Tafseer-e-Jalalain - Al-Baqara : 47
یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اذْكُرُوْا نِعْمَتِیَ الَّتِیْۤ اَنْعَمْتُ عَلَیْكُمْ وَ اَنِّیْ فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعٰلَمِیْنَ
يَا بَنِیْ : اے اولاد اِسْرَائِیْلَ : یعقوب اذْكُرُوْا : تم یاد کرو نِعْمَتِيَ : میری نعمت الَّتِیْ : جو اَنْعَمْتُ : میں نے بخشی عَلَيْكُمْ : تم پر وَاَنِّیْ : اور یہ کہ میں نے فَضَّلْتُكُمْ : تمہیں فضیلت دی میں نے عَلَى الْعَالَمِیْنَ : زمانہ والوں پر
اے یعقوب کی اولاد میرے وہ احسان یاد کرو جو میں نے تم پر کئے تھے اور یہ کہ میں نے تم کو جہان کے لوگوں پر فضلیت بخشی تھی
آیت نمبر 47 تا 54 یٰبَبِیْ اِسْرَائِیْلَ اذْکُرُوْا نِعْمَتِیَ الَّتِیْ اَنْعَمْتُ عَلَیْکُمْ .... الیٰ .... اِنَّہ ھُوْ التَوَّابُ الرَّحِیْمُ ۔ ترجمہ : اے اولاد یعقوب میری اس نعمت کو یاد کرو، جس سے میں نے تم کو نوازا تھا، یعنی ان نعمتوں پر شکر گزاری کے ذریعہ اطاعت کرکے اور میں نے تم کو یعنی تمہارے آباء کو عالم والوں پر (یعنی) اس زمانہ کے عالم والوں پر فضیلت عطاء کی تھی اور اس دن سے ڈرتے رہو، جس دن کوئی کسی کے کچھ بھی کام نہ آئے گا، اور وہ قیامت کا دن ہے، اور نہ کسی کی طرف سے سفارش قبول کی جائے گی، (یُقْبَلُ ) یاء اور تاء کے ساتھ ہے، یعنی اس کے لئے سفارش ہی نہیں ہوگی، کہ قبول کی جائے، جیسا کہ فما لنا من شافعین سے معلوم ہوتا ہے اور نہ کسی کو فدیہ لے کر چھوڑا جائے گا، اور نہ ان کی مدد کی جائے گی کہ وہ اللہ کے عذاب سے بچا لئے جائیں اور وہ وقت یاد کرو، جب کہ ہم نے تم کو یعنی تمہارے آباء کو اور خطاب اس کے اور مابعد کے ذریعہ ان (یہودیوں) کو ہے، جو آپ ﷺ کے زمانہ میں موجود تھے، ان انعامات کی ان کو خبر دی جارہی ہے جو ان کے آباہ کو عطا کئے گئے تھے، اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو یاد لانے کے لئے تاکہ ایمان لے آئیں، آل عمران کی (غلامی) سے نجات دی، تم کو بدترین عذاب چکھا رہے تھے، یعنی شدید ترین عذاب اور جملہ، نَجّینٰکُمْ کی ضمیر سے حال ہے، تمہارے (نو) مولود لڑکوں کو ذبح کر رہے تھے، یُذبّحُوْنَ ماقبل سے بدل ہے، اور تمہاری لڑکیوں کو زندہ چھوڑ رہے تھے، بعض کاہنوں کے فرعون سے یہ کہنے کی وجہ سے کہ بنی اسرائیل میں ایک لڑکا پیدا ہوگا، جو تیری حکومت کے زوال کا سبب بنے گا، اور اس عذاب یا نجات دینے میں تمہارے رب کی جانب سے بڑی آزمائش یا انعام ہے اور یاد کرو وہ وقت جب ہم نے تمہارے لئے دریا پھاڑ دیا تھا، یہاں تک کہ تم اپنے دشمن سے بھاگ کر اس میں داخل ہوگئے اور تم کو غرق سے نجات دی اور آل فرعون اور اس کی قوم کو مع فرعون کے ہم نے غرق کردیا اور تم دریا کا ان پر ملنا دیکھ رہے تھے، اور جب ہم نے موسیٰ علیہ الصلاة والسلام سے چالیس راتوں وعدہ کیا، (وَاعَدْ نَا) میں الف دونوں قراءتیں ہیں کہ ہم اس مدت کے پورا ہونے پر تورات عطا کریں گے، تاکہ تم اس پر عمل کرو، پھر تم نے اس بچھڑے کو معبود بنالیا، جس کو تمہارے لئے سامری نے ڈھالا تھا، موسیٰ علیہ الصلاة والسلام کے ہمارے مقام وعد پر جانے کے بعد اور تم اس کے معبود بنانے کی وجہ سے ظلم بن گئے، عبادت کو غیر محل میں رکھنے کی وجہ سے پھر ہم نے تم کو معاف کردیا، یعنی تمہارے گناہوں کو معاف کردیا، بچھڑے کو معبود بنانے کے بعد تاکہ تم اپنے اوپر ہماری نعمتوں کا شکر ادا کرو، اور جب ہم نے موسیٰ علیہ الصلاة والسلام کو کتاب تورات اور فرقان عطاکی یہ عطف تفسیری ہے، یعنی حق و باطل اور حلال و حرام کے درمیان فرق کرنے والی تاکہ تم اس کے ذریعہ گمر اہی سے ہدایت حاصل کرو، اور جب موسیٰ علیہ الصلاة والسلام نے اپنی قوم سے جنہوں نے گائے کی پرستش کی تھی، فرمایا اے میری قوم تم نے بچھڑے کو معبود بناکو اپنے اوپر ظلم کیا ہے لہٰذاتم اپنے خالق سے اس کی عبادت سے توبہ کرو، لہٰذا تم آپس میں ایک دوسرے کو قتل کرو، یعنی تم میں بری، مجرم کو قتل کرے یہ قتل تمہارے لئے بہتر ہے تمہارے پیدا کر نیوالے کے نزدیک تو اللہ تعالیٰ نے تمہیں اسکی توفیق دی اوپر سیا بادل بھیج دیا۔ تاکہ تم میں سے بعض بعض کو نہ دیکھ سکے کہ اس پر ترس کھائے، یہاں تک کے تم میں قتل کئے گئے ستر ہزار کے لگ بھگ پس اللہ نے تمہاری توبہ قبول کی بیشک وہ توبہ کو قبول کو نیوالا اور رحم کو نیوالا ہے۔ تحقیق و ترکیب وتسہیل وتفسیری فوائد قولہ : عَالَمِیْ زمَ نِِھِمْ ، اس اضافہ کا مقصد ایک سوال کا جواب ہے۔ سوال : عَالَمْ ماسوی اللہ کو کہتے ہیں، بنی اسرائیل کی ماسوی اللہ پر فضلیت سے لازم آتا ہے کہ امت محمد یہ ﷺ پر بھی فضیلت حاصل ہو حالانکہ محمد یہ ﷺ تمام امتوں میں افضل ترین امت ہے۔ جواب : عالم سے اس زمانہ کے موجودین مراد ہیں، نہ کہ مطلق موجودین۔ قولہ : عَدْل، بمعنی، عوض، بدلہ، معاوضہ، انصاف، فدیہ، عِدل کسرئہ عین کے ساتھ بمعنی مثل، ابو عمرنے کہا ہے کہ فتحہ اور کسرہ کے ساتھ ہم معنی ہیں۔ قولہ : وَلَاھُمْ یُنْصَرُوْنَ ۔ یہ ایک سوال کا جواب ہے۔ سوال : ھُمْ ضمیر جمع مزکر کی ہے، نفس کی طرف راجع ہے حالا ن کہ نفس مفرد ہے۔ جواب : نفس، نکرہ کے تحت النفی داخل ہونے کی وجہ سے عموم پر دلالت کرتا ہے، جس کی وجہ سے نفس میں جمعیت کے معنی پیدا ہوگئے ہیں سوال : ھُمْ ،۔ جواب : نَفْس، عِبَاد، کی تاویل ہے۔ قولہ : یَسُوْمُوْنَکمْ ، یہ سَوْم (ن) سے مضارع جمع مذکر غائب کا صیغہ ہے، وہ تم کو تکلیف دیتے ہیں، مجبور کرتے ہیں قولہ : بَیَان لِّمَا قَبْلَہ، یعنی یُذَبِّحُوْنَ ، بعضماقبل یعنی یسومونکم کا بیان ہے، اس لئے کہ متعدد اور مختلف قسم کی تکالیف میں سے یہاں صرف ذبح کا ذکر ہے۔ قولہ : یَسْتَحْیُوْنَ ، اِسْتحیاء (استفعال) سے جمع مذکر غائب مضارع وہ زندہ چھوڑ دیتے ہیں، یَسْتَحْیُوْنَ اصل میں یَسْتَحْیِیُوْنَ دریاؤں کے ساتھ تھا، پہلی یاء عین کلمہ اور دوسری لام کلمہ پہلی یاء پر کسرہ دشوار ہونے کی وجہ سے کسرہ حذف ہوگیا، اس کے بعد یاء اور حاء کے درمیان التقاء ساکنین ہوا، جس کی وجہ سے یاء حذف ہوگئی، اور کہا گیا ہے کہ تخفیفاً یاء ثانیہ کو حذف کردیا گیا اور پہلی یاء کو واؤ کی مناسبت سے ضمہ دیدیا گیا ہے، لڑکیوں کو مایَؤل کے اعتبار سے نساء سے تعبیر کردیا گیا ہے۔ قولہ : وفی ذلکم، خبر مقدم ہے، بَلَائ مِّنْ رَّبِکُمْ عَظِیْم، مبتداء مؤخر ہے۔ قولہ : اَلسَّامِرِیّ ، سامری کا اصل نام موسیٰ ہے یہ شخص ولد الزنا تھا، نسلاً اسرائیلی تھا، اس کی والدہ نے شرم اور بدنامی کے خوف سے اس کو ایک پہاڑ کی غار میں جنا تھا اور بدنامی کے خوف سے غار ہی میں چھوڑ دیا تھا، حضرت جبرائیل علیہ الصلوٰة والسلام نے اس کی پرورش فرمائی تھی۔ فموسَی الذی رَبَّاہُ جبرئیل کافر وموسی الذی رَبَّاہُ فرعون مرسل . اللغة والبلاغة عَدْل بفتحة العین وھو الفداء لِانَّہ معادل للمفدیّ قیمة وقدراً اِن لم یکن من جنسہ، وبکسر العین ھو المساوی فی الجنس والجرم ویقال عدل وعَدِیْل الی بالجملہ معطوفة التی ہی '' وَلاہم یُنْصرون '' اسمیة مع اَنّ الجمل التی قبلہا فعلیة للمبالغة والدلالة علی الثباتِ والدیمومة، ای اَنَّہُمْ غیرُ منصورین دائماً ، ولا عبرة بما یصادفونَہ مِن نجاح موقتٍ '' موسیٰ علم اعجمی لا ینصرف ھو فی الاصل مرکب، ھو فی الاصل موشی بالشین المعجمة، لأنّ المائَ بالعَبْریّةِ یقال لہ موء والشجر یقال لہ، شا، فعربت العربُ وقالوا : موسیٰ ۔ تفسیر و تشریح یٰبَنِی اِسْرَآئِیْلَ ، یہاں سے دوبارہ بنی اسرائیل کو وہ انعامات یاد لائے جا رہے ہیں جو ان پر کئے گئے اور ان کو قیامت کے دن سے ڈرایا جا رہا ہے، جس دن کوئی کسی کے کام نہ آئے گا نہ کسی کی سفارش قبول ہوگی اور نہ معاوضہ دے کر چھٹکارا پاسکے گا۔ دراصل یہ اس دور کی طرف اشارہ ہے جب تمام دنیا کی قوموں میں ایک بنی اسرائیل کی قوم ہی ایسی تھی جس کے پاس اللہ کا دیا ہوا علم حق موجود تھا، اور جس کو اقوال عالم کا امام و رہنما بنادیا گیا تھا تاکہ وہ بندگی رب کے راستہ پر سب قوموں کو بلائے اور چلائے۔ بنی اسرائیل کے بگاڑ کی ایک بہت بڑی وجہ یہ تھی کہ آخرت کے متعلق ان کے عقیدے میں خرابی آگئی تھی، وہ اس قسم کے خیال خام میں مبتلا ہوگئے تھے کہ ہم جلیل القدر انبیاء کی اولاد ہیں بڑے بڑے اولیاء صلحاء اور زہّاد سے نسبت رکھتے ہیں ہماری بخشش تو ان بزرگوں کے صدقہ میں ہو ہی جائیگی، ان کے دامن سے وابستہ ہونے کے بعد بھلا کوئی سزا کس طرح پاسکتا ہے، اسی غلط فہمی کو دور کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے انعامات اور احسانات کو شمار کرانے کے معاً بعد فرمایا : '' وَاتَّقُوْا یَوْمًا لاَّ تَجْزِیْ نَفْس عَنْ نَّفْس شَیْئًا وَّلاَ یُقْبِلُ مِنْھَا شَفَاعَة وَّلاَ یُؤٰخَذُ مِنْھَا عَدْل وَّلاَہُمْ یُنْصَرُوْنَ ''
Top