Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer-e-Jalalain - Al-Israa : 101
وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسٰى تِسْعَ اٰیٰتٍۭ بَیِّنٰتٍ فَسْئَلْ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اِذْ جَآءَهُمْ فَقَالَ لَهٗ فِرْعَوْنُ اِنِّیْ لَاَظُنُّكَ یٰمُوْسٰى مَسْحُوْرًا
وَ
: اور
لَقَدْ اٰتَيْنَا
: البتہ ہم نے دیں
مُوْسٰي
: موسیٰ
تِسْعَ
: نو
اٰيٰتٍۢ بَيِّنٰتٍ
: کھلی نشانیاں
فَسْئَلْ
: پو پوچھ تو
بَنِيْٓ اِسْرَآءِيْلَ
: بنی اسرائیل
اِذْ
: جب
جَآءَهُمْ
: ان کے پاس آیا
فَقَالَ
: تو کہا
لَهٗ
: اس کو
فِرْعَوْنُ
: فرعون
اِنِّىْ
: بیشک میں
لَاَظُنُّكَ
: تجھ پر گمان کرتا ہوں
يٰمُوْسٰي
: اے موسیٰ
مَسْحُوْرًا
: جادو کیا گیا
اور ہم نے موسیٰ کو نو کھلی نشانیاں دیں تو بنی اسرائیل سے دریافت کرلو کہ جب وہ ان کے پاس آئے تو فرعون نے ان سے کہا کہ موسیٰ ! میں خیال کرتا ہوں کہ تم پر جادو کیا گیا ہے۔
آیت نمبر 101 تا 111 ترجمہ : اور موسیٰ (علیہ السلام) کو ہم نے نو معجزے بالکل واضح عطا کئے تھے اور وہ یہ ہیں (1) یدبیضاء، (2) عصا، (3) طوفان، (4) ٹڈیاں، (5) جوئیں، (6) مینڈک، (7) خون، (8) ہلاکت اموال، (9) خشک سالی اور پھلوں کی کمی (اے محمد) تم خود موسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں بنی اسرائیل سے پوچھ لو یہ سوال آپ کی صداقت کا مشرکین سے اقرار کرانے کے طور پر ہے یا ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا کہ فرعون سے بنی اسرائیل کی رہائی کا سوال کرو اور ایک قراءت میں (سَئَلَ ) ماضی کے صیغہ کے ساتھ ہے، (یعنی سوال کیا) جب وہ ان کے پاس آئے تو فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا کہ اے موسیٰ میں تو تم کو سحر زدہ (یعنی) مغلوب العقل سمجھتا ہوں موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا (اے فرعون) تو خوب سمجھ رہا ہے کہ بصیرت افروز نشانیاں آسمانوں اور زمین کے مالک ہی نے نازل فرمائی ہیں لیکن تو عناد پر اتر آیا ہے اور ایک قراءت میں تاء کے ضمہ کے ساتھ ہے، اے فرعون میں تو خوب سمجھ رہا ہوں کہ تو یقیناً ہلاک کیا جائیگا یا ہر خیر سے محروم کردیا جائیگا، آخر فرعون نے ارادہ کرلیا کہ موسیٰ اور اس کی قوم کو ملک مصر سے نکال باہر کرے تو ہم نے اس کو اور اس کے سب ساتھیوں کو غرق کردیا، اس کے بعد ہم نے بنی اسرائیل سے کہہ دیا کہ تم اسی سرزمین میں رہو سہو، پھر جب آخرت یعنی قیامت کا وعدہ آئیگا تو ہم تم کو اور ان کو سب کو حاضر کریں گے اور ہم نے قرآن کو راستی کے ساتھ اتارا اور راستی ہی کے ساتھ وہ اترا جیسا کہ اتارا، یعنی حق پر مشتمل ہوکر، اس میں کسی قسم کا تغیر واقع نہیں ہوا، اور ہم نے آپ کو اے محمد ایمان لانے والوں کیلئے جنت کی خوشخبری سنانے والا اور کافروں کو آگ سے ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے اور ہم نے قرآن تھوڑا تھوڑا کرکے 20 یا 23 سال میں نازل کیا ہے تاکہ آپ لوگوں کو تھوڑا تھوڑا سنائیں یعنی ٹھہر ٹھہر کر اور وقفہ کے ساتھ تاکہ وہ اسے سمجھیں اور ہم نے اس کو بتدریج نازل کیا یعنی یکے بعد دیگرے مصلحت کے مطابق، آپ کفار مکہ سے کہہ دو تم اس کو مانو یا نہ مانو یہ ان کیلئے تہدید ہے، بلاشبہ وہ لوگ جن کو قرآن کے نزول سے پہلے علم عطا کیا گیا ہے اور اہل کتاب میں سے وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے جب ان کو (قرآن) پڑھکر سنایا جاتا ہے تو وہ ٹھوڑیوں کے بل سجدہ میں گرپڑتے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ ہمارا رب پاک ہے یعنی وعدہ خلافی سے اس کے لئے پاکی ہے ہمارے رب کا یہ قرآن کے نزول اور نبی کی بعثت کا وعدہ بلاشبہ پورا ہو کر رہنے والا ہے اور وہ روتے ہوئے ٹھوڑیوں کے بل سجدہ میں گرپڑتے ہیں زیادتی صفت کے ساتھ (ماقبل میں) (یعنی) یخرون پر زیادتی صفت کے ساتھ عطف ہے، اور قرآن اللہ کیلئے ان کی عاجزی اور خشوع و خضوع بڑھا دیتا ہے، اور اللہ کے رسول، یا اللہ یا رحمن کہا کرتے تھے، تو مشرکین مکہ نے کہا ہم کو تو دو معبودوں کی بندگی سے منع کرتے ہیں اور خود اللہ کے ساتھ دوسرا معبود پکارتے ہیں، تو (آئندہ) آیت نازل ہوئی، آپ ان سے کہیے کہ اللہ کہہ کر پکارو یا رحمٰن کہہ کر پکارو یعنی اس کا دونوں میں سے جو بھی چاہو نام رکھو اس کو تم یا اللہ (یا) رحمٰن کہہ کر پکارو ان دونوں میں سے جس نام سے بھی پکارو تمام اچھے نام اسی مسمی کے ہیں اَیًّا شرطیہ ہے، ما زائدہ ہے یہ دونوں نام بھی ان ہی میں سے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، اور نہ تو اپنی نماز بہت بلند آواز سے پڑھ یعنی نماز میں اپنی قراءت، اس لئے کہ تیری قراءت کو مشرکین سنیں گے تو وہ تجھے اور قرآن کو برا بھلا کہیں گے، اور اس کو (بھی) جس نے اس کو نازل کیا ہے اور نہ (بہت) پست آواز سے پڑھ تاکہ تیرے ساتھی استفادہ کریں، بلند اور پست دونوں کے درمیان کا راستہ اختیار کر، اور کہہ کہ تمام تعریفیں اللہ ہی کیلئے ہیں جو نہ اولاد رکھتا ہے اور نہ اس کی الوہیت میں کوئی شریک ہے اور نہ وہ کمزور ہے کہ جس کی وجہ سے اسے مددگار کی ضرورت ہو یعنی وہ کمزور نہیں ہے کہ اسے کسی مددگار کی حاجت ہو، اور تو اس کی پوری پوری بڑائی بیان کرتا رہ (یعنی) تو اس کی اولاد رکھنے سے اور شریک سے اور کمزوری سے اور ہر اس شئ سے جو اس کی شایان شان نہیں پوری پوری عظمت بیان کر، اور (صفات عدمیہ پر) حمد کا مرتب کرنا اس دلالت کی وجہ سے ہے کہ وہ تمام محامد کا اپنے کمال ذات، اور صفات میں منفرد ہونے کی وجہ سے مستحق ہے۔ امام احمد نے اپنی مسند میں معاذ جہنی ؓ کی سند سے آنحضرت ﷺ سے روایت کیا ہے کہ آپ نے فرمایا کہ آیت عزت الحمد للہ الذی لم یتخذ وَلَدًا آخر سورت تک ہے۔ (واللہ اعلم) اس کے مؤلف نے فرمایا ” یہ آخری جز ہے جس پر قرآن عظیم کی وہ تفسیر مکمل ہوگئی جس کو امام علامہ محقق جلال الدین المحلی شافعی (رح) تعالیٰ نے تالیف فرمایا، اور میں نے اس میں اپنی پوری طاقت لگا دی اور میں نے اس کی نکتہ چینی میں اپنی پوری ذہنی توانائی صرف کردی اے مخاطب ! میں سمجھتا ہوں کہ تو اس سے مستفید ہوگا، انشاء اللہ اور میں نے اس کو موسیٰ کلیم اللہ (کے قیام کی) مقدار یعنی 40 دن میں تالیف کیا، اور میں نے اس کو جنت نعیم میں کامیابی کا ذریعہ بنایا، اور یہ حصہ (نصف اول) درحقیقت کتاب کے اس حصہ (نصف ثانی) سے مستفاد ہے جو مکمل ہوا ہے، اور آیات متشابہات کے بارے میں اسی (نصف ثانی) پر اعتماد اور بھروسیہ کیا ہے، اللہ اس شخص پر رحم کرے کہ جو اس کی طرف انصاف کی نظر سے دیکھے، اور وہ اگر اس میں کسی غلطی پر واقف ہو تو مجھے اس سے مطلع کرے، اور میں نے یہ شعر کہا (بعض نسخوں میں لفظ شعر نہیں ہے) ۔ ترجمہ : میں نے اپنے رب کی حمد بیان کی اس لئے کہ اس نے مجھے اس چیز کی توفیق بخشی جس کو میں نے اپنی عاجزی اور کمزوری کے باوجود شروع کیا۔ جو میری غلطی کو ظاہر کرے گا تو میں رجوع کروں گا (یعنی اصلاح کروں گا) اور جو مجھے اس کی قبولیت (عند اللہ) کی خوشخبری دے گا اگرچہ ایک حرف ہی کیوں نہ ہو (میں اس کا شکریہ ادا کروں گا) ۔ (ھذا) ای خذھذا، اور یہ بات میرے دل میں ہرگز نہیں تھی کہ میں اس کام کو شروع کروں گا ان راہوں میں گور و خوض کرنے سے عجز سے واقف ہونے کی وجہ سے، اللہ کی ذات سے امید ہے کہ وہ اس کے ذریعہ نفع کثیر عطا فرمائیگا، اور وہ اس کے ذریعہ بند دلوں کو اور آندھی آنکھوں کو اور بہرے کانوں کو کھول دے گا، گویا کہ میں اس شخص کے مانند ہوں جس کو مطولات (بڑی بڑی کتابوں کے مطالعہ) کی عادت ہو اور حال یہ ہے کہ اس کے تکملہ اور اس کی اصل (یعنی مکمل اور مکمل) سے اعراض کیا ہو، اور صریح عناد کی طرف اعراض کیا ہو اور سمجھنے کے لئے ان دونوں کی طرف متوجہ نہ ہوا ہو، تو جو اس سے اندھا رہا تو وہ دوسرے سے بھی اندھا رہے گا اللہ نے ہمیں اس (قرآن) کے ذریعہ راہ حق کی توفیق بخشی اور اس (قرآن) کے کلمات کی باریکیوں سے واقف ہونے کی اور تحقیق کرنے کی توفیق عطا کی، (اور اللہ سے دعاء ہے) کہ ہمیں اس کی بدولت ان لوگوں کے ساتھ رکھے جن پر اللہ نے انعام فرمایا اور وہ انبیاء اور صدیقین اور شہداء اور صالحین ہیں، اور یہ حضرات رفیق ہونے کے اعتبار سے بہترین رفیق ہیں، اور سب تعریفیں اللہ وحدہ لاشریک لہٗ کیلئے ہیں، اور ہمارے سردار محمد ﷺ پر اللہ کی جانب سے بیشمار درود وسلام ہو، اور اللہ ہمارے لئے کافی بہترین کارساز ہے، مولف (رح) تعالیٰ نے، اللہ ان کے ساتھ لطف و کرم کا معاملہ کرے، کہا میں اس کی تالیف سے ماہ شوال 870 ھ بروز اتوار فارغ ہوا اور (تالیف کی) ابتداء شروع رمضان بروز چہار شنبہ مذکورہ سال میں ہوئی اور اس کی تبییض سے فراغت 6 صفر بروز چہار شنبہ 871 ھ کو ہوئی۔ تحقیق و ترکیب و تفسیری فوائد قولہ : تقریر، یہ اضافہ اس سوال کا جواب ہے کہ آپ ﷺ کو تو معلوم تھا پھر سوال کرنے کا کیا فائدہ ؟ جواب : یہ سوال استفہام نہیں ہے بلکہ سوال تقریر ہے۔ قولہ : قبل نزولہ، نزول مضاف محذوف مان کر مفسر علام نے اشارہ کردیا کہ قبل القرآن کا مطلب ہے قبل نزول القرآن اور یہ ممکن نہیں اسلئے کہ قرآن قدیم ہے لہٰذا اس سے قبل علم دینے کا کوئی مطلب نہیں ہے۔ قولہ : عطف بزیادۃ یہ اس سوال کا جواب ہے کہ یَخِرّون للاذقان کا عطف سابق یَخِرُّونَ للاذقان پر ہے جس کی وجہ سے معطوف اور معطوف علیہ متحد ہیں حالانکہ ان دونوں میں مغائرت ضروری ہے۔ جواب : معطوف میں یبکون صفت کا اضافہ ہے جس کی وجہ سے اتحاد باقی نہیں رہا۔ قولہ : ایّ شئٍ اس میں اشارہ ہے کہ اَیًّا، میں تنوین مضاف الیہ کے عوض میں ہے نہ کہ ندا کے معنی میں۔ قولہ ؛ فھو حسنٌ اس میں اشارہ ہے کہ اَیًّا، شرط کی جزاء محذوف ہے اور دال برحذف فلَہُ الأسماء الحسنیٰ ہے۔ جزاء کو حذف کرکے دال پر جزاء کو اس کے قائم مقام کردیا۔ قولہ : لمُسَمّاھما اس میں اشارہ ہے کہ فلہ کی ضمیر مسمیّٰ محذوف کی طرف راجع ہے نہ کہ اسم کی طرف ورنہ تو اسم کیلئے اسم کا ہونا لازم آئے گا۔ قولہ : ترتیب الحمد علی ذلک للدلالۃِ علی اَنہ المستحق الخ یہ عبارت ایک سوال مقدر کا جواب ہے۔ سوال : یہ ہے کہ حمد کہتے ہیں کسی کے اچھے اختیاری فعل کی تعریف کرنے کو (الحمدھو الثناء علی الجمیل الاختیاری) مذکورہ آیت ” قل الحمدللہ الذی لم یتخذ ولدًا ولم یکن لہ شریک فی الملک، ولم یکن لہ ولی من الذل “ اس آیت میں تین اوصاف مذکور ہیں اور تینوں سلبی ہیں نہ کہ ایجابی حالانکہ حمد و صفت ایجابی پر ہوتی ہے نہ کہ سلبی پر اس لئے کہ سلبی پر تنزیہہ ہوتی ہے۔ جواب : لکمال ذاتہٖ سے اس اعتراض کا جواب ہے کہ مذکورہ تینوں سلبی صفات اس امکان کی نفی کرتی ہیں جو احتیاج کا مقتضی ہو اور واجب الوجود لذاتہ پر دلالت کرتی ہیں، یعنی سب اسکے محتاج ہیں وہ کسی کا محتاج نہیں لہٰذا وہی حمد کا مستحق ہے (جمل) جواب کا حاصل یہ ہے کہ جس طرح صفات کی وجہ سے مستحق حمد ہوتا ہے اسی طرح ذات کی وجہ سے بھی مستحق حمد ہوتا ہے اور تمثیل کے طریقہ پر جواب یہ ہے کہ مذکورہ تینوں سلبی صفات میں نعمت یہ ہے کہ بادشاہ کے جب بیوی بچے ہوں تو غلاموں پر بیوی بچوں سے بچا ہوا خرچ کرتا ہے اور جب اس کے بیوی بچے نہ ہوں تو بادشاہ تمام احسانات اور انعامات کو غلاموں پر خرچ کرتا ہے اس طرح ولد کی نفی غلاموں پر زیادتی انعام کی مقتضی ہوتی ہے اور نفی شریک میں نعمت یہ ہے کہ شریک ہونے کی بہ نسبت شریک نہ ہونے کی صورت میں بادشاہ انعام عطا کرنے پر مزاحم نہ ہونے کی وجہ سے زیادہ قادر ہوتا ہے اور نفی نصیر کی صورت میں نعمت یہ ہوتی ہے کہ نصیر کی نفی قوت اور استغناء پر دلالت کرتی ہے اور یہ دنوں زیادہ انعام پر قادر ہونے پر دلالت کرتی ہیں، اس طریقہ سے مذکورہ تینوں سلبی صفات ایجابی بن جاتی ہیں لہٰذا ان پر حمد بیان کرنا درست ہے۔ قولہ : آیت العز یعنی الحمدللہ الذی لم یتخذولدًا (الآیۃ) یعنی رسول اللہ ﷺ نے اس آیت کو آیت عزت فرمایا ہے کہ جو شخص اس آیت کو پابندی سے روزانہ پڑھے گا اللہ تعالیٰ اسے عزو شرف سے نوازیں گے، پڑھنے کا طریقہ مندرجہ ذیل ہے کہ اول توکلّت علی الحیّ الّذٰ لا یموت پڑھے اس کے بعد 351 مرتبہ روزانہ قل الحمدللہ الذی لم یتخذ ولداً ولم یکن لہ شریک فی الملک ولم یکن لہ ولی من الذل وکبرہ تکبیراً پابندی سے پڑھے۔ (حاشیہ جلالین، صاوی) قولہ : قد افرغت فیہ جھدی ای فی ما کمّلتُ بہ، یعنی فیہ کی ضمیر ما کمّلتُ کی طرف راجع ہے اسی طرح رزقنا باللہ بہ تک تمام ضمیریں ما کمّلْتُ کی طرف راجع ہیں۔ قولہ : فی نفائسَ یہ فیہ سے بدل ہے یا پھر فی نفائس میں فی بمعنی مع ہے ای مع نفائس، اور نفائس سے دقائق و حقائق اور نکات نفیسہ پسندیدہ مراد ہیں۔ قولہ : اُرَاھا، ہمزہ پر فتحہ اور ضمہ دونوں جائز ہیں، بمعنی اَعلَمُ واظنُ ، تجدی، اَریٰ کا مفعول ثانی ہے اور ھا مفعول اول ہے ای اراھا تجدی انشاء اللہ جدوھا، یعنی اے مخاطب میں سمجھتا ہوں کہ یہ نکات تجھ کو نفع پہنچائیں گے اگر اللہ چاہے گا کہ یہ تجھے نفع پہنچائیں، تجدی بمعنی تنفع۔ قولہ : وَالَّفْتُہٗ فی مدّۃ قدر میعاد الکلیم یعنی موسیٰ (علیہ السلام) جتنے روز کوہ طور پر مقیم رہے اور وہ چالیس دن کی مدت ہے، تالیف کی ابتداء یکم رمضان سے ہوئی اور دس شوال پر تکمیل ہوگئی، اور اس مدت کا اظہار مفسر علامہ سیوطی نے تحدیث نعمت کے طور پر فرمایا، اسلئے کہ عام طور پر اتنی قلیل مدت میں اتنا بڑا کام خلاف عادت ہے جبکہ اس وقت علامہ سیوطی کی عمر 22 سال سے بھی کم تھی (کما ذکرہ الکرخی) یعنی وہ حصہ جو علامہ سیوطی نے تالیف کیا۔ قولہ : وھو مستفاد من الکتاب المکمَّل علامہ سیوطی (رح) تعالیٰ نے یہ کسر نفسی کے طور پر فرمایا۔ قولہ : علیہ یعنی علامہ محلی کا تالیف کردہ۔ قولہ : اذھدانی، اذ تعلیلیہ ہے ای لِاَجل ھدایتہٖ لِلذی اَبْدَیْتُہٗ وَاظھرتُہٗ ، اور وہ تکملہ مذکورہ ہے۔ قولہ : فمن لی بالخطاء ای من اظھر لی الخطاء یعنی جو میری غلطی کو اجاگر کرے گا میں اس غلطی سے رجوع کرلوں گا یعنی اس کی اصلاح کروں گا۔ قولہ : اَضْرَبَ ، حسمًا، ای اعرض اعراضًا۔ قولہ : من کان فی ھذہ، فی بمعنی عن ہے ای من کان عن ھذہ اعمیٰ یعنی جو جلالین کے سابقہ اور لاحقہ دونوں حصوں سے بےبہرہ اور ناواقف ہوگا وہ دوسری کتابوں سے بھی بےبہرہ اور ناواقف رہے گا فھو فی الآخرۃ اعمیٰ ، یہاں بھی فی بمعنی عن ہے اور آخرۃ سے مرادس مطولات ہیں مطلب یہ ہے کہ جو شخص اس مختصر سے ناواقف اور بےبہرہ رہے گا وہ مطولات سے بھی محروم رہے گا۔ قولہ : رزقنا اللہ بہ ضمیر قرآن کی طرف راجع ہے اس کے بعد کی ضمیریں بھی قرآن کی طرف راجع ہیں، مگر زیادہ مناسب سیاق کلام کے مطابق یہ ہے کہ یہ ضمیر اور بعد کی ضمیریں لما کل بہ یعنی حصہ لاحقہ کی طرف راجع ہوں۔ قولہ : فرغتُ من تالیفہٖ الخ علامہ سیوطی فرماتے ہیں کہ میں نصف اول کی تسوید سے 10 شوال بروز یکشنبہ 870 ھ میں فارغ ہوا، اور تالیف کی ابتداء یکم رمضان 870 ھ میں ہوئی، اور اس تبییض سے فراغت 6 صفر بروز چہار شنبہ 871 ھ کو ہوئی۔ تفسیر و تشریح ولقد اتینا۔۔۔ آیات، ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو نو معجزے عطا کئے وہ یہ ہیں، ہاتھؔ، لاٹھیؔ، قحطؔ سالی، نقصؔ، ثمرات، طوفانؔ، ٹڈیؔ، قملؔ (جوں) ضفادعؔ (مینڈک) خونؔ، حسن بصری فرماتے ہیں خشک سالی اور نقص ثمرات ایک ہی چیز ہے اور نواں معجزہ عصا کا جادو گروں کی لاٹھیوں اور رسیوں کو نگل جانا ہے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو ان کے علاوہ اور بھی معجزے دئیے گئے تھے مثلاً پتھر پر لاٹھی مارنے سے پتھر سے بارہ چشموں کا بہ نکلنا، لاٹھی مارنے سے دریا کا دولخت ہوجانا، بادلوں کا سایہ فگن ہونا، من وسلوی کا ظاہر ہونا لیکن آیات تسع سے صرف وہی نو معجزے مراد ہیں جن کا مشاہدہ فرعون اور اس کی قوم نے کیا، اسی طرح حضرت ابن عباس نے انفلاق بحر (دریا پھٹنے کو) بھی نو معجزوں میں شمار کیا ہے اور قحط سالی و نقص ثمرات کو ایک معجزہ شمار کیا ہے، ترمذی میں آیات تسعہ کی تفصیل اس سے مختلف بیان کی گئی ہے مگر وہ روایت ضعیف ہے۔ وقلنا من۔۔۔۔ الارض، بظاہر اس سرزمین سے مراد مصر ہے جس سے فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی قوم کا نکالنے کا ارادہ کیا تھا، مگر تاریخ بنی اسرائیل کی شہادت یہ ہے کہ وہ مصر سے نکلنے کے بعد دوبارہ مصر نہیں گئے، بلکہ چالیس سال میدان تیہ میں گذار کر فلسطین میں داخل ہوئے، اس کی شہادت سورة اعراف وغیرہ میں قرآن کے بیان سے بھی ملتی ہے اسلئے صحیح یہی ہے کہ اس سے مراد فلسطین کی سرزمین ہے، سورة بنی اسرائیل کی شروع آیات میں حق تعالیٰ کی تنزیہ اور توحید کا بیان تھا، ان آخری آیات میں بھی توحید و تنزیہ کا بیان ہے۔ شان نزول : ان آیات کے شان نزول میں چند واقعات ہیں۔ پہلا واقعہ : آپ ﷺ نے ایک روز دعاء میں یا اللہ یا رحمٰن کہہ کر پکارا تو مشرکین نے سمجھا کہ یہ دو خداؤں کو پکارتے ہیں، اور کہنے لگے کہ ہمیں تو ایک کے سوا کسی اور کو پکارنے سے منع کرتے ہیں اور خود دو معبود پکارتے ہیں، اس کا جواب آیت کے پہلے حصہ میں دیا گیا ہے کہ اللہ جل شانہ کے دو ہی نام نہیں اور بہت سے اچھے نام ہیں کسی نام سے بھی پکاریں مراد ایک ہی ذات ہوتی ہے دوسرا واقعہ : جب مکہ مکرمہ میں نبی ﷺ نماز میں بآواز بلند قراءت کرتے تو مشرکین تمسخر اور استہزاء کرتے اور قرآن اور جبرئیل امین اور خود حق تعالیٰ کی شان میں گستاخانہ باتیں کرتے تھے، اس کے جواب میں اسی آیت کا آخری حصہ نازل ہوا جس میں آپ کو جہر و اخفاء میں میانہ روی اختیار کرنے کی تلقین فرمائی۔ تیسرا واقعہ : یہود و نصاری اللہ تعالیٰ کیلئے اولاد قرار دیتے تھے اور عرب بتوں کو اللہ کا شریک سمجھتے تھے، اور صابی اور مجوسی کہا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کے مخصوص مقرب بندے نہ ہوں تو اس کی قدرو منزلت میں کمی آجائے، ان تینوں فرقوں کے جواب میں آخری آیت نازل ہوئی جس میں تینوں کی نفی کردی گئی ہے۔ آخری آیت قل الحمدللہ الخ، کے متعلق حدیث میں آیا ہے کہ یہ آیت عزت ہے تفصیل، تحقیق و ترکیب کے زیر عنوان گذر چکی ہے اس آیت میں یہ ہدایت بھی ہے کہ کوئی انسان کتنی ہی اللہ کی عبادت اور تسبیح وتحمید کرے اپنے عمل کو اللہ کے حق کے مقابلہ میں کم سمجھنا اور قصور کا اعتراف کرنا اس کیلئے لازم ہے۔ حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ بنی عبد المطلب میں جب کوئی بچہ بولنے کے قابل ہوجاتا تھا تو آپ ﷺ اسکو یہ آیت سکھا دیتے تھے، قل الحمدللہ الذی لم یتخذ ولدًا ولم یکن لہ شریک فی الملک ولم یکن لہ وَلیٌّ من الذل وکبرہ تکبیرًا۔ مظہری نسخۂ شفاء : حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ ایک روز میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ باہر نکلا اس طرح کہ میرا ہاتھ آپ ﷺ کے ہاتھ میں تھا، آپ کا گذر ایک ایسے شخص پر ہوا کہ بہت شکستہ حال اور پریشان تھا، آپ نے دریافت فرمایا تمہارا یہ حال کیسے ہوگیا ؟ اس شخص نے عرض کیا کہ بیماری اور تنگدستی نے یہ حال کردیا، آپ نے فرمایا تمہیں چند کلمات بتلاتا ہوں وہ پڑھو گے تو تمہاری بیماری اور تنگدستی جاتی رہے گی وہ کلمات یہ ہیں، توکلتُ علی الحی الّذی لایموت الحمدللہ الذی لم یتخذ وَلَدًا (الآیۃ) اس کے کچھ عرصہ کے بعد پھر آپ اس طرف تشریف لے گئے تو اس کو اچھے حال میں پایا آپ نے خوشی کا اظہار فرمایا اس نے عرض کیا جب سے آپ نے مجھے یہ کلمات بتلائے ہیں میں پابندی سے ان کو پڑھتا ہوں۔ (ابویعلی وابن سنی، مظہری، معارف) عرض شارع : جیسا کہ احقر مقدمہ میں عرض کرچکا ہے کہ جلالین کی تشریح کی ابتداء جلالین کے طرز تصنیف کے مطابق سورة کہف سے آخر تک نصف ثانی کی تشریح تین جلدوں میں مکمل ہوئی اس کے بعد نصف اول کی تشریح جس کی تیسری جلد سورة اسراء کے آخر تک ہے بتاریخ 26 ربیع الثانی بروز شنبہ 1426 ھ مطابق 4 جون 2005 ء کو پایۂ تکمیل کو پہنچی، وَللہِ الحمد۔ احقر محمد جمال سیفی بن شیخ سعدی استاذ دارالعلوم دیونبد 26 ربیع الثانی 1426 ھ تمت
Top