بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Tafseer-e-Jalalain - Al-Kahf : 1
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْۤ اَنْزَلَ عَلٰى عَبْدِهِ الْكِتٰبَ وَ لَمْ یَجْعَلْ لَّهٗ عِوَجًاؕٚ
اَلْحَمْدُ : تمام تعریفیں لِلّٰهِ : اللہ کیلئے الَّذِيْٓ : وہ جس نے اَنْزَلَ : نازل کی عَلٰي عَبْدِهِ : اپنے بندہ پر الْكِتٰبَ : کتاب (قرآن) وَلَمْ يَجْعَلْ : اور نہ رکھی لَّهٗ : اس میں عِوَجًا : کوئی کجی
سب تعریف خدا ہی کو ہے جس نے اپنے بندے (محمد ﷺ پر (یہ) کتاب نازل کی اور اس میں کسی طرح کی کجی اور پیچیدگی نہ رکھی۔
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم سُورۃُ الکَھْفِ مکِّیَّۃ اِلاَّوَاصْبِرْ نَفْسَکَ الآیۃ مائۃ وعشر آیاتاو خمس عشرۃ آیۃ سورة کہف مکی ہے، سوائے وَاصْبِرْ نفْسَکَ (الآیہ) کے ایک سو دس یا ایک سو پندرہ آیات ہیں آیت نمبر 1 ترجمہ : میں شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے، حمد صفات کمالیہ بیان کرنے کو کہتے ہیں، ہر قسم کی حمد اللہ تعالیٰ کے لئے ثابت ہے، اَیا جملہ خبریہ کے استعمال سے ثبوت حمد پر ایمان کی خبر دینا مقصود ہے یا (انشاء) ثناء مقصود ہے یا دونوں مقصود ہیں یہ کل تین احتمالات ہیں، ان میں تیسرا احتمال زیادہ مفید ہے جس نے اپنے بندے محمد ﷺ پر کتاب قرآن نازل فرمائی اور اس میں کسی قسم کی کجی یعنی لفظی اختلاف اور معنوی تناقض نہیں رکھا، اور جملہ لَمْ یَجْعَلْ لَہٗ ، کتابٌ سے حال ہے۔ تحقیق، ترکیب وتفسیری فوائد عِوَجٌ بالکسر فساد فی المعانی اور بالفتح فساد فی الاجسام یعنی َعَوَج ایسی کجی جو جوارح سے محسوس ہو، اور عِوَج ایسی کجی جو عقل سے محسوس ہو، مگر یہ قاعدہ اکثری ہے کلیہ نہیں۔ وَھَل المراد الاعلامُ بذلک اس سوالیہ جملہ سے شارح علام کا مقصد یہ بتانا ہے کہ جملہ خبریہ کے ذریعہ جو ثبوت حمد کی خبر دی گئی ہے اس سے تین مرادیں ہوسکتی ہیں (1) یا تو اس بات کی خبر دینا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اوصاف کمالیہ ازلی وابدی ہیں، اس صورت میں جملہ لفظاً اور معناً خبریہ ہوگا، اور خبر دینے کے لئے ثابت محذوف نکال کر جملہ اسمیہ اختیار کرنے مقصد اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ بندوں کے لئے ضروری ہے کہ خداوند قدوس کے لئے کمالات کے ازلی وابدی ہونے کا اعتقاد رکھیں (2) یا مقصد انشاء حمد ہے اسی کو مفسر علام نے او الثناء بہ سے تعبیر کیا ہے، اس صورت میں جملہ لفظاً خبریہ اور معناً انشائیہ ہوگا، گویا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اَحْمدُ واُنثی حمدًا لِنَفْسِیْ لعجز خلقی من کنہ حمدی (3) یا دونوں مقصود ہیں اس کی طرف اپنے قول اوھما سے اشارہ فرمایا ہے، یعنی اخبار حمد اور انشاء حمد دونوں مقصود ہوں گے، اس صورت میں جملہ کا استعمال خبر اور انشاء دونوں میں ہوگا، اور یہ حقیقت ومجاز کے اجتماع کے طور پر ہوگا، مگر خبر میں حقیقت اور انشاء میں مجاز ہوگا، اور مقصد ثبوت حمد پر ایمان کی خبر دینا اور انشاء حمد کرنا ہوگا۔ اَفْیَدُھَا ثالث شارح علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ مذکورہ تینوں صورتوں میں تیسری صورت زیادہ مفید اور بہتر ہے، اس لئے کہ اس صورت میں اخبار اور انشاء دونوں مقصود بالذات ہوجاتے ہیں، بخلاف پہلی دونوں صورتوں کے کہ ان میں ایک مقصود بالذات اور دوسرا مقصود بالتبع ہوتا ہے، اگر تو اعتراض کرے کہ انشاءِ ثناء اخبار بالثناء کو مستلزم ہے، بایں طور کہ انشاء حمد کرنے والا بھی حمد کرنے والا ہوتا ہے، تو اس کا جواب یہ ہوگا کہ مقصود بالذات اور مقصود بالتبع میں فرق ہوتا ہے، مثلاً اگر جملہ کو فقط خبریہ قرار دیا جائے تو اس صورت میں اخبار بالحمد قصداً ہوگی مگر انشاء ثناء تبعاً ہوگی اور اگر جملہ کو فقط انشائیہ قرار دیا جائے تو اس صورت میں انشاء حمد تو قصداً ہوگی مگر اخبار بالحمد ضمناً اور تبعاً ہوگی، اور اگر دونوں یعنی جملہ خبریہ اور انشائیہ قرار دیا جائے تو اخبار اور انشاء دونوں قصداً ہوں گے قولہ اَلّذِیْ اَنْزَلَ (الآیہ) ثبوت حمد کے لئے علت کے قائم مقام ہے اس لئے کہ موصول، صلہ سے مل کر جب صفت واقع ہو اور صلہ مشتق ہو تو ایسی صفت موصوف کے لئے ثبوت حکم کی علت ہوا کرتی ہے، اسی قاعدہ کے مطابق الذی انزَلَ ، الحمد ثابت للہ کے لئے علت ہوگی، یعنی اللہ تعالیٰ کے لئے حمد اس لئے ہے کہ اس نے قرآن نازل فرمایا۔ الحمد کے بعد ھو الوصف بالجمیل کے اضافہ کا مقصد حمد کے معنی کو بیان کرنا ہے اور ثابت مقدر مان کر یہ بتانا ہے کہ الحمد مبتداء ہے اور للہ ثابت مقدر کے متعلق ہو کر مبتدا کی خبر ہے۔ سوال : ثَبَتَ کے بعد بجائے ثابت اسم فاعل کا صیغہ محذوف ماننے میں کیا فائدہ ہے ؟ جواب : ثابت اسم فاعل استمرار اور دوام پر دلالت کرتا ہے اس سے اشارہ کردیا کہ باری تعالیٰ کے لئے ثبوت حمد دائمی اور ازلی ہے، بخلاف ثَبَتَ کے کہ یہ تجدد اور حدوث پر دلالت کرتا ہے قولہ تناقضاً حذف مضاف کے ساتھ اختلافاً کی صفت ہے تقدیر عبارت یہ ہے اختلافاً ذَا تناقضٍ ، لہ کی تفسیر فیہ سے کر کے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ لام بمعنی فی ہے۔ تفسیر وتشریح سورة کہف کے فضائل : اس سورت کے پڑھنے سے گھر میں سکینت و برکت نازل ہوتی ہے، ایک مرتبہ ایک صحابی نے سورة کہف پڑھی گھر میں ایک جانور بھی تھا وہ بدکنا شروع ہوگیا اور کودنے لگا، تو انہوں نے غور سے دیکھا کہ کیا بات ہے ؟ تو انہیں ایک بادل نظر آیا جس نے انہیں ڈھانپ رکھا تھا، صحابی مذکورہ نے اس واقعہ کا ذکر آپ ﷺ سے کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا اسے پڑھا کرو، اس کے پڑھتے وقت سکینت نازل ہوتی ہے۔ (صحیح بخاری فضل سورة الکہف) تمام تعریفیں اسی اللہ کے لئے سزاوار ہیں جس نے اپنے بندے پر یہ قرآن نازل کیا اور اس میں کسی قسم کی کمی باقی نہ چھوڑی۔
Top