Tafseer-e-Jalalain - Al-Baqara : 40
یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اذْكُرُوْا نِعْمَتِیَ الَّتِیْۤ اَنْعَمْتُ عَلَیْكُمْ وَ اَوْفُوْا بِعَهْدِیْۤ اُوْفِ بِعَهْدِكُمْ١ۚ وَ اِیَّایَ فَارْهَبُوْنِ
يَا بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ : اے اولاد یعقوب اذْكُرُوْا : تم یاد کرو نِعْمَتِيَ : میری نعمت الَّتِیْ : جو اَنْعَمْتُ : میں نے بخشی عَلَيْكُمْ : تمہیں وَاَوْفُوْا : اور پورا کرو بِعَهْدِیْ : میرا وعدہ أُوْفِ : میں پورا کروں گا بِعَهْدِكُمْ : تمہارا وعدہ وَاِيَّايَ : اور مجھ ہی سے فَارْهَبُوْنِ : ڈرو
اے آل یعقوب ! میرے وہ احسان یاد کرو جو میں نے تم پر کئے تھے اور اس اقرار کو پورا کرو جو تم نے مجھ سے کیا تھا میں اس اقرار کو پورا کروں گا جو میں نے تم سے کیا تھا اور مجھی سے ڈرتے رہو
یٰبَنِیْ اِسْرَآئِ یْلَ اذْکُرُوْا ....... الیٰ ..... وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ ۔ ترجمہ : اے بنی اسرائیل اولاد یعقوب میری ان نعمتوں کو یاد کرو، جو میں نے تم کو عطا کیں، یعنی تمہارے آباء و اجداد کو مثلاً فرعون سے نجات دینا اور دریا کو پھاڑ دینا اور بادل کو سایہ فگن بنانا، وغیرہ وغیرہ بایں طور کہ میری اطاعت کرکے میری نعمتوں کا شکریہ ادا کرو، اور تم میرے عہد کو پورا کرو، جو میں نے تم سے لیا اور وہ محمد ﷺ پر ایمان لانے کے متعلق ہے میں تمہارے عہد کو پورا کروں گا، جو میں نے تمہارے ساتھ کیا ہے یعنی ایمان لانے پر جنت میں داخل کرکے ثواب عطا کروں گا، اور مجھ ہی سے ڈرو، یعنی عہد شکنی کرنے میں مجھ سے ڈرو نہ کہ میرے علاوہ کسی اور سے اور اس قرآن پر ایمان لاؤ جو تمہاری کتابوں کی یعنی تورات کی تصدیق کے لئے میں نے نازل کیا ہے، توحید اور نبوت میں اس (قرآن) کے اس (تورات) کے موافق ہونے کی وجہ سے اور تم اہل کتاب میں سے اول منکر نہ بنو، اس لئے کہ تمہارے بعد آنے والے تمہاری اتباع کریں گے تو ان کا گناہ بھی تمہارے اوپر ہوگا اور میری ان آیتوں کو جو تمہاری کتاب میں ہیں مثلاً محمد ﷺ کی صفات کو حقیر قیمت کے عوض فروخت نہ کرو، یعنی دنیوی معمولی بضاعت سے تبدیلی نہ کرو، یعنی ان صفات کو اس حقیر معاوضہ کے فوت ہونے کے خوف سے مت چھپاؤ، جس کو تم اپنے کمزور طبقوں سے وصول کرتے ہو، اور مجھ ہی سے ڈرو، یعنی اس معاملہ میں مجھ ہی سے ڈرو، نہ کہ میرے علاوہ کسی اور سے اور حق کو جو میں نے تمہاری طرف نازل کیا ہے، باطل کے ساتھ جس کو تم گھڑتے ہو خلط ملط کرو، اور نہ حق کو چھپاؤ، یعنی محمد ﷺ کی صفت کو کہ تمہیں تو خود اس کا علم ہے کہ وہ (رسول) برحق ہیں۔ تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد قولہ : یٰبنِیْ اِسْرَائِیْلَ ، یعنی اولاد یعقوب، اسرائیل عربی لفظ ہے یا عجمی اس میں اختلاف ہے صحیح یہ ہے کہ عجمی ہے اور یہی وجہ ہے کہ عجمہ اور علم ہونے کی وجہ سے غیر منصرف ہے، اسرائیل مرکب اضافی ہے، اِسرا بمعنی عبد، اِیل بمعنی اللہ، یعنی عبد اللہ یا صفوة اللہ (اللہ کا برگزیدہ) اور اسرائیل حضرت یعقوب بن اسحاق (علیہما السلام) کا لقب ہے۔ قولہ : بان تشکروھا، بطاعتی اس کا تعلق اُذکُرُوْا سے ہے، اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اذکروا نعمتی، سے مراد صرف ذکر شمار ہی نہیں ہے، بلکہ ان نعمتوں کا شکریہ ادا کرنا ہے ورنہ ذکر و شمار تو ہر شخص کرتا ہے حتی کہ کافر و مشرک بھی کرتا ہے۔ قولہ : علیٰ آبائکم، اس اضافہ کا مقصد ایک سوال مقدر کا جواب ہے۔ سوال : اَنْعَتُ علیکم، کے مخاطب آپ ﷺ کے زمانہ کے یہود ہیں اور اَنعمتُ علیکم کی تفسیر میں جن انعامات کو شمار کرایا گیا ہے، ان میں سے ایک بھی آپ ﷺ کے زمانہ میں موجود یہودیوں پر نہیں ہوا، پھر آپ ﷺ کے زمانہ کے یہودیوں کو مخاطب کرکے انعمت علیکم کہنا کیسے درست ہے ؟ جواب : عبارت حذف مضاف کے ساتھ ہے ای انعمتُ علی آبائکم، لہٰذا اب کوئی اشکال نہیں رہا۔ قولہ : اَوْفوا، تم پورا کرو، یہ ایفاء (افعال) سے جمع مذکر امر حاضر ہے۔ قولہ : اُوْفِ ، میں پورا کروں گا۔ ایفاء سے مضارع واحد متکلم ہے۔ قولہ : اَوْفُوْا بِعَھْدِی اُوْفِ بِعَھْدِکُمْ ، تم میرا عہد پورا کرو میں تمہارا عہد پورا کروں گا۔ سوال : اس آیت میں بنی اسرائیل سے اس عہد کے پورا کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے، جو بنی اسرائیل نے نہیں کیا، بلکہ اُوْفوا بِعَھْدِی، سے معلوم ہوتا ہے کہ : عہد اللہ تعالیٰ نے کیا ہے، بنی اسرائیل سے ایفاء عہد کا مطالبہ کرنا، یہ تو غیر فاعل سے ایفاء کا مطالبہ کرنا ہے جو درست نہیں ہے۔ جواب : جو عہد مُعَاہِد، (فاعل) کے فعل پر معلق ہو، تو مفعول یعنی (فریق ثانی) کی جانب سے معلق علیہ کو پورا کرنا وفاء عہد کہلائے گا اور فاعل معاہد (اللہ) کا عہد جنت میں داخل کرنا ہے، جو معلق ہے، بنی اسرائیل کے ایمان لانے پر اور بنی اسرائیل کا ایمان معلق علیہ (شرط) ہے لہٰذا معلق پورا کرنے کے لئے معلق علیہ کے وفاء کا مطالبہ کرنا صحیح ہے : '' اِنّ العَھْدَ الْمعلقَ علی فعلِ المعاھدِ یکونُ الوفائُ مِنَ المفعول بالْلِتیان بالمعلق علیہ وَمِنَ الفاعلِ بالاتیان بالمعلق فالمراد بِعَھْدِ اللّٰہِ اِیّاہم بالایمان والعمل الصالح، فیصح طلب الوفاء منھم بالاتیان ''۔ (ترویح الاروح) قولہ : اَلَّذِیْ عَھدتُہ اِلیکم، اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ دونوں جگہ عہد مصدر مضاف الی الفاعل ہے اور ان لوگوں کا رد ہے جو کہتے ہیں اول مضاف الی الفاعل ہے اور ثانی مضاف الی المفعول ہے اور رد کی وجہ یہ ہے کہ : اضافت الی الفاعل اکثر واقع ہے اور راجح ہے، لہٰذا جب تک کوئی صارف موجود نہ ہو، ترک نہیں کیا جائے گا اور یہاں کوئی موجود نہیں ہے۔ قولہ : دونَ غیری، یہ اس حصر کی جانب اشارہ ہے جو اِیَّایَ فَارْھَبُوْنِ میں تقدیم مفعول سے مستفاد ہے۔ قولہ : من اہل الکتاب، اس اضافہ کا مقصد بھی ایک سوال مقدر کا جواب ہے۔ سوال : یہ ہے کہ آپ ﷺ کی بعثت مکہ میں ہوئی اور سب سے پہلے نبوت کا دعویٰ بھی آپ نے مکہ میں کیا، جس کا کفار مکہ نے انکار کردیا، تو اس اعتبار سے اول منکرین کفار مکہ ہیں نہ کہ مدینہ کے یہود۔ جواب : یہاں اول منکرین سے مراد اہل کتاب ہیں۔ قولہ : تستبدلوا، تَشْتَرُوا، کی تفسیر، تَسْتَبْدِلُوْا سے کرنے کا مقصد اس بات کی طرف اشارہ کرنا ہے کہ یہاں اشتراء کے حقیقی معنی نہیں ہیں اس لئے کہ یہ باء ثمن پر داخل ہوئی ہے یہاں آیاتی پر داخل ہے، لہٰذا آیاتی ثمن ہوگا اور ثمنا مبیع ہوگی، یعنی آیات دیکر ثمن مت خریدو، اور یہ حقیقة متعذرہ ہے لہٰذا اشتراء سے مجازاً استبدال مراد ہے۔ تفسیر و تشریح نبی اسرائیل سے خطاب : مشہور نامور پیغمبر حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰة والسلام عراقی ثم شامی ثم حجازی، 2160 یا 1985 ق م، سے دو نسلیں چلیں ایک بی بی ہاجرہ مصری کے بطن کے فرزند حضرت اسماعیل علیہ الصلوٰة والسلام سے، یہ نسل بنی اسرائیل کہلائی اور آگے چل کر قریش اسی کی ایک شاخ پیدا ہوئی، ان کا وطن عرب رہا، دوسری نسل بی بی سارہ عراقی کے بطن کے فرزند حضرت اسحاق علیہ الصلوٰة والسلام کے بیٹے حضرت یعقوب عرف اسرائیل سے چلی، یہ نسل بنی اسرائیل کہلائی اس کا وطن ملک شام رہا ایک تیسری بیوی حضرت قطورہ سے چلی، وہ بنی قطورہ کہلائی، لیکن اسے تاریخ میں اس درجہ کی اہمیت حاصل نہیں۔ بنی اسرائیل کا عروج صدیوں تک رہا مدتوں تک یہی قوم توحید کی علمبردار رہی غرضیکہ ایک زمانہ تک قوم بنی اسرائیل دینی اور دنیوی اعتبار سے سکہ رائج الوقت رہی ان میں بڑے بڑے صاحب اقتدار بادشاہ ہوئے اور فوجی جرنیل بھی اور اولو العزم پیغمبر و صلحاء واولیاء بھی مگر نزول قرآن سے مدتوں پہلے ان کا اقتدار رخصت ہوچکا تھا، ان کا شیرازہ بکھر کر دنیا میں منتشر ہوچکا تھا، ان کے بعض قبیلے حجاز اور اطراف حجاز خصوصاً یثرب (مدینہ) اور حوالی یثرب میں آباد ہوچکے تھے۔ بنی اسرائیل تو ایک نسلی نام ہے مذہبی حیثیت سے یہ لوگ یہود تھے توریت محرف، مسخ شدہ بہر حال جیسی بھی تھی، ان کے پاس موجود تھی، دینی سیادت ابھی تک ان کے پاس تھی، دنیوی اعتبار سے مالدار تھے، تجارت کے بڑے ماہر تھے، حجاز کی آبادی میں اس دینی و دنیوی تفوق کی بناء پر ان کو اچھی خاصی اہمیت حاصل تھی، ساتھ ہی ساتھ سفلی عملیات سحر و کہانت میں بڑے ماہر تھے، ملک کی عام آبادی مشرکوں اور بت پرستوں کی تھی، وہ لوگ ایک طرف تو یہود کے علم و فضل کے قائل تھے، اور ان کی دینی واقفیت سے مرعوب تھے اور دوسری طرف اکثر ان کے قرض دار بھی رہا کرتے تھے، اور جیسا کہ عام قاعدہ ہے کہ منظم اور غالب قوموں کے تمدن سے، کمزور اور غیر منظم قومیں مرعوب و متاثر ہوجاتی ہیں، مشرکین عرب بھی اسرائیلی اخلاق، اسرائیلی روایات بلکہ اسرائیلی عقائد سے بہت کچھ متاثر ہوچکے تھے، ان سب چیزوں کے علاوہ یہود کے مذہبی توشتوں اور اسرائیلیوں کی مقدس زبانی روایتوں میں ایک آنے والے نبی کی بشارت موجود تھی، اور یہ لوگ اس نبی موعود کے منتظر رہتے تھے، ان اسباب کی بناء پر یہ امر بالکل قدرتی تھا، کہ قرآن مجید میں تخاطب اس قوم کے ساتھ ہو اور خوب تفصیل سے ہو چناچہ چودھویں رکوع تک بڑی تفصیل کے ساتھ ان سے خطاب کیا گیا ہے۔ قرآن کے مخاطبین : مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ایک نظر قرآن مجید کی ترتیب بیان پر کرلی جائے، قرآن مجید کا اصل تخاطب نوع انسانی سے ہے، اسی مناسبت سے اول رکوع میں اس کا بیان ہوا کہ نوع انسانی کی حقیقی دو قسمیں ہیں ایک اچھے یا مومن دوسرے برے یا کافر، مومن یا نیک وہ ہیں جو قرآن مجید کے دستور حیات کو تسلیم کرتے ہیں، کافر یا بد وہ ہیں جو اس سے انکار کرتے ہیں، دوسرے رکوع میں کافروں ہی کی ایک خاص قسم کا بیان ہے، جن کو منافق کہا جاتا ہے، ان کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ : یہ لوگ بھی ایمان اور نجات سے محروم ہی رہیں گے، تیسرے رکوع میں ساری نسل انسانی کو مخاطب کیا گیا ہے اور قرآن مجید کا اصل پیغام یعنی توحید و رسالت بیان کیا گیا ہے، چوتھا رکوع تاریخ انسانی سے متعلق ہے، اس میں بیان ہوا ہے کہ انسان کی آفرینش سے اصل غرض دنیا میں قانون الٰہی کی تنفیذ ہے اور حاکمیت الٰہی کی نیابت ہے ذرا سی غفلت کی وجہ سے نسل انسانی کا دیرینہ دشمن شیطان اس کو پچھاڑ سکتا ہے اور حق سے باطل کی جانب اور نور سے ظلمت کی طرف موڑ سکتا ہے، لیکن اگر انسان ذرا بھی ہمت اور ہوشمندی سے کام لے اور انبیاء کی بتائی ہوئی صراط مستقیم پر قائم رہے، تو وہی غالب و منصور رہے گا، اب پانچویں رکوع سے بڑی تفصیل سے اس کا بیان شروع ہوتا ہے کہ مدت دراز ہوئی ایک بڑے مقبول برگزیدہ بندے کی اولاد میں ایک خاص نسل کو توحید کی خاص نعمت سے سرفراز کیا گیا تھا وہ قوم اس کی نااہل ثابت ہوئی موقع اسے بار بار دیا گیا، اس کے ساتھ رعایت بار بار کی گئی، لیکن ہر بار اس نے اس نعمت کو اپنے ہاتھوں ضائع کیا، یہاں تک کہ اپنی نسل کے آخری پیغمبر حضرت عیسیٰ کی مخالفت میں تو حد ہی کردی، طویل اور مسلسل مراعات کے بعد اب حکومت الٰہیہ کا دستور ایک نیا ضابطہ اختیار کرتا ہے، اس ناشکرگزار، نافرمان، عصیان پیشہ قوم کو اس منصب سیادت سے معزول کیا جاتا ہے، اور یہ نعمت ان سے چھین کر ایک اسماعیلی پیغمبر کے واسطہ سے دنیا کی تمام قوموں اور نسلوں کے لئے عام کی جا رہی ہے۔
Top