں (لتزول) سے کفار کے مکر کو عظیم اور شدید ہونے کو بیان کرنا مقصود ہے، اور پہلی قراءت یعنی ان نافیہ اور لام کے کسرہ کے ساتھ (لتنزول) سے انکے مکر کے ضعف کو بیان کرنا مقصود ہے یعنی انکا مکر خدائی تدبیر کے مقابلہ میں اتنا ضعیف اور کمزور ہے کہ وہ قابل توجہ بھی نہیں ہے اور نہ وہ تمہارا کچھ بگاڑ سکتا ہے، دوسری قراءت کے اللہ تعالیٰ کا قول تکاد السموات یتفطرن الخ مناسب ہے اور پہلی قراءت کے اللہ تعالیٰ کا قول : ” ما کان مکرھم لتزول منہ الجبال “ مناسب ہے۔ قولہ : قطران، قطران ایک سیال سیاہ غلیظ مادہ ہوتا ہے جس میں حدت ہوتی ہے، اگر اس کی خارشی اونٹوں کے مالش کردی جائے تو خارش ختم ہوجاتی ہے یہ مادہ آگ بہت جلدی پکڑتا ہے اور بدبودار ہوتا ہے، بعض حضرات نے اس کا ترجمہ گندھک اور بعض نے تارکول کیا ہے۔ قولہ : متعلق بِبَرَزُوْا، یعنی لیجزی، برزوا کے متعلق ہے اور درمیان میں جملہ معترضہ ہے۔ قولہ : انزل لتبلیغھم، ھذا بلاغ میں چونکہ وصف کا حمل ذات پر لازم آرہا ہے اس لئے شارح (رح) تعالیٰ نے مذکورہ عبارت مقدر مانی تاکہ حمل درست ہوجائے، یعنی یہ ہذا کی خبر نہیں ہے بلکہ خبر محذوف ہے خبر کی علت کے قائم مقام کردیا ہے۔ تفسیر و تشریح سورة ابراہیم (علیہ السلام) کے اس آخری رکوع میں، خلاصہ کے طور پر انہی اہل مکہ کو پچھلی قوموں کی سرگذشت سے عبرت حاصل کرنے کی تلقین ہے اور اب بھی ہوش میں نہ آنے کی صورت میں قیامت کے ہولناک عذابوں سے ڈرایا گیا ہے۔ ولا تحسبن۔۔۔ الظلمون، پہلی آیت میں رسول اللہ ﷺ اور ہر مظلوم کو تسلی اور ظالم کیلئے سخت عذاب کی دھمکی ہے کہ ظالم لوگ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ڈھیل دینے سے بےفکر نہ ہوجائیں اور یہ نہ سمجھیں کہ اللہ تعالیٰ کو ان کے جرائم کی خبر نہیں اسلئے کوئی عذاب اور مصیبت ان پر نہ آئیگا، بلکہ اللہ کی نظر سے ان کا کوئی عمل مخفی نہیں مگر اس نے اپنی رحمت اور حکمت کے تقاضے سے ڈھیل دے رکھی ہے۔ تشخص۔۔ الابصار، یعنی قیامت کا ہولناک نظارہ ان کے سامنے ہوگا اور ٹکٹکی لگائے اسے دیکھ رہے ہوں گے اس طرح کہ ان کے دیدے پتھرا گئے ہیں نہ پلک جھپکے گی اور نہ نظر ہٹے گی۔ اولم تکونوا۔۔۔ من زوال، یعنی دنیا میں تم قسمیں کھا کھا کر کہا کرتے تھے کہ نہ کوئی حساب کتاب ہے اور نہ دوزخ و جنت اور نہ کسی کو دوبارہ زندہ ہونا ہے، ان کی عبرت کیلئے گذشتہ قوموں کے حالات و واقعات بیان کر دئیے جن کے گھروں میں اب تم چل پھر رہے ہو اور ان کے کھنڈر بھی تمہیں دعوت غور و فکر دے رہے ہیں، اگر تم ان سے عبرت نہ پکڑو اور ان کے انجام سے بچنے کی فکر نہ کرو تو تمہاری مرضی، پھر تم بھی اس انجام کیلئے تیار رہو، حالانکہ تم دیکھ چکے تھے کہ تمہاری پیش رو قوموں نے قوانین الٰہی کی خلاف ورزی کے نتائج سے بچنے اور انبیاء کی دعوت کو ناکام کرنے کیلئے کیسی کیسی زبردست چالیں چلیں اور یہ بھی دیکھ چکے تھے کہ اللہ کی ایک ہی چال سے وہ کس طرح مات کھا گئے، مگر پھر بھی تم حق کے خلاف چالبازیاں کرنے سے باز نہ آئے، اور یہی سمجھتے رہے کہ ہماری چالیں ضرور کامیاب ہوں گے۔ وقد مکروا مکرھم الخ اس آیت میں مخالفانہ تدبیروں کا ذکر کیا گیا ہے، یعنی ان لوگوں نے دین حق کو مٹانے اور مسلمانوں کو ستانے کیلئے بھرپور تدبیریں کیں اور اللہ تعالیٰ ان کی مخفی اور ظاہر تدبیروں سے واقف ہے اللہ ان کے نا کام بنا دینے پر قادر ہے اگرچہ ان کی تدابیر اتنی عظیم و شدید تھیں کہ ان کے مقابلہ پر پہاڑ بھی اپنی جگہ سے ہٹ جاتے مگر اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کے سامنے ساری تدبیریں گردوغبار کی طرف ہباء منثورا ہوگئیں، یہ مطلب ان مخففہ عن المثقلہ کی صورت میں ہوگا اور ان کو نافیہ قرار دے کر یہ معنی ہوں گے، اگرچہ انہوں نے بہت سی تدبیریں اور چالیں چلیں، لیکن ان کی تدبیروں اور چالوں سے یہ ممکن نہ تھا کہ پہاڑ اپنی جگہ سے ٹل جائیں، اور پہاڑ سے مراد آپ ﷺ کا عزم و استقلال ہے۔ فلا تحسبن۔۔۔ وعدہ، اگرچہ اس میں روئے سخن آپ ﷺ کی طرف ہے مگر مراد مخالفین ہیں یعنی کوئی یہ نہ سمجھے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول سے جو وعدے فتح و نصرت اور کامیابی کے کیے ہیں وہ ان کے خلاف کرے گا اللہ بڑا زبردست ہے وہ ضرور دشمنوں سے انتقام لے گا اور اپنے پیغمبروں سے جو وعدے کئے ہیں ان کو ضرور پورا کرے گا۔ یوم تبدل الارض غیر الارض والسمٰوات (الآیۃ) اس آیت میں موجود زمین و آسمان کی تبدیلی کا ذکر ہے یہ تبدیلی ذات کے اعتبار سے بھی ہوسکتی ہے اور صفات کے اعتبار سے بھی اور دونوں طریقوں سے بھی، بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ارض و سماء کی تبدیلی کے وقت مخلوق پل صراط پر ہوگی، غرضیکہ موجودہ نظام طبعی درہم برہم کردیا جائیگا اور نفخۂ اولی اور ثانیہ کی مدت کے درمیان زمین و آسمان کی موجودہ ہیئت بدل ڈالی جائیگی، اور ایک دوسرا نظام طبیعت دوسرے قوانین فطرت کے ساتھ بنادیا جائیگا پھر نفخۂ ثانیہ کے ساتھ ہی تمام وہ انسان جو تخلیق آدم سے لے کر قیامت تک پیدا ہوئے تھے ازسر نو زندہ کرکے اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کئے جائیں گے اسی کا نام حشر ہے، قرآنی اشارات اور حدیث کی تصریحات سے یہ بات ثابت ہے کہ ہماری وہ دوسری زندگی جس میں یہ معاملات پیش آئیں گے محض روحانی نہیں ہوگی، بلکہ ٹھیک اسی طرح جسم و روح کے ساتھ ہم زندہ کئے جائیں گے جس طرح آج زندہ ہیں۔ تم بحمدللہ
Top