Tafseer-e-Jalalain - Al-Baqara : 21
یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّكُمُ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ وَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَۙ
يَا اَيُّهَا النَّاسُ : اے لوگو اعْبُدُوْا : عبادت کرو رَبَّكُمُ : تم اپنے رب کی الَّذِیْ : جس نے خَلَقَكُمْ : تمہیں پیدا کیا وَالَّذِیْنَ : اور وہ لوگ جو مِنْ : سے قَبْلِكُمْ : تم سے پہلے لَعَلَّكُمْ : تا کہ تم تَتَّقُوْنَ : تم پرہیزگار ہوجاؤ
لوگو ! اپنے پروردگار کی عبادت کرو جس نے تم کو اور تم سے پہلے لوگوں کو پیدا کیا تاکہ تم (اس کے عذاب سے) بچو
آیت نمبر 21 ترجمہ : اے لوگو (یعنی) اے مکہ کے رہنے والو، اپنے اس رب کی بندگی کرو یعنی اس کی توحید کا اقرار کرو جس نے تم کو پید کیا، حال یہ کہ تم کوئی (قابل ذکر) شئ نہ تھے اور تم سے پہلے کے لوگوں کو پیدا کیا تاکہ تم اس کی عبادت کے ذریعہ اس کے عذاب سے محفوظ رہو اور لَعَلَّ دراصل ترجی کے لئے ہے اور اللہ تعالیٰ کے کلام میں تحقیق کے لئے ہے، جس نے تمہارے لئے زمین کو فرش بنایا، (فِراشًا) حال ہے (یعنی) ایسا بچھونا جس کو بچھایا جائے، جو نہ نہایت سخت ہے اور نہ نہایت نرم کہ اس پر قرار ہی ممکن نہ ہو اور آسمان کو چھت بنایا اور آسمان سے پانی برسایا، جس کے ذریعہ تمہاری غذا کے لئے مختلف قسم کے پھل پیدا کئے، جن کو تم کھاتے ہو اور جن کو تم اپنے جانوروں کو (چارے کے طور پر) کھلاتے ہو سو تم عبادت میں اللہ کا کسی کو ہمسر (یعنی) شریک نہ ٹھہراؤ حال یہ ہے کہ تم جانتے ہو کہ خالق وہی ہے اور وہ شرکاء تخلیق نہیں کرسکتے اور معبود وہی ہوسکتا ہے جو تخلیق کرسکے، ہم نے اپنے بندے محمد ﷺ پو جو (قرآن) نازل کیا ہے اگر تم اس کے منجانب اللہ ہونے میں شک میں ہو، تو اس مُنَزَّلْ جیسی ایک سورت لے آؤ اور مِن بیانیہ ہے کہ وہ سورت بلاغت میں اور حسن نظم میں اور اخبار بالغیب میں اس جیسی ہو، سورت ایسے حصہ کو کہتے ہیں کہ جس کی ابتداء اور انتہا ہو، اور اس میں کم از کم تین آیتیں ہوں اور اپنے ان معبودوں کو بھی بلا لو جن کی تم اللہ کو چھوڑ کر بندگی کرتے ہو تاکہ وہ تمہاری مدد کریں، اگر تم اس بات میں کہ محمد ﷺ نے اس کو اپنی طرف سے گھڑ لیا ہے سچے ہو لہٰذا تم بھی یہ کام کر دکھاؤ اس لئے کہ تم بھی اس کے جیسے فصیح عرب ہو، اور جب وہ اس سے عاجز ہوگئے، تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا پس اگر تم نے اپنے عجز کی وجہ سے مذکورہ کام نہ کیا اور تم اس کو ہرگز کبھی نہ کرسکو گے اس کے اعجاز کے ظاہر ہونے کی وجہ سے (شرط اور جزاء کے درمیان) یہ جملہ معترضہ ہے، لہٰذا تم اللہ پر ایمان لا کر اور اس بات کی تصدیق کرکے کہ یہ انسانی کلام نہیں ہے، تو اس آگ سے بچو کہ جس کا ایندھن کافر انسان اور پتھر ہوں گے مثلاً پتھر سے بنے ہوئے ان کے بت، یعنی وہ آگ شدید حرارت والی ہوگی، مذکورہ چیزوں سے دہکائی جائے گی، نہ کہ دنیوی آگ کے مانند کہ لکڑی وغیرہ سے دہکائی جاتی ہے (وہ آگ) کافروں کے لئے تیار کی گئی ہے، اس میں ان کو عذاب دیا جائے گا (یہ) جملہ معترضہ ہے یا حال لازمہ ہے۔ تحقیق و ترکیب وتسہیل وتفسیری فوائد قولہ : یاَیُّھَا النَّاسُ ای اَھْلُ مَکۃَ : یا حرف ندا متوسط کے لئے ہے قرآن میں ندا کے لئے صرف یا، کا استعمال ہوا ہے، دوسرے کسی حرف ندا کا استعمال نہیں ہوا، ندا خواہ خالق کی جانب سے ہو، یا مخلوق کی جانب سے، اَیُّ ، منادی لفظاً مبنی برضمہ ہے اور محل میں نصب کے ہے، ھا، برائے تنبیہ ہے، اَلنَّاس لفظوں کے اعتبار سے اَیُّ ، کی صفت یا بدل ہے۔ قولہ : اَیْ اَھلُ مکۃَ ، یہ الناس کی تفسیر ہے۔ سوال : قاعدہ یہ ہے کہ قرآن میں اہل مکہ کو خطاب یاَیُّھَا الناس سے اور اہل مدینہ کو یاَیّھا الذّین آمنوا، سے ہوتا ہے یہ سورت مدنی ہے اور خطاب اہل مدینہ سے یاَیُّھَا الَّذین آمنوا سے ہے ایسا کیوں ؟ جواب : یہ قاعدہ اکثری ہے کلی نہیں۔ لفظ اَھْلٌ پر رفع اور نصب دونوں جائز ہیں، نصب اس اعتبار سے کہ یہ باعتبار محل کے الناس کی تفسیر ہے اور رفع اس اعتبار سے کہ یہ باعتبار لفظ کے الناس کی تفسیر ہے۔ قولہ : وَحِّدُوْا اُعْبُدُوْا کی تفسیر وَحِّدوا سے حضرت ابن عباس ؓ کی اتباع میں ہے، حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ اُعْبُدُوْا، قرآن میں جہاں کہیں بھی آیا ہے، اس سے مراد توحید سرِ فہرست ہے اس لئے کہ توحید کے بغیر کوئی عبادت مقبول نہیں، اسی طرح الناس کی تفسیر اہل مکہ سے یہ بھی حضرت ابن عباس ؓ کی اتباع میں ہے ورنہ دیگر مفسرین نے الناس کو مطلق رکھا ہے، جس میں مکہ وغیر مکہ کے سب لوگ شامل ہیں۔ قولہ : لَعَلَّ فی الاصل للترجی : سوال : لَعَلَّ کا اصل استعمال طمع فی المحبوب کے لئے ہے، عوام اس کو توقع سے تعبیر کرتے ہیں اور یہ جہل کی متقاضی ہے، حق تعالیٰ کے لئے اس معنی کے لئے استعمال محال ہے۔ جواب : مفسر علام نے اپنے قوم ” وفی کلامہٖ تعالیٰ للتحقیق “ سے اسی سوال کے جواب کی طرف اشارہ کیا ہے یعنی کلام ربانی میں لَعَلَّ کا استعمال تحقیق و قوع کے لیے ہوتا ہے، اس لئے کہ کریم اسی کی توقع دلاتا ہے، جو اسے یقینی طور پر کرنا ہو۔ قولہ : فِرَاشًا، اَلْاَرْضَ : سے حال ہے، مگر یہ اس صورت میں ہے جب کہ : جَعَلَ ، بمعنی خَلَقَ متعدی بیک مفعول ہو، جیسا کہ مفسر علام نے جَعَلَ کی تفسیر خَلَقَ سے کرکے اشارہ کردیا ہے اور جن حضرات نے جَعَلَ بمعنی صَیَّرَ متعدی بد و مفعول لیا ہے، ان کے نزدیک اَلْاَرْضَ مفعول اول اور فِرِاشًا مفعول ثانی ہوگا۔ قولہ : من السماء السماء سے لغوی معنی مراد ہیں یعنی : فوق، مَا علاکَ وَاَظَلک فھو سماءٌ، سماءٌ مونث ہے کبھی مذکر بھی استعمال ہوتا ہے اور بارش بھی چونکہ اوپر سے اترتی ہے، لہٰذا یہ شبہ ختم ہوگیا کہ : بارش بادلوں سے برستی ہے نہ کہ : آسمان سے، دوسرا جواب یہ بھی دیا گیا ہے کہ سماء سے سحاب مراد ہے۔ قولہ : تَعلفونَ بہٖ دَوابَّکُمْ : سے اشارہ کردیا کہ ثمرات سے زمین کی ہر قسم کی پیداوار مراد ہے اور عَلَفْ ، جانوروں کے چارے کو کہتے ہیں۔ قولہ : فَلَا تَجْعَلُوْا للہِ اَنْدَادًا : اس کا تعلق ماقبل میں مذکور اُعْبُدُوا رَبَّکم الَّذِی، سے ہے۔ قولہ : اَندادٌ: یہ نِدٌّ : کی جمع ہے، بمعنی برابر، مقابل، شریک نِدٌّ ذات میں شریک اور مثل ہر قسم کے شریک کو کہتے ہیں۔ قولہ : وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْن : مبتداء خبر سے مل کر جملہ ہو کر فَلَا تَجْعَلُوْا کی ضمیر سے حال ہے۔ قولہ : اِنَّہُ الخالق : معطوف علیہ اور ولا یخلقون جملہ ہو کر معطوف جملہ معطوفہ ہو کر یہ تَعْلَمُوْنَ ، کا مفعول بہ ہے۔ قولہ : فَافْعَلُوا ذلِک یہ اِنْ کُنْتُمْ صَادِقین کی جزاء ہے۔ قولہ : وَقُوْدُھَا، واؤ کے فتحہ کے ساتھ بمعنی مَا تُو قَدُ بہ، یعنی ایندھن اور واؤ کے ضمہ کے ساتھ مصدر ہے، اس وزن پر آنے والے تمام صیغوں میں یہی دو صورتیں ہیں، مثلاً : وَضُوْءٌ، سَحُورٌ، طَھُورٌ، قاعدہ یہ ہے کہ فَعُوْلٌ کے وزن پر آنے والے ہر صیغہ میں اگر فائ کلمہ کے فتحہ کے ساتھ ہو تو بمعنی آلہ، اور اگر ضمہ کے ساتھ ہو تو مصدر۔ بعض نے کہا ہے ایک دوسرے کی جگہ بھی مستعمل ہیں۔ قولہ : مِنھا : یہ اَصْنامھم سے حال ہے ای حال کونِھَا منَ الحِجارۃِ ، مقصد آیت میں مذکور وقودھا الناسُ وَالحِجارۃ کی مطابقت ہے حِجَارَۃ حَجَرٌ کی جمع جیسے : جَمَالۃٌ، جَملٌ کی جمع ہے۔ قولہ : اُعِدَّتْ جملہ مستانفہ ہے اور جملہ مستانفہ ہمیشہ کسی سوال مقدر کا جواب ہوا کرتا ہے، یہاں کس سوال کا جواب ہے ؟ سوال : یہ ہے : لِمَنْ اُعِدَّتْ ھٰذِہِ النارُ التِیْ وَقودُھَا الناسُ وَالحِجَارَۃُ ؟ جواب : اُعِدَّتْ لِلْکَافِرِیْنَ ۔ قولہ : اَوْحالٌ، یعنی ” اُعِدَِّتْ للکافرین “ لفظ ” النار “ سے حال ہے، وَقُودُھَا کی ضمیر سے حال واقع ہونا صحیح نہیں ہے، جس کی دو وجہ ہیں (1) اس لئے کہ ھَا ضمیر مضاف الیہ ہے، اور مضاف الیہ مقصود نہیں ہوتا، (2) اس لئے کہ مضاف جو کہ یہاں وَقُوْدٌ بمعنی حطب عین ہے اور یہ جامد ہے اور اسم جامد عامل نہیں ہوتا۔ قولہ : لَازِمَۃٌ: اس اضافہ کا مقصد اس شبہ کو زائل کرنا ہے جو : اُعِدَّت للکافرین سے معلوم ہوتا ہے کہ : ناز جہنم کافروں کے لئے تیار کی گئی ہے لہٰذا مسلمانوں کو فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں ہے خواہ فاسق و فاجر ہی کیوں نہ ہوں بشرطیکہ مومن ہو۔ جواب : حال لازمہ بمنزلہ صفت ہوتا ہے، ذوالحال کے لئے اور ذوالحال سے جدا نہیں ہوتا جیسا کہ ابوک عطوفًا میں کہ باپ کی شفقت بیٹے کے لئے لازم ہے، مگر خاص نہیں ہے کہ بیٹے کے علاوہ کسی اور پر باپ کی شفقت ممنوع ہو اسی طرح ناز جہنم کافروں کے لئے لازم تو ہے مگر خاص نہیں، یعنی اصالۃً و دوامًا تو نار جہنم کافروں ہی کے لئے تیار کی گئی ہے، لہٰذا مسلمین کو فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں ہے خواہ فاسق و فاجر ہی کیوں نہ ہوں بشرطیکہ مومن ہو، مگر عارضی طور پر تادیب کے لئے اہل فسق و عصیان بھی اس میں داخل کر دئیے جائیں تو یہ اس کے منافی نہیں (ماجدی ملخصا) ” وکون الا عداد للکافرین لاینافی دخول غیرھم فیہ علی جھۃ التطفل “۔ (روح) دوسرا جواب : اُعِدَِّتْ للکافرین : میں، کافر سے مراد عام ہو جو اصطلاحی کافر اور لغوی کافر دونوں کو شامل ہو، تو اس صورت میں کوئی اعتراض نہیں، اصطلاحی کافر کا دخول دائمی ہوگا اور لغوی کافر یعنی ناشکرے اور عاصی و نافرمان کا دخول تطہیر کے لئے عارضی ہوگا۔ تفسیر وتشریح قرآن مجید کا مخاطب ساراعالم ہے : یَآیُّھَا النَّاسُ اعْبُدُوْا (الآیۃ) اس آیت میں مخاطب صرف قریش یا اہل مکہ ہی نہیں بلکہ عرب اور عجم سارا عالم ہے اور نہ کوئی مخصوص نسل، گروہ، یا جماعت ہے بخلاف سابقہ آسمانی کتابوں کے کہ ان کے مخاطب خاص قوم، یا خطے یا نسل کے لوگ تھے، عام مفسرین اسی کے قائل ہیں، بعض مفسرین نے مذکورہ آیت کے مخاطب اہل مکہ کو قرار دیا ہے ان ہی حضرات میں علامہ سیوطی (رح) تعالیٰ بھی ہیں غالبًا یہ تخصیص مخاطب اول ہونے کے اعتبار سے ہے۔ پہلے دو رکوعوں میں موجودات انسانی کی سہ گانہ تقسیم یعنی مومن، کافر اور منافق عقائد کے اعتبار سے تھی، سورة بقرہ کی ابتدائی بیس آیتوں میں ہدایت کے قبول کرنے یا نہ کرنے کے اعتبار سے انسانوں کو تین گروہوں میں تقسیم کیا گیا ہے، جس میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ انسانوں کی گروہی اور قومی تقسیم رنگ و نسل یا وطن اور زبان کی بنیادوں پر معقول نہیں بلکہ صحیح تقسیم عقیدے کی بنیاد پر ہے کہ اللہ اور اس کی ہدایت کے ماننے والے ایک قوم ہیں اور نہ ماننے والے دوسری، اسی حقیقت کو سورة حشر میں ” حزبُ اللہ “ اور ” حزبُ الشیطان “ کے عنوان سے بیان کیا گیا ہے۔ قرآن کا اصل پیغام : یٰایُّھَا النَّاسُ اعْبُدُوْا (الآیۃ) سے قرآن کے اصل اور بنیادی پیغام کا گویا آغاز ہے، عقیدہ توحید جو اسلام کا سب سے پہلا اور بنیادی عقیدہ ہے یہ صرف ایک عقیدہ اور نظریہ ہی نہیں بلکہ انسان کو انسان بنانے کا واحد اور صحیح طریقہ بھی ہے جو انسان کے تمام مشکلات کا حل اور ہر حالت میں اس کی پناہ گاہ ہے اور ہر فکر و غم کا مداوا، اس لئے کہ عقیدہ توحید کا حاصل یہ ہے کہ کائنات کے تمام کون و فساد اور عناصر کے سارے تغیرات ایک ہی ہستی کی مشیئت کے تابع اور اسی کی حکمت کے مظاہر ہیں جب یہ عقیدہ قلب و دماغ میں راسخ اور فکر و خیال پر چھا جائے تو ہر شر و فساد کی بنیاد ہی منہدم ہوجائے گی اس لئے کہ اس کے سامنے ہمہ وقت یہ مستحضر رہے گا۔ ؎ از خدا داں خلاف دشمن و دوست کہ دل ہر دو در تصرف اوست اس عقیدہ کا مالک پوری دنیا سے بےنیاز ہر خوف و ہراس سے بےخطر زندگی گذارتا ہے کلمہ توحید یعنی : لآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ محمد رسول اللہ، کا یہی مفہوم ہے، مگر یہ ظاہر ہے کہ توحید کا محض زبانی اقرار کافی نہیں، بلکہ سچے دل سے اس کا یقین اور یقین کے ساتھ استحضار ضروری ہے۔ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ : تاکہ تم اپنے پروردگار کے عذاب سے بچ جاؤ، لَعَلَ کا استعمال امید و آرزو اور اظہار وقوع اور شک و تردد کے لئے ہے، مگر قرآن میں جہاں حق تعالیٰ کی طرف سے ادا ہوا ہے وہاں امید و آرزو کے بجائے وقوع و یقین کا مفہوم پیدا ہوگیا ہے اردو میں لَعَلَ کا ترجمہ ” تاکہ “ سے بھی کیا جاسکتا ہے۔
Top