Tafseer-e-Jalalain - Al-Baqara : 229
اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ١۪ فَاِمْسَاكٌۢ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ تَسْرِیْحٌۢ بِاِحْسَانٍ١ؕ وَ لَا یَحِلُّ لَكُمْ اَنْ تَاْخُذُوْا مِمَّاۤ اٰتَیْتُمُوْهُنَّ شَیْئًا اِلَّاۤ اَنْ یَّخَافَاۤ اَلَّا یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِ١ؕ فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِ١ۙ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْهِمَا فِیْمَا افْتَدَتْ بِهٖ١ؕ تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ فَلَا تَعْتَدُوْهَا١ۚ وَ مَنْ یَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰهِ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ
اَلطَّلَاقُ : طلاق مَرَّتٰنِ : دو بار فَاِمْسَاكٌ : پھر روک لینا بِمَعْرُوْفٍ : دستور کے مطابق اَوْ : یا تَسْرِيْحٌ : رخصت کرنا بِاِحْسَانٍ : حسنِ سلوک سے وَلَا : اور نہیں يَحِلُّ : جائز لَكُمْ : تمہارے لیے اَنْ : کہ تَاْخُذُوْا : تم لے لو مِمَّآ : اس سے جو اٰتَيْتُمُوْھُنَّ : تم نے دیا ان کو شَيْئًا : کچھ اِلَّآ : سوائے اَنْ : کہ يَّخَافَآ : دونوں اندیشہ کریں اَلَّا : کہ نہ يُقِيْمَا : وہ قائم رکھ سکیں گے حُدُوْدَ اللّٰهِ : اللہ کی حدود فَاِنْ : پھر اگر خِفْتُمْ : تم ڈرو اَلَّا يُقِيْمَا : کہ وہ قائم نہ رکھ سکیں گے حُدُوْدَ اللّٰهِ : اللہ کی حدود فَلَاجُنَاحَ : تو گناہ نہیں عَلَيْھِمَا : ان دونوں پر فِيْمَا : اس میں جو افْتَدَتْ : عورت بدلہ دے بِهٖ : اس کا تِلْكَ : یہ حُدُوْدُ اللّٰهِ : اللہ کی حدود فَلَا : پس نہ تَعْتَدُوْھَا : آگے بڑھو اس سے وَمَنْ : اور جو يَّتَعَدَّ : آگے بڑھتا ہے حُدُوْدَ اللّٰهِ : اللہ کی حدود فَاُولٰٓئِكَ : پس وہی لوگ ھُمُ : وہ الظّٰلِمُوْنَ : ظالم (جمع)
طلاق (صرف) دو بار ہے (یعنی جب دو دفعہ طلاق دے دی جائے تو) پھر (عورتوں کو) یا تو بطریق شائستہ (نکاح میں) رہنے دینا ہے یا بھلائی کے ساتھ چھوڑ دینا اور یہ جائز نہیں کہ جو مہر تم ان کو دے چکو اس میں سے کچھ واپس لے لو ہاں اگر زن و شوہر کو خوف ہو کہ وہ خدا کی حدوں کو قائم نہیں رکھ سکیں گے تو اگر عورت (خاوند کے ہاتھ سے) رہائی پانے کے بدلے میں کچھ دے ڈالے تو دونوں پر کچھ گناہ نہیں یہ خدا کی (مقرر کی ہوئی) حدیں ہیں ان سے باہر نہ نکلنا اور جو لوگ خدا کی حدو سے باہر نکل جائیں گے وہ گنہگار ہوں گے
آیت نمبر 229 تا 231 ترجمہ : ایسی طلاق جس کے بعد رجوع کیا جاسکے دو با رہے یعنی دو تک ہیں، پھر یا تو معروف طریقہ سے تمہارے ذمہ روک لینا ہے بعد اس کے کہ ان سے رجوع کرلو، یا بھلے طریقہ سے ان کا رخصت کردینا ہے بغیر نقصان پہنچائے اور شوہرو ! تمہارے لئے یہ بات جائز نہیں کہ جب تم ان کو طلاق دو تو جو مہر تم نے ان کو دیا ہے اس میں سے کچھ بھی واپس لو البتہ یہ صورت مستثنیٰ ہے کہ زوجین کو اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکنے کا اندیشہ ہو کہ اللہ نے ان کے لئے جو حدود مقرر کئے ہیں ان کو ادا نہ کرسکیں گے اور ایک قراءت میں (یَخَافَا، یُقیما) کو تاء کے ساتھ بھی پڑھا گیا ہے، اگر تمہیں یہ اندیشہ ہو کہ وہ دونوں حدود الٰہی پر قائم نہ رہ سکیں گے تو ان دونوں کے درمیان معاملہ طے ہوجانے میں کہ عورت اپنے نفس کا مالی معاوضہ دیدے تاکہ شوہر اس کو طلاق دیدے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں، یعنی نہ شوہر کے لئے اس معاوضہ کے لینے میں کوئی حرج ہے اور نہ عورت کے لئے اس کے دینے میں یہ مذکورہ احکام اللہ کی مقرر کردہ حدود ہیں ان سے تجاوز نہ کرو اور جو لوگ حدود الٰہی سے تجاوز کریں وہی لوگ ظالم ہیں، پھر اگر شوہر دو طلاقوں کے بعد طلاق دیدے تو اس کے لئے تیسری طلاق کے بعد وہ عورت حلال نہیں اِلاّ یہ کہ وہ کسی دوسرے شخص سے نکاح کرے اور وہ (دوسرا شوہر) اس سے وطی کرے، جیسا کہ حدیث میں وارد ہے (رواہ الشیخان) پھر اگر دوسرا شوہر اس کو طلاق دیدے تو بیوی اور شوہر اول پر کوئی حرج نہیں کہ عدت گزرنے کے بعد دوبارہ نکاح کرلیں، اگر دونوں یہ خیال کریں کہ وہ حدود الہیٰ کو قائم رکھیں گے، یہ مذکورہ احکام اللہ کی مقرر کردہ حدود ہیں، اللہ ان لوگوں کے لئے بیان فرما رہا ہے جو سمجھ رکھتے ہیں غور و فکر کرتے ہیں، اور جب تم عورتوں کو طلاق دیدو اور وہ اپنی مدت کو پہنچ جائیں یعنی ان کی عدت ختم ہونے کے قریب ہوجائے تو ان سے رجوع کرکے بھلے طریقہ پر بغیر نقصان پہنچائے، ان کو روک لو، یا شریفانہ طریقہ سے ان کو رخصت کردو، یعنی ان کو (اپنی حالت پر) چھوڑ دو تاآنکہ ان کی مدت پوری ہوجائے اور رجعت کے ذریعہ ستانے کے لئے نہ روکو (ضراراً ) مفعول لہ ہے کہ ان کو فدیہ (معاوضہ خلع) دینے یا خلع کرنے پر مجبور کرنے اور مدت حبس کو طویل کرنے کے لئے (نہ روکو) اور جو ایسا کرے گا تو اس نے درحقیقت خود ہی اپنے اوپر ظلم کیا، اللہ کے عذاب پر خود کو پیش کرکے اور اللہ کی آیات کو کھیل نہ بناؤ یعنی ان کی مخالفت کرکے ان کا مذاق نہ بناؤ، اور اپنے اوپر اللہ کی نعمت اسلام کو یاد رکھو اور اس کتاب (یعنی) قرآن اور حکمت کو اور اس میں جو احکام ہیں یاد رکھو جو تم پر نازل کی ہے وہ تم کو اس کی نصیحت کرتا ہے کہ اس پر عمل کرکے اس کی شکر گزاری کرو اور اللہ سے ڈرو اور خوب سمجھ لو کہ اللہ تعالیٰ ہر بات سے باخبر ہے اس سے کوئی شئ پوشیدہ نہیں۔ تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد قولہ : التطلیق الَّذِیْ ، اس میں اس بات کی طرف اشارہ کہ الطلاق اسم مصدر، تَطْلیق مصدر کے معنی میں ہے مطلب یہ ہے کہ طلاق سے شوہر کا فعل تطلیق مراد ہے اس لئے کہ فعل طلاق ہی متصف بالوحدۃ والتعدد ہوتا ہے نہ کہ وہ طلاق جو مرأۃ کی صفت ہوتی ہے اس کی تائید اوتَسْرِیْحٌ سے بھی ہوتی ہے اس لئے کہ تَسْریح، بھی شوہر کا فعل ہے۔ قولہ : فَعَلَیْکُم، اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اِمْسَاک، مبتداء ہے اور اس کی خبر، فَعَلیکُم، محذوف ہے۔ سوال : اِمْسَاک، نکرہ ہے لہٰذا اس کا مبتداء بننا درست نہیں ہے۔ جواب : اِمْسَاک کی صفت، بمعروف ہے لہٰذا نکرہ جب موصوف بالصفت ہو تو اس کا مبتداء بننا صحیح ہوتا ہے۔ قولہ : ای اِثْنتان۔ سوال : مَرَّتَان، کی تفسیر اثنتان، سے کرنے میں کیا فائدہ ہے ؟ جواب : اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ مَرَّتَان، سے اس کے حقیقی معنی جو کہ تثنیہ ہیں، مراد ہیں، یعنی دو طلاقیں نہ کہ مجازی معنی جو کہ تکرار ہیں، گویا کہ یہ رد ہے ان لوگوں کا جنہوں نے کہا ہے کہ مَرّتان، یہاں تکرار کے معنی میں ہے، جواب کا حاصل یہ ہے کہ تکرار معنی مجازی ہیں اور تثنیہ معنی حقیقی ہیں اور معنی مجازی سے حقیقی مراد لینا اولی ہوتا ہے دو مجازی معنی مراد لینے والوں کا مقصد یہ بتانا ہے کہ ایک ساتھ دو طلاق درست نہیں ہے بلکہ دو مرتبہ میں دو طلاقیں ہونی چاہئیں اور جو لوگ مرتان کو اثنتان (تثنیہ) کے معنی میں لیتے ہیں ان کے نزدیک ایک لفظ سے دو طلاق دینا درست ہے۔ قولہ : بَعْدَ التطلیقۃِ الثالثۃِ اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ بَعْدُ ، مبنی برضم ہے اس لئے کہ اس کا مضاف الیہ محذوف ہے اور وہ بَعْدَ الطلقہ الثالثۃِ ہے، لہٰذا یہ اعتراض ختم ہوگیا کہ اس کو حرف جر کی وجہ سے مجرور ہونا چاہیے۔ قولہ : تَتَزَوَّجُ ، تنکح، کی تفسیر تتزوجَ سے کرکے اشارہ کردیا کہ تنکح، بمعنی عقد نکاح ہے نہ کہ وطی اس لئے کہ عقد نکاح مراد لینے کی صورت میں اس کی اسناد مرد اور عورت دونوں کی طرف حقیقت ہوگی اور اگر بمعنی وطی ہو تو مرد کی طرف تو نسبت حقیقی ہوگی مگر عورت کی جانب وطی کی نسبت مجازی ہوگی قولہ : یَطَاھَا اس میں ان لوگوں پر رد ہے جو حلالہ کے لئے صرف عقد نکاح کو کافی سمجھتے ہیں، جیسا کہ سعید بن مسیّب (رح) تعالیٰ اس لئے کہ یہ حدیث مشہور کے خلاف ہے۔ تفسیر و تشریح شان نزول : رَویٰ عروۃ بن الزبیر الخ، فرماتے ہیں کہ لوگ ابتداء اسلام میں اپنی بیویوں کو بیشمار طلاقیں دیدیا کرتے تھے اور بعض لوگ ایسا بھی کرتے تھے کہ اپنی بیوی کو طلاق دیدتے تھے اور جب اس کی عدت ختم ہونے کے قریب ہوجاتی تھی تو رجوع کرلیتے تھے اس کے بعد پھر طلاق دیدتے تھے، ستانے اور تکلیف پہنچانے کی نیت سے اسی طرح باربار کرتے رہتے تھے تو اس موقع پر اَلطّلاق مَرَّتَانِ نازل ہوئی۔ (مظہری) طلاق رجعی دو ہی تک ہیں : طلاق رجعی دو ہی بار ہے پھر خواہ حسن معاشرت اور محبت سے اسے رکھ لے یا احسان اور شریفانہ طریقہ سے رخصت کروے ” تَسْرِیْحٌ بِاِحْسَانٍ “ اکثر روایتوں میں تیسری طلاق ہے مگر ابوحنیفہ (رح) تعالیٰ کہتے ہیں کہ تیسری طلاق ضرر خالص ہے احسان سے اس کیا واسطہ، بلکہ مراد یہ ہے کہ دوسری طلاق کے بعد اگر رجوع کرنا اور محبت سے بسر کرنا ہے تو بہتر، ورنہ خاموش بیٹھ رہے، جب عدت پوری ہوجائیگی عورت خودبخود بائنہ ہوجائے گی اس کے بعد اگر دونوں کی مرضی ہو تو نکاح کرسکتے ہیں یہی ان کے حق میں احسان ہے۔ طلاق دینے کے تین طریقے : طلاق دینے کے تین طریقے ہیں (اول) اَحْسَن، یعنی صرف ایک طلاق ایسے طہر میں دے جس میں عورت سے جماع نہ کیا ہو، (دوسری) حَسَن یعنی تین طلاقیں اس طرح دے کہ جب حیض سے پاکی حاصل ہو تو وطی سے پہلے طلاق دے پھر دوسرے حیض کا اتنظار کرے دوسرے حیض کے بعد دوسری طلاق اور تیسرے حیض کے بعد تیسری طلاق دے کر قصہ ختم کرے، اور اگر عورت کو حیض نہ آتا ہو یعنی صغیرہ ہو یا آئسہ (بہت بوڑھی) تو ہر ماہ بعد ایک طلاق دے، (تیسری) بدعی، ایک وقت یا ایک طہر میں تین طلاقیں دے یہ طلاقیں تو پڑجائیں گی مگر مرد گنہگار ہوگا، اس طلاق کے واقع ہونے میں بعض حضرار کو کلام ہے مگر ابن عمر کی مرفوع حدیث ہماری شاہد ہے اور حیض میں بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے مگر رجوع کرنا واجب ہے اگر حالت حیض میں طلاق واقع ہی نہ ہو تو ابن عمر ؓ کو حالت حیض میں دی ہوئی طلاق سے رجوع کرنے کے حکم کے کیا معنی ؟ لہٰذا ارشاد باری تعالیٰ کہ طلاق دو بار ہے یعنی مسنون تو یہی ہے کہ ایک بار ایک طلاق دے پھر دوسری دے، بعد ازاں خواہ رجوع کرے یا تیسری طلاق بھی دیدے بیک وقت دو طلاقیں دینا چونکہ اچھا نہیں ہے اسی لئے مرتان، یعنی ” دو بار “ فرمایا کہ تعداد اور توقف پر اشارہ کرے فائدہ : اس مختصر سی آیت میں ایک بہت بڑی معاشرتی خرابی کی جو عرب جاہلیت میں رائج تھی اصلاح کی گئی ہے عرب میں قاعدہ یہ تھا کہ ایک شخص اپنی بیوی کو بےحدو بےحساب طلاق دینے کا مجاز تھا، جس عورت سے اس کا شوہر بگڑ جاتا تھا اس کو بار بار طلاق دے کر رجوع کرتا رہتا تھا، تاکہ نہ تو وہ غریب اس کے ساتھ بس ہی سکے اور نہ اس سے آزاد ہو سکے کہ کسی اور سے نکاح کرلے، قرآن مجید کی یہ آیت اسی ظلم کا دروازہ بند کرتی ہے، اس آیت کی رو دے ایک مرد رشتہ نکاح میں اپنی بیوی پر زیادہ سے زیادہ دو ہی مرتبہ طلاق رجعی کا حق استعمال کرسکتا ہے جو شخص اپنی منکوحہ کو دو مرتبہ طلاق دے کر اس سے رجوع کرچکا ہو وہ اپنی عمر میں اس کو تیسری بار طلاق دے گا تو عورت اس سے مستقل طور پر جدا ہوجائے گی۔ اگر ایک ہی وقت میں تین طلاقیں دے ڈالی جائیں، جیسا کہ آج کل جہلاء کا عام طریقہ ہے تو یہ شریعت کی رو سے سخت گناہ ہے اس کی بڑی مذمت فرمائی گئی ہے اور حضرت عمر ؓ سے یہاں تک ثابت ہے کہ جو شخص بیک وقت اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیدیتا تھا آپ اس کو درے لگاتے تھے، تاہم سخت گناہ ہونے کے باوجود ائمہ اربعہ کے نزدیک تینوں طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں اور طلاق مغلظ ہوجاتی ہے۔ وَلَایَحِلُّ لَکُمْ أَنْ تَاْخُذُوْا (الآیۃ) یعنی مہر اور وہ زیورات اور کپڑے وغیرہ جو شوہر اپنی بیوی کو دے چکا ہے، ان میں سے کوئی چیز بھی واپس طلب کرنے کا اسے حق نہیں ہے، یہ بات ویسے بھی اسلامی اخلاقی اصولوں کی ضد ہے کہ کوئی شخص ایسی چیز کو جسے وہ دوسرے شخص کو ہبہ یا ہدیہ و تحفہ کے طور پردے چکا ہو واپس مانگے، اس ذلیل حرکت کو حدیث شریف میں اس کتے کے فعل سے تشبیہ دی گئی ہے جو اپنی ہی قے کو خود چاٹ لے، مگر خصوصیت کے ساتھ ایک شوہر کے لئے تو یہ بہت ہی شرمناک ہے کہ وہ طلاق دے کہ رخصت کرتے وقت اپنی بیوی سے وہ کچھ رکھوا لیتا ہے جو اس نے کبھی اسے خود دیا تھا، اس کے برعکس اسلام نے یہ اخلاق سکھائے ہیں کہ آدمی جس عورت کو طلاق دے اسے رخصت کرتے وقت کچھ نہ کچھ دے کر رخصت کرے۔ شان نزول : تفسیر کی کتابوں میں مذکور ہے کہ جمیلہ یا حبیبہ نامی خاتوں حضور ﷺ کی خدمت میں آئیں اور اپنے شوہر ثابت بن قیس کی شکایت کی اور مار کے نشان جو منہ پر تھے دکھائے اور کہا میرا اور اس کا اب نبھاؤ نہ ہوسکے گا، آپ ﷺ نے ابن قیس کو بلا کر حالات معلوم کئے، ابن قیس نے عرض کیا یا رسول اللہ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اس عورت سے زیادہ دنیا میں کسی کو محبوب نہیں رکھتا سوائے آپ کی محبت کے، آپ کی محبت تو آپ کے مشتاقوں کے لئے رگ و پے میں خون کی طرح داخل ہے بلکہ جوہر روح اور لطف حیات ہے آپ نے جمیلہ سے فرمایا : اب تم کیا کہتی ہو ؟ وہ بولیں کہ میں ایسی بات نہ کہوں گی جس کے خلاف حضور پر وحی نازل ہوجائئے، بیشک ثابت اپنی بیوی سے سلوک کرنے میں تمام مردوں سے اچھا ہے مگر مجھے اس سے بالطبع نفرت ہے، اور بعض روایتوں میں بدصورتی کا بھی ذکر ہے آپ ﷺ نے فرمایا کیا وہ باغ جو تم نے مہر میں لیا ہے واپس کردوگی ؟ بولیں باغ اور مزید کچھ اور بھی، آپ نے فرمایا ” اَمَّا الزِیادۃُ فَلَا “ مہر سے زائد نہ کیا جائے پھر آپ ﷺ نے ثابت سے فرمایا ” اقبل الحدیقۃ وطَلّقْھا تَطْلیفۃ “ باغ لو اور طلاق دو ۔ (خلاصۃ التفاسیر، تائب لکھنوی) مباحث احکام خلع : خَلْع، (ف) خَلْعًا، اتارنا، خَلَعَ المرأۃ، مال کے عوض عورت نے جدائی اختیار کی، اگر عورت کی جانب سے مال کے عوض طلاق کا مطالبہ ہو تو اس کو شریعت کی اصطلاح میں خلع کہتے ہیں اور اگر شوہر کی جانب سے مال کے عوض طلاق کی پیش کش ہو تو طلاق علی مال کہتے ہیں۔ مسئلہ : اس بارے میں اگر شوہر اور بیوی کے درمیان آپس میں معاملہ طے ہوجائے، تو جو کچھ طے ہوا ہو وہی نافذ ہوگا، لیکن اگر عدالت میں معاملہ چلا جائے تو عدالت صرف اس امر کی تحقیق کرے گی کہ آیا فی الواقع یہ عورت اس حد تک متنفر ہے کہ اس کے ساتھ اس کا نباہ نہیں ہوسکتا، اس کے تحقیق ہوجانے پر عدالت کو اختیار ہے کہ حالات کے لحاظ سے جو فدیہ چاہے تجویز کرے اور اس فدیہ کو قبول کرکے شوہر کو اسے طلاق دینے کا حکم کرے، شوہر پر لازم ہوگا کہ فدیہ قبول کرکے طلاق دیدے بالعموم فقہاء نے اس کو پسند نہیں کیا کہ جو مال شوہر نے اس عورت کو دیا ہو، اس سے زائد کا فدیہ دلوایا جائے۔ مسئلہ : خلع کی صورت میں طلاق بائن ہوتی ہے شوہر اس سے رجوع نہیں کرسکتا البتہ یہی مرد اور عورت اگر راضی ہوجائیں تو دوبارہ نکاح جدید کرسکتے ہیں۔ مسئلہ : جمہور کے نزدیک خلع کی عدت وہی ہے جو طلاق کی ہے، مگر ابو داؤد، ترمذی، اور ابن ماجہ وغیرہ کی کی متعدد روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی ﷺ نے اس کی عدت ایک ہی حیض قرار دی تھی اور اس کے مطابق حضرت عثمان غنی ؓ نے ایک مقدمہ میں فیصلہ فرمایا تھا۔ (ابن کثیر جلد اول، ص : 276) فائدہ : خلع کی چار صورتیں ممکن ہیں، (1) شوہر کی طرف سے زیادتی ہو، (2) عورت کی شرارت ہو، (3) دونوں کی خطاء ہو، (4) کسی کی طرف سے بھی کوئی بےلطفی نہ ہو، یہ چوتھی صورت خلع سے متعلق نہیں ہے اور نہ اس سے کوئی حکم متعلق ہے۔ بحث : باقی رہی تین صورتیں، قرآن نے عورت کا مال لینا اس شرط پر حلال کیا ہے کہ جب دونوں کی طرف سے ظلم وتعدی کا خوف ہوجیسا کہ فرمایا : ” اَنْ یَّخَافَآ اَلَّا یُقِیْمَا حُدُوْدَاللہِ “ لہٰذاوہ صورت کہ شوہر کی طرف سے زیادتی ہو آیت سے متعلق نہیں ہے عورت کے مال کی حرکت بدستور باقی رہے گی، اسی کے متعلق دوسرے مقام پر یہ تصریح فرمائی ،” اِنْ اَرَدْتُمُ اسْتِبْدَالَ زَوْجٍ “ اگر ایک بیوی کو طلاق دے کر دوسری سے نکاح کرنا چاہتے ہو ” فَلَا تَاْخُذُوْامِنْہُ شَیا “ تو عورت کو دیئے ہوئے مال میں سے کچھ بھی نہ لو، اس میں قصور مرد کا ہے اس لئے کہ یہی ایسے چھوڑنا چاہتا ہے مناسب اور لائق تو یہ تھا کہ مہر بھی واپس نہ لے، مگر اس وجہ سے کہ ہر حلال مال مالک کی اجازت سے لیناجائز ہے گودینے والا کسی مصلحت یا مجبوری سے دے، یا خوشی سے یہاں عورت اپنے اختیار سے اپنے فائدہ کے لئے اپنا مال صرف کرتی ہے اور اس کے عوض آزادی کا فائدہ حاصل کرتی ہے مذکورہ دونوں شقوں پر نظر کرتے ہوئے لینا جائز مگر مکر وہ قرار دیا گیا ہے۔ سوال : عورت کی طرف سے مرد کا طلاق لینے کے عوض مال دینا رشوت ہے اور شوت حرام ہے۔ جواب : رشوت ایسے مال کے لینے کو کہتے ہیں جس سے کسی کا حق تلف کیا جائے یا رشوت دینے والے کا وہ حق دیا جائے جو بغیر کسی عوض کے رشوت لینے والے کے ذمہ واجب تھا اور یہاں طلاق دینا مرد کے ذمہ نہیں، البتہ دفع ظلم اور ترک تعدی اس کے ذمہ ہے، مگر بدل دفع ظلم اور ترک تعدی کا معاوضہ نہیں ہے جو واجب ہے بلکہ طلاق کا معاوضہ ہے جو واجب نہیں ہے دوسری صورت یعنی عورت کی شرارت ہو تو یہ بھی بظاہر یک طرفہ ہے اور آیت کے حکم سے خارج ہے، مگر مرد کو طلاق کو اختیار حاصل ہے، ایسی شریر عورت کو روکنے سے اس کی غرض خواہ ایذا رسانی اور انتقام ہے خواہ امید اصلاح، تو امید اصلاح تو قابل اعتماد نہیں البتہ قصد انتقام کے لحاظ سے دو طرفہ چھیڑ چھاڑ اور زیادتی ہوگئی اور یہ صورت بھی آیت : ” اِنْ خِفْتُمْ اَلَّا یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللہِ فَلَا جُنَاحَ “ (الآیۃ) کی مصداق ہوئی لہٰذا آیت کی رو سے جو مال عورت دینا قبول کرے جائز ہے اور حدیچ پیغمبر ” اَمّ ۔ ا الزِّیَادَۃَ فَلَا “ کی رو سے مہر سے زیادتی ممنوع ہے جیسا کہ ثابت بن قیس کے واقعہ میں اوپر مذکور ہوا، اگر زیادہ لینے میں کوئی کراہت نہ ہوتی تو آپ ثابت ؓ کے حق کو ناقص نہ کرتے۔ جواز اور کراہت میں منافات نہیں : کہ قرآن کے عموم کا بطلان لازم آئے، مثلاً نماز ایک درہم نجاست کے ساتھ جائز ہے مگر مکروہ تحریمی ہے (شامی) اور نماز بدون تعدیل ارکان جائز مگر واجب الاعادہ ہے (نور الانوار) ایسے ہی یہ زیادتی جائز مگر مکروہ ہے۔ عقلی دلیل : خلع بمنزلہ اقالہ ہے، اس لئے کہ یہ دونوں کی رضا مندی پر موقوف ہے اقالہ میں ثابت شدہ ملک کو باطل کیا جاتا ہے، خلع میں بھی ثابت شدہ ملک بضع کو باطل کیا جاتا ہے پس جس طرح اقالہ میں مبیع مستعمل ہو یا نہ ہو ثمن اول ہی پر اقالہ ہوگا، اسی طرح خلع میں بھی مہر جو کہ بمنزلہ ثمن ہے مہر کی مقدار پر ہی خلع کرنا چاہیے۔ تیسری صورت : یعنی دونوں کی خطاء ہو اس کا حکم بھی مثل دوم ہے (اگرچہ اس کا حکم کتب میں مذکور نہیں) ۔ (خلاصہ التفاسیر) خلع طلاق ہے یا فسخ ؟ امام ابوحنیفہ (رح) تعالیٰ کے نزدیک خلع طلاق ہے اور امام احمد (رح) تعالیٰ کے نزدیک فسخ ہے امام شافعی (رح) تعالیٰ ایک قول میں امام احمد (رح) تعالیٰ کے ساتھ ہیں اور صحیح قول میں ابو حنفیہ (رح) تعالیٰ کے ساتھ ہیں حضرت ابن عباس ؓ اور حضرت عثمان ؓ سے بھی فسخ مروی ہے۔ (خلاصہ التفاسیر)
Top