Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer-e-Jalalain - Al-Kahf : 83
وَ یَسْئَلُوْنَكَ عَنْ ذِی الْقَرْنَیْنِ١ؕ قُلْ سَاَتْلُوْا عَلَیْكُمْ مِّنْهُ ذِكْرًاؕ
وَيَسْئَلُوْنَكَ
: اور آپ سے پوچھتے ہیں
عَنْ
: سے (بابت)
ذِي الْقَرْنَيْنِ
: ذوالقرنین
قُلْ
: فرمادیں
سَاَتْلُوْا
: ابھی پڑھتا ہوں
عَلَيْكُمْ
: تم پر۔ سامنے
مِّنْهُ
: اس سے۔ کا
ذِكْرًا
: کچھ حال
اور تم سے ذوالقرنین کے بارے میں دریافت کرتے ہیں کہہ دو کہ میں اس کا کسی قدر حال تمہیں پڑھ کر سناتا ہوں
آیت نمبر 83 تا 91 ترجمہ : یہود آپ سے ذوالقرنین کا واقعہ دریافت کرتے ہیں اس کا نام اسکندر ہے اور وہ نبی نہیں تھا آپ کہہ دیجئے میں تم کو اس کا کچھ حال سناتا ہوں زمین میں سفر آسان کر کے ہم نے اس کو زمین میں قدرت عطا فرمائی تھی اور ہم نے اس کو ہر قسم کے وسائل جن کی (بادشاہوں) کو ضرورت ہوتی ہے بخشے تھے ایسے وسائل کہ جن کے ذریعہ اس کو اپنے مقصد تک رسائی حاصل ہو سکے، چناچہ وہ مغرب کی جانب ایک راستہ پر ہو لیا، یہاں تک کہ جب وہ انتہائے مغرب میں پہنچ گیا، تو اس کو آفتاب ایک گدلے چشمہ میں ڈوبتا ہوا نظر آیا، کالی مٹی والے چشمہ میں، حمأۃ کالی مٹی اور آفتاب کا چشمہ میں غروب ہونا یہ دیکھنے والے کی نظر میں (محسوس ہوتا) تھا ورنہ آفتاب تو دنیا سے بہت بڑا ہے اور اس کو وہاں چشمہ کے پاس ایک کافر قوم ملی ہم نے بذریعہ الہام اس سے کہا یا تو تم اس قوم کو قتل کے ذریعہ سزا دو یا قید کر کے ان کے ساتھ نرمی کا برتاؤ کرو تو کہا جو شخص شرک کر کے ظلم کرے گا تو اس کو قتل کی سزا دیں گے پھر وہ اپنے رب کی جانب لوٹا یا جائے گا پس وہ اس کو اور بھی سخت سزا دے گا نُکْرًا کاف کے سکون اور ضمہ دونوں کے ساتھ ہے یعنی آگ کا شدید عذاب اور جو ایمان لائے گا اور نیک اعمال کرے گا تو اس کے لئے بدلے میں بھلائی ہوگی یعنی جنت اور اضافت بیانیہ ہے اور ایک قرأت میں جزاءً کے نصب اور تنوین کے ساتھ ہے، اور فرّا نے کہا ہے اس کا نصب جہت نسبت کی تفسیر کی وجہ ہے اور ہم اسے اپنے کام میں بھی آسانی کا حکم دیں گے یعنی ایسی باتوں کا جو اس کے لئے آسان ہوں گی پھر وہ مشرق کی جانب (دوسرے) راستہ پر چل پڑا یہاں تک کہ جب وہ مطلع شمس یعنی طلوع آفتاب کے مقام (انتہائے مشرق) پر پہنچا تو اس نے آفتاب کو ایک ایسی قوم پر طلوع ہوتے دیکھا اور وہ زنجی قوم تھی کہ ہم نے ان کے لئے آفتاب سے بچاؤ کی کوئی آڑ جیسے لباس چھت وغیرہ نہیں رکھی تھی اس لئے کہ ان کی زمین عمارت کی متحمل نہیں تھی اور ان کے لئے بھٹ تھے جن میں وہ طلوع آفتاب کے وقت چھپ جاتے تھے اور غروب کے وقت نکلتے تھے بات ایسی ہی ہے جیسا کہ ہم نے کہا اور ہم نے اس کی یعنی ذوالقرنین کی تمام چیزوں کا علمی احاطہ کر رکھا ہے خواہ وہ آلات حرب کے قبیل سے ہوں یا لشکر وغیرہ کے قبیل سے۔ تحقیق، ترکیب وتفسیری فوائد قولہ سأتلوا سین محض تاکید کے لئے ہے استقبال کے لئے نہیں ہے اس لئے کہ پورا کلام مسلسل نازل ہوا ہے قولہ منہ میں دو احتمال ہیں اول یہ کہ من تبعیضیہ ہے اور ضمیر ذوالقرنین کی طرف راجع ہے اور مضاف محذوف ہے ای من اخبارہ جار مجرور درحقیقت ذکرًا کی صفت ہیں مگر مقدم ہونے کی وجہ سے حال واقع ہیں، دوسرا احتمال یہ ہے کہ منہٗ کی ضمیر اللہ کی طرف راجع ہو اور من ابتدائیہ ہو یعنی میں اللہ کی طرف سے یہ احوال پڑھ کر سناتا ہوں، مگر یہ احتمال ضعیف ہے، ذِکْرًا پہلی صورت میں نبأ کے معنی میں ہوگا اور دوسری صورت میں قرآن کے معنی میں ہوگا منہٗ کی تفسیر من حالہ سے کرنے کا مقصد مضاف محذوف کی طرف اشارہ کرنا ہے اس لئے کہ سوال احوال سے ہوتا ہے نہ کہ ذات سے قولہ مَکَّنَّا تمکین سے قدرت دینا، قدم جمانا قولہ سَبَبٌ رسی، ذریعہ، وسیلہ (ج) اسباب قولہ وَجَدَ بمعنی رأی دیکھا، محسوس کیا حمِئَۃً حَمِیَ (س) سے صفت مشبہ حَمْئًا حمَأ الماءُ پانی گدلا ہوگیا اَلحَمِئَۃ کالی مٹی قولہ اِمّا یہ اِنْ اور ما سے مرکب ہے اور یہ حرف تفصیل ہے اور أن تُعَذ ِّبَ میں أن مصدریہ ہے اور جملہ بتاویل مصدر ہو کر یا تو مبتداء ہے اور خبر محذوف ہے ای اِمَّا تُوقِعُ تَعْذِیْبَکَ اور اِمَّا تتخذ میں بھی یہی احتمالات ہیں قولہ ہیں قولہ فی رأی العین کے اضافہ کا مقصد یہ بتانا ہے کہ وَجَدَا پنے حقیقی معنی میں نہیں ہے بلکہ نظر آنے یا محسوس کرنے کے معنی میں ہے اس لئے کہ یہ ممکن نہیں ہے کہ آفتاب زمین کے کسی چشمے میں غروب ہو اس لئے کہ آفتاب تیرہ لاکھ زمینوں کے مساوی ہے اور اس کا قطر چھیاسی لاکھ پینسٹھ ہزار (8665000) میل ہے، (فلکیات جدیدہ) آفتاب کا چشمے میں غروب ہوتا نظر آنا ایسا ہی ہے جیسا کہ دیکھنے والے کو آسمان چاروں طرف افک سے متصل معلوم ہوتا ہے حالانکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے، اسی طرح اگر آپ ریل کی لائن پر کھڑے ہو کر لائن کو دور دیکھیں تو آپ کو دونوں لائینیں آپس میں ایک دوسرے سے قریب ہوتی نظر آئیں گی حتی کہ آخر میں ملی ہوئی محسوس ہوں گی حالانکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا۔ قولہ حُسْنًا اس کا مضاف محذوف ہے ای ذَا حسنٍ یا مصدر کا حمل مبالغۃ ہے قولہ اَمَّا مَنْ ظلم اَمّا حرف تفصیل ہے مگر اس میں شرط کے معنی بھی ہیں اسی لئے اس کے جواب پر فا کا لانا ضروری ہے قولہ فَلَہٗ جزاء، لہٗ خبر مقدم ہے اور الحسنیٰ مبتداء مؤخر ہے، جزاء حال ہے یا تمیز ہے ای لہٗ الحسنیٰ جزاءً کما یقال لک ھٰذا الثوبُ ھبۃً قولہ یُسْرًا کا مضاف محذوف ہے ای ذَا یُسْرٍ یا پھر مصدر کا حمل مبالغۃ ہے قولہ لم نجعل قوم کی صفت ہے قولہ کذٰلک مبتداء محذوف کی صفت ہے ای الامر کذٰلک قولہ اَحَطْنَا کے لئے سورة کہف کی آیت 68 دیکھئے اَحَطْنَا جملہ مستانفہ ہے خُبْرًا خَبُرَ کا مصدر ہے (ک ف) خبُرَ الشیٔ وبہ حقیقت حال سے واقف ہونا قولہ بالھام سے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ذوالقرنین نبی نہیں تھے بلکہ ایک صالح بادشاہ تھے قولہ سَنَقُولُ کی تفسیر نامرہٗ سے کرنے کا مقصد تعیین معنی ہے اس لئے کہ قول مختلف معنی میں مستعمل ہے۔ تفسیر وتشریح ویَسْئَلُوْنَکَ عَنْ ذِی القَرْنَیْنِ آغاز واقعہ : آپ ﷺ کی بعثت کے بعد جب اسلام کی روشنی کی کرن نمودار ہوئی اور کفر کی ظلمت کے دبیز پردے چاک ہونے لگے تو کفر کے ظلمت کدہ مکہ میں ہنگامہ برپا ہوگیا اس بات کی متفقہ کوشش ہونے لگی کہ بہرصورت اس روشنی کو گل کردیا جائے، مگر اس روشنی کا گل کرنے کی جس قدر زیادہ کوشش ہونے لگی روشنی اتنی ہی تیزی سے پھیلنے لگی، حتی کہ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ مکہ کا کوئی گھر خالی نہ رہا کہ جہاں اس روشنی کی کرن نہ پہنچی ہو، جس کی وجہ سے ہر گھر میں کفر واسلام کا معرکہ بپا نہ ہوا ہو، گھر میں اگر باپ کافر ہے تو بیٹا مسلمان، ماں مسلمان ہے تو بیٹی کافرہ، اگر ایک بھائی مسلمان ہے تو دوسرا کافر، غرضیکہ کوئی گھر ایسا نہ تھا کہ جہاں کفر واسلام کی محاذ آرائی نہ ہو، آخر مجبور ہو کر اہل مکہ نے یہ سوچا کہ محمد ﷺ کے دعوئے نبوت کے بارے میں اہل کتاب سے معلوم کیا جائے کہ اس کی کیا حقیقت ہے، آیا محمد ﷺ اپنے دعوئے نبوت میں سچے ہیں یا یہ کوئی مکرو فریب ہے، چناچہ قریش نے ایک وفد تشکیل دیا جس میں نضر بن حارث اور عقبہ بن معیط کو علماء یہود کے پاس مدینہ یہ پیغام دے کر بھیجا کہ آپ کے پاس انبیاء سابقین کا علم ہے اور آئندہ آنے والے انبیاء کے بارے میں پیشین گوئیاں ہیں لہٰذا محمد ﷺ کے بارے میں یہ بتاؤ کہ ان کے دعوہ نبوت کے بارے میں آپ کی کتابوں میں کوئی تذکرہ ہے یا نہیں ؟ علماء یہود نے جواب دیا کہ تم ان باتوں کو تو چھوڑو ہم تم کو تین سوال بتاتے ہیں اگر وہ ان کا جواب صحیح دے دیں تو سمجھ لینا کہ وہ اپنے دعوہ نبوت میں برحق ہیں اور اگر جواب نہ دے سکیں تو سمجھ لینا کہ وہ دعوہ نبوت میں کاذب ومفتری ہیں (1) روح کی حقیقت کیا ہے ؟ (2) اصحاب کہف کون تھے ؟ (3) سکندر ذوالقرنین کون تھا ؟ یہ قریشی وفد خوش وخرم مکہ واپس ہوگیا اور مکہ والوں سے جا کر کہا ہم ایک فیصلہ کن بات لے کر آئے ہیں اور مذکورہ تینوں سوالات ان کو بتائے چناچہ مکہ کے سرداروں کا ایک نمائندہ وفد ان سوالوں کو لے کر آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، اور آپ کے سامنے مذکورہ تینوں سوالات رکھے، آپ نے فرمایا ان کا جواب میں کل دوں گا، دو کا ذکر سابق میں گذر چکا ہے روح کے بارے میں سورة بنی اسرائیل کے آخر میں اور اصحاب کہف کے بارے میں سورة کہف میں آپ نے پڑھا یہاں سے تیسرے سوال کے جواب کا آغاز ہوتا ہے، یہ یہود آپ سے ذوالقرنین کے بارے میں سوال کرتے ہیں سوال کی نسبت علامہ جلال الدین نے یہود کی جانب کی ہے حالانکہ سوال کرنے والے اہل مکہ تھے مگر چونکہ اہل مکہ نے سوالات یہود کے سکھانے سے کئے تھے اور اصل سائل یہود ہی تھے اس لئے یہود کی جانب نسبت کی ہے۔ اسکندر نام اور ذوالقرنین لقب کے کئی بادشاہ دنیا میں گذرے ہیں، ذوالقرنین کے معنی ہیں دو سینگوں والا، یہ لقب کیوں پڑا اس میں بہت اختلاف ہے جس کا ذکر تحقیق و ترکیب کے زیر عنوان گذر چکا ہے، یہ لقب قرآن کریم کا دیا ہوا نہیں ہے بلکہ پہلے سے مشہور چلا آرہا تھا، چناچہ یہود نے اسی نام سے سوال کیا، اس نام اور لقب کے دو بادشاہ زیادہ مشہور گذرے ہیں، ایک حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا معاصر ہے جو نمرود کے بعد ہوا ہے یہ بادشاہ موحد اور دین حق کا پیرو تھا، حضرت ابراہیم پر ایمان لایا تھا اور تعمیر کعبہ کے بعد حضرت ابراہیم کے ساتھ حج بھی کیا تھا یہ بادشاہ 2000 قبل مسیح میں گذرا ہے، بعض حضرات اس کو یونانی کہتے ہیں مگر صحیح یہ ہے کہ یہ فارسی ہے اس کو یونانی زبان میں سائرس اور عربی زبان میں کیخسر و اور فارسی میں گورش کہتے ہیں اور یہود اس کو خورس کہتے ہیں یہ نہایت خدا ترس اور عادل بادشاہ تھا۔ دوسرا بادشاہ سکندر رومی ہے جو سکندر یونانی، مقدونی، رومی کے لقب سے مشہور ہے، یہ تقریباً تین سو سال قبل مسیح گذرا ہے اس کا وزیر اور استاد ارسطو تھا جو کہ مشرک تھا اور یہ اسکندر بھی مشرک اور ظالم تھا بلکہ خود کو ایک دیوتا کا مظہر کہتا تھا یہی وہ سکندر ہے جس نے دارا کو شکست دی تھی، بعض حضرات نے اس کو بھی قرآنی ذوالقرنین کہہ دیا ہے جو سراسر غلط ہے، اس لئے کہ یہ شخص آتش پرست تھا اور قرآن حکیم نے جس ذوالقرنین کا ذکر کیا ہے اس کے نبی ہونے میں تو علماء کا اختلاف ہے مگر مومن، صالح ہونے میں سب کا اتفاق ہے۔ قرآنی ذوالقرنین نے بہت طویل پائی ہے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے زمانہ سے اسرائیلی نبی دانیال (علیہ السلام) کے زمانہ تک زندہ رہے، اسی نے بخت نصر کو شکست دے کر بنی اسرائیل کو اس کی قید سے آزاد کرایا، اور بیت المقدس کا جو سامان بخت نصر لوٹ کرلے گیا تھا اور بیت المقدس مسمار کر گیا تھا سامان واپس دلایا اور بیت المقدس کو دوبارہ آباد کیا، گویا کہ یہی ذوالقرنین بنی اسرائیل کا نجات دہندہ ہے اور اسی مناسبت سے یہودیوں نے سوال کے لئے اس کو منتخب کیا تھا، اس واقعہ کی طرف قرآن میں بھی سورة بنی اسرائیل میں جو دو مرتبہ بنی اسرائیل کے فساد میں مبتلا ہونے اور دونوں مرتبہ کی سزا کا تفصیل سے ذکر آیا ہے اس میں بنی اسرائیل کے پہلے فساد کے موقع پر خود قرآن کریم نے فرمایا ہے بَعَثْنَا عَلَیکُمْ عِبَادًا لنا اولی باسٍ شدیدٍ فجاسوا خِلٰل الدیار یعنی تمہارے فساد کی سزا میں ہم تم پر اپنے کچھ ایسے بندے مسلط کردیں گے جو بڑی قوت اور شوکت والے ہوں گے وہ تمہارے گھروں میں گھس پڑیں گے اس میں یہ قوت اور شوکت والے لوگ بخت نصر اور اس کے اعوان ہیں جنہوں نے بیت المقدس میں چالیس ہزار اور بعض روایات میں ستر ہزار بنی اسرائیل کو قتل کیا اور ایک لاکھ سے زیادہ بنی اسرائیل کو قید کر کے بھیڑ بکریوں کی طرح ہنکا کر بابل لے گیا اور اس کے بعد قرآن کریم نے فرمایا ثم رَدَد نَا لکُم الکرۃ علَیْھِم (یعنی ہم نے پھر لوٹا دیا تمہارے غلبہ کو) یہ واقعہ اسی کیخسر و بادشاہ کے ہاتھوں ظہور پذیر ہوا، یہ مومن صالح تھا اس نے بخت نصر کا مقابلہ کر کے اسکے قیدی بنی اسرائیل کو اس کے قبضہ سے نکالا اور ان کو دوبارہ فلسطین میں آباد کیا اور بیت المقدس کو بھی جسکو ویران کردیا تھا دوبارہ آباد کیا اور بیت المقدس کے خزائن و سامان ان کو جو بخت نصر لے گیا تھا وہ سب واپس بنی اسرائیل کے قبضہ میں دئے اس لئے یہ شخص بنی اسرائیل کا نجات دہندہ ثابت ہوا۔ یہ بات قرین قیاس ہے کہ یہود مدینہ نے امتحان نبوت کے لئے قریش مکہ کے واسطہ سے جو سوالات متعین کئے ان میں ذوالقرنین کے سوال کو یہ خصوصیت بھی حاصل تھی کہ یہود اس کو اپنا نجات دہندہ مان کر اس کی تعظیم و تکریم کرتے تھے، مولانا حفظ الرحمٰن صاحب نے اپنی اس تحقیق پر موجودہ تورات کے حوالہ سے انبیاء بنی اسرائیل کی پیشین گوئیوں اور تاریخی روایات سے اس پر کافی شواہد پیش کئے ہیں، اس کی مزید تفصیل مولانا کی معرکۃ الاآراء کتاب قصص القرآن میں دیکھی جاسکتی ہے۔ (معارف القرآن) قدیم مفسرین نے اس کا مصداق اسکندر رومی کو قرار دیا ہے جس کی فتوحات کا دائرہ مشرق ومغرب تک پھیلا ہوا تھا لیکن جدید مفسرین تاریخی معلومات کی روشنی میں اس سے اتفاق نہیں کرتے بالخصوص مولانا ابو الکلام آزاد مرحوم نے اس کی تحقیق وتفتیش میں جو داد تحقیق دی ہے وہ نہایت ہی قابل قدر ہے ان کی تحقیق کا خلاصہ یہ ہے کہ اس ذوالقرنین کی بابت قرآن نے صراحت کی ہے کہ وہ ایسا حکمراں تھا کہ جس کو اللہ تعالیٰ نے اسباب و وسائل کی فراوانی سے نوازا تھا وہ مشرقی و مغربی ممالک فتح کرتا ہوا ایک ایسے پہاڑی درے پر پہنچا جس کی دوسری طرف یاجوج اور ماجوج تھے، اس نے وہاں یا جوج وماجوج کا راستہ بند کرنے کے لئے ایک نہایت ہی محکم بند تعمیر کیا وہ عادل، اللہ کو ماننے والا اور آخرت پر ایمان رکھنے والا تھا وہ نفس پرست اور مال و دولت کا حریص نہیں تھا مولانا مرحوم فرماتے ہیں کہ ان خصوصیات کا حامل صرف فارس کا وہ عظیم حکمراں ہے جسے یونانی سائرس، عبرانی خورس اور عرب کیخسر و کے نام سے پکارتے ہیں اس کا دور حکمرانی 539 قبل مسیح ہے نیز فرماتے ہیں 1838 میں سائرس کے ایک مجسمے کا بھی انکشاف ہوا جس میں سائرس کا جسم اس طرح دکھایا گیا ہے کہ اس کی دونوں جانب عقاب کی طرح دو بازو نکلے ہوئے ہیں اور سر پر مینڈھے کی طرح دو سینگ ہیں۔ (تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو تفسیر ترجمان القرآن) قُل سأتْلُوْا علیْکُمْ منہ ذِکرًا اس میں یہ بات قابل غور ہے کہ قرآن کریم نے اس جگہ ذکرہ کا مختصر لفظ چھوڑ کر منہ ذکرًا کے دو کلمہ کیوں اختیار کئے ؟ آپ غور کریں گے تو ان دو کلموں میں اشارہ اس طرف کیا گیا ہے کہ قرآن نے ذوالقرنین کا پورا قصہ اور اس کی تاریخ ذکر کرنے کا وعدہ نہیں کیا بلکہ اس کے ایک حصہ کو بیان کرنے کا وعدہ فرمایا جس پر حرف مِنْ اور ذِکْرًا کی تنوین بقواعد عربیت شاہد ہے اوپر جو تاریخی بحث ذوالقرنین کے نام ونسب اور زمانہ وغیرہ کی لکھی گئی ہے قرآن کریم نے اس کو غیر ضروری سمجھ کر چھوڑ دینے کا پہلے ہی اظہار کردیا ہے۔ ثُمَّ اَتْبَعَ سَبَبًا حتّٰی اِذَا بلغ مَطْلَعِ الشَّمسِ وَجَدَھَا یعنی مغربی مہم سے فارغ ہونے کے بعد مشرقی جانب مہم پر روانہ ہوا حتی کہ جب مشرقی جانب منتہائے آبادی پر پہنچ گیا (اسی کو قرآن نے مطلع شمس کہا ہے) جہاں ایسی قوم آباد تھی کہ جس کا حال یہ تھا کہ اس کے پاس دھوپ وغیرہ سے بچنے کے لئے بھی کوئی معقول سامان نہیں تھا نہ ان کے مکانات تھے اور نہ خیمے وغیرہ اور لباس کے طور پر وہ جانوروں کی کھال استعمال کرتے تھے، قرآن کریم نے ان کے مذہب و اعمال کا کوئی ذکر نہیں کیا اور نہ یہ ذکر کیا کہ ذوالقرنین نے ان کے ساتھ کیا معاملہ کیا، ظاہر یہی ہے کہ یہ قوم بھی کافر تھی اور ذوالقرنین نے ان کے ساتھ بھی وہی معاملہ کیا جو مغربی قوم کے ساتھ اوپر گذر چکا ہے، ذکر نہ کرنے کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ اس قوم کے حالات کو بھی پچھلی قوم کے حالات پر قیاس کر کے ان کا بھی حال معلو ہوسکتا ہے۔ (کذا فی بحر المحیط عن ابن عطیہ )
Top