Tafseer-e-Jalalain - Al-Baqara : 38
قُلْنَا اهْبِطُوْا مِنْهَا جَمِیْعًا١ۚ فَاِمَّا یَاْتِیَنَّكُمْ مِّنِّیْ هُدًى فَمَنْ تَبِعَ هُدَایَ فَلَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ
قُلْنَا : ہم نے کہا اهْبِطُوْا : تم اتر جاؤ مِنْهَا : یہاں سے جَمِیْعًا : سب فَاِمَّا : پس جب يَأْتِيَنَّكُمْ : تمہیں پہنچے مِنِّیْ : میری طرف سے هُدًى : کوئی ہدایت فَمَنْ تَبِعَ : سو جو چلا هُدَايَ : میری ہدایت فَلَا : تو نہ خَوۡفٌ : کوئی خوف عَلَيْهِمْ : ان پر وَلَا هُمْ : اور نہ وہ يَحْزَنُوْنَ : غمگین ہوں گے
ہم نے فرمایا کہ تم سب یہاں سے اتر جاؤ، جب تمہارے پاس میری طرف سے ہدایت پہنچے تو (اس کی پیروی کرنا کہ) جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے
قُلْنَا اھْبِطُوْا مِنْھَا جَمِیْعًا، جنت سے نیچے اترنے کا حکم حضرت آدم و حواء (علیہما السلام) کے ساتھ ساتھ صلب آدم علیہ الصلوٰةو السلام میں موجود ذریعت کو بھی ہے اس لئے اِھْبِطُوا جمع کا صیغہ لایا گیا ہے۔ یہ حکم بطور سزا نہیں تھا : جنت سے نکلنے کا حکم بطور سزا و عتاب نہیں تھا، اس لئے کہ خطا تو معاف ہوچکی ہے، بلکہ یہ محض نتیجہ طبعی کا ظہور ہے، شجرہ ممنوعہ کا پھل کھا لینے سے جو طبعی اثرات مرتب ہو رہے تھے، ان کے لحاظ سے اب جنت میں قیام کی گجائش نہ تھی، روح کے داغ دھل جانے سے یہ لازم نہیں آتا کہ جسم و مادہ سے بھی غلط کاری کے نقش مٹ جائیں، اگر کوئی شخص خود کشی کے ارادہ سے زہر کھالے اور معاً اسے اپنے عصیان کا اسی پر تنبہ ہوجائے، اور وہ روئے گڑگڑائے دل سے توبہ کرے عجب نہیں کہ اس کا گناہ معاف کردیا جائے، لیکن زہر کے طبعی اثرات جو نظام جسم پر مرتب ہوتے ہیں، وہ تو بہرحال ہو کر رہیں گے۔ (تفسیر ماجدی) مَھْبَطِ آدم و حواء (علیہما السلام) : حضرت آدم وحواء (علیہما السلام) زمین کے کسی خطہ میں اتارے گئے ؟ اس بارے میں روایتیں مختلف ہیں زیادہ تر روایتیں ارض ہند کے بارے میں ہیں ابن ابی حاتم نے ابن عمر ؓ سے روایت کی ہے کہ آدم (علیہ السلام) کوہ صفا اور حواء کو مروہ پر اتارا گیا، اور ابن جریر اور ابن ابی حاتم اور حاکم سے مروی ہے اور اس کو صحیح قرار دیا ہے ابن عباس نے کہا ہے حضرت آدم کا ہبوط اولی ارض ہند میں ہوا۔ (فتح القدیر شوکانی) اور ایک روایت میں جو کہ ابن ابی حاتم سے منقول ہے کہا گیا ہے کہ مکہ اور طائف کے درمیان آپ کا نزول ہوا اور ابن جریر (رح) تعالیٰ اور حاکم (رح) تعالیٰ کی ایک توایت جس کو انہوں نے صحیح کہا ہے یہ ہے کہ حضرت علی ؓ نے فرمایا کہ حضرت آدم کا ہبوط ارض ہند میں ہوا۔ (مخلصا) اور ابن ابی سعد (رح) تعالیٰ اور ابن عساکر (رح) تعالیٰ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ آدم علیہ الصلوٰة والسلام ارض ہند میں اور حواء جدہ میں اترے، حضرت آدم حواء کی تلاش میں جدہ آئے اور خازن میں ہے کہ آدم سرزمین ہند سرندیپ میں اور حضرت حواء جدہ میں اترے اور ابلیس بصرہ میں ایلہ کے مقام پر اترا۔ (تفسیر خازن، ص : 5) مذکورہ روایات کے علاوہ اور بھی روایات ہیں، جو آپس میں مختلف ہیں مگر ان میں تطبیق ممکن ہے ظاہر ہے کہ ہبوط حقیقی تو ایک ہی جگہ ہوا ہو مگر انتقال مکانی کو مجازاً ہبوط سے تعبیر کردیا گیا ہو۔
Top