Tafseer-e-Jalalain - Al-Baqara : 55
وَ اِذْ قُلْتُمْ یٰمُوْسٰى لَنْ نُّؤْمِنَ لَكَ حَتّٰى نَرَى اللّٰهَ جَهْرَةً فَاَخَذَتْكُمُ الصّٰعِقَةُ وَ اَنْتُمْ تَنْظُرُوْنَ
وَاِذْ قُلْتُمْ : اور جب تم نے کہا يَا مُوْسَىٰ : اے موسٰی لَنْ : ہرگز نُؤْمِنَ : ہم نہ مانیں گے لَکَ : تجھے حَتَّىٰ : جب تک نَرَى اللہ : اللہ کو ہم دیکھ لیں جَهْرَةً : کھلم کھلا فَاَخَذَتْكُمُ : پھر تمہیں آلیا الصَّاعِقَةُ : بجلی کی کڑک وَاَنْتُمْ : اور تم تَنْظُرُوْنَ : دیکھ رہے تھے
اور جب تم نے (موسی سے) کہا کہ موسیٰ جب تک ہم خدا کو سامنے نہ دیکھ لیں گے تم پر ایمان نہیں لائیں گے تو تم کو بجلی نے آگھیرا اور تم دیکھ رہے تھے
آیت نمبر 55 تا 59 وَاِذْ قُلْتُمْ یٰمُوْسٰی لَنْ نُّؤْمِنَ لَکَ حَتّٰی .... الیٰ .... مِّنَ السَّمَآئِ بِمَا کَانُوْا یَفْسُقُوْنَ ۔ ترجمہ : (یاد کرو) جب تم نے موسیٰ علیہ الصلوٰةو السلام سے کہا تھا، (جب کہ) تم موسیٰ علیہ الصلوٰةو السلام کے ساتھ گاؤ پرستی کی عذر خواہی کے لئے اللہ کی طرف نکلے تھے، اور تم نے اس کا کلام سنا تھا، اے موسیٰ ہم ہرگز آپ کی بات کا یقین نہ کریں گے جب تک کہ ہم اپنی آنکھوں سے علانیہ اللہ کو نہ دیکھ لیں، سو تم کو بجلی کی کڑک نے آلیا، جس کی وجہ سے تم مرگئے اور جو کچھ تم پر گزرا، تم دیکھ رہے تھے، پھر ہم نے تمہارے مرنے کے بعد تم کو زندہ کردیا، تاکہ تم اس احسان کی شکر گزاری کرو، اور ہم نے تم پر ابرکا سایہ کیا یعنی مقام تیہ میں رقیق (ہلکے) بادل کے ذریعہ سورج کی گرمی سے حفاظت کی اور اس مقام تیہ میں من وسلویٰ تمہارے لئے فراہم کیا اور وہ ترنجبین اور بٹیر تھیں میم کی تخفیف اور الف مقصورہ کے ساتھ اور ہم نے تم سے کہا جو پاک چیزیں ہم نے تم کو بخشی ہیں، انہیں کھاؤ اور ذخیرہ نہ کرو، مگر انہوں نے نعمت کی ناشکری کی اور ذخیرہ اندوزی شروع کردی، جس کی وجہ سے وہ چیزیں موقوف ہوگئیں، اور (تمہارے اسلاف نے) اس ذخیرہ اندوزی کے ذریعہ انہوں نے ہم پر ظلم نہیں کیا، بلکہ خود انہوں نے اپنے اوپر ظلم کیا، اس لئے کہ اس کا وبال خود ان پر پڑنے والا ہے، اور جب ہم نے ان سے مقام تیہ سے نکلنے کے بعد کہا تھا، کہ اس بستی بیت المقدس یا اریحا میں داخل ہوجاؤ، اور اس میں جو چاہو اور جہاں سے چاہو بافراغت کھاؤ، اس میں کوئی پابندی نہیں، مگر اس بستی کے دروازے میں (عاجزی کے ساتھ) جھکے جھکے داخل ہونا، اور کہتے جانا ہماری درخواست معافی ہے، یعنی ہمارے خطاؤں کو معاف کر دے، ہم تمہاری خطاؤں کو معاف کردیں گے اور ایک قراءت میں یاء اور تاء کے ساتھ ہے اور دونوں صیغے مجہول کے ساتھ ہم نیکو کاروں کو مزید نوازیں گے طاعت کے سبب ثواب سے، مگر جو بات ان کو بتائی گئی تھی، ظالموں نے اس کو دوسری بات سے بدل ڈالا اور حَبَّة فی شعرةٍ کہا، یعنی خوشہ دانہ سمیت اور اپنے سرینوں کے بل گھسٹتے ہوئے داخل ہوئے، آخرکار ہم نے ظلم کرنے والوں پر اس میں ضمیر کی جگہ اسم ظاہر لایا گیا ہے، ان کی تقبیح شان میں مبالغہ کرنے کے لئے آسمان سے طاعون کا عذاب نازل کردیا، ان کے فسق کی وجہ سے یعنی ان کے اطاعت سے انحراف کرنے کی وجہ سے، چناچہ اسی وقت ان میں سے 70 ہزار یا (کچھ) کم ہلاک ہوگئے۔ تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد قولہ : لَنْ نُّوْمِنَ لَکَ ۔ سوال : مؤمن بہ کیا ہے ؟ جواب : صاحب کشاف نے کہا ہے کہ مومن بہ یہ ہے کہ : اللہ ہی آپ سے ہمکلام ہے اور یہ کہ اللہ ہی نے آپ کو تورات دی ہے ؟ اور محی السنہ نے کہا ہے کہ مومن بہ آپ ﷺ اللہ کے نبی ہیں ؟ سوال : نُؤمِنُ ، متعدی بنفسہ ہے، لہٰذا اس کے صلہ میں لام کیسا ہے ؟ جواب : لام بمعنی اجل ہے : اَیْ لَانُؤْمِنْ لِاَجلکَ ، یعنی محض آپ کے کہنے کی وجہ سے ایمان نہیں لائیں گے جب تک کہ ہم اللہ کو اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لیں۔ قولہ : عیانا، جَھْرَةً کی تفسیر عیاناً سے کرنے سے ایک سوال مقدر کا جواب مقصود ہے۔ سوال : جَھْرْةً ، جَھَرْتُ بالقراء ة کا مصدر ہے، جس کا تعلق صوت سے ہے، جَھْرَةً کو رؤیةً کے معنی میں استعمال کرنے کی کیا وجہ ہے ؟ جواب : جَھْر، رؤیة کے معنی میں مجاز ہے، مناسبت دونوں میں ظہور تام ہے۔ قولہ : صَاعِقَة، بجلی کی کڑک، کڑکڑاہٹ۔ قولہ : فَمُتُّمْ ، فَمُتُّمْ ، کے اضافہ کا مقصد اس بات کی طرف اشارہ کرنا ہے کہ ثُمَّ بَعْثْنٰکُمْ کا عطف مقدر پر ہے لہٰذا اب یہ اعتراض نہیں ہوسکتا کہ بعث تو بعد الموت ہوتا ہے اور اخذ صاعقہ کے لئے موت لازم نہیں ہے، جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ صاعقہ سے ان کی موت واقع ہوگئی۔ قولہ : ما حَلَّ بِکُمْ ، اس اضافے کا مقصد اس بات کی طرف اشارہ کرنا ہے کہ تنظرون کا مفعول محذوف ہے کہ : اَخَذتکم الصاعقة۔ قولہ : اَلغَمام، السَّحابُ الرقیق الابیض۔ قولہ : تیہ، شام اور مصر کے درمیان ایک وادی کا نام ہے، جس کی وسعت نو فرسخ ہے۔ قولہ : مَنَّ ، ایک قسم کی شبنمی شریں گوند کی شکل کی چیز تھی، جو رات کو پتوں پر جم جاتی تھی، مفسر علام نے اس کو ترنجبین سے تعبیر کیا ہے۔ قولہ : سَلْوٰی، ایک قسم کا پرندہ ہے، جو کبوتر سے چھوٹا اور چڑیا سے بڑا ہوتا ہے، اردو میں اس کو بیٹر کہتے ہیں، اس کو لَوَیٰ اور فارسی میں ببودنہ کہتے ہیں، قاموس میں ہے کہ : اس کا واحد سلواةً ہے، اخفش سے منقول ہے کہ اس کا واحد نہیں سنا گیا۔ (لغات القرآن) قولہ : سُمانی، سین کے ضمہ اور الف مقصورہ کے ساتھ اس کی جمع سمانات آتی ہے۔ (ترویح الارواح) قولہ : منحنینَ ، اس میں اشارہ ہے کہ سُجَّدًا حال ہے ای متواضعین۔ قولہ : مسالتنا حِطة، اس میں اشارہ ہے کہ حِطّة مبتداء محذوف کی خبر ہے اور حِطّة کلمہ استغفار ہے، اور اس میں حذف کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ سوال : حِطّة کو قولوا کا مقولہ کیوں قرار نہیں دیا، حالانکہ یہی ظاہر ہے۔ جواب : اس لئے کہ قول کا مقولہ جملہ ہوتا ہے اور حِطّة مفرد ہے اسی اعتراض سے بچنے کے لئے مَسْألتنا، مبتداء محذوف کی حِطَّة کو خبر قرار دیا ہے۔ قولہ : یَزحَفُوْنَ علیٰ استاھم، ای یمشون علی اَدْبارھم، یعنی سرین کے بل گھسٹتے ہوئے، اَستاہ، جمع سَتْةٍ ، سرین۔ قولہ : بسبب فسقھم، اس میں اشارہ ہے کہ : بماء میں باء سببیہ اور ما، مصدریہ ہے۔ تفسیر و تشریح وَاِذْقُلْتُمْ یَا مُوْسٰی لَنْ نُّؤْمِنَ (الآیة) خطاب اگرچہ آپ ﷺ کے زمانہ میں موجود یہودیوں کو ہے مگر مراد ان کی قوم کے وہ ستر نمائندے ہیں، جن کو حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰة والسلام اپنے ہمراہ کوہ طور پر لے گئے تھے : '' والقائلون ہُم السَبْعُونَ الَّذِیْنَ اخْتَارَہُم موسیٰ علیہ الصلوٰةو السلام لِلْمِیْقات۔ (بیضاوی) لَنْ نؤمنَ لَکَ ای لَاجْلکَ (بیضاوی) یعنی محض آپ کے کہنے سے یقین نہ کریں گے جب تک کہ اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لیں۔ تاریخ بنی اسرائیل کے اہم ترین واقعات دہرائے جا رہے ہیں اور اسرائیلیوں پر حجت ان کی قومی تاریخ سے قائم کی جا رہی ہے یہ اس وقت کا ذکر ہے جب حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰة والسلام جزیرہ نمائے سینا میں ستر بزرگان قوم کو ہمراہ لے کر لشکر گاہ سے کوہ طور پر گئے تھے، دامن کوہ میں انہیں چھوڑ کر خود آگے بڑھ گئے تھے اور اللہ تعالیٰ سے ہم کلامی سے مشرف ہونے کے بعد اس کی اطلاع اور خوشخبری ان بزرگان قوم کو پہنچائی تھی۔ وَاَنْتُمْ تَنْظُرُوْنَ ، یعنی صاعقہ گرنے کے بعد ابتدائی حالات کو دیکھ رہے تھے، جس کے بعد موت واقع ہوئی، بعض مفسرین نے : '' فَاَخذتکم الصاعقة '' سے بےہوش ہوجانا بھی مراد لیا ہے اور '' وَخرّ موسیٰ صَعِقا، فَلَمَّا اَفَاقَ '' سے استدلال کیا ہے، اور انتم تنظرون کو اس کا قرینہ قرار دیا ہے، اس لئے کہ افاقہ غشی سے ہوتا ہے، نہ کہ موت سے امام رازی (رح) تعالیٰ اور ابن جریر (رح) تعالیٰ کی بھی یہی رائے ہے۔ (ماجدی) مفسر علام نے '' اخذ صاعقة '' سے موت مراد لی ہے، اور اس کا قرینہ بعد میں آنے والے جملہ '' ثم بعثنا کم من بعد موتکم '' کو قرار دیا ہے، یہی قول راجح ہے۔
Top