Tafseer-e-Jalalain - Al-Baqara : 3
الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ وَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَۙ
الَّذِينَ : جو لوگ يُؤْمِنُونَ : ایمان لاتے ہیں بِالْغَيْبِ : غیب پر وَيُقِيمُونَ : اور قائم کرتے ہیں الصَّلَاةَ : نماز وَمِن : اور سے مَّا : جو رَزَقْنَاهُمْ : ہم نے انہیں دیا يُنْفِقُونَ : وہ خرچ کرتے ہیں
جو غیب پر ایمان لاتے اور آداب کے ساتھ نماز پڑھتے، اور جو کچھ ہم نے ان کو عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں
اَلَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ : قرآن سے مستفید ہونے کی یہ دوسری شرط ہے اس آیت میں متقین کی تین صفات بیان کی گئی ہیں (1) ایمان بالغیب (2) اقامت صلوٰۃ (3) اللہ کی راہ میں خرچ کرنا۔ پہلی صفت۔ ایمان اور اس کی تعریف : ایمان کی تعریف کو قرآن کریم نے یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ کے صرف دو لفظوں میں پوری طرح بیان کردیا گیا ہے، اگر ایمان اور غیب کے معنی سمجھ لئے جائیں تو ایمان کی پوری حقیقت اور تعریف سمجھ میں آجاتی ہے۔ قرآن سے فائدہ اٹھانے کی یہ دوسری شرط ہے، غیب سے مراد وہ حقیقتیں ہیں، جو انسان کے حواس سے پوشیدہ ہوں ان کا ادراک نہ عقل سے ہوسکتا ہے اور نہ حواس خمسہ ظاہرہ سے، مثلاً خدا کی ذات وصفات، ملائکہ، وحی، جنت و دوزخ وغیرہ ان حقیقتوں کو بغیر دیکھے ماننا اور اس اعتماد پر ماننا کہ نبی اس کی خبر دے رہا ہے، ایمان بالغیب ہے، آیت کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص ان غیر محسوس حقیقتوں کو ماننے کیلئے تیار ہو تو صرف وہی قرآن کی رہنمائی سے فائدہ اٹھا سکتا ہے، رہا وہ شخص جو ماننے کے لئے، دیکھنے اور چکھنے اور سونگھنے کی شرط لگائے اور کہے کہ میں کسی ایسی چیز کو نہیں مان سکتا کہ جو عقل یا حواس خمسہ کی ترازو میں تولی نہ جاسکتی ہو، تو وہ اس کتاب سے ہدایت نہیں پاسکتا۔ محسوسات اور مشاہدات میں کسی کے قول کی تصدیق کا نام ایمان نہیں : عرف میں کسی کی بات کو کسی کے اعتماد پر یقینی طور پر مان لینے کا نام ایمان ہے اسی لئے محسوسات و مشاہدات میں کسی کے قول کے تصدیق کرنے کو ایمان نہیں کہتے مثلاً کوئی شخص سفید چیز کو سفید اور سیاہ کو سیاہ کہہ رہا ہے، اور دوسرا شخص اس کی تصدیق کر رہا ہے، اس کو تصدیق کرنا تو کہیں گے، ایمان لانا نہیں کہیں گے، اس لئے کہ اس تصدیق میں قائل کے اعتماد کو کوئی دخل نہیں، بلکہ یہ تصدیق مشاہدہ کی بناء پر ہے اور اصطلاح شرع میں خبر رسول کو بغیر مشاہدہ کے محض رسولوں کے اعتماد پر یقینی طور پر مان لینے کا نام ایمان ہے، اس تعریف میں ماننے کا نام ایمان بتلا یا گیا ہے، اس سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ محض جاننے کو ایمان نہیں کہتے، جہاں تک جاننے کا تعلق ہے، وہ تو ابلیس اور بہت سے کفار کو بھی حاصل ہے کہ ان کو آنحضرت ﷺ کے صدق کا یقین تھا، مگر اس کو مانا نہیں اس لئے وہ مؤمن نہیں۔ دوسری صفت : وَیُقِیْمُوْنَ الصَّلوٰۃ : اس کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ صرف جان کر یا مان کر بیٹھ جانے والے ہوں، وہ قرآن سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے، اقامت صلوٰۃ سے مراد پابندی سے سنت نبوی کے مطابق نماز کا اہتمام کرنا ہے، جس میں نماز کے تمام فرائض، واجبات، مستحبات اور پھر ان پر دوام والتزام یہ سب اقامت کے مفہوم میں داخل ہیں اور صحیح بات یہ ہے کہ اس جگہ نماز سے کوئی خاص نماز مراد نہیں بلکہ فرائض، واجبات اور نقلی نمازوں کو یہ لفظ شامل ہے۔ تیری صفت : وَمِمَّا رَزَقْنَاھُمْ یُنْفِقُوْنَ : تیسری صفت انفاق فی سبیل اللہ ہے، انفاق کا لفظ عام ہے جو صدقات واجبہ اور نافلہ دونوں کو شامل ہے، اہل ایمان حسب استطاعت دونوں میں کوتاہی نہیں کرتے والدین اور اہل و عیال پر صرف کرنا بھی اس میں داخل ہے اور باعث اجر وثواب ہے۔ قرآن سے فائدہ اٹھانے کی یہ چوتھی شرط ہے کہ آدمی مال کا حریص اور زرپرست نہ ہو اس کے مال میں اللہ اور بندوں کے جو حقوق مقرر کئے جائیں انہیں ادا کرنے کے لئے تیار ہو جن چیزوں پر ایمان لایا ہے ان کی خاطر مالی قربانی دینے میں دریغ نہ کرے، مطلقاً انفاق محمود نہیں، فی طاعۃ اللہ کہہ کر اسی کی طرف اشارہ کیا ہے۔ مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ : رزق کا لفظ عربی میں بڑے وسیع معنی رکھتا ہے، اس لئے کہ اس کے اندر ہر قسم کی نعمتیں شامل ہیں، خواہ ظاہری ہوں جیسے : مال، اولاد، صحت وغیرہ، یا معنوی و روحانی مثلاً علم و حکمت، فہم و فرست اور عقل سلیم وغیرہ۔ مِمَّا رَزَقْنٰھُم : میں رزق کی نسبت اپنی طرف کرکے بتادیا کہ جو نعمت بھی انسان کو ملتی ہے وہ سب اللہ ہی کے فیض و عطاکا ثمرہ ہوتی ہے۔ اس مختصر جملہ میں غور کیجئے، تو جہاں یہ لفظ اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے کا ایک قوی داعیہ انسان کے دل میں پیدا کرتا ہے، کہ جو مال ہمارے پاس ہے، سب خدا ہی کا عطا کیا ہوا ہے اور اسی کیا امانت ہے، اگر ہم تمام کا بھی اللہ کی راہ میں اس کی رضا کی خاطر خرچ کردیں تو حق اور بجا ہے نیز خالص نفع کا سودا ہے، وہیں مِمَّا، کے لفظ سے اس بات کی طرف اشارہ کردیا ہے کہ ہمارے عطا کردہ مال کو پورا خرچ کرنا نہیں بلکہ اس کا کچھ حصہ خرچ کرنا ہے۔ سوال : ایمان بالغیب کو بیان کرنے کے بعد اعمال کو بیان کرتے ہوئے صرف نماز اور انفاق کو بیان فرمایا حالانکہ اعمال کی فہرست طویل ہے اس کی کیا وجہ ہے ؟ جواب : بنیادی طور پر اعمال کی دو قسمیں ہیں، بدنی اور مالی دونوں میں سے ایک ایک جو اہم ہیں ان کو بیان کردیا، اس کے علاوہ خودبخود اس میں شامل ہوگئے۔ مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ : مِمَّا، میں مَنْ تبعیضیہ ہے، نون کو حذف کرکے میم کو ما، موصولہ میں ادغام کردیا، ما موصولہ، رَزَقْنٰھُم، جملہ ہو کر صلہ ہے رَزَقْنَا کا۔ ھُمْ مفعول اول اور مفعول ثانی اِیّاہ محذوف ہے : اَیْ مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ اِیَّاہُ یُنْفِقُوْنَ ۔ ایمان اور اسلام میں فرق : لغت میں ایمان کسی چیز کی دل سے تصدیق کرنا کا نام ہے اور اسلام اطاعت اور فرمانبرداری کا نام ہے، ایمان کا محل قلب ہے اور اسلام کا تعلق قلب اور اعضاء وجوارح سے ہے، لیکن شرعًا ایمان بغیر اسلام کے اور اسلام بغیر ایمان کے معتبر نہیں، جب تک کہ دل میں اللہ اور اس کے رسول کی تصدیق نہ ہو۔ خلاصہ یہ ہے کہ لغت کے اعتبار سے ایمان اور اسلام الگ الگ مفہوم رکھتے ہیں اور قرآن و حدیث میں اسی لغوی مفہوم کی بناء پر ایمان اور اسلام میں فرق کا ذکر بھی ہے مگر شرعًا ایمان بغیر اسلام کے اور اسلام بغیر ایمان کے معتبر نہیں۔ اسلام اور ایمان میں فرق صرف ابتداء اور انتہا کا ہے : حضرت علامہ انور شاہ کشمیری (رح) تعالیٰ اس مضمون کو اس طرح بیان فرماتے ہیں کہ ایمان اور اسلام کی مسافت ایک ہے، فرق صرف ابتداء اور انتہاء کا ہے یعنی ایمان قلب سے شروع ہوتا ہے اور ظاہر عمل پر پہنچ کر مکمل ہوتا ہے اور اسلام ظاہر عمل سے شروع ہوتا ہے اور قلب پر پہنچ کر مکمل سمجھا جاتا ہے اگر تصدیق قلبی اقرار باللسان تک نہ پہنچے تو وہ تصدیق ایمان معتبر نہیں، اسی طرح اگر ظاہری اطاعت و اقرار، تصدیق قلبی تک نہ پہنچے تو وہ اسلام معتبر نہیں۔ (معارف) امام غزالی (رح) تعالیٰ اور امام سبکی (رح) تعالیٰ کی بھی یہی تحقیق ہے اور امام ابن ہمام (رح) تعالیٰ نے مسامرہ میں اسی تحقیق پر اہل حق کا اتفاق ذکر کیا ہے۔
Top