Tafseer-e-Jalalain - Al-Baqara : 42
وَ لَا تَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَ تَكْتُمُوا الْحَقَّ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ
وَلَا تَلْبِسُوْا : اور نہ ملاؤ الْحَقَّ : حق بِالْبَاطِلِ : باطل سے وَتَكْتُمُوْا : اور ( نہ) چھپاؤ الْحَقَّ : حق وَ اَنْتُمْ : جبکہ تم تَعْلَمُوْنَ : جانتے ہو
اور حق کو باطل کے ساتھ نہ ملاؤ اور سچی بات کو جان بوجھ کر نہ چھپاؤ
وَلَا تَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَتَکْتُمُوا الْحَقَّ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ : اس آیت کو سمجھنے سے پہلے تمہید کے طور پر یہ بات سمجھ لینی چاہیے، کہ اہل عرب '' بالعموم '' ناخواندہ تھے، ان کے مقابلہ میں یہود تعلیم یافتہ تھے، اس وجہ سے عربوں پر یہودیوں کا علمی رعب بہت زیادہ تھا، اس کے علاوہ ان کے علماء اور مشائخ نے اپنے مذہبی درباروں کی ظاہری شان جما کر اور اپنی جھاڑ پھونک اور تعویذ گنڈوں کا کاروبار چلا کر اس رعب کو اور بھی زیادہ وسیع کردیا تھا، ان حالات میں جب نبی ﷺ نے اپنے آپ کو نبی کی حیثیت سے پیش کیا اور لوگوں کو اسلام کی دعوت دینی شروع کی، تو قدرتی بات تھی کہ ان پڑھ عرب اہل کتاب یہودیوں سے جا کر پوچھتے کہ آپ لوگ بھی ایک نبی کے پیرو ہیں اور ایک کتاب کو مانتے ہیں، آپ ہمیں بتائیں کہ یہ صاحب ہمارے اندر نبوت کا دعویٰ لے کر اٹھے ہیں ان کے متعلق، ان کی تعلیم کے متعلق آپ حضرات کی کیا رائے ہے۔ مگر علماء یہود نے کبھی لوگوں کو صحیح بات نہ بتائی حالانکہ ان کے مذہبی نوشتوں میں ایک نبی آخر الزمان کی آمد کی صراحت کے ساتھ پیشین گوئی موجود تھی اور آنے والے نبی کے اوصاف کا بھی ذکر تھا سیدھی اور صاف بات بتانے کے بجائے، انہوں نے یہ طریقہ اختیار کیا کہ ہر سائل کے دل میں نبی ﷺ کے خلاف، آپ کی جماعت کے خلاف اور آپ کے مشن کے خلاف کوئی نہ کوئی وسوسہ ڈال دیتے تھے، غرض کہ وہ حق کو چھپانے اور اس پر پردہ ڈالنے کی ہر ممکن کوشش کرتے کبھی کوئی ایسا شوشہ چھوڑ دیتے تھے کہ جس سے لوگ شکوک و شبہات میں پڑجائیں اور کبھی لوگوں کو الجھن میں ڈالنے والے سوالات سکھا دیتے تاکہ لوگ خود ہی تذبذب کا شکار ہوجائیں، یہود کے اسی رویے کی بنا پر فرمایا جا رہا ہے کہ حق پر باطل کا پردہ نہ ڈالو، حق و باطل کو خلط ملط کرکے دنیا کو دھوکا نہ دو ۔ فائدہ : بعض مفسرین نے تعلق بالبعید کے طور پر یہاں اجرت علی تعلیم القرآن وغیرہ کی بحث چھیڑی ہے، قرطبی (رح) تعالیٰ نے اس بحث کو بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے شائقین رجوع کرسکتے ہیں۔ تعلیم قرآن پر اجرت کا مسئلہ : اجرة علیٰ تعلیم القرآن کا مسئلہ سلف سے مختلف فیہ رہا ہے، مگر اس آیت سے اس مسئلہ کا کوئی تعلق نہیں ہے، امام مالک، شافعی، احمد بن حنبل (رح) تعالیٰ جائز دیتے ہیں، اور امام ابوحنیفہ (رح) تعالیٰ اور بعض دیگر ائمہ منع فرماتے ہیں، لیکن متاخرین حنفیہ نے بھی جب ان حالات کا مشاہدہ کیا کہ قرآن مجید کے معلمین کو اسلامی بیت المال سے گزارہ ملا کرتا تھا، اب ہر جگہ اسلامی نظام میں فتور کے سبب ان معلمین کو عموماً کچھ نہیں ملتا، یہ اگر اپنی معاش کے لئے کسی محنت مزدوری یا تجارت وغیرہ میں لگ جائیں، تو بچوں کے تعلیم قرآن کا سلسلہ یکسر بند ہوجائے گا، اس لئے تعلیم قرآن پر معاوضہ لینے کو بضرورت جائز قرار دیا، صاحب ہدایہ کے بعد آنے والے دوسرے فقہاء نے بعض ایسے ہی دوسرے وظائف جن پر تعلیم قرآن کی طرح دین کی بقاء موقوف ہے، مثلاً امامت و اذان اور تعلیم حدیث وفقہ وغیرہ کو تعلیم قرآن کے ساتھ ملحق کرکے ان کی اجازت دی ہے۔ (درمختار، شامی) ایصال ثواب کے لئے قرآن خوانی پر اجرت لینا جائز نہیں : علامہ شامی نے درمختار کی شرح میں اور اپنے رسالہ شفاء العلیل میں بڑی اور قوی دلائل کے ساتھ یہ بات واضح کردی ہے کہ تعلیم قرآن وغیرہ پر اجرت لینے کی جن متاخرین نے اجازت دی ہے اس کی علت ایک ایسی دینی ضرورت ہے جس میں خلل آنے سے دین کا پورا نظام مختل ہوجاتا ہے، اس لئے اس کو ایسی ہی ضرورت کے موقع میں محدود رکھنا ضروری ہے، اس لئے مردوں کو ایصال ثواب کے لئے ختم قرآن کرانا یا کوئی دوسرا وظیفہ پڑھوانا اجرت کے ساتھ حرام ہے۔ (معارف)
Top