Tafseer-e-Jalalain - An-Nahl : 22
اِلٰهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ١ۚ فَالَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ قُلُوْبُهُمْ مُّنْكِرَةٌ وَّ هُمْ مُّسْتَكْبِرُوْنَ
اِلٰهُكُمْ : تمہارا معبود اِلٰهٌ : معبود وَّاحِدٌ : ایک (یکتا) فَالَّذِيْنَ : پس جو لوگ لَا يُؤْمِنُوْنَ : ایمان نہیں رکھتے بِالْاٰخِرَةِ : آخرت پر قُلُوْبُهُمْ : ان کے دل مُّنْكِرَةٌ : منکر (انکار کرنیوالے) وَّهُمْ : اور وہ مُّسْتَكْبِرُوْنَ : تکبر کرنے والے (مغرور)
تمہارا معبود تو اکیلا خدا ہے تو جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ان کے دل انکار کر رہے ہیں اور وہ سرکش ہو رہے ہیں۔
آیت نمبر 22 تا 25 ترجمہ : تمہاری عبادت کا مستحق تو صرف ایک معبود ہے، ذات وصفات میں اس کی کوئی نظیر نہیں، اور وہ اللہ تعالیٰ ہے اور جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ان کے قلوب وحدانیت کے منکر ہیں اور وہ وحدانیت پر ایمان لانے سے تکبر کرنے والے ہیں یقینی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر اس بات کو جانتا ہے جس کو وہ چھپاتے ہیں اور ظاہر کرتے ہیں، لہٰذا وہ اس کی جزاء ان کو دے گا، وہ تکبر کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا بایں معنی کہ ان کو سزا دے گا، اور نضر بن الحارث کے بارے میں (آئندہ) آیت نازل ہوئی، اور جب ان سے پوچھا جاتا ہے کہ تمہارے رب نے محمد ﷺ پر کیا نازل کیا ؟ (ما) استفہامیہ اور (ذا) موصولہ ہے تو لوگوں کو گمراہ کرنے کے لئے جواب دیا، پہلے لوگوں کے جھوٹے قصے ہیں، اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ انجام کار یہ لوگ اپنے تمام گناہوں کے ساتھ کہ جن میں سے کچھ بھی کم نہ کیا گیا ہوگا قیامت کے دن اٹھائے ہوئے ہوں گے اور ان لوگوں کے گناہوں کا بھی جن کو ان لوگوں نے ان کی لا علمی کی وجہ سے گمراہ کیا ہوگا اس لئے کہ ان لوگوں نے ان کو گمراہی کی طرف بلایا تو انہوں نے ان کی اتباع کی جس کی وجہ سے گناہ میں دونوں شریک ہوگئے، دیکھو تو کیسا برا بوجھ ہے ؟ جس کو یہ اٹھا رہے ہیں، یعنی ان کا یہ اٹھانا نہایت برا ہے۔ تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد قولہ : متکبرون، مستکبرون کی تفسیر متکبرون سے کرکے اشارہ کردیا کہ استفعال تَفَعُّل کے معنی میں ہے لہٰذا یہ اعتراض ختم ہوگیا کہ یہاں طلب کے معنی درست نہیں ہے۔ قولہ : بمعنی اَنَّہٗ یُعاقِبُھم یہ اس سوال کا جواب ہے کہ حب کا لفظ اللہ تعالیٰ کے لئے استعمال کرنا درست نہیں ہے اسلئے کہ حُبّ کا تعلق قلب سے ہے اور قلب مجسم ہوتا ہے جس سے اللہ تعالیٰ پاک ہے۔ جواب : عدم حب کے لازم معنی مراد ہیں یعنی سزا، لہٰذا اب کوئی اعتراض نہیں۔ قولہ : ھو۔ سوال : (ھو) مقدر ماننے کی کیا وجہ ہے ؟ جواب : اساطیر الاولین چونکہ قال کا مقولہ ہے اور مقولہ کے لئے جملہ ہونا ضروری ہے حالانکہ اساطیر الاولین مفرد ہے یعنی جملہ تام نہیں ہے، مفسر علام نے ھو محذوف مان کر اشارہ کردیا کہ اساطیر الاولین مبتداء محذوف کی خبر ہو کر جملہ تام ہے۔ قولہ : فی عاقبۃ الامر اس میں اشارہ ہے کہ لیحملوا میں لام عاقبت کا ہے۔ قولہ : حملھم ھذا یہ مخصوص بالذم ہے۔ تفسیر وتشریح اِلھٰکم اِلٰہٌ واحدٌ (الآیۃ) یعنی ایک اِلٰہ کا تسلیم کرنا منکرین و مشرکین کے لئے بہت مشکل ہے وہ کہتے ہیں " اَجَعَلَ الآ لِھَۃََ اِلٰھًا واحِدً اِنَّ ھذا لشَئ عُجابٌ " اس تمام معبودوں کا ایک ہی معبود کردیا ہے یہ تو بڑی عجیب بات ہے، سورة زمر میں فرمایا گیا " وَاِذا ذُکِرَاللہ وَحْدَہٗ اشمأزتْ قُلوبُ الّذین لا یؤ منون بالآ خرۃِ وَاِذَا ذُکِرَ الذین مِنْ دونِہٖ اِذا ھم یَسْتبشرون " جب اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو منکرین کے دل تنگ ہوجاتے ہیں اور جب اللہ کے سوا دوسرے معبودوں کا ذکر کیا جاتا ہے تو خوش ہوتے ہیں۔ وَاِذَا۔۔۔۔ ربکم الخ گذشتہ آیت مکیں اللہ تعالیٰ نے مشرکوں کی گمراہی اور اپنے انعامات و احسانات کا ذکر فرمایا اب مشرکین کے دوسروں کو گمراہ کرنے کا ذکر ہے، نبی ﷺ کی دعوت کا چرچا جب اطراف و اکناف میں پھیلا تو مکہ کے لوگ جہاں کہیں جاتے تھے ان سے جب پوچھا جاتا کہ تمہارے یہاں جو صاحب نبی بنکر اٹھے ہیں وہ کیا تعلیم دیتے ہیں ؟ قرآن کس کی کتاب ہے ؟ اس کے مضامین کیا ہیں ؟ وغیرہ وغیرہ، اس قسم کے سوالات کا جواب کفار مکہ ہمیشہ ایسے الفاظ میں دیتے تھے کہ جن سے سائل کے دل میں نبی ﷺ اور آپ کی لائی ہوئی کتاب کے متعلق کوئی نہ کوئی شک بیٹھ جائے تا کم از کم اس کو آپ سے اور آپ کی دعوت سے کوئی دلچسپی نہ رہے، جو بات مشرکین سوالوں کے جواب میں کہا کرتے تھے ان میں سے ان کا ایک جملہ یہ بھی تھا " قالوا اَسَاطیرُ الاولین " گذشتہ لوگوں کے گھڑے ہوئے قصے ہیں قرآن کریم نے اس پر یہ وعید سنائی کہ یہ ظالم قرآن کو کہانیاں بتلا کو دوسروں کو بھی گمراہ کرتے ہیں اس کا نتیجہ ان کو بھگتنا پڑے گا، روز قیامت ان کے گناہوں کا پورا بوجھ تو ان پر پڑنا ہی ہے، جن کو یہ لوگ گمراہ کررہے ہیں انکا بھی وبال ان پر پڑے گا، اور پھر فرمایا کہ گناہوں کے جس بوجھ کو یہ لوگ اپنے اوپر لاد رہے ہیں وہ بہت برا بوجھ ہے
Top