Tafseer-e-Jalalain - Maryam : 16
وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ مَرْیَمَ١ۘ اِذِ انْتَبَذَتْ مِنْ اَهْلِهَا مَكَانًا شَرْقِیًّاۙ
وَاذْكُرْ : اور ذکر کرو فِى الْكِتٰبِ : کتاب میں مَرْيَمَ : مریم اِذِ انْتَبَذَتْ : جب وہ یکسو ہوگئی مِنْ اَهْلِهَا : اپنے گھروالوں سے مَكَانًا : مکان شَرْقِيًّا : مشرقی
اور کتاب (قرآن) میں مریم کا بھی مذکور کرو جب وہ اپنے لوگوں سے الگ ہو کر مشرق کی طرف چلی گئیں
آیت نمبر 16 تا 25 ترجمہ : اور اے محمد ﷺ اس کتاب یعنی قرآن میں مریم کا یعنی ان کے واقعہ کا ذکر کیجئے جب کہ وہ اپنے اہل خانہ سے الگ ہو کر ایک ایسے مکان میں جو شرقی جانب تھا چلی گئیں یعنی دار (بیت المقدس) کے مشرقی جانب کسی جگہ تنہائی میں چلی گئیں اور اہل خانہ کی جانب سے پردہ ڈال لیا، یعنی پردہ لٹکا لیا تاکہ آڑ ہوسکے (اور) اپنے سریا کپڑوں میں جوں دیکھ سکے یا حیض سے طہارت کے لئے غسل کرسکے تو ہم نے اس کے پاس اپنی روح جبرئیل (علیہ السلام) کو بھیج دیا تو وہ ان کے سامنے کپڑے پہننے کے بعد مکمل مرد بن کر نمودار ہوا حضرت مریم کہنے لگیں کہ میں تجھ سے اپنے خدا کی پناہ طلب کرتی ہوں اگر تجھے کچھ بھی خوف خدا ہے تو تو یہاں سے میرے پناہ طلب کی وجہ سے ہٹ جائے گا حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے جواب دیا میں تیرے رب کا قاصد ہوں تجھے ایک پاکیزہ لڑکا دینے آیا ہوں اور اس کی پاکیزگی نبوت کی وجہ سے ہے تو حضرت مریم (علیہ السلام) کہنے لگیں بھلا میرے بچہ کیسے ہوسکتا ہے حالانکہ مجھے کسی بشر نے ہاتھ تک نہیں لگایا نکاح کر کے اور نہ میں بدکار زانیہ ہوں فرشتہ نے کہا امر تو ایسا ہی ہے کہ تجھ سے باپ کے بغیر لڑکا پیدا ہو تیرے پروردگار کا ارشاد ہے کہ یہ میرے لئے بہت آسان ہے اس طریقہ پر کہ جبرائیل تجھ میں میرے حکم سے پھونک ماردیں گے پھر تو اس کی وجہ سے حاملہ ہوجائے گی، مذکور (یعنی ھو علیّ ھیّن) چونکہ علت کے معنی میں ہے لہٰذا اس پر لِنَجْعَلَہ کا عطف کیا گیا ہے اور تاکہ اس کو میں اپنی قدرت پر لوگوں کے لئے نشانی بناؤں اس شخص کے لئے جو ہماری کمال قدرت پر یقین رکھتا ہو اور اس (ولد) کی تخلیق طے شدہ بات ہے میرے علم میں، چناچہ حضرت جبرائیل نے حضرت مریم (علیہ السلام) کی قمیص کے گریبان میں پھونک مار دی چناچہ حضرت مریم (علیہ السلام) نے اپنے پیٹ میں (حمل) متشکل محسوس کیا چناچہ حضرت مریم (علیہ السلام) فرزند سے حاملہ ہوگئیں اور اسی وجہ سے یکسو ہو کر اپنے اہل خانہ سے دور ایک مقام پر چلی گئیں پھر دردزہ اس کو ایک کھجور کے تنے کے پاس لے آیا تاکہ اس سے ٹیک لگائے پھر اس نے (بچہ) جنا اور یہ حمل اور تشکل اور ولادت (سب کچھ) ایک ساعت میں ہوگیا کہنے لگیں کاش میں اس واقعہ سے پہلے ہی مرگئی ہوتی اور میں ایسی بھولی بسری متروک شئ ہوگئی ہوتی کہ نہ کوئی مجھے پہچانتا اور نہ میرا تذکرہ کرتا اتنے میں اسے نیچے کی جانب سے جبرائیل (علیہ السلام) نے جو کہ مریم سے بائیں جانب تھے آواز دی کہ تو آزردہ خاطر نہ ہو تیرے رب نے تیرے نیچے ایک چشمہ جاری کردیا ہے یعنی ایسی نہر کو (جاری کردیا) جس کا پانی خشک ہوگیا تھا اور کھجور کے تنے کو اپنی طرف ہلا حالانکہ وہ درخت خوشک تھا بجذع میں باء زائدہ ہے تیرے سامنے تروتازہ پکی کھجوریں گرادے گا رَطَبًا تمیز ہے اور جَنِیّا اس کی صفت ہے تَسَّاقَطَ اس کی اصل دو تاؤں کے ساتھ ہے دوسری تاسین سے بدل دی گئی اور سین کو سین میں ادغام کردیا گیا اور ایک قرأۃ میں ترک تا کے ساتھ بھی ہے۔ (ای تساقَطٌ) تحقیق، ترکیب وتفسیری فوائد قولہ واذکر فی الکتاب مریم اس کا عطف کلام سابق کے مضمون پر ہے تقدیر عبارت یہ ہے اعلم ذکر رحمۃِ ربِّکَ عبدہٗ زکریا واذکر فی الکتاب مریم قص تھا اذکر فی الکتاب مریم ای قصتہ مریم مضاف محذوف ہے مریَمْ بمعنی عابدہ، زاہدہ، اور خادمۃ الرب کے ہیں الکتاب میں الف لام عہد کا ہے مراد قرآن کریم ہے قولہ اِذ انتبذت مضاف محذوف کا ظرف ہے جس کو مفسر علام نے خبرھا کہہ کر ظاہر کردیا مریم سے بدل الکل یا بدل الاشتمال بھی ہوسکتا ہے (مظہری) قولہ مکاناً شرقیاً موصوف صفت سے ملکر یا تو انتبذت کا ظرف ہے یا اس کا مفعول بہ ہے اس لئے کہ انتبذت اَتَتْ کے معنی کو مشتمل ہے ای اَتَتْ مکاناً اِنْتَبَذَتْ ای ابتعدت وتنحت ایک طرف ہونا بعید ہونا قولہ بعد لبسِھَا ثیابًا یہ اس شبہ کا جواب ہے کہ حدیث میں آیا ہے کہ جس گھر میں عورت کھلے سر ہو اس میں رحمت کے فرشتے نہیں آتے تو مریم اس جگہ برہنہ تھیں، کیسے داخل ہوگئے جواب دَخَلَ بعد لبسھا قولہ لتفلِیْ مضارع واحد مؤنث غائب، تاکہ وہ جوں دیکھے قولہ روحَنَا ای جبرائیل قولہ لَمْ اَکُ بَغیًا بغیۃ نہیں فرمایا حالانکہ موقع بغیۃ کا تھا اس لئے کہ یہ صفت عام طور پر عورتوں میں زیادہ ہوتی ہے تو یہ حائض اور عاقر کے قبیل سے ہونے کی وجہ سے تا کی ضرورت نہیں ہے قولہ قال ربک ھو علَیَّ ھَیِّنٌ قال کذلک کی علت کے قائم مقام ہے، یعنی اسی طرح ہوگا، اس لئے کہ یہ ہمارے لئے آسان ہے، دراصل یہ ایک اعتراض کا جواب ہے، اعتراج یہ ہے کہ یہاں جملہ تعلیلیہ کا عطف غیر تعلیلیہ پر ہو رہا ہے جو جائز نہیں ہے، جواب یہ ہے کہ معطوف علیہ بھی جملہ تعلیلیہ ہے لہٰذا لنجعلہ آیۃ للناس کا اس پر عطف درست ہوگا، قولہ رحمۃ کا عطف آیۃ پر ہے قولہ المخاض دردزہ (س) قولہ فتنتھی محذوف مان کر اشارہ کردیا کہ اِنْ کنتَ تقیَّا کا جواب شرط فتنتھی محذوف ہے قولہ بتزوجٍ مفسر علام نے بتزوجٍ کا اضافہ کر کے ایک سوال کا جواب دیا ہے، سوال جواب دیا ہے، سوال یہ ہے کہ لَمْ یَمْسَسْنِیْ یہ عدم جماع سے کنایہ ہے لہٰذا یہ جماع حلال اور حرام دونوں کو شامل ہے اس صورت میں لَمْ اَکُ بغیاً کہنے کی ضرورت نہیں تھی۔ جواب : کا خلاصہ یہ ہے کہ عرف میں مس وطی حلال ہی کو شامل ہے وطی حرام عرفاً اس سے خارج ہے وطی حرام اور حلال دونوں کی نفی کرنے کے لئے لمْ اکُ بَغِیَّا کا اضافہ فرمایا قولہ اَجَاءَھَا کی تفسیر جاءَ بھَا سے کر کے اس بات کی طرف اشارہ کردیا کہ جاء اور اجاء دونوں ایک ہی معنی میں ہیں یعنی دونوں متعدی بیک مفعول ہیں بظاہر یہ شبہ تھا کہ جب جاء کے شروع میں ہمزہ کا اضافہ کردیا تو شاید متعدی بدو مفعول ہوگیا ہو اس شبہ کو مفسر علام نے اَجَاءَھَا کی تفسیر جاءَبِھا سے کر کے دفع کردیا، دوسرا جواب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اجاءَ اَلْجَاَ کے معنی میں ہے اور جب استعمال بدل گیا تو متعدی بیک مفعول ہوگیا۔ (جمل) تفسیر وتشریح وَاذْکرُ فی الکتاب مریم اس سورة میں مذکور قصوں میں سے یہ دوسرا واقعہ ہے، اے محمد ﷺ آپ قرآن کے اس حصہ میں حضرت مریم کا قصہ بھی ذکر کیجئے یہ قصہ حضرت یحییٰ علیہ السلالم کی ولادت کے قصہ سے بھی زیادہ عجیب ہے اس لئے بغیر مرد کے بچہ پیدا ہونا، بانجھ عورت سے بچہ پیدا ہونا لوگوں کے لئے عجیب ضرور ہے مگر بغیر شوہر کے بچہ کی پیدا ئش ہماری کمال قدرت پر اس سے بھی زیادہ دلالت کرنے والا ہے، اور یہ قصہ اس وقت واقع ہوا جب کہ وہ گھر سے الگ ہو کر ایک ایسے مکان میں جو کہ مشرق کی جانب تھا چلی گئیں یہ تنہائی یا تو غسل حیض کے لئے تھی یا عبادت میں یکسوئی کے لئے تاکہ گوشہ تنہائی میں یکسوئی اور دل جمعی کے ساتھ خدا کی بندگی کرسکیں، لوگوں کی نظر پڑنے سے بچنے کے لئے ایک پردہ بھی ڈال لیا تاکہ اس کی آڑ میں غسل کرسکیں اور اپنے سر وغیرہ میں جوئیں دیکھ سکیں تو اس حالت میں ہم نے ان کے پاس حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کو بھیجا اور حضرت جبرائیل (علیہ السلام) ان کے سامنے نہایت حسین و جمیل امر جوان کی شکل میں ظاہر ہوئے اور ابو مسلم نے کہا ہے کہ روحنا سے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) مراد ہیں، لقولہ تعالیٰ وَرُوْحٌ مِّنْہٗ (روح المعانی) کیا عورت نبی ہوسکتی ہے ؟ علماء اور مفسرین کا اس میں اختلاف ہے کہ حضرت مریم نبیہ تھیں یا نہیں، یا عورت نبی ہوسکتی ہے یا نہیں، بعض حضرات اسی آیت سے عورت کے نبی ہونے پر استدلال کرتے ہیں، علماء جمہور فرماتے ہیں کہ مطلق وحی تو عورت کی جانب بھی آسکتی ہے البتہ وحی رسالت مردوں کے ساتھ خاص ہے حضرت مریم (علیہ السلام) کی طرف جو حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کے ذریعہ وحی بھیجی تھی وہ وحی بشارت تھی نہ کہ وحی رسالت۔ جب حضرت جبرائیل (علیہ السلام) ایک خوبصورت اور رعنا امرد نوجوان کی شکل میں حضرت مریم کے سامنے ظاہر ہوئے تو وہ گھبرا گئیں، گھبرا کے کہنے لگیں کہ میں تجھ سے اپنے خدا کی پناہ مانگتی ہوں اگر تجھے ذرا بھی خوف خدا ہے تو تو یہاں سے ہٹ جا اس کا مفہوم مخالف مراد نہیں کہ اگر تو متقی نہیں ہے تو میں تجھ سے پناہ نہیں مانگتی، بلکہ مطلب یہ ہے کہ متقی ہونے کی صورت میں پناہ طلب کی تو غیر متقی ہونے کی صورت میں تو بطریق اولیٰ پناہ طلب کرتی ہوں، بعض روایات میں یہ بھی ہے کہ جبرائیل امین نے جب یہ کلمہ سنا تو اللہ کے نام کی تعظیم کے لئے کچھ پیچھے ہٹ گئے، اور کہا میں بشر نہیں ہوں کہ تم مجھ سے ڈرتی ہو، بلکہ میں تو تمہارے رب کا بھیجا ہوا فرشتہ ہوں میں اس لئے آیا ہوں کہ تم کو باذن خدا ایک پاکیزہ بچہ دوں لِاَھَبَ میں ہبہ کی نسبت حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے اپنی طرف کی ہے یہ نسبت مجازی ہے اور اضافت الشی ٔ الی السبب کے قبیل سے ہے چونکہ اعطاء ولد کا ظاہری سبب حضرت جبرائیل (علیہ السلام) تھے اس لئے اپنی جانب نسبت کردی ورنہ درحقیقت اعطاء ولد اللہ کا فعل ہے، یا حکایت حال کے طور پر جبرائیل (علیہ السلام) نے اپنی طرف نسبت کردی ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے مجھے تمہارے پاس اس لئے بھیجا ہے کہ مریم سے کہہ دو کہ میں تم کو ایک پاکیزہ فرزند دینے والا ہوں، بعض قراءتوں میں لِاَھَبَ کے بجائے لِیَھَبَ ہے اس صورت میں کوئی اشکال ہی نہیں ہے اس لئے کہ اس قرأ ت کے مطابق اعطاء ولد کی نسبت اللہ تعالیٰ ہی کی طرف ہے بعض حضرات لِاَھَبَ سے استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ رسول بخش اور پیر بخش وغیرہ نام رکھنا درست ہے یہ نہایت نادانی اور نادانی اور ناسمجھی کی بات ہے۔ قال کذٰلک الخ فرشتہ نے جواب دیا یہ بات صحیح ہے کہ تجھے مرد سے مقاربت کا کوئی موقع نہیں ملا ہے نہ جائز طریقہ سے اور نہ ناجائز طریقہ سے، جب کہ حمل کے لئے عادتاً یہ ضروری ہے، مگر تیرے رب کا فرمان ہے کہ میں اسباب عادیہ کا محتاج نہیں ہوں میرے لئے یہ بالکل آسان ہے اور میں اسے (یعنی عیسیٰ (علیہ السلام) کو) اپنی قدرت تخلیق کے لئے ایک نشانی اور لوگوں کے لئے رحمت بنانا چاہتا ہوں اس سے قبل ہم نے تمہارے دادا آدم (علیہ السلام) کو مرد اور عورت کے بغیر اور تمہاری دادی حوا کو صرف مرد سے عورت کے بغیر پیدا کیا اور اب عیسیٰ (علیہ السلام) کو چوتھی شکل یعنی بغیر باپ کے محض بطن مادر سے پیدا کر کے اپنی قدرت کاملہ کا اظہار کرنا چاہتے ہیں اور یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ہم تخلیق کی چاروں قسموں پر قادر ہیں اسی طرح ہم حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو نبوت عطا کر کے لوگوں کے لئے اپنی رحمت کی نشانی بھی بنانا چاہتے ہیں کیونکہ نبی اپنی امت کے لئے رحمت ہوتا ہے۔ وَکَانَ اَمْرًا مَّقْضِیَّا یہ کلام سابق کا تتمہ ہے یعنی یہ اعجازی تخلیق تو اللہ کے علم اور اس کی قدرت میں مقدر ہوچکی ہے اس میں تغیر وتبدل نہیں ہوسکتا، اس گفتگو کے بعد حضرت جبرئیل (علیہ السلام) نے مریم کے گریبان یا منہ میں پھونک مار دی جس کے نیتجے میں حضرت مریم کو حمل رہ گیا پھر حضرت مریم (علیہ السلام) اس حمل کو لئے ہوئے شرم کے مارے اپنے گھر والوں سے کہیں دور مقام پر چلی گئیں، اور اس خیال سے کہ بچہ کے معاملہ میں لوگوں کو کس طرح مطمئن کرسکوں گی جب کہ میری بات کی تصدیق کرنے کے لئے کوئی تیار ہی نہیں ہوگا اور ساتھ ہی یہ تصور بھی روح فرسا تھا کہ کہاں میری شہرت ایک عابدہ اور زاہدہ کے طور پر اور اس کے بعد لوگوں کی نظر میں بدکار ٹھہروں گی، اس خیال سے مغلوب الحال ہو کر موت کی آرزو کر ڈالی۔ تمنائے موت کا حکم : اگر یہ تمنائے موت غم دنیا سے تھی تب تو غلبہ حال کو اس کا عذر کہا جائے گا جس میں انسان من کل الوجوہ مکلّف نہیں رہتا، اور اگر غم دین سے تھا کہ لوگ بدنام کریں گے اور شاید مجھ سے اس پر صبر نہ ہوسکے تو بےصبر کی معصیت میں ابتلاء ہوگا موت کے ذریعہ معصیت سے حفاظت رہے گی تو ایسی تمنا ممنوع نہیں ہے۔ جب حضرت مریم (علیہا السلام) غلبہ حال کی وجہ سے موت کی تمنا کر رہی تھیں تو زیریں جانب سے اللہ تعالیٰ کے حکم سے جبرئیل نے پکار کر کہا کہ اے مریم تو بےسروسامانی یا خوف بدنامی کی وجہ سے مغموم مت ہو کیونکہ بےسروسامانی کا تو یہ انتظام ہوگیا ہے کہ تمہارے رب نے تمہارے پائیں (زیریں جانب) ایک نہر پیدا فرما دی ہے ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے اپنا پیر زمین پر مارا جس کی وجہ سے شیریں پانی کا ایک چشمہ جاری ہوگیا، اور حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے یہ بھی فرمایا کہ تم اس کھجور کے تنے کو ہلاؤ یہ تیرے سامنے پکی تروتازہ کھجوریں گرائے گا یعنی خرق عادت اور کرامت کے طور پر اللہ تعالیٰ نے حضرت مریم کے پائیں جانب پینے کے لئے پانی اور کھانے کے لئے ایک سوکھے ہوئے کھجور کے درخت سے پکی اور تازہ کھجوروں کا انتظام فرما دیا۔ البلاغۃ : ولم یمسَسْنی بشَرً کنایۃ عن المعاشرۃ الزوجیہ بالجماع۔
Top