Tafseer-e-Jalalain - Ibrahim : 7
وَ اِذْ تَاَذَّنَ رَبُّكُمْ لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّكُمْ وَ لَئِنْ كَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ
وَاِذْ تَاَذَّنَ : اور جب آگاہ کیا رَبُّكُمْ : تمہارا رب لَئِنْ : البتہ اگر شَكَرْتُمْ : تم شکر کرو گے لَاَزِيْدَنَّكُمْ : میں ضرور تمہیں اور زیادہ دوں گا وَلَئِنْ : اور البتہ اگر كَفَرْتُمْ : تم نے ناشکری کی اِنَّ : بیشک عَذَابِيْ : میرا عذاب لَشَدِيْدٌ : بڑا سخت
اور جب تمہارے پروردگار نے (تم کو) آگاہ کیا کہ اگر شکر کرو گے تو میں تمہیں زیادہ دونگا اور اگر ناشکری کرو گے تو (یاد رکھو کے) میرا عذاب (بھی) سخت ہے۔
آیت نمبر 7 تا 12 ترجمہ : اور جب تمہارے رب نے آگاہ کردیا کہ اگر تم توحید اور اطاعت کے ذریعہ میری نعمتوں کا شکر کرو گے تو میں بیشک تم کو مزید دوں گا، اور اگر تم کفر و معصیت کے ذریعہ (میر) نعمتوں کی ناشکری کرو گے تو میں تم کو ضرور عذاب دوں گا، لاعذبنکم، (جواب محذوف پر) ان عذابی لشدید دلالت کر رہا ہے، یقیناً میرا عذاب نہایت سکٹ ہے، اور موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے کہا کہ اگر تم اور روئے زمین کے تمام باشندے ناشکری کریں تو بھی اللہ اپنی مخلوق سے بےنیاز ہے اور اپنی صنعت میں قابل ستائش ہے کیا تمہارے پاس استفہام تقریری ہے تم سے پہلے لوگوں کی (یعنی) قوم نوح کی اور عاد کی اور قوم ہود اور ثمود کی اور قوم صالح کی اور ان لوگوں کی جو ان کے بعد ہوئے خبریں آئیں جن کی تعداد ان کی کثرت کی وجہ سے اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا ان کے پاس ان کے رسول اپنی صداقت پر واضح دلائل لیکر آئے تو ان امتوں نے اپنے ہاتھ شدت غضب کی وجہ سے کاٹنے کیلئے اپنے منہ میں دبائے اور کہہ دیا کہ بزعم خود جس چیز کو تم دے کر بھیجے گئے ہو اس کے ہم منکر ہیں اور ہم تو یقیناً اس کے بارے میں جس کی تم دعوت دے رہے ہو الجھن میں ڈالنے والے شک میں ہیں، ان کے رسولوں نے ان سے کہا کیا تم حق تعالیٰ کے بارے میں شک میں ہو استفہام انکاری ہے، توحید پر واضح دلائل موجود ہونے کی وجہ سے اس کی توحید میں کسی شک (کی گنجائش) نہیں ہے وہ آسمانوں اور زمینوں کا پیدا کرنے والا ہے وہ تم کو اپنی اطاعت کی طرف بلا رہا ہے تاکہ تم سے تمہارے گناہوں کو معاف کرے من زائدہ ہے یہ امر واقعہ ہے کہ اسلام کی وجہ سے اسلام سے پہلے کے گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں یا (من تبعیضیہ) ہے حقوق العباد کو خارج کرنے کیلئے اور یہ کہ ایک مقررہ وقت تک کے لئے تمہیں مہلت عطا فرمائے یعنی موت تک ان لوگوں نے جواب دیا تم تو ہمارے جیسے انسان ہو تم چاہتے ہو کہ ہمیں ان معبودوں بتوں سے روک دو جن کی بندگی ہمارے باپ دادا کرتے آئے ہیں اچھا تو ہمارے سامنے اپنی صداقت پر کوئی کھلی دلیل پیش کرو ان کے پیغمبروں نے ان سے کہا یہ تو سچ ہے کہ ہم تمہارے ہی جیسے انسان ہیں جیسا کہ تم نے کہا لیکن اللہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے نبوت عطا کرکے اپنا فضل کرتا ہے اور ہماری مجال نہیں کہ ہم اللہ کے حکم کے بغیر کوئی معجزہ لا کر تم کو دکھا سکیں اسلئے کہ ہم تربیت یافتہ بندے ہیں، اور ایمان والوں کو صرف اللہ ہی پر بھروسہ رکھنا چاہیے، آخر کیا وجہ ہے کہ ہم اللہ پر بھروسہ نہ کریں یعنی ہمارے لئے اس سے کوئی مانع نہیں ہے جبکہ اسی نے ہمیں ہماری راہیں دکھائیں واللہ جو ایذائیں تم ہمیں دو گے ہم ضرور اس پر صبر کریں گے (یعنی) تمہاری ایذا رسانی پر، توکل کرنے والوں کیلئے یہی لائق ہے کہ اللہ پر توکل کریں۔ تحقیق و ترکیب و تفسیری فوائد قولہ : اعلم، تاذن کی تفسیر اعلم سے کرکے اشارہ کردیا کہ تأذن باب تفعل اپنی خاصیت کے اعتبار سے تکلف پر دلالت کرتا ہے جو شان باری تعالیٰ کے مناسب نہیں ہے لہٰذا تأذن بمعنی اذن ہے۔ قولہ : لاعذبنکم یہ شرط کی جزاء ہے جو محذوف ہے، نہ کہ ان عذابی لشدید لہٰذا ان عذابی کے شرط پر عدم ترتب کا اعتراض ختم ہوگیا، اور حذف جواب پر ان عذابی لشدید دلالت کر رہا ہے۔ قولہ : ای الیھا، اس میں اشارہ ہے کہ فی بمعنی الی ہے، ایدیھم اور افواھم، دونوں کی ضمیریں کفار کی طرف راجع ہیں یعنی کفار نے اپنے ہاتھ شدید غصہ کی وجہ سے اپنے منہ میں دبائے اور یہ تفسیر عضوا علیکم الانامل من الغیظ کے مطابق ہے، اور بعض حضرات نے ثانی ھم کی ضمیر رسل کی طرف لوٹائی ہے، مطلب یہ بیان کیا ہے کہ امت کے لوگوں نے اپنے ہاتھ رسولوں کے منہ پر رکھ دئیے تاکہ حق بات نہ بول سکیں، یہ خلاف ظاہر ہے۔ قولہ : بزعمکم یہ اس سوال کا جواب ہے کہ بما ارسلتم سے معلوم ہوتا ہے کہ کفار ما جاء بہ الرسل کے قائل تھے حالانکہ حقیقت ایسی نہیں ہے، جواب کا حاصل یہ ہے کہ ہمیں تو تمہارا رسول ہونا تسلیم نہیں مگر بقول شما بھی ہم تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ قولہ : لاشک فی توحیدہ ایک شبہ کا جواب ہے کہ شبہ یہ ہے کہ ہمزہ انکاری کا حق یہ ہے کہ شک (مظروف) پر داخل ہو نہ کر ظرف پر اور یہاں اللہ پر داخل ہے جو کہ ظرف ہے حاصل جواب یہ ہے کہ کلام شک میں نہیں ہے بلکہ مشکوک میں ہے فتدبر۔ تفسیر و تشریح اذ تأذن ربکم، تأذن، اعلم کے معنی میں ہے، بولا جاتا ہے تأذن بوعدہ لکم، ای اعلمکم بوعدہ لکم، اس نے اپنے وعدہ سے تمہیں آگاہ کیا، ان عذابی لشدید، سے معلوم ہوتا ہے کہ کفران نعمت اللہ کو سخت ناپسند ہے اسی وجہ سے اس نے ناشکری پر سخت عذاب کی وعید بیان کی ہے، آپ ﷺ نے ایک حدیث میں فرمایا ” کہ عورتوں کی اکثریت اپنے خاوندوں کی ناشکری کرنے کی وجہ سے جہنم میں جائے گی “۔ (صحیح مسلم) مطلب یہ ہے کہ شکر گزاری میں خود بندہ ہی کا فائدہ ہے اور اگر ناشکری کرے گا تو اس میں اللہ کا کوئی نقصان نہیں ہے وہ تو بےنیاز ہے اگر سارا جہان ناشکرا ہوجائے تو اس کا کیا بگڑے گا ؟ ایک حدیث قدسی : ایک حدیث قدسی میں آتا ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ” یا عبادی ! لو ان او لکم واٰخرکم وانسکم وجنکم کانوا علی اتقی قلب رجل منکم مازاد ذلک فی ملکی شیئا، یا عبادی ! لو ان اولکم واٰخرکم وانسکم وجنکم کانوا علی افجر قلب رجل منکم ما نقص ذلک فی ملکی شیئا، یا عبادی ! لو أن اولکم واٰخرکم وانسکم وجنکم قاموا فی صعید واحد، فسالونی فاعطیت کل انسان مسألتہ ما نقص ذلک من ملکی شیئا الا کما ینقص المخیط اذا ادخل فی البحر “۔ (صحیح مسلم کتاب البر) ترجمہ : اے میرے بندو ! اگر تمہارے اول وآخر اور روئے زمین کے تمام انسان اور جن اس ایک آدمی کے دل کی طرح ہوجائیں جو تم میں سے سب زیادہ متقی اور پرہیزگار ہو تو اس سے میری حکومت اور بادشاہی میں اضافہ نہیں ہوگا، اے میرے بندو ! اگر تمہارے اول و آخر اور تمام انسان اور جن اس ایک آدمی کے دل کے طرح ہوجائیں جو تم میں سب سے بڑا نافرمان اور فاجر ہو تو اس سے میری حکومت اور بادشاہی میں کوئی کمی واقع نہیں ہوگی، اے میرے بندو ! اگر تمہارے اول و آخر اور انسان و جن سب ایک میدان میں جمع ہوجائیں اور مجھ سے سوال کریں، پس میں ہر انسان کو اس کے سوال کے مطابق عطا کروں تو اس سے میرے خزانے اور بادشاہی میں اتنی ہی کمی ہوگی جتنی سوئی کے سمندر میں ڈبو کر نکالنے سے سمندر کے پانی میں ہوتی ہے۔ (فسبحانہ وتعالیٰ الغنی الحمید) ۔ فردوا ایدیھم فی افواھم، مفسرین نے اس کے مختلف معانی بیان کئے ہیں : (1) انہوں نے ہاتھ اپنے منہ میں رکھ لئے اور کہا ہمارا تو صرف ایک ہی جواب ہے کہ ہم تمہاری رسالت کے منکر ہیں۔ (2) انہوں نے اپنی انگلیوں سے اپنے مونہوں کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ خاموش رہو اور یہ جو پیغام لے کر آئے ہیں ان کی طرف توجہ مت کرو۔ (3) انہوں نے اپنا ہاتھ استہزاء اور تعجب کے طور پر اپنے منہ پر رکھ لئے جس طرح کوئی شخص ہنسی ضبط کرنے کیلئے ایسا کرتا ہے (4) انہوں نے اپنا ہاتھ رسول کے منہ پر رکھ کر کہا خاموش رہو۔ (5) بطور غیظ و غضب کے اپنے ہاتھ اپنے مونہوں پر رکھ لئے جس طرح منافقین کی بابت دوسرے مقام پر آتا ہے ” عضوا علیکم الانامل من الغیظ “ وہ غیظ و غضب کی وجہ سے تم پر اپنی انگلیاں کاٹتے ہیں، اکثر مفسرین نے اس آخری معنی کو پسند کیا ہے ان میں طبری اور شوکانی بھی شامل ہیں۔ قالوا انا کفرنا۔۔۔۔ الیہ مریب یعنی جس پیغام کے ساتھ تم بھیجے گئے ہو ہم اس کو نہیں مانتے اور جس چیز کی تم دعوت دے رہے ہو اس کی طرف سے ہم سخت خلجان آمیز شک میں پڑے ہوئے ہیں، یعنی ایسا شک کہ جس کی وجہ سے اطمینان رخصت ہوگیا ہے۔ (باقی آیات کی تفسیر واضح ہے) ۔
Top