Tafseer-e-Jalalain - Al-Baqara : 106
مَا نَنْسَخْ مِنْ اٰیَةٍ اَوْ نُنْسِهَا نَاْتِ بِخَیْرٍ مِّنْهَاۤ اَوْ مِثْلِهَا١ؕ اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ
مَا نَنْسَخْ : جو ہم منسوخ کرتے ہیں مِنْ آيَةٍ : کوئی آیت اَوْ نُنْسِهَا : یا اسے بھلا دیتے ہیں نَأْتِ : لے آتے ہیں بِخَيْرٍ : بہتر مِنْهَا : اس سے اَوْ مِثْلِهَا : یا اس جیسا اَلَمْ : کیا نہیں تَعْلَمْ : جانتے تم اَنَّ اللہ : کہ اللہ عَلٰى : پر كُلِّ شَیْءٍ : ہر شے قَدِیْرٌ : قادر
ہم جس آیت کو منسوخ کردیتے یا اسے فراموش کرا دیتے ہیں تو اس سے بہتر یا ویسی ہی اور آیت بھیج دیتے ہیں کیا تم نہیں جانتے کہ خدا ہر بات پر قادر ہے
مَا نَنْسَخْ مِنْ آیَۃٍ اَوْ نُنْسِھَا (الآیۃ) ما شرطیہ جازمہ ہے ” نسخ “ لغت میں زائل کرنے اور نقل کرنے کو کہتے ہیں، بولا جاتا ہے نَسَختِ الشمس الظلَّ سورج نے سایہ زائل کردیا، ونسختُ الکتابَ میں نے کتاب نقل کرلی، اور اصطلاح میں انتہاء حکم کو بیان کرنے کو کہتے ہیں، نسخ کی تین صورتیں ہیں : (1) تلاوت اور حکم دونوں منسوخ ہوں، مثلاً عَشَرَ رَضعات مَعْلَومَاتٍ یحرُمْنَ (2) تلاوت منسوخ، حکم باقی، مثلاً الشیخ والشیخۃُ اِذا زَنَیَا فارجموھما البتۃ (3) حکم منسوخ، تلاوت باقی، جیسا کہ کُتِبَ علیکم اِذَا حضَرَ اَحَدَکم الموتُ اِنْ تَرَکَ خیرَ الوَصیۃ لِلْوَ الِدَیْنِ یہ آیت، آیت مواریث (یوصیکم اللہ فی اولادکم، سورة نساء) اور آپ (علیہ السلام) کے قول لَا وصِیۃَ لِوَارثٍ سے منسوخ ہے۔ قولہ : نامُرُکَ او جبرئِیلَ دونوں میں تلازم ہے، جبرئیل کو نسخ حکم دینا آپ ﷺ کو حکم دینا ہے، اور آپ ﷺ کو حکم دیان جبرئیل کو حکم دینا ہے۔ (صاوی) شان نزول : یہودی تورات کو ناقابل تنسیخ سمجھتے تھے، اور قرآن پر بھی انھوں نے بعض احکام کے منسوخ ہونے پر اعتراض کیا، اللہ تعالیٰ نے ان کی تردید فرمائی، اور فرمایا : زمین و آسمان کی بادشاہی اسی کے ہاتھ میں ہے، وہ جو مناسب سمجھتا ہے کرتا ہے، جس وقت جو حکم اس کی مصلحت و حکمت کے مطابق ہوتا ہے اسے نافذ کرتا ہے، اور جسے چاہتا ہے منسوخ کرتا ہے، یہ اس کی قدرت ہی کا ایک مظاہرہ ہے، بعض قدیم گمراہیوں (مثلاً ابو مسلم اصفہانی معتزلی) اور آج کے بھی بعض متجد دین نے یہود کی طرف قرآن میں نسخ ماننے سے انکار کیا ہے، مذکورہ آیت میں اسی نظریہ کی تردید کی گئی ہے۔ احکام الہٰیہ کے نسخ کی حقیقت : دنیا کی حکومتوں میں کسی حکم کو منسوخ کرکے دوسرا حکم جاری کردینا مشہور و معروف ہے، لیکن انسانوں کے احکام میں کبھی نسخ اس لئے ہوتا ہے کہ مثلاً پہلے کسی غلط فہمی کی وجہ سے ایک حکم جاری کردیا گیا بعد میں حقیقت معلوم ہوئی اور وہ حکم مناسب حال نہ رہا تو اس حکم کو بدل دیا، اور کبھی اس وجہ سے ہوتا ہے کہ جس وقت یہ حکم جاری کیا گیا تھا اس وقت کے حالات کے مناسب تھا اور آئندہ آنے والے حالات کا اندازہ نہیں تھا، جب حالات بدلے تو حکم بھی بدلنا پڑا، یہ دونوں صورتیں احکام خداوندی میں نہیں ہوسکتیں۔ اور تیسری صورت یہ بھی ہوتی ہے کہ حکم دینے والے کو اول ہی سے یہ معلوم تھا کہ حالات بدلیں گے، اور اس وقت یہ حکم مناسب نہ ہوگا دوسرا حکم دینا ہوگا، یہ جانتے ہوئے بھی آج ایک حکم دیدیا اور جب اپنے علم کے مطابق حالات بدلے تو اپنی قراردادِ سابق کے مطابق حکم بھی بدل دیا اس کی مثال ایسی ہے کہ مریض کے موجودہ حالات کو دیکھ کر طبیب دوا تجویز کرتا ہے اور جانتا ہے کہ دو روز اس دوا کے استعمال کرنے کے بعد مریض کا حال بدلے گا، اس وقت مجھے دوسری دوا تجویز کرنی ہوگی۔ ماہر طبیب یہ بھی کرسکتا ہے کہ پہلے ہی دن پورے علاج کا نظام لکھ کر دیدے اور ہدایت کر دے کہ دو روز تک یہ دوا استعمل کرنا اور پھر تین روز تک فلاں دوا استعمل کرنا اور پھر ایک ہفتہ بعد فلاں دوا، لیکن یہ مریض کی طبیعت پر بلاوجہ ایک بار ڈالنا ہے، اس میں غلط فہمی کی وجہ سے خلل کا بھی اندیشہ ہے اس لئے طبیب پہلے ہی سے پوری تفصیل نہیں بتاتا۔ اللہ تعالیٰ شانہ کے احکام میں اور اس کی نازل کی ہوئی کتابوں میں صرف یہی آخری صورت نسخ کی ہوسکتی ہے اور ہوتی رہی ہے، بعد میں نازل ہونے والی ہر کتاب نے سابقہ نبوت و شریعت کے بہت سے احکام کو منسوخ کرکے نئے احکام جاری کئے اور اسی طرح ایک ہی نبوت اور شریعت میں بھی ایسا ہوتا رہا ہے، کہ کچھ عرصہ تک ایک حکم جاری رہا پھر بتقاضائے حکمت خداوندی اس کو بدل کر دوسرا حکم نافذ کردیا گیا، صحیح مسلم کی حدیث میں ہے : لَمْ تکن نبوۃ قط الاتناسخت (مسلم) یعنی کوئی نبوت نہیں آئی جس نے احکام میں نسخ اور ردوبدل نہ کیا ہو۔ (قرطبی، معارف) نسخ کی تعریف میں متقدمین اور متاخرین کے درمیان فرق : چونکہ نسخ کے اصطلاحی معنی تبدیلی حکم کے ہیں اور یہ تبدیلی جس طرح ایک حکم کو بالکلیہ منسوخ کرکے اس کی جگہ دوسرا حکم لانے میں ہے جیسے بیت المقدس کے بجائے بیت اللہ کو قبلہ بنادینا، اسی طرح کسی مطلق یا عام حکم میں کسی قید و شرط کو بڑھا دینا بھی ایک قسم کی تبدیلی ہے، متقدمین نے نسخ کو اسی معنی میں استعمال کیا ہے، جس میں کسی حکم کی پوری تبدیلی بھی داخل ہے اور جزوی تبدیلی بھی مثلاً قیدو شرط یا استثناء وغیرہ اس میں شامل ہے، اسی لئے متقدمین کے نزدیک قرآن میں آیات منسوخہ کی تعداد پانچ سو تک پہنچ گئی۔ حضرات متاخرین نے صرف اس تبدیلی کو نسخ کہا جس کی پہلے حکم کے ساتھ کسی طرح تطبیق نہ ہوسکے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ علامہ سیوطی نے صرف بیس آیتوں کو منسوخ قرار دیا اور ان کے بعد حضرت شاہ ولی اللہ (رح) تعالیٰ نے ان میں بھی تطبیق کی صورت پیدا کرکے صرف پانچ آیتوں کو منسوخ قرار دیا، جن میں کوئی تطبیق تاویل بعید نہیں ہوسکتی تھی۔ نسخ کے بارے میں جمہور کا مسلک : جمہور کا مذہب وقوع نسخ کا ہے، گو ایک طبقہ عدم نسخ کا بھی قائل رہا ہے (ویروٰی عن بعض المسلمین انکار النسخ واحتج الجمھور من المسلمین علی جواز النسخ ووقوعہٖ (کبیر) والمسلمون کلھم متفقون علی جواز النسخ فی احکام اللہ تعالیٰ لما لہ فی ذلک من الحکمۃِ البالغۃِ وکلھم قالوا بوقوعہ۔ (ابن کثیر)
Top