Tafseer-e-Jalalain - Maryam : 76
وَ یَزِیْدُ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اهْتَدَوْا هُدًى١ؕ وَ الْبٰقِیٰتُ الصّٰلِحٰتُ خَیْرٌ عِنْدَ رَبِّكَ ثَوَابًا وَّ خَیْرٌ مَّرَدًّا
وَيَزِيْدُ : اور زیادہ دیتا ہے اللّٰهُ : اللہ الَّذِيْنَ اهْتَدَوْا : جن لوگوں نے ہدایت حاصل کی هُدًى : ہدایت وَالْبٰقِيٰتُ : اور باقی رہنے والی الصّٰلِحٰتُ : نیکیاں خَيْرٌ : بہتر عِنْدَ رَبِّكَ : تمہارے رب کے نزدیک ثَوَابًا : باعتبار ثواب وَّخَيْرٌ : اور بہتر مَّرَدًّا : باعتبار انجام
اور جو لوگ ہدایت یاب ہیں خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے اور نیکیاں جو باقی رہنے والی ہیں وہ تمہارے پروردگار کے صلے کے لحاظ سے خوب اور انجام کے اعتبار سے بہتر ہیں
آیت نمبر 76 تا 82 ترجمہ : اور ہدایت یافتہ لوگوں کی ہدایت میں اللہ تعالیٰ اضافہ فرماتا ہے ان آیات کے ذریعہ جن کو ان پر نازل کرتا ہے اور باقی رہنے والی نیکیاں تو وہ وہ طاعات ہیں جو طاعت گزار کے لئے باقی رہتی ہیں تیرے رب کے نزدیک ثواب کے لحاظ سے اور انجام کے لحاظ سے بہت ہی بہتر ہیں یعنی وہ ثواب اور اجر جو اس کو حاصل ہوگا وہ بہتر ہوگا بخلاف اعمال کفار کے اور یہاں (اسم تفضیل) خیر کا استعمال ان کے قول اَیُّ الفریقین خیرٌ مقامًا کے مقابلہ میں ہوا ہے کیا آپ نے اس شخص کو بھی دیکھا ؟ جس نے ہماری آیتوں کے ساتھ کفر کیا اور وہ عاص ابن وائل ہے جس سے (حضرت) خباب ابن ارت نے کہا تھا کہ تو مرنے کے بعد (زندہ کرکے) اٹھایا جائے گا اور خباب ابن ارت کا عاص بن وائل کے ذمہ (کچھ) مالی مطالبہ تھا تو عاص ابن وائل نے (تقاضہ) کے جواب میں کہا کہ بعث بعد الموت کی صورت میں مجھے تو مال اور اولاد ضروردی جائے گی تو اس وقت میں تیرا مطالبہ ادا کر دوں گا، اللہ تعالیٰ نے (جواباً ) فرمایا کیا یہ (شخص) غیب پر مطلع ہوگیا ہے ؟ یا اس کو یہ بتادیا ہے کہ اس نے کہا ہے اس کو دیا جائے گا اور ہمزہ استفہام کی وجہ سے ہمزہ وصل کی ضرورت نہیں رہی لہٰذا حذف کردیا گیا، یا اس نے اللہ سے کوئی عہد لے لیا ہے یہ کہ جو اس نے کہا ہے اور اس کو دیا جائے گا ایسا ہرگز نہیں ہے یعنی یہ اس کو نہیں دیا جائے گا یہ جو بھی کہہ رہا ہے اس کو ضرور لکھ لیں گے یعنی (ملائکہ) کو اس کے لکھنے کا حکم کریں گے اور اس کے لئے عذاب بڑھائے چلے جائیں گے یعنی ہم اس کے کفر کے عذاب پر اس کی (ان) باتوں کے عذاب کا اضافہ کردیں گے اور قیامت کے دن ہمارے پاس تن تنہا آئے گا نہ اس کے پاس مال ہوگا اور نہ اولاد اور ان کفار مکہ نے اللہ کو چھوڑ کر بتوں کو معبود بنا لیا ہے جن کی یہ بندگی کرتے ہیں تاکہ وہ ان کے لئے باعث عزت ہوں یعنی وہ (بت) اللہ کے پاس سفارش کریں کہ ان کو عذاب نہ دیا جائے لیکن ہرگز ایس انہ ہوگا یعنی ان کو عذاب دینے سے کوئی چیز مانع نہیں ہوگی وہ معبود ان (باطلہ) تو ان کی پوجا کے بھی منکر ہوجائیں گے یعنی ان کی پوجا کردیں گے جیسا کہ ایک دوسری آیت میں فرمایا مَا کاَنُوْا اِیَّانَا یَعْبُدُوْنَ ” یہ لوگ ہماری پوجا کرتے ہی نہیں تھے “ اور (الٹے) ان کے مخالف اور دشمن ہوجائیں گے۔ تحقیق، ترکیب وتفسیری فوائد قولہ : وَیَزیدُکا عطف فَلْیَمْدُدْ پر ہے معنی کے اعتبار سے ای یَمُدُّ وَیَزِیْدُ اللہُ الَّذِیْنَ الخ جملہ مستانفہ بھی ہوسکتا ہے اَفَرَایْتَ میں استفہام تعجبی ہے قولہ : العاص بن وائل عاص ابن وائل فاتح مصر حضرت عمر کے والد ہیں اور عمر بن عبداللہ کے والد ہیں جہ کہ مشہور عبادلہ اربعہ میں سے ایک ہیں ترتیب اس طرح ہے، عبد اللہ بن عمر بن عاص بن وائل خباب بن ارت بدری ہیں اور فقراء صحابہ میں سے ہیں اُوْتِیَنَّ اِیتاءٌ سے مضارع واحد متکلم مجہول بانون تاکید ثقیلہ ہے، مجھے ضرور ملے گا لام قسمیہ ہے ای واللہ لاُوْتِیَنَّ اَطَّلَعَ الغَیْبَ اصل میں أاَطَّلَعَ تھا ان میں اول ہمزہ استفہام اور دوسرا ہمزہ وصل ہے ہمزہ وصل کو تخفیفاً حذف کردیا گیا۔ قولہ : کَلاَّ نحویین کے اس میں چھ اقوال ہیں مگر راجح تر یہ ہے کہ یہ صرف زجر و ردع ہے قرآن میں اس کلمہ کا استعمال تینتیس مقام پر ہوا ہے اور یہ سب کے سب نصف ثانی میں ہیں سَنَکْتُبُ میں سین تاکید کے لئے ہے۔ قولہ : وَنَرِثَہٗ ما یقول ای نَسْلُبُہٗ وناخذہٗ منہ یعنی جس مال و اولاد پر فخر کر رہا ہے اس کو ہم سلب کرلیں گے اور دنیا سے وہ خالی ہاتھ جائے گا وَاتَّخَذُوْا اَلاَوْثانَ اتخذوا کا مفعول اول ہے اور آلِھَۃً مفعول ثانی ہے ضِدَّا بمعنی اضداداً ہے یا مصدر بمعنی جمع ہے۔ تفسیر و تشریح ویزید الظالمین اس میں ایک دوسرے اصول کا ذکر ہے کہ جس طرح جن کے دلوں میں کفر و شرک اور ضلالت کا روگ ہے قرآن کے ذریعہ ان کی شقاوت اور ضلالت میں اور اضافہ ہوجاتا ہے اسی طرح اہل ایمان کے دل ایمان اور ہدایت میں اور پختہ ہوجاتے ہیں۔ والبٰقِیٰتُ الصّٰلِحٰتُ اس میں فقراء مسلمین کو تسلی ہے کہ کفار اور مشرکین جن مال و اسباب پر فخر کرتے ہیں وہ سب فنا کے گھاٹ اتر جائیں گے اور تم جو نیک اعمال کرتے ہو یہ ہمیشہ باقی رہنے والے ہیں جن کا اجر وثواب تمہیں اپنے رب کے یہاں ملے گا اور ان کا بہترین صلہ اور نفع تمہاری طرف لوٹے گا۔ والبٰقِیٰتُ الصّٰلِحٰتُ کی تفسیر میں مختلف اقوال ہیں جن کی تفصیل سورة کہف میں گزر چکی ہے مگر مختار مذہب یہی ہے کہ ان سے مراد تمام طاعات اور نیک کام ہیں۔ شان نزول : اَفَرَأیت الذی کفر بآیٰتِنَا ان آیات کے شان نزول میں بتایا گیا ہے کہ حضرت عمر ؓ بن عاص کا والد عاص بن وائل جو اسلام کے شدید دشمنوں میں سے تھا اس کے ذمہ حضرت خباب ابن الارت کا قرضہ تھا جو آہنگری کا کام کرتے تھے حضرت خباب ؓ نے ایک روز عاص ابن وائل سے اپنی رقم کا مطالبہ کیا تو اس نے کہا کہ جب تک تو محمد ﷺ کے ساتھ کفر نہ کرے گا میں تجھے تیری رقم نہیں دوں گا، حضرت خباب ابن الارت نے جواب دیا کہ یہ کام تو اگر تو مر کر دوبارہ زندہ بھی ہوجائے تب بھی نہ کروں گا، اس نے جواب دیا اچھا پھر ایسے ہی سہی، جب مجھے مرنے کے بعد دوبارہ اٹھایا جائے گا اور وہاں بھی مجھے مال اور اولاد سے نوازا جائے گا وہاں میں یہ رقم ادا کر دوں گا۔ (صحیح بخاری کتاب البیوع باب ذکر القبن والحداد) اَطَّلَعَ الغیبَ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ جو دعویٰ کر رہا ہے کیا اس کے پاس غیب کا علم ہے کہ وہاں بھی اس کے پاس مال اور اولاد ہوگی ؟ یا اللہ سے اس کا کوئی عہد ہے ؟ ایسا ہرگز نہیں ہے یہ صرف تَعَلِّی اور آیات الٰہی کا استہزاء اور تمسخر ہے یہ جس مال اور اولاد کی بات کر رہا ہے اس کے وارث تو ہم ہیں یعنی مرنے کے ساتھ ہی انسے اس کا تعلق ختم ہوجائے گا اور ہماری بارگاہ میں یہ اکیلا آئے گا نہ مال ساتھ ہوگا اور نہ اولاد نہ کوئی جتھہ، البتہ عذاب ہوگا جو اس کے لئے اور ان جیسوں کے لئے ہم بڑھاتے رہتے ہیں۔ عِزًّا کا مطلب یہ ہے کہ یہ معبود ان کے لئے عزت کا باعث اور مددگار ہوں گے اور ضِدًّا کے معنی ہیں دشمن، جھٹلانے والے اور ان کے خلاف دوسروں کی مدد کرنے والے، یعنی یہ معبود ان کے گمان کے برعکس ان کے حمایتی ہونے کی بجائے ان کے دشمن ان کو جھٹلانے والے اور ان کے خلاف دوسروں کے مددگار یعنی ان کے گمان کے برعکس ان کے مددگار ہونے کے بجائے الٹے ان کے دشمن اور ان کے مخالف ہوں گے۔
Top