Tafseer-e-Jalalain - Maryam : 51
وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ مُوْسٰۤى١٘ اِنَّهٗ كَانَ مُخْلَصًا وَّ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّا
وَاذْكُرْ : اور یاد کرو فِي الْكِتٰبِ : کتاب میں مُوْسٰٓى : موسیٰ اِنَّهٗ : بیشک وہ كَانَ : تھا مُخْلَصًا : برگزیدہ وَّكَانَ : اور تھا رَسُوْلًا : رسول نَّبِيًّا : نبی
اور کتاب میں موسیٰ کا بھی ذکر کرو بیشک وہ (ہمارے) برگزیدہ اور پیغمبر مرسل تھے
آیت نمبر 51 تا 59 ترجمہ : کتاب میں مذکور موسیٰ (علیہ السلام) کا ذکر کیجئے وہ بلاشبہ بڑے مخلص منتخب بندے تھے کسرہ لام اور فتحہ لام کے ساتھ مخلص مَنْ اَخْلَصَ فِی عِبَادَتِہٖ کو کہتے ہیں اور مخلص مَن اَخْلَصَہٗ اللہ مِنَ الدنَس کو کہتے ہیں (یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کو ہر قسم کی آلائشوں سے پاک کردیا) اور وہ نبی مرسل تھے اور ہم نے موسیٰ کو کوہ طور کی داہنی جانب سے یا موسیٰ اِنّی اَنَا اللہ کہہ کر پکارا طور ایک پہاڑ کا نام ہے یعنی موسیٰ (علیہ السلام) کی اس جانب سے (پکارا) جو مدین سے آتے ہوئے داہنی جانب پڑتی ہے اور ہم نے اس کو رازدارانہ گفتگو کے لئے اپنا مقرب بنایا، اس طریقہ پر کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو اپنا کلام سنایا اور ہم نے اس کو اپنی رحمت نعمت کے سبب سے اس کا بھائی ہارون نبی بنا کر عطا کیا ہارون (اخاہ) سے بدل یا عطف بیان ہے نبِیًّا (ہارون) سے حال ہے اور وَھَبْنَا سے عطاء نبوت ہی مراد ہے موسیٰ (علیہ السلام) کی اس درخواست کو قبول کرتے ہوئے کہ اس کے ساتھ اس کے بھائی (ہارون) کو نبی بنا دیجئے اور ہارون (علیہ السلام) موسیٰ سے بڑے تھے۔ اور کتاب میں مذکور اسماعیل (علیہ السلام) کا بھی ذکر کیجئے بلاشبہ وہ وعدے کے بڑے سچے تھے انہوں نے کوئی وعدہ نہیں کیا کہ اس کو پورا نہ کیا ہو اور جس شخص سے (انتظار) کا وعدہ کیا تھا اس کا تین دن یا ایک سال تک (اسی جگہ) انتظار کیا تاآنکہ وہ شخص کہ جس سے انتظار کا وعدہ کیا تھا آپ کے انتظار کی جگہ واپس آیا اور وہ جرہم کی طرف نبی بنا کر بھیجے گئے تھے اور وہ اپنے اہل یعنی اپنی قوم کو (برابر) نماز کا اور زکوٰۃ کا حکم کرتے تھے اور وہ اپنے پروردگار کے نزدیک پسندیدہ تھے مَرضِیٌّ کی اصل مَرضُوْؤ تھی، دونوں واؤی سے بدل گئے اور ضمہ کسرہ سے بدل گیا، اور اس کتاب میں ادریس کا بھی ذکر کیجئے وہ نوح (علیہ السلام) کے والد کے دادا تھے بیشک وہ بڑی راستی والے نبی تھے اور ہم نے ان کو بلند مقام تک پہنچا دیا، وہ چوتھے یا چھٹے یا ساتویں آسمان یا جنت میں زندہ ہیں اور ان کو موت کا مزا چکھانے کے بعد جنت میں داخل کردیا گیا اور زندہ کردیا گیا اور وہ جنت سے نہیں نکلے اُوْلٰئِکَ مبتداء ہے یہی ہیں وہ لوگ جن پر اللہ تعالیٰ نے (خاص) انعام فرمایا الذین انعم اللہ علَیْھِمْ ، اوْلٰئِکَ (موصوف) کی صفت ہے اور مِنَ النبیین الذین کا بیان ہے اور یہ بیان صفت کے معنی میں ہے اور من النبیین سے لے کر جملہ شرطیہ تک نبیین کی صفت ہے (اور یہ مُنْعَمْ علیھم) آدم (علیہ السلام) کی نسل سے ہیں یعنی ادریس (علیہ السلام) اور ان میں سے بعض ان لوگوں کی نسل سے ہیں جن کو ہم نے نوح (علیہ السلام) کے ساتھ کشتی میں سوار کیا تھا یعنی ابراہیم (علیہ السلام) حضرت نوح (علیہ السلام) کے بیٹے سام کی نسل سے ہیں اور بعض ان میں سے ابراہیم (علیہ السلام) کی نسل سے ہیں یعنی اسماعیل اور اسحٰق اور یعقوب (علیہم السلام) بعض اسرائیل کی نسل سے ہیں اور وہ یعقوب (علیہ السلام) ہیں موسیٰ اور ہارون اور زکریا اور یحییٰ اور عیسیٰ (علیہم السلام) ہیں اور یہ سب (حضرات) ان لوگوں میں سے تھے جن کو ہم نے ہدایت فرمائی اور مقبول بنایا یعنی منجملہ ہدایت یافتہ مقبول لوگوں میں سے ہیں اور اُوْلٰئِکَ کی خبر اِذَا تُتْلیٰ عَلَیْھم الخ سے سُجّد ساجد کی اور بُکِیًّا باکٍ کی جمع ہے (ان حضرات کی یہ کیفیت تھی کہ) جب ان کے سامنے (حضرت) رحمٰن کے آیتیں پڑھی جاتی تھی تو سجدہ کرتے ہوئے روتے ہوئے (زمین) پر گرجاتے تھے لہٰذا اے (اہل مکہ) تم بھی ان کے جیسے ہوجاؤ اور بُکِیٌّ کی اصل بُکْویٌ تھی واؤ ی سے اور ضمہ کسرہ سے بدل گیا پھر ان کے بعد کچھ ایسے ناخلف پیدا ہوئے کہ انہوں نے نماز کو ترک کر کے ضائع کردیا جیسا کہ یہود اور نصاریٰ اور معصیت میں خواہشات کی اتباع کی تو یہ لوگ عنقریب خرابی دیکھیں گے (غیًّا) جہنم میں ایک وادی ہے یعنی اس میں پڑیں گے۔ تحقیق، ترکیب وتفسیری فوائد قولہ واذکر فی الکتاب موسیٰ کا عطف فی الکتاب مریم پر عطف قصہ علی القصہ ہے، سورة مریم میں دس انبیاء (علیہم السلام) کے اسماء مذکور ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ہر ایک کے کچھ اوصاف ومنافقب بیان فرمائے ہیں اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) کی توقیر و تعظیم لازم ہے، اسماء مذکورہ یہ ہیں (1) زکریا (علیہ السلام) (2) یحییٰ (علیہ السلام) (3) ابراہیم (علیہ السلام) (4) عیسیٰ (علیہ السلام) (5) اسحٰق (علیہ السلام) (6) یعقوب (علیہ السلام) (7) اسماعیل (علیہ السلام) (8) موسیٰ (علیہ السلام) (9) ہارون (علیہ السلام) (10) ادریس علیہ السلام، مخلِصًا ای موَحِّدًا اَخْلَصَ عبادتہٗ عن الشرک (افعال) سے اسم فاعل یا اسم مفعول کا صیغہ ہے ای اَخْلَصَہٗ اللہ تعالیٰ واختارَہٗ وجعلہٗ مختارًا قولہ الدنس میل (ج) ادناس وکان رسولاً نبیًّا رسولاً کان کی خبر اول ہے اور نبیًّا خبر ثانی، رسول کے لغوی معنی مراد ہیں اور نبی کے اصطلاحی، رسولاً نبیًا میں مناسب یہ تھا کہ عام کو مقدم اور خاص کو مؤخر ذکر کرتے مگر فواصل کی رعایت کی وجہ سے عکس کردیا، جیسا کہ سورة طٔہ میں رب ہارون و موسیٰ ہیں، اور بعض حضرات نے رسول کے اصطلاحی معنی اور نبی کے لغوی معنی مراد لئے ہیں یعنی عالی مرتبہ رسول، اس وقت نبی نبوۃ سے مشتق ہوگا جس کے معنی رفعت اور بلندی کے ہیں قولہ الطور مدین اور مصر کے درمیان مشہور پہاڑ ہے جس کا نام جبل زبیر بھی ہے قولہ ایمن اگر یمین سے مشتق ہے تو اس کے معنی ہیں دایاں قولہ نجیًّا قرّبنا کے مفعول یا فاعل کی ضمیر سے حال ہے اور اَلاَیمن جانب کی صفت ہے اسی وجہ سے اعراب میں اس کے تابع ہے بعض حضرات نے کہا ہے کہ الایمن یُمنٌ سے مشتق ہے تو اس صورت میں طور کی صفت واقع ہوسکتا ہے یعنی مبارک پہاڑ کی جانب سے موسیٰ (علیہ السلام) کو ندا دی وَھَبْنَا (ف) عطا کیا، قولہ من رحمتنا من تعلیلیہ ہے ای من اجل رحمتنا اخاہ اس صورت میں وھبناہ کا مفعول بہ ہوگا، اور ہارون اخاہ سے یا بدل ہوگا یا عطف بیان یا اعنی محذوف ہونے کی وجہ سے منصوب ہوگا نبیًّا ہارون سے حال ہے جرہم یمن کا ایک قبیلہ تھا جو پانی کی سہولت دیکھ کر وادی مکہ میں حضرت ہاجرہ کے پاس مقیم ہوگیا تھا، اور حضرت اسماعیل (علیہ السلام) نے جوان ہو کر اسی قبیلہ میں شادی کرلی تھی، ادریس (علیہ السلام) کا نام اخنوخ ہے اور یہ نوح (علیہ السلام) کے جد امجد ہیں قولہ رَفَعْنا بعض مفسرین نے کہا ہے کہ رفع سے مراد شرف نبوت کی وجہ سے رفع مرتبہ ہے اور بعض حضرات نے کہا ہے کہ رفع آسمانی مراد ہے جیسا کہ مفسر علام کی یہی رائے ہے قولہ خلْف سکون لام کے ساتھ ناخلف (نالائق) کے لئے اور فتحہ لام کے ساتھ لائق اخلاف کے لئے استعمال ہوتا ہے قولہ یَلْقَوْن مضارع جمع مذکر غائب (س) پڑیں گے، ملاقات کریں گے قولہ غیًّا اسم فعل، گمراہی، عذاب۔ تفسیر وتشریح وَاذْکُرْ فِی الکِتابِ مُوْسٰی اس سورت میں مذکور قصوں میں سے یہ چوتھا قصہ ہے، اور ذکر کرنے سے مراد سنانا ہے، اس لئے کہ ذکر کرنے والے تو اللہ تعالیٰ ہیں مُخْلَصًا بفتح اللام وہ شخص جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے لئے خاص کرلیا ہو یعنی جس کو غیر اللہ کی طرف التفات نہ ہو یہ شان خصوصی طور پر انبیاء (علیہم السلام) کی ہوتی ہے جیسا کہ قرآن کریم میں دوسری جگہ ارشاد ہے اِنَّا اَخْلَصْنَاھُمْ بِخَالِصَۃٍ ذِکْرَی الدَّار یعنی ہم نے ان کو مخصوص کردیا ہے ایک خاص کام یعنی دار آخرت کی یاد کے لئے، امت میں جو حضرات کاملین انبیاء (علیہ السلام) کے نقش قدم پر ہوں ان کو بھی اس مقام کا ایک درجہ ملتا ہے اس کی علامت یہ ہوتی ہے کہ وہ قدرتی طور پر گناہوں سے بچا دئیے جاتے ہیں اللہ تعالیٰ کی حفاظت ان کے ساتھ ہوتی ہے۔ مِنْ جابِبِ الطُّورِ یہ مشہور پہاڑ ملک شام میں مصر اور مدین کے درمیان واقع ہے آج بھی اسی نام سے مشہور ہے۔ الاَیمن سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی دائیں جانب مراد ہے اس لئے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) مدین سے چل کر جب طور کے بالمقابل پہنچے تو طور ان کی دائیں جانب تھا نَجِیًّا سے سرگوشی مراد ہے موسیٰ (علیہ السلام) سے ہم کلامی کو راز اس لئے کہا گیا ہے کہ کلام کے وقت وہاں کوئی انسان موجود نہیں تھا گو بعد میں وہ گفتگو اور کلام سب کو معلوم ہوگیا وَوَھَبْنَالَہٗ مِنْ رَّحْمَتِنَا اَخَاہٗ ھارُوْنَ یہاں ہبہ سے مراد حضرت ہارون (علیہ السلام) کو نبوت عطا کر کے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا معاون و مددگار بنانا ہے اس لئے کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی تھی کہ میرے بھائی کو میرا معاون و مددگار بنا دیجئے چناچہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے دعا قبول فرمائی اور نبوت عطا کردی اسی کو ہبہ سے تعبیر کیا گیا ورنہ تو حضرت ہارون (علیہ السلام) موسیٰ (علیہ السلام) سے عمر میں بڑے ہیں بڑا چھوٹے کو ہدیہ نہیں کیا جاسکتا۔ واذْکُرْ فِی الکتابِ اِسماعِیْلَ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کا ذکر ان کے والد ابراہیم اور بھائی اسحٰق کے ساتھ نہیں کیا بلکہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا درمیان میں ذکر آنے کے بعد ان کا ذکر فرمایا شاید اس سے مقصود ان کے ذکر کا خاص اہتمام ہو کہ ضمناً ذکر کرنے کے بعد مستقلاً ذکر فرما دیا، یہاں جتنے انبیاء (علیہم السلام) کا ذکر کیا گیا ہے ان کے درمیان زمانہ بعثت کی ترتیب نہیں رکھی گئی کیونکہ ادریس (علیہ السلام) جن کا ذکر سب کے بعد آرہا ہے وہ زمانہ کے لحاظ سے سب سے مقدم ہیں۔ کَان صَادِقَ الوَعْدِ ایفاء وعدہ ایک ایسا خلق حسن ہے کہ ہر شریف انسان اس ضروری سمجھتا ہے اور اس کے خلاف کرنے کو ایک رذیل حرکت قرار دیتا ہے حدیث میں وعدہ خلافی کو نفاق کی علامت قرار دیا گیا ہے اس لئے ہر نبی صادق الوعد ہوتا ہے، مگر اس سلسلہ کلام میں خاص خاص انبیاء (علیہم السلام) کے ساتھ کوئی خاص وصف بھی ذکر کیا گیا ہے اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ یہ وصف دوسروں میں نہیں بلکہ اشارہ اس طرف ہے کہ ان میں یہ وصف خاص امتیازی شان رکھتا ہے جیسے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ مخلص ہونا ذکر فرمایا گیا حالانکہ یہ صفت بھی تمام انبیاء (علیہم السلام) میں عام ہے مگر چونکہ موسیٰ (علیہ السلام) کو اس میں ایک خاص امتیاز حاصل تھا اس لئے ان کے ذکر میں خصوصیت سے اس وصف کا ذکر کردیا گیا۔ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کا صادق الوعد امتیازی وصف اس وجہ سے ہے کہ انہوں نے جس چیز کا وعدہ اللہ سے یا کسی بندے سے کیا اس کو بڑی مضبوطی اور اہتمام سے پورا کیا انہوں نے اللہ سے وعدہ کیا تھا کہ میں خود کو ذبح ہونے کے لئے پیش کر دوں گا اور اس پر صبر کروں گا، اس وعدہ میں حضرت اسماعیل (علیہ السلام) پورے اترے، ایک مرتبہ ایک شخص سے ایک جگہ ملنے کا وعدہ کیا تھا وہ وقت پر نہ آیا تو اس کے انتظار میں تین دن اور بعض روایات میں ایک سال تک اس کا انتظار کرتے رہے۔ (مظہری) آنحضرت ﷺ سے بھی ترمذی میں بروایت عبداللہ ابن ابی الخمساء سے ایسا ہی واقعہ وعدہ کر کے تین دن تک اسی جگہ انتظار کرنے کا منقول ہے۔ (قرطبی) کَانَ یَاْمُرُ اَھْلَہٗ بِالصَّلوٰۃِ والزَّکٰوۃِ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے خصوصی اوصاف میں ایک وصف یہ بھی مذکور ہے کہ وہ اپنے اہل کو نماز و زکوٰۃ کا حکم دیتے تھے یہ وصف اگرچہ ہر نبی میں مشترک ہے مگر حضرت اسماعیل (علیہ السلام) اس کے اہتمام میں امتیازی کوشش کرتے تھے۔ وَاذْکُرْ فِی الکِتابِ ادریس حضرت ادریس (علیہ السلام) حضرت نوح (علیہ السلام) سے ایک ہزار سال قبل حضرت نوح (علیہ السلام) کے اجداد میں سے ہیں۔ (روح المعانی) اور حضرت ادریس (علیہ السلام) حضرت آدم (علیہ السلام) کے بعد پہلے نبی ہیں جن پر اللہ تعالیٰ نے تیس صحیفے نازل فرمائے، اور ادریس (علیہ السلام) سب سے پہلے انسان ہیں جن کو علم نجوم اور علم حساب بطور معجزہ دیا گیا تھا (بحر محیط) اور سب سے پہلے انسان ہیں کہ جنہوں نے قلم سے لکھنا اور کپڑا سینا ایجاد کیا، اور انہیں نے ناپ تول کے طریقہ بھی ایجاد کئے، اور آپ ہی نے اسلحہ ایجاد کر کے بنو قابیل سے جہاد کیا۔ (بحر محیط قرطبی، مظہری، روح) وَرَفَعْنَاہٗ مکاناً عَلِیًّا مکان رفیع سے مراد مرتبہ کی بلندی ہے یعنی نبوت و رسالت اور قرب خداوندی کا خاص مقام عطا فرمایا گیا، بعض روایات میں جو آسمانوں پر رفع جسمانی منقول ہے اس کے متعلق ابن کثیر (رح) نے لکھا ہے : ھٰذا مِنْ اَخْبَارِ کعْبِ الاَحْبَارِ من الاسرائیلیات وفی بَعْضِہٖ نکَارَۃ یہ کعب احبار کی اسرائیلی روایات میں سے ہے اور ان میں سے بعض میں نکارت ہے۔ اُوْلٰئِکَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللہُ عَلَیْھِمْ منَ النَّبِیِّیْنَ مِنْ ذُرِّیَّۃِ آدَم اس سے مراد صرف حضرت ادریس (علیہ السلام) ہیں اور ومِن ذریۃ مَنْ حَمَلْنَا مَعَ نوح اس سے مراد صرف ابراہیم (علیہ السلام) ہیں وَمِنْ ذُرِّیَّۃِ ابرَاھیمِ اس سے مراد اسماعیل واسحٰق و یعقوب (علیہم السلام) ہیں وَاسرائِیل اس سے مراد حضرت موسیٰ و ہارون اور حضرت زکریا ویحییٰ و عیسیٰ (علیہم السلام) ہیں۔ وَاِذَا تُتْلیٰ عَلَیْھِمْ آیٰتُ الرَّحمٰنِ خَرُّوْا سُجَّدًا وَّبُکِیًّا سابقہ آیات میں چند اکابر انبیاء (علیہم السلام) کا ذکر کیا گیا ہے جن میں ان کی عظمت شان کو بیان کیا گیا ہے چونکہ انبیاء (علیہم السلام) کی عظمت میں عوام سے غلو کرنے کا خطرہ تھا جیسے یہود نے حضرت عزیز (علیہ السلام) کو اور نصاریٰ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو خدا ہی بنادیا اس لئے اس مجموعہ کے بعد ان سب کا اللہ تعالیٰ کے سامنے سجدہ ریز ہونا اور خوف و خشیت سے بھر پور رہنا اس آیت میں ذکر فرمایا ہے تاکہ افراط وتفریط کے درمیان رہیں۔ (معارف القرآن)
Top