Tafseer-e-Jalalain - Al-Baqara : 210
هَلْ یَنْظُرُوْنَ اِلَّاۤ اَنْ یَّاْتِیَهُمُ اللّٰهُ فِیْ ظُلَلٍ مِّنَ الْغَمَامِ وَ الْمَلٰٓئِكَةُ وَ قُضِیَ الْاَمْرُ١ؕ وَ اِلَى اللّٰهِ تُرْجَعُ الْاُمُوْرُ۠   ۧ
ھَلْ : کیا يَنْظُرُوْنَ : وہ انتظار کرتے ہیں اِلَّآ : سوائے (یہی) اَنْ : کہ يَّاْتِيَهُمُ : آئے ان کے پاس اللّٰهُ : اللہ فِيْ ظُلَلٍ : سائبانوں میں مِّنَ : سے الْغَمَامِ : بادل وَالْمَلٰٓئِكَةُ : اور فرشتے وَقُضِيَ : اور طے ہوجائے الْاَمْرُ : قصہ وَاِلَى : اور طرف اللّٰهِ : اللہ تُرْجَعُ : لوٹیں گے الْاُمُوْرُ : تمام کام
کیا یہ لوگ اسی بات کے منتظر ہیں کہ ان پر خدا (کا عذاب) بادل کے سائبانوں میں آ نازل ہو اور فرشتے بھی (اتر آئیں) اور کام تمام کردیا جائے ؟ اور سب کاموں کا رجوع خدا ہی کی طرف ہے
ھَلْ یَنْظُرُوْنَ اِلَّآ اَنْ یَّاْ تِیَھُمُ اللہُ فِیْ ظُلَلٍٍ مِّنَ الْغَمَامِ (الآیۃ) اس دنیا میں انسان کی آزمائش کا تمام تر دارو مدار اس بات پر ہے کہ وہ حقیقت کو دیکھے بغیر مانتا ہے یا نہیں جس کو ایمان بالغیب کہتے ہیں اور ماننے کے بعد اتنی اخلاقی طاقت رکھتا ہے یا نہیں کہ نافرمانی کی طاقت رکھنے کے باوجود فرنبرداری اختیار کرے چناچہ اللہ تعالیٰ نے انبیاء کی بعثیت میں، کتابوں کی تنزیل میں عقل کے امتحان اور اخلاقی قوت کی آزمائش کا ضرور لحاظ رکھا ہے اور کبھی حقیقت کو اس طرح بےنقاب نہیں کیا کہ آدمی کے لئے مانے بغیر چارہ ہی نہ رہے کیونکہ اس سے تو آزمائش بالکل بےمعنی ہوجاتی ہے اور امتحان و آزمائش کا کوئی مفہوم ہی باقی نہیں رہتا، غیب اور حقیقت کے مشاہد ہونے کے بعد تو بڑے سے بڑا منکر بھی ایمان لے آتا ہے مگر اس ایمان کا کوئی اعتبار نہیں ہے اسی بنا پر یہاں فرمایا جا رہا ہے کہ اس وقت کا انتظار نہ کرو، جب اللہ تعالیٰ اور اس کی سلطنت کے کارکن فرشتے خود سامنے آجائیں گے کیونکہ پھر تو فیصلہ ہی کر ڈالا جائے گا، ایمان لانے اور سرجھکانے کی ساری قدروقیمت اسی وقت تک ہے جب تک حقیقت تمہارے حواس سے پوشیدہ ہے اور تم محض دلیل سے اس کو تسلیم کرکے اپنی اخلاقی طاقت کا ثبوت دیتے ہو، ورنہ جب حقیقت بےپردہ ہو کر سامنے آجائے اور تم بچشم سر دیکھ لو کہ خدا اپنے تخت جلال پر متمکن ہے اور یہ ساری کائنات کی سلطنت اس کے فرمان پر چل رہی ہے اور یہ فرشتے زمین و آسمان کے انتظام میں لگے ہوئے ہیں اور یہ تمہاری ہستی اس کے قبضہ قدرت میں پوری بےبسی کے ساتھ جکڑی ہوئی ہے اس وقت تم ایمان لائے تو اس ایمان اطاعت کی قیمت ہی کیا ہے ؟ اس وقت تو کٹے سے کٹّا کافر اور بڑے سے بڑا فرعون اور بدتر سے بدتر مجرم بھی انکار و نافرمانی کی جرأت نہیں کرسکتا، ایمان لانے اور اطاعت قبول کرنے کی مہلت بس اسی وقت تک ہے جب تک حقیقت بےنقاب ہونے کی وہ ساعت نہیں آتی، اور جب وہ ساعت آگئی تو پھر نہ مہلت ہے نہ آزمائش بلکہ وہ فیصلے کا وقت ہے۔
Top