Tafseer-e-Jalalain - Al-Hijr : 80
وَ لَقَدْ كَذَّبَ اَصْحٰبُ الْحِجْرِ الْمُرْسَلِیْنَۙ
وَلَقَدْ كَذَّبَ : اور البتہ جھٹلایا اَصْحٰبُ الْحِجْرِ : حجر والے الْمُرْسَلِيْنَ : رسول (جمع)
اور (وادی) حجر کے رہنے والوں نے بھی پیغمبروں کی تکذیب کی۔
آیت نمبر 80 تا 99 ترجمہ : اور حجر والوں نے حجر، مدینہ اور شام کے درمیان ایک وادی ہے اور وہ ثمود تھے صالح (علیہ الصلوٰۃ والسلام) کی تکذیب کرکے (سب) رسولوں کی تکذیب کی، اسلئے کہ صالح (علیہ السلام) کی تکذیب باقی رسولوں کی بھی تکذیب ہے اسلئے کہ توحید کے لانے میں سب مشترک ہیں اور ہم نے ان کو ناقہ کی شکل میں اپنی نشانیاں بھی دیں مگر وہ اس سے اعراض ہی کرتے رہے یعنی انہوں نے ان نشانیوں میں غور و فکر نہیں کیا، اور لوگ بےخوف ہو کر پہاڑوں کو تراش کر گھر بناتے تھے آخر انھیں بھی صبح ہوتے ایک زور دار آواز نے آپکڑا پس ان کی کسی تدبیر و عمل نے ان کو عذاب دفع کرنے میں کوئی فائدہ نہیں دیا یعنی ان کے قلعوں نے اور مال جمع کرنے نے ان کو کوئی فائدہ نہیں دیا اور ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان میں ہے حق کے ساتھ (یعنی بامقصد) پیدا کیا ہے اور قیامت ضرور بالضرور آنے والی ہے ہر شخص کو اس کے عمل کی جزاء دی جائے گی اے محمد تم اپنی قوم سے حسن و خوبی کے ساتھ درگذر کرو، یعنی ان سے آپ صرف نظر کرلیں اس طور پر کہ اس میں جزع فزع نہ ہو اور یہ حکم آیت سیف سے منسوخ ہے، یقیناً تیرا رب ہر شئ کا پیدا کرنے والا (اور) ہر شئ کا جاننے والا ہے اور یقیناً ہم نے آپ کو سات آیتیں دے رکھی ہیں (یعنی) سبع مثانی آپ ﷺ نے فرمایا وہ سورة فاتحہ ہے (رواہ الشیخان) اسلئے کہ اس کو ہر رکعت میں دہرایا جاتا ہے، اور قرآن عظیم بھی عطا کیا ہے اور آپ ہرگز اپنی نظریں ان چیزوں کی طرف نہ اٹھائیں جو ہم نے ان میں سے مختلف قسم کے لوگوں کو دے رکھی ہیں اور اگر وہ ایمان نہ لائیں تو آپ ان پر غم نہ کریں اور مومنوں کیلئے اپنے بازو جھکائے رہیں (یعنی) ان کے ساتھ نرمی کا برتاؤ کریں، اور کہہ دیجئے کہ میں تو اللہ کے عذاب سے کھلا ڈرانے والا ہوں یہ کہ تمہارے اوپر عذاب نازل ہوجائے جیسا کہ ہم نے ان تقسیم کرنے والے یہود و نصاریٰ پر نازل کیا جنہوں نے قرآن کو یعنی ان کتابوں کو جو ان پر نازل کی گئی تھیں ٹکڑے ٹکڑے کردیا اس طور پر کہ بعض (حصہ) پر ایمان لائے اور بعض کا انکار کردیا اور کہا گیا ہے کہ مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے مکہ کے راستوں کو (آنیوالے) لوگوں کو اسلام سے روکنے کیلئے تقسیم کرلیا تھا اور بعض نے قرآن کے بارے میں سحر کہا اور بعض نے کہانت کہا اور بعض نے شعر کہا، قسم ہے تیرے رب کی ہم ان سب سے ان کے اعمال کے بارے میں ضرور باز پرس کریں گے اور یہ سوال توبیخ کیلئے ہوگا، پس اے محمد اس حکم کو جو آپ کو دیا جا رہا ہے کھول کر سنا دیجئے اور نافذ کر دیجئے اور مشرکین سے صرف نظر کرلیجئے یہ حکم جہاد کا حکم نازل ہونے سے پہلے کا ہے آپ سے جو لوگ استہزاء کرتے ہیں ہم ان کے لئے آپ کی طرف سے کافی ہیں اس طریقہ پر کہ ہم ان سب کو کسی آفت کے ذریعہ ہلاک کردیں گے، اور وہ ولید بن مغیرہ اور عاص بن وائل اور عدی بن قیس، اور اسود بن المطلب اور اسود بن عبد یغوث ہیں، جو لوگ اللہ کے ساتھ دوسرے معبود مقرر کرتے ہیں انھیں عنقریب اس کا انجام معلوم ہوجائے گا کہا گیا ہے کہ صفت ہے اور کہا گیا ہے کہ مبتداء متضمن بمعنی شرط ہے اور اسی وجہ سے اس کی خبر پر فاداخل ہے اور وہ (خبر فسوف تعلمون ہے) اور ہمیں خوب معلوم ہے کہ ان کی باتوں سے آپ کا دل تنگ ہوتا ہے اور وہ باتیں استہزاء اور تکذیب ہیں، آپ اپنے رب کی تسبیح وتحمید بیان کرتے رہیں یعنی سبحان اللہ وبحمدہ کہتے ہیں اور سجدہ کرنے (نماز پڑھنے) والوں میں شامل رہیں اور اپنے رب کی عبادت کرتے رہیں یہاں تک کہ آپ کا یقینی (موت کا) وقت آجائے۔ تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد قولہ : فی الناقۃ، مفسر علام نے فی الناقۃ کہہ کر اس سوال کا جواب دیا ہے کہ آیتنا جمع ہے اور اس کی تفسیر الناقۃ مفرد سے کی ہے جو کہ درست نہیں، جواب کا حاصل یہ ہے کہ ناقۃ کئی آیات کو مشتمل تھی اونٹنی کا پہاڑ سے نکلنا، آکر فوراً بچہ دینا، اور اپنی باری میں تم پانی پی جانا اور زیادہ مقدار میں دودھ دینا، لہٰذا آیتنا کی تفسیر ناقۃ سے درست ہے۔ قولہ : اصنافا، ازواجا کی تفسیر اصنافا سے کرکے اشارہ کردیا کہ ازواجا کے معروف معنی مراد نہیں ہیں بلکہ اصناف و اقسام مراد ہیں مثلاً کافر یہود، نصاری، مجوس، بت پرست وغیرہ۔ قولہ : کتبھم قرآن کی تفسیر کتبھم سے کرکے اشارہ کردیا کہ قرآن سے یہاں معروف قرآن مراد نہیں ہے۔ قولہ : اجزاء، یہ عضین کے لغوی معنی کو بیان کرنے کیلئے اضافہ کیا ہے عضین، عضۃ کی جمع ہے اس کی اصل عُضْوَۃ بروزن فُعلۃ تھی یہ عضی الشاۃ سے ماخوذ ہے یعنی ٹکڑے ٹکڑے کرنا۔ قولہ : صفۃ یعنی الذین، مستھزئین کی صفت ہے لہٰذا فصل بالاجنبی نہیں ہے۔ تفسیر و تشریح ولقد کذب اصحٰب الحجر المرسلین، حجر قوم ثمود کا مرکزی شہر تھا اس کے کھنڈر مدینہ کے شمال مغرب میں موجودہ شہر العلاء سے چند میل کے فاصلہ پر واقع ہیں مدینہ سے تبوک جاتے ہوئے یہ شہر شاہ راہ عام پر پڑتا ہے، قافلوں کی آمد و رفت اسی وادی سے ہوتی ہے 9 ھ میں تبوک جاتے ہوئے جب رسول اللہ ﷺ اس بستی سے گذرے تو آپ نے سر پر کپڑا لپیٹ لیا اور اپنی سواری کو تیز کرلیا اور صحابہ سے فرمایا کہ روتے ہوئے اور اللہ کے عذاب سے ڈرتے ہوئے اس بستی سے گذرو (ابن کثیر، بخاری و مسلم) آٹھویں صدی ہجری میں ابن بطوطہ حج کو جاتے ہوئے یہاں سے گذرا تھا، وہ لکھتا ہے کہ یہاں سرخ رنگ کے پہاڑوں میں قوم ثمود کی عمارتیں موجود ہیں جو انہوں نے چٹانوں کو تراش کر ان کے اندر بنائی تھیں، ان کے نقش نگار اس وقت تک ایسے تازہ ہیں جیسے آج ہی بنائے گئے ہوں۔ ولقد آتینک۔۔۔ العظیم، سبع مثانی سے کیا مراد ہے ؟ اس میں مفسرین کا اختلاف ہے راجح قول یہ ہے کہ اس سے مراد سورة فاتحہ ہے جو ہر نماز میں بار بار پڑھی جاتی ہے۔ (مثانی کے معنی بار بار دہرانے کے ہیں) ۔ لاتمدن عینیک (الآیۃ) یعنی ہم نے سورة فاتحہ اور قرآن جیسی عظیم نعمتیں آپ کو عطا کی ہیں اس لئے دنیا اور اس کی زینت اور دنیا داروں اور سرمایہ داروں کی طرف آپ طلب و حسرت کی نظر نہ اٹھائیں یہ سب عارضی اور فانی چیزیں ہیں، اور آپ اپنی تکذیب پر غم نہ کریں اسلئے کہ ہر نبی کے ساتھ ایس اہی معاملہ ہوا ہے، اور مومنین کے ساتھ نرمی کا برتاؤ کریں۔ کما انزلنا علی المقتسمین، بعض مفسرین کے نزدیک انزلنا کا مفعول العذاب محذوف ہے معنی یہ ہیں کہ میں تمہیں واضح طور پر عذاب سے ڈرنے والا ہوں مثل اس عذاب کے جو مقتسمین پر نازل ہوا، مقتسمین سے کیا مراد ہے ؟ بعض کا کہنا یہ ہے کہ اس سے وہ مراد ہیں جنہوں نے کتاب الٰہی کے ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے، بعض نے کہا کہ اس سے قریشی قوم مراد ہے، جنہوں نے اللہ کی کتاب کو تقسیم کردیا، بعض کہتے ہیں مقتسمین سے اہل کتاب اور قرآن سے تورات اور انجیل مراد ہے۔ بعض نے کہا کہ صالح (علیہ السلام) کی قوم کے وہ افراد مراد ہیں جنہوں نے قسم کھائی تھی کہ ہم رات کو صالح (علیہ السلام) اور ان کے گھر والوں کو قتل کردیں گے اور بعض نے کہا ہے جن میں علامہ سیوطی بھی شامل ہیں کہ مکہ کے وہ لوگ مراد ہیں جنہوں نے مکہ کی طرف آنے والے راستے تقسیم کر لئے تھے اور ہر شخص اپنے متعین راستہ پر حج کے موسم میں جاکر بیٹھ جاتا تھا کہ آنے والوں کو محمد ﷺ سے ملنے سے روکے۔ تم بحمدللہ
Top