Tafseer-e-Jalalain - Al-Baqara : 195
وَ اَنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ لَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْكُمْ اِلَى التَّهْلُكَةِ١ۛۖۚ وَ اَحْسِنُوْا١ۛۚ اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ
وَاَنْفِقُوْا : اور تم خرچ کرو فِيْ : میں سَبِيْلِ : راستہ اللّٰهِ : اللہ وَلَا : اور نہ تُلْقُوْا : ڈالو بِاَيْدِيْكُمْ : اپنے ہاتھ اِلَى : طرف (میں) التَّهْلُكَةِ : ہلاکت وَاَحْسِنُوْا : اور نیکی کرو اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ يُحِبُّ : دوست رکھتا ہے الْمُحْسِنِيْنَ : نیکی کرنے والوں کو
اور خدا کی راہ میں (مال) خرچ کرو اور اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو اور نیکی کرو بیشک خدا نیکی کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے
آیت نمبر 195 تا 196 ترجمہ : اور اللہ کی راہ میں خرچ کرو (یعنی) اس کی طاعت میں کہ وہ جہاد وغیرہ ہے اور تم جہاد میں خرچ کرنے سے بخل کرکے اور جہاد ترک کرکے خود کو ہلاکت میں نہ ڈالو، اس لئے کہ یہ (بخل و ترک) دشمن کو تم پر جری کر دے گا (باَیدی) میں باء زائدہ ہے (راہ خدا میں) خرچ وغیرہ کے ذریعہ نیکیاں کرو، اللہ تعالیٰ نیکیاں کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے یعنی ان کو اجر عطا کرتا ہے اور حج وعمرہ اللہ کے لئے پورے کرو، یعنی دونوں کو ان کے حقوق کی رعایت کے ساتھ ادا کرو، پس اگر حج اور عمرہ سے (یعنی) ان کے پورا کرنے سے دشمن یا اسی جیسی کسی اور چیز کے ذریعہ تم کو روک دیا جائے تو جد ہدی (قربانی کا جانور) تم کو میسر ہو اور وہ بکری ہے اور اپنے سروں کا حلق نہ کراؤ یعنی حلال نہ ہوتاوقتی کہ ہدی مذکور اپنی جگہ نہ پہنچ جائے جہاں اس کا ذبح کرنا جائز ہے اور وہ امام شافعی (رح) تعالیٰ کے نزدیک احصار کی جگہ ہے لہٰذا حلال ہونے کی نیت سے اسی جگہ (ہدی) ذبح کردی جائے اور اس مقام کے مساکین پر (گوشت) تقسیم کردیا جائے، اور حلق کرالیا جائے، اس سے حلت حاصل ہوجائے گی، مگر جو شخص تم میں مریض ہو یا اس کے سر میں کوئی تکلیف ہو مثلاً جوں یا سر کا درد تو وہ حالت احرام میں حلق کرا سکتا ہے، تو اس پر فدیہ واجب ہے اور وہ تین دن کے روزے ہیں یا تین صاع کو مقامی عمومی خوراک سے چھ مسکینوں پر صدقہ کرنا ہے یا قربانی کرنا ہے یعنی بکری ذبح کرنا، اور اوتخییر کے لئے ہے اور اسی حکم میں وہ شخص بھی شامل ہوگا جس نے بغیر کسی عذر کے حلق کر الیا ہو اس لئے کہ کفارہ کے وجوب کے لئے یہ زیادہ لائق ہے یہی حکم اس شخص کا بھی ہے جس نے حلق کے علاوہ کچھ اور استفادہ کیا مثلاً خوشبو لگائی یا تیل لگایا عذر کی وجہ سے ہو یا بغیر عذر کے، پھر جب تم دشمن سے مامون ہوجاؤ بایں طور کہ دشمن چلا گیا یا تھا ہی نہیں، تو جس شخص نے تم میں سے عمرہ کو حج کے ساتھ ملا کر احرام کی ممنوعات سے حج کے مہینوں میں عمرہ کا احرام باندھ کر فائدہ اٹھایا اس کے عمرہ سے فارغ ہونے اور اس سے حلال ہونے کی وجہ سے تو اس پر جو میسر آئے قربانی واجب ہے اور وہ ایک بکری ہے کہ حج کا احرام باندھنے کے بعد ذبح کرے، اور افضل یوم نحر ہے تو جس کو ہدی میسر نہ ہو، ہدی کے دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے یا اس کی قیمت نہ ہونے کی وجہ سے تو اس پر تین روزے ہیں ایام حج میں یعنی حج کے احرام کی حالت میں، تو ضروری ہے کہ ساتویں ذی الحجہ سے پہلے (حج) کا احرام باندھے اور افضل چھٹی ذی الحجہ سے پہلے ہے یوم نحر میں حاجی کے لئے روزہ مکروہ ہے اور ایام تشریق میں امام شافعی (رح) تعالیی کے صحیح ترین قول کے مطابق روزہ جائز نہیں ہے اور سات روزے اس وقت جب کہ اپنے وطن واپس ہو وطن مکہ ہو یا غیر مکہ، اور کہا گیا ہے کہ جب تم ارکان حج سے فارغ ہوجاؤ اس میں غائب سے حاضر کی طرف التفات ہے یہ دس روزے پورے ہیں یہ جملہ اپنے ماقبل کی تاکید ہے قربانی یا روزوں کے وجوب کا مذکورہ حکم اس شخص کے لئے ہے جو حج تمتع کرے یا یہ رعایت ان لوگوں کے لئے ہے جن کے گھر بار مسجد کے قریب نہ ہوں اس طرح کہ حرم سے دو مرحلوں سے کم نہ ہو، یہ امام شافعی (رح) تعالیٰ کے نزدیک ہے اور اگر دو مرحلوں سے کم ہے تو اس پر نہ دم ہے نہ روزہ اگرچہ تمتع کرے اور اھل کے ذکر کرنے میں وطن بنانے کی شرط کی طرف اشارہ ہے اور تمتع کی نیت کی، تو اس پر مذکورہ چیز (یعنی قربانی) واجب ہے اور یہ ہمارے (یعنی شوافع) کے نزدیک ہے اور تمتع کے ساتھ مذکورہ احکام میں حدیث کی وجہ سے قارن کو بھی ملا لیا گیا ہے اور قارن وہ ہے جو حج وعمرہ کا احرام ایک ساتھ باندھے، یا حج کو عمرہ پر داخل کر دے طواف عمرہ کرنے سے پہلے (یعنی عمرہ کا طواف شروع کرنے سے پہلے حج کا احرام باندھ لے) اور ان چیزوں میں اللہ سے ڈرتے رہو جن کا تم کو حکم دیتے ہیں اور جن سے منع کرتے ہیں اور خوب سمجھ لو کہ اللہ تعالیٰ اس کا خلاف کرنے والے کو سخت سزا دینے والا ہے۔ تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد قولہ : وَلَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْکُمْ اِلَی التَّھْلُکَۃِ ، لا تُلْقُوْا، اِلْقَاءٌ (افعال) سے صیغہ نہی جمع مذکر حاضر، تم نہ ڈالو۔ سوال : اِلقَاءٌ متعدی بنفسہ ہے حالانکہ یہاں اِلیٰ کے ساتھ تعدیہ کیا گیا ہے۔ جواب : اِلْقَاء انتہاء کے معنی کو متضمن ہے لہٰذا تعدیہ بالیٰ جائز ہے۔ قولہ : تَھْلُکَۃ، (ض) یہ خلاف قیاس نادر مصادر میں سے ہے، ہلاکت میں ڈالنا، قاموس میں لام مثلث کے ساتھ لکھا ہے اَلتَّھْلُکَۃُ چونکہ مصادر نادرہ میں سے ہے، اس لئے اَلْھَلَاک، مصدر مشہور ہے اس کی وضاحت کردی۔ قولہ : بِالطَّفْقَۃِ ، یہ ایک سوال مقدر کا جواب ہے، سوال یہ ہے، اَحْسِنُوْا، تفضلُوا کے معنی میں ہے جو کہ متعدی بالباء ہوتا ہے۔ قولہ : بالنفقۃ، کو ماسبق سے مربوط کرنے کے لئے لایا گیا ہے اس لئے تَھْلُکَۃ، کی تفسیر اِمْسَاک عن النفقۃ سے کی ہے تو یہاں احسان کی تفسیر انفاق فی سبیل اللہ سے کرنا ہی مناسب ہے تاکہ دونوں میں ربط پیدا ہوجائے۔ قولہ : ای یُثِیْبُھُمْ ، یُحِبّ کی تفسیر یثیب سے تفسیر باللاّزم ہے اس لئے کہ حبٌ کے معنی میلان القلب کے ہیں جو کہ اللہ تعالیٰ کے حق میں متصور نہیں ہے یہ ایسا ہی ہے جیسا کہ رحمت کی تفسیر احسان سے کرتے ہیں ورنہ تو رحمت کے معنی رقۃ القلب کے ہیں جو ذات باری میں متصور نہیں ہے۔ قولہ : اَدَّوْھُمَا، اس سے حج وعمرہ دونوں کے وجوب کی طرف اشارہ ہے اس لئے کہ امام شافعی (رح) تعالیٰ کے نزدیک دونوں واجب ہیں اور اگر لفظ اتمُّوْا، کا ظاہری معنی پر ہی رکھا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ شروع کرنے کے بعد ان کو پورا کرنا واجب ہے اس لئے کہ احناف کے نزدیک نفلی عبادت شروع کرنے سے واجب ہوجاتی ہے۔ قولہ : بِعَدُوِّ یہ امام شافعی (رح) تعالیٰ اور امام مالک (رح) تعالیٰ کے قول کے مطابق ہے اس لئے کہ ان حضرات کے یہاں احصار دشمن ہی کے ذریعہ صحیح ہے بخلاف احناف کے کہ دشمن کے علاوہ مرض وغیرہ سے بھی احصار درست ہے۔ قولہ : عَلَیْکم اس اضافہ کا مقصد ایک سوال مقدر کا جواب ہے۔ سوال : یہ ہے کہ فَمَا استَیْسَرَ مِنَ الْھَدْیِ ، جواب شرط ہے حالانکہ یہ جملہ تامہ نہیں ہے اور جواب شرط کے لئے جملہ ہونا شرط ہے۔ جواب : عَلَیْکم، محذوف مان کر اشارہ کردیا کہ مَا مبتداء کی خبر محذوف ہے تاکہ مبتداء اپنی خبر سے مل کر جملہ ہو کر شرط کی جزاء واقع ہو سکے تقدیر عبارت یہ ہے فَعَلَیْکُمْ مَا اسْتَیْسَرْتُمْ ۔ قولہ : فَفِدْیَۃٌ، فِدْیَۃ، مبتداء ہے اور عَلَیْہِ اس کی خبر محذوف ہے۔ قولہ : مِنْ صِیَام یہ محذوف سے متعلق ہو کر فدیۃٌ کی صفت ہے ای فِدْیَۃٌ من صیام۔ قولہ : باَنْ ذَھَبَ اَوْلَمْ یکن اس عبارت کے اضافہ کا مقصد، اَمِنْتُمْ کے دونوں معنی کی طرف اشارہ کرنا ہے أمِنْتُمْ ، یا تو اَمَنَۃٌ سے مشتق ہے اس کے معنی زوال خوف کے ہیں یا امَنٌ سے مشتق ہے اس کے معنی اَمَن یعنی ضد الخوف کے ہیں اگر اَمِنْتُمْ کو الْاَمَنَۃ، سے مشتق مانا جائے تو معنی ہوں گے فَاِذَا زَالَ عَنْکم خوف العدوّ ، تو اس صورت میں اس شخص کا حکم کہ جس کا احصار زائل ہوگیا ہو عبارۃ النص کے طور پر ثابت ہوگا اور اسی سے اس شخص کا حکم جو پہلے ہی سے مامون ہو دلالت النص کے طور سے مفہوم ہوگا، اور اگر أمِنْتُمْ ، اَلْاَمَن سے مشتق ہو تو اس کے معنی ہوں گے کہ جب تم امن و اطمینان میں ہو۔ (ترویح الارواح) قولہ ؛ نُسُکٍ یہ نَسِیْک کی جمع ہے بمعنی قربانی، اور نُسُکٍ ، مصدر بھی ہے قربانی کرنا۔ قولہ : فَمَا اسْتَیْسَرَ مِنَ الھَدْیِ ، فاء رابطہ ہے جواب شرط کے لئے مَا، اسم موصولہ مبتداء اس کی خبر محذوف، ای فعلَیْہ مَا اسْتَیْسَرَ ، اِسْتَیْسَرَ صلہ، جملہ ہو کر جواب شرط۔ قولہ : بان لَمْ یکونوا علی مرحَلَتَیْنِ مِنَ الحرم عند الشافعی ( (رح) تعالیٰ ) اس عبارت کا مقصد متمتع پر وجوب قربانی اور عدم وجوب قربانی کی دونوں صورتوں کو بیان کرنا ہے، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ متمتع اگر آفاقی ہو تو اس پر دم تمتع واجب ہے اور امام شافعی (رح) تعالیٰ کے نزدیک آفاقی وہ ہے جو حرم سے کم از کم دو مرحلوں کی مسافت کا باشندہ ہو اور جو اس سے کم مسافت کا باشندہ ہو وہ ان کے نزدیک حضری ہے تو اس پر دم تمتع واجب نہیں ہے اور جب دم واجب نہیں تو اس کا نائب یعنی روزہ بھی واجب نہیں۔ قولہ : فی ذکر الأھل الخ اس عبات کا مقصد لِمَنْ لَّمْ یَکُنْ اَھْلُہٗ حَاضِرِی الْمَسْجِدِ الْحَرَمِ کی تشریح ہے مطلب یہ ہے کہ دم تمتع ساقط ہونے کیلئے مقیم شرعی ہونا ضروری ہے اگر کسی شخص نے قبل اشھر الحرم مکہ میں قیام تو کیا ہے مگر وطن نہیں بنایا یعنی پندرہ دن قیام کا ارادہ نہیں کیا تو اس شخص سے دم تمتع ساقط نہیں ہوگا، اس لئے کہ اقامت شرعی کی نیت کے بغیر وہ آفاقی ہی شمار ہوگا اور آفاقی پر دم تمتع واجب ہوتا ہے۔ تفسیر و تشریح مالی ہنگامی ضرورت : وَاَنْفِقُوْا فِیْ سَبیْلِ اللہِ ، اس آیت سے فقہاء نے یہ حکم اخذ کیا ہے کہ مسلمانوں پر زکوٰۃ کے علاوہ بھی بعض حقوق مالیہ فرص ہیں مگر وہ ہنگامی (ایمرجنسی) اور قتی ضرورت کے لئے ہیں دائمی نہیں نہ ان کے لئے کوئی مقدار متعقین ہے بلکہ جتنی ضرورت ہو اس کا انتظام کرنا سب مسلمانوں پر فرض ہے اور جب ضرورت نہ ہو تو کچھ فرض نہیں، جہاد کا خرچ اسی ہنگامی ضرورت میں شامل ہے۔ ترک جہاد قومی ہلاکت ہے وَلَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْکُمْ اِلَی التَّھْلُکَۃِ ، لفظی معنی تو ظاہر ہیں، کہ اپنے اختیار سے اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو، اب رہی یہ بات کہ ہلاکت میں نہ ڈالنے سے یہاں کیا مراد ہے اس میں حضرات مفسرین کے اقوال مختلف ہیں امام جصاص رازی (رح) تعالیٰ نے فرمایا ان میں کوئی تضاد نہیں سب ہی مراد ہوسکتے ہیں۔ حضرت ابو ایوب انصاری ؓ نے فرمایا : کہ یہ آیت ہمارے ہی بارے میں نازل ہوئی ہے ہم اس کی تفسیر بخوبی جانتے ہیں، بات یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے اسلام کو غلبہ اور قوت عطا فرما دی تو ہم میں یہ گفتگو ہوئی کہ اب جہاد کی کیا ضرورت ہے ؟ ہم اپنے وطن میں ٹھہر کر اپنے مال اور جائیداد کی خبر گیری کریں، اس پر یہ آیت نازل ہوئی ؟ جس نے یہ بتلا دیا کہ ہلاکت سے مراد اس جگہ ترک جہاد ہے اور اس سے ثابت ہوا کہ ترک جہاد مسلمانوں کی قومی ہلاکت و بربادی کا سبب ہے اس لئے حضرت ابو ایوب ؓ انصاری نے اپنی پوری عمر جہاد میں صرف کردی، یہاں تک کہ یزید بن معاویہ کے زمانہ میں جہاد کرتے ہوئے 52 ھ میں شہادت حاصل کی موصوف کی قبر آج بھی قسطنطنیہ میں زیارت گاہ خاص و عام ہے آپ کی قبر کے پاس ایک مسجد بھی تعمیر کردی گئی ہے۔ حضرت براء بن عازب ؓ نے فرمایا : کہ گناہوں کی وجہ سے اللہ کی رحمت و مغفرت سے مایوس ہوجانا اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنا ہے، اس لئے مغفرت سے مایوس ہونا حرام ہے۔ بعض حضرات نے فرمایا اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے میں حد سے تجاوز کرنا کہ بیوی بچوں کے حقوق ضائع ہوجائیں یہ اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنا ہے ایسا اسراف جائز نہیں۔ بعض حضرات نے فرمایا : ایسی صورت میں قتال کے لئے اقدام کرنا اپنے کو ہلاکت میں ڈالنا ہے جب کہ یہ اندازہ ہو کہ ہم دشمن کا کچھ نہ بگاڑ سکیں گے، خود ہلاک ہوجائیں گے ایسی صورت میں اقدام قتال اس آیت کی بناء پر منع ہے۔ وَاَحْسِنُوْآ اِنَّ اللہَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ ، اس جملہ میں ہر کام کو اچھا کرنے کی ترغیب ہے اور کام کو اچھا کرنا جس کو قرآن میں احسان سے تعبیر کیا گیا ہے دو طرح سے ایک عبادت میں اور دوسرے معاملات و معاشرت میں، عبادت میں احسان کی تفسیر حدیث جبرئیل (علیہ السلام) میں خود رسول اللہ ﷺ نے یہ فرمائی ہے کہ اس طرح عبادت کرو جیسے تم خدا کو دیکھ رہے ہو اور اگر یہ درجہ حاصل نہ ہو تو کم از کم یہ اعتقاد تو لازم ہی ہے کہ خدا تمہیں دیکھ رہا ہے۔ اور معاملات و معاشرت میں احسان کی تفسیر مسند احمد میں بروایت حضرت معاذ حضرت رسول اللہ ﷺ نے یہ فرمائی ہے کہ تم سب لوگوں کے لئے وہی پسند کرو جو اپنے لئے پسند کرتے ہو اور جس چیز کو تم اپنے لئے ناپسند کرو دوسروں کے لئے بھی ناپسند کرو۔ (معارف)
Top