Tafseer-e-Jalalain - Al-Baqara : 35
وَ قُلْنَا یٰۤاٰدَمُ اسْكُنْ اَنْتَ وَ زَوْجُكَ الْجَنَّةَ وَ كُلَا مِنْهَا رَغَدًا حَیْثُ شِئْتُمَا١۪ وَ لَا تَقْرَبَا هٰذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُوْنَا مِنَ الظّٰلِمِیْنَ
وَقُلْنَا : اور ہم نے کہا يَا آدَمُ : اے آدم اسْكُنْ : تم رہو اَنْتَ : تم وَزَوْجُکَ : اور تمہاری بیوی الْجَنَّةَ : جنت وَكُلَا : اور تم دونوں کھاؤ مِنْهَا : اس میں سے رَغَدًا : اطمینان سے حَيْثُ : جہاں شِئْتُمَا : تم چاہو وَلَا تَقْرَبَا : اور نہ قریب جانا هٰذِهِ : اس الشَّجَرَةَ : درخت فَتَكُوْنَا : پھر تم ہوجاؤگے مِنَ الظَّالِمِیْنَ : ظالموں سے
اور ہم نے کہا کہ اے آدم تم اور تمہاری بیوی بہشت میں رہو اور جہاں سے چاہو بےروک ٹوک کھاؤ (پیو) لیکن اس درخت کے پاس نہ جانا نہیں تو ظالموں میں (داخل) ہوجاؤ گے
اُسْکُنْ اَنْتَ وَزَوْجُکَ ، لفظ انت کی صراحت سے معلوم ہوتا ہے کہ مخاطب اصلی حضرت آدم علیہ الصلوٰة والسلام تھے، حضرت حواء کی حیثیت تابع کی تھی، مذکورہ آیت میں حضرت آدم و حوا (علیہما السلام) دونوں کے لئے جنت کو مسکن بنانے کا ارشاد ہے جس کو مختصر لفظوں میں یوں بھی کہا جاسکتا ہے، اُسْکُنَا الجنةَ یعنی دونوں جنت میں رہو جیسا کہ : وَکُلَا، اور لَا تَقْرَبَا، میں دونوں کو ایک صیغہ میں جمع کیا گیا ہے مگر یہاں اس کے خلاف اَنْتَ وَزَوْجُکَ ، کے الفاظ اختیار کرنے میں مخاطب صرف حضرت آدم علیہ الصلوٰة والسلام کو قرار دیا ہے اور انہی سے فرمایا کہ تمہاری زوجہ بھی جنت میں رہیں اس میں دو مسئلوں کی طرف اشارہ ہے۔ (1) اول یہ کہ بیوی کے لئے رہائش کا انتظام شوہر کے ذمہ ہے دوسرے یہ کہ سکونت میں بیوی شوہر کے تابع ہے، جس مکان میں شوہر رہے اسی میں رہنا چاہیے۔ (2) اُسْکُنْ میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ اس وقت ان دونوں حضرات کے لئے جنت کا قیام محض عارضی تھا بطور ملکیت نہ تھا، کیونکہ اُسْکُنْ ، کے معنی ہیں اس مکان میں رہا کرو، یہ نہیں فرمایا کہ یہ مکان تمہارا ہے یا تمہیں دیدیا گیا ہے وجہ اس کی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علم میں یہ بات تھی کہ آئندہ ایسے حالات پیش آنے والے ہیں کہ آدم و حواء (علیہما السلام) کو یہ مکان چھوڑنا پڑے گا، اس لئے کہ جنت کا دائمی اسیحقاق تو قیامت کے بعد ایمان و عمل کے صلہ میں ہوگا۔ غذا و خوراک میں بیوی شوہر کے تابع نہیں : وَکُلَا مِنْھَا رَغَدًا، یعنی تم دونوں جنت میں با فراغت کھاؤ، اس میں خطاب صرف آدم علیہ الصلوٰة والسلام کو نہیں ہے بلکہ دونوں کو ایک ہی لفظ میں شریک کرکے تثنیہ کا صیغہ استعمال فرمایا، اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ غذا اور خوراک میں بیوی شوہر کے تابع نہیں وہ اپنی ضرورت اور خواہش کے مطابق استعمال کرسکتی ہیں۔ (معارف) مسئلہ عصمت انبیائ : اس واقعہ سے معلوم ہوا کہ آدم علیہ الصلوٰة والسلام کو ایک خاص قسم کے درخت سے کھانے بلکہ پاس جانے سے بھی منع کردیا گیا تھا اور ساتھ ہی متنبہ کردیا گیا تھا کہ شیطان تمہارا دشمن ہے، اس سے ہوشیار رہنا، اس کے باوجود حضرت آدم علیہ الصلوٰة والسلام نے اس درخت سے کھالیا، جو بظاہر گناہ ہے حالانکہ انبیاء (علیہم السلام) گناہ سے معصوم ہوتے ہیں، قرآن کریم میں متعدد انبیاء (علیہم السلام) کے متعلق ایسے واقعات مذکور ہیں کہ جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ان سے گناہ سرزد ہوا اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان پر عتاب بھی ہوا حضرت آدم علیہ الصلوٰة السلام کا یہ واقعہ بھی اسی میں داخل ہے۔ ایسے واقعات کا حاصل باتفاق امت یہ ہے کہ کسی غلط فہمی یا خطاء و نسیان کی وجہ سے ان کا صدور ہوجاتا ہے کوئی پیغمبر جان بوجھ کر اللہ تعالیٰ کے کسی حکم کے خلاف عمل نہیں کرتا خطاء اجتہادی ہوتی ہے، یہ خطاء و نسیان کے سبب باقی معافی ہوتی ہے، جس کو اصطلاح میں گناہ نہیں کہا جاسکتا، اور سہو و نسیان کی غلطی ان سے ایسے کاموں میں نہیں ہوسکتی جن کا تعلق تبلیغ وتعلیم و تشریح سے ہو، بلکہ ذاتی افعال و اعمال میں ایسا سہو و نسیان ہوسکتا ہے۔ (بحر محیط معارف) آدم علیہ الصلوٰة والسلام کی خطاء کی توجیہ اول : یہ کہ جس وقت آدم علیہ الصلوٰة والسلام کو منع کیا گیا تھا تو ایک خاص درخت کی طرف اشارہ کرکے منع کیا گیا تھا اور مراد وہی خاص درخت نہیں تھا، بلکہ اس کی جنس کے سارے درخت مراد تھے، ہوسکتا ہے کہ حضرت آدم علیہ الصلوٰة والسلام نے اسی مخصوص درخت کی ممانعت سمجھی ہو اور شیطان نے بھی اسی خیال کو وسوسہ کے ذریعہ مستحکم کردیا ہو، اور قسم کھا کر باور کرایا ہو کہ میں تمہارا خیر خواہ ہوں۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ حضرت آدم علیہ الصلوٰة والسلام کو جس وقت شیطان نے اس درخت کے کھانے کے منافع بتلائے ہوں کہ اس درخت کے کھانے سے ہمیشہ ہمیش کے لئے جنت میں رہنے کا اطمینان ہوجائے گا اور اس وقت حضرت آدم کو ممانعت یاد نہ رہی ہو، قرآن مجید کی آیت : '' فَنَسِیَ وَلَمْ نَجِدْلَہ عَزْمًا '' سے اس احتمال کی تائید ہوتی ہے۔ بہرحال اس طرح کے متعدد احتمالات ہوسکتے ہیں جن کا حاصل یہ ہے کہ جان بوجھ کر نافرمانی کا صدور نہیں ہوا، مگر آدم علیہ الصلوٰةو السلام کی شان نبوت اور قرب خداوندی کے مقام کے اعتبار سے یہ لغزش بڑی سمجھی گئی اور قرآن میں اس کو لفظ معصیت سے تعبیر کیا گیا، اور آدم علیہ الصلوٰة والسلام کی توبہ و استغفار کے بعد کافی کا ذکر فرمایا۔ فائدہ : عام طور پر یہ مشہور ہے کہ حضرت حواء کی پیدائش حضرت آدم علیہ الصلوٰة والسلام کی بائیں پسلی سے ہوئی ہے یہ روایت تورات کی ہے۔ اور خداوند نے کہا : اچھا نہیں آدم اکیلا رہے، میں اس کے لئے ایک ساتھی اس کے مانند بناؤں گا اور خداوند خدا نے آدم پر بھاری نیند بھیجی کہ وہ سوگیا اور اس نے اس کی پسلیوں میں سے ایک پسلی نکالی اور اس کے بدلے گوشت بھر دیا، اور خداوند خدا نے اس کی پسلی سے جو اس نے آدم سے نکالی تھی، ایک عورت بنا کر آدم کے پاس لایا اور آدم نے کہا اب یہ میری ہڈیوں میں سے ہڈی اور میرے گوشت میں سے گوشت ہے اس وجہ سے وہ ناری کہلائے گی کہ وہ نر سے نکالی گئی۔ حدیث کی طعض روایتیں جو اس مضمون کی مروی ہوئی ہیں ان میں سے کوئی ایسی نہیں کہ جسے قطعی صحت کا درجہ حاصل ہو۔ (ماجدی) شجر ممنوعہ کیا تھا : ظاہر ہے کہ یہ درخت جنت کے درختوں میں سے کوئی معروف و متعین درخت تھا، حضرت آدم بھی اس سے واقف تھے، لہٰذا اس کی تعیین کے درپے ہونے سے کوئی فائدہ نہیں، جس کو اللہ نے مبہم رکھا، اس کو مبہم ہی رکھنا بہتر ہے محقق امام ابن جزری کا موقف بھی خاموشی اور سکوت کا ہے ہماری بعض تفسیروں میں مادی درختوں میں سے گندم، خرما، کافور، انجیر، حنظل وغیرہ، سے لے کر شجرہ محبت اور شجرہ علم وغیرہ معنوی درختوں تک بہت نام شمار کرائے گئے ہیں۔
Top