Tafseer-e-Jalalain - Al-Baqara : 137
فَاِنْ اٰمَنُوْا بِمِثْلِ مَاۤ اٰمَنْتُمْ بِهٖ فَقَدِ اهْتَدَوْا١ۚ وَ اِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا هُمْ فِیْ شِقَاقٍ١ۚ فَسَیَكْفِیْكَهُمُ اللّٰهُ١ۚ وَ هُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُؕ
فَاِنْ : پس اگر اٰمَنُوْا : وہ ایمان لائیں بِمِثْلِ : جیسے مَا آمَنْتُمْ : تم ایمان لائے بِهٖ : اس پر فَقَدِ اهْتَدَوْا : تو وہ ہدایت پاگئے وَاِنْ : اور اگر تَوَلَّوْا : انہوں نے منہ پھیرا فَاِنَّمَا هُمْ : تو بیشک وہی فِي شِقَاقٍ : ضد میں فَسَيَكْفِيکَهُمُ : پس عنقریب آپ کیلئے ان کے مقابلے میں کافی ہوگا اللّٰہُ : اللہ وَ : اور هُوْ : وہ السَّمِيعُ : سننے والا الْعَلِيمُ : جاننے والا
تو اگر یہ لوگ بھی اسی طرح ایمان لے آئیں جس طرح تم ایمان لے آئے ہو تو ہدایت یاب ہوجائیں اور اگر منہ پھیر لیں (اور نہ مانیں) تو وہ (تمہارے) مخالف ہیں اور ان کے مقابلے میں تمہیں خدا کافی ہے اور وہ سننے والا (اور) جاننے والا ہے
آیت نمبر 137 تا 141 ترجمہ : سو اگر وہ یعنی یہود و نصاریٰ اسی طرح ایمان لے آئیں جس طرح تم ایمان لائے ہو تو ہدایت یافتہ ہوں گے (لفظ) مثل زائدہ ہے اور اگر وہ اس پر ایمان لانے سے روگردانی کریں تو وہ صریح اختلاف میں ہیں یعنی تمہاری مخالفت میں، لہٰذا اطمینان رکھو، اے محمد ﷺ ان کی دشمنی میں اللہ عنقریب آپ کی کفایت کرے گا، وہ ان کی باتوں کو خوب سننے والا اور ان کے حالات کو جاننے والا ہے، اور اللہ ان کے لئے کافی ہوگیا، بنی قریظہ کو قتل کرکے اور بنی نضیر کو جلاوطن کرکے اور ان پر جزیہ عائد کرکے اللہ کا رنگ اختیار کرو (صِبْغَۃَ اللہِ ) مصدر ہے آمَنَّا کی تاکید کے لئے اور اس کا نصب فعل مقدر کی وجہ سے ہے، ای صَبغَنَا اللہُ صبغۃً اور مراد اس سے اللہ کا وہ دین ہے جس پر اس نے انسانوں کو پیدا فرمایا، دین کے اثر کے دیندار پر ظاہر ہونے کی وجہ سے جیسا کہ رنگ (کا اثر) کپڑے پر ظاہر ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے رنگ سے کس کا رنگ زیادہ اچھا ہوگا ؟ صیغہ تمیز ہے، تم تو اس کی بندگی کرنے والے ہیں (جب) یہود نے مسلمانوں سے کہا کہ ہم اول اہل کتاب ہیں اور ہمارا قبلہ سب سے اول قبلہ ہے اور عرب میں انبیاء نہیں ہوئے، اگر محمد ﷺ نبی ہوتے تو ہم میں سے ہوتے، تو آئندہ آیت نازل ہوئی، آپ ان سے کہئے کیا تم ہم سے اللہ کے بارے میں جھگڑتے ہو، اس وجہ سے کہ اس نے عرب میں سے نبی منتخب کرلیا، حالانکہ وہ ہمارا بھی رب ہے اور تمہارا بھی، لہٰذا اس کو اختیار ہے کہ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہے منتخب کرے ہمارے لئے ہمارے اعمال ہیں جن کی ہمیں جزا دیجائے گی اور تمہارے لئے تمہارے اعمال ہیں جن کی جزا تم کو دی جائے گی، لہٰذا یہ بعید نہیں کہ ہمارے اعمال میں ایسی چیز ہو جس کی وجہ سے ہم اکرام کے مستحق ہوں، ہم تو اسی کے لئے دین و عمل کو خالص کرچکے ہیں، نہ کہ تم، لہٰذا انتخاب کے لئے ہم زیادہ اولیٰ ہیں، اور (اَتُحَاجّوننا) میں ہمزہ استفہام انکاری ہے، اور تینوں جملے حال ہیں کیا تم کہتے ہو (یقولون) یاء اور تاء کے ساتھ ہے ابراہیم اور اسماعیل اور اسحٰق اور یعقوب (علیہم السلام) اور ان کی اولاد یہود و نصاریٰ تھے، ان سے کہو تم زیادہ جانتے ہو یا اللہ ؟ یعنی اللہ زیادہ جاننے والا ہے، اور اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کی یہودیت اور نصرانیت دونوں سے براءت ظاہر فرما دی، اپنے قول مَا کَانَ ابراھِیمُ یھودیًّا وَلَانصرَانِیًّا سے اور ان کے ساتھ جو حضرات مذکور ہیں وہ تو (ابراہیم) کے تابع ہیں، اور اس سے بڑا ظالم کون ہوگا ؟ جس نے اللہ کے نزدیک ثابت شدہ شہادت کو لوگوں سے چھپایا، اور اللہ تعالیٰ تمہارے کاموں سے غافل نہیں ہے، یہ ایک جماعت تھی جو گزر گئی، جو انہوں نے کیا ان کے لئے ہے اور جو تم نے کیا تمہارے لئے ہے، تم سے ان کے اعمال کے متعلق سوال نہ ہوگا، ایسی ہی آیت اوپر گزر چکی ہے۔ تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد قولہ : مِثل زائدہ اس اضافہ کا مقصد ایک اعتراض کا جواب ہے، اعتراض یہ ہے کہ مسلمان اللہ پر ایمان لائے، اب یہود و نصاریٰ سے کہا جا رہا ہے ” اگر وہ اس کے مثل پر ایمان لائیں جس پر مسلمان ایمان لائے ہیں “ تو اس سے تو اللہ کا مثل ہونا لازم آتا ہے، حالانکہ اللہ کا کوئی مثل نہیں ہے۔ جواب : لفظ مثل زائد ہے، اس جواب کی شہادت وہ قراءت بھی دے رہی ہے جس میں بمثل مَا آمَنْتُمْ کے بجائے بِمَا آمَنْتُمْ بہٖ ہے۔ (رویح) قولہ : مؤکِّدٌ لِاٰمَنَّا، صِبغۃً فعل مقدر کا مصدر ہے اور آمَنَّا باللہِ ومَا اُنزِلَ الخ کے مضمون کی تاکید کے لئے ہے، اس لئے کہ مذکورہ جملہ میں دوسرے مضمون کا احتمال ہی نہیں ہے اسی وجہ سے اس کے عامل کو حذف کردیا گیا، صبغۃ اللہ اصل میں صَبَغَنَا اللہ صِبْغَۃً ، تھا صِبْغۃَ اللہِ میں حرف عطف کو ترک کرکے اشارہ کردیا کہ صَبَغَنَا اللہ اور اٰمَنَّا کا مدلول ایک ہی ہے جس سے تاکید کا مفہوم ظاہر ہے۔ قولہ : دونکم میں اشارہ ہے کہ نحن لہٗ مخْلِصُونَ میں مسند الیہ کی تقدیم حصر کے لئے ہے۔ قولہ : والھمزۃ للانکار، یعنی اَتُحَاجُّوْنَ ، میں ہمزہ انکار کے لئے ہے، اس سے اس کا جواب ہوگیا کہ استفہام اللہ کی شان کے مناسب نہیں ہے۔ قولہ : والجُمَلُ الثَّلٰثُ احوال اس عبارت کے اضافہ کا مقصد ایک اعتراض کا جواب ہے۔ اعتراض : واؤ میں اصل عطف ہے لہٰذا مذکورہ تینوں جملوں میں واؤ عاطفہ ہوگا، اور معطوف علیہ اَتُحاجُّونَ ہے جو کہ جملہ انشائیہ ہے اور یہ تینوں جملے خبر یہ ہیں، لہٰذا جملہ خبریہ کا عطف انشائیہ پر لازم آتا ہے جو درست نہیں ہے۔ جواب : واؤ عطف کے لئے وہاں اصل ہوتا ہے جہاں عطف سے کوئی مانع نہ ہو اور یہاں مانع موجود ہے اور وہ جملہ خبریہ کا جملہ انشائیہ پر عطف کا لازم آنا ہے، لہٰذا یہاں واؤ عاطفہ نہیں بلکہ حالیہ ہے۔ تفسیر و تشریح فَاِنْ آمَنُوْا بِمِثْلِ مَآ اٰمَنْتُمْ آپ ﷺ کو اور صحابہ کرام ؓ کو مخاطب کرکے کہا جا رہا ہے کہ اگر یہ یہود و نصاریٰ تمہاری طرح ایمان لے آئیں تو یقیناً وہ بھی ہدایت یافتہ ہوجائیں گے، اور اگر وہ ضد اور عناد میں منہ موڑ لیں گے تو گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے، ان کی سازشیں آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گی، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ آپ ﷺ کی کفایت و حمایت کرنے والا ہے، چناچہ چند ہی سالوں میں یہ وعدہ پورا ہوا اور بنو قینقاع اور بنو نضیر کو جلا وطن کردیا گیا اور بنو قریظہ قتل کر دئیے گئے۔ واقعہ : تاریخی روایات میں ہے کہ حضرت عثمان رضی الہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کے وقت جو مصحف ان کی گود میں تھا جس کی وہ تلاوت فرما رہے تھے آپ کے خون ناحق کے دھبے جس آیت پر گرے وہ فَسَیَکْفِیْکَھُمُ اللہُ ہے، کہا جاتا ہے کہ وہ مصحف آج تک ترکی میں محفوظ ہے۔ فَسَیَکْفِیْکَھُمُ اللہُ میں آپ ﷺ کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ آپ اپنے مخالفوں کی زیادہ فکر نہ کریں، ہم خود ان سے نمٹ لیں گے اور یہ ایسا ہی ہے جیسا کہ دوسری آیت وَاللہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ میں اس سے زیادہ وضاحت کے ساتھ فرما دیا، کہ آپ مخالفین کی پرواہ نہ کریں اللہ تعالیٰ آپ ﷺ کی حفاظت کرے گا۔
Top