Tafseer-e-Jalalain - Al-Baqara : 8
وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَ بِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ مَا هُمْ بِمُؤْمِنِیْنَۘ
وَمِنَ : اور سے النَّاسِ : لوگ مَنْ : جو يَقُولُ : کہتے ہیں آمَنَّا : ہم ایمان لائے بِاللہِ : اللہ پر وَ بالْيَوْمِ : اور دن پر الْآخِرِ : آخرت وَ مَا هُمْ : اور نہیں وہ بِمُؤْمِنِينَ : ایمان لانے والے
اور بعض لوگ ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم خدا پر اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہیں حالانکہ وہ ایمان نہیں رکھتے
آیت نمبر 8 ترجمہ : (آئندہ آیت) منافقوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے، اور بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان لائے ہیں، یعنی قیامت کے دن پر اس لئے کہ وہ آخر الایام ہے حالانکہ وہ (بالکل ہی) ایمان لانے والے نہیں ہیں، (ھم، ضمیر جمع لانے میں) مَنْ کے معنی کی رعایت کی گئی ہے، اور یقول کی ضمیر (واحد لانے میں) مَن کے لفظ کی رعایت کی گئی ہے (بلکہ) وہ اللہ اور ایمان لانے والوں کے ساتھ دھوکہ بازی کر رہے ہیں، اپنے اس کفر کے خلاف ظاہر کرکے جس کو وہ چھپائے ہوئے ہیں تاکہ وہ اپنے اوپر سے کفر کے دنیوی احکام کو دفع کرسکیں، حالانکہ (فی الواقع) وہ دھوکا کسی کو نہیں دے رہے بجز اپنی ذات کے اس لئے کہ ان کی دھوکہ دہڑی کا وبال خود ان پر پلٹنے والا ہے، چناچہ وہ دنیا ہی میں ذلیل ہوں گے اللہ کے اپنے نبی کو اس (نفاق) پر مطلع کرنے کی و کہ سے جس کو انہوں نے چھپا رکھا ہے اور آخرت میں ان کو سزا دی جائے گی، اور ان کو اس کا احساس بھی نہیں ہے یعنی اس بات کا علم نہیں رکھتے کہ ان کی دھوکہ بازی (کا ضرر) خود ان کے لئے ہے اور مُخَادعَۃ (مفاعلۃ) یہاں جانب واحد سے ہے، جیسا کہ عاقبت اللّص میں اور اللہ کا ذکر تحسین کے لئے ہے اور ایک قراءت میں وَمَا یُخٰدِعُوْنَ ہے اور ان کے دلوں میں ایک بیماری ہے، جو ان کے دلوں کو مریض یعنی ضعیف کر رہی ہے، سو اللہ نے ان کی بیماری کو بڑھا دیا بسبب اس کے کہ اللہ نے قرآن نازل کیا اور وہ اس کا انکار کرتے ہیں۔ اور ان کے جھوٹ کہ وجہ سے ان کے لئے دردناک عذاب ہے، (یکذّبون) کی تشدید کے ساتھ یعنی اللہ کے نبی کی تکذیب کرتے ہیں اور (ذال کی) تخفیف کے ساتھ یعنی اپنے قول آمَنَّا میں جھوٹے ہیں۔ تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد قولہ : وَمِنَ النَّاسِ : مِن تبعیضیہ ہے، اَلنَّاس اصل میں اُنَاسٌ تھا، ہمزہ تخفیفاً حذف کردیا گیا سورة اسراء میں یہ اصل استعمال ہوئی ہے : ” یَوْمَ نَدْعُوْا کُلَّ اَنَاسٍ بِاِمٰمِھِمْ “ سیبویہ اور فراء کے نزدیک اناس کا مادہ ہمزہ، نون، سین ہے اور کسائی کے نزدیک اس کا مادہ نون واؤ سین ہے، یہ النّوس سے مشتق ہے، اسکی معنی حرکت کرنے کے ہیں، ناسَ یَنُوسُ نَوْسًا حرکت کرنا، ابو نواس شاعر کو جس کا اصل نام حسن بن ہانی تھا، ابو نواس اس لئے کہتے تھے کہ اس کے بالوں کی دولٹیں ہوا سے حرکت کرتی رہتی تھیں۔ (لغات القرآن للدرویش) واؤ استینافیہ یا عاطفہ مِنَ الناسِ خبر مقدم مِنَ یَقُوْلُ امنَّا مبتداء مؤخر (دوسری ترکیب) مِنَ النِّاسِ ، فَرِیْقٌ، یانَاسٌ موصوف محذوف کی صفت ہے، موصوف باصفت مبتداء اور مَنْ یَقُوْلُ الخ جملہ ہو کر خبر۔ قولہ : وَبالْیَوْمِ الآخِرِ : باء حرف جر کا اعادہ اپنے دعوائے ایمان کی تاکید کے لئے کیا ہے اللہ تعالیٰ نے ان کے دعوائے ایمان کو اپنے قول : ” وَمَا ھُمْ بِمُؤْمِنِیْنَ “ سے ابلغ اور زیادہ موکد طریقہ سے رد فرمایا ہے بایں طور پر جملہ اسمیہ استعمال فرمایا جو کہ دوام و استمرار پر دلالت کرتا ہے یعنی وہ کسی زمانہ میں بھی متصف بالایمان نہیں رہے، نہ ماضی میں تھے، اور نہ حال میں اور نہ آئندہ مومن ہوں گے اور خبر پر حرف جر کا اضافہ تاکید کے لئے فرمایا قولہ : وَمَا ھُمْ بِمُؤْمِنِیْنَ : واؤ حالیہ ہے مَا، مشابہ بلیس، ھُمْ اس کا اسم بِمُؤْمِنِیْنَ اس کی خبر بازائدہ تاکید کے لئے۔ قولہ : ای یَوْمِ القِیَامَۃِ : اس عبارت کے اضافہ کا مقصد ایک شبہ کا جواب ہے۔ شبہ : شبہ یہ ہے کہ آخر ایام پر ایمان لانا موجبات دین میں سے نہیں ہے تو اس کے منکر کو کافر کیوں کہا جاتا ہے ؟ جواب : یوم الآخرۃ : سے مراد یوم القیامۃ ہے، یعنی حساب و کتاب اور جزائے اعمال کا دن ہے، اور یہ موجباتِ دین میں سے ہے۔ قولہ : لَاِنَّہُ آخر الایّام : اس عبارت سے یوم الآخر کی وجہ تسمیہ کی طرف اشارہ کردیا۔ قولہ : یُخَادِعُوْنَ اللہ وَالَّذِیْنَ آمَنُوْا : یُخَادِعُوْنَ : جمع مذکر غائب کا صیغہ باب ہے (مفاعلۃ) وہ باہم فریب دیتے ہیں، اَلْخُداعُ لغت میں فساد اور اِخْفاء کو کہتے ہیں اور مُخْدِعُ ، میم مثلث کے ساتھ بڑے کمرے میں چھوٹے کمرے یعنی کوٹھری کو کہتے ہیں، جس میں مال اور اسباب چھپا کر رکھا جاتا ہے۔ (فتح القدیر شوکانی) یُخَادِعُوْنَ : جملہ استینافیہ بھی ہوسکتا ہے، اس صورت میں ایک سوال مقدر کا جواب ہوگا۔ سوال : یہ ہوگا کہ باطن کے خلاف یہ منافقین ایمان کا اظہار کیوں کرتے ہیں ؟ جواب : اللہ کو دھوکا دینے کے لئے، یہ بھی ہوسکتا ہے کہ : ” یُخَادِعُوْنَ اللہ “ یقول کی ضمیر سے حال ہو، ای مُخَادِعین اللہ الخ (اعراب القرآن) اور یَقُوْلُ آمَنَّا باللہ سے بدل الاشتمال بھی ہوسکتا ہے۔ قولہ : ” مِنَ الکُفْر یہ مَا اَبْطَنُوْا “ کا بیان ہے۔ قولہ : لِیَدْفَعُوْا یہ اظہار ایمان کی علت ہے۔ قولہ : اَحکامَہٗ : ای احکام الکفر، اور احکام کفر سے دنیوی احکام مراد ہیں یعنی منافقین باطن کے خلاف ایمان کا اظہار گرفت سے بچنے کے لئے کرتے ہیں مثلاً اظہار ایمان کی وجہ سے قتل وقید، جزیہ و رسوائی سے محفوظ رہتے ہیں اور مراعات اسلامی سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ (صاوی) قولہ : یَعْلَمُوْنَ کو یشعرون : سے تعبیر کرنے کی وجہ یہ ہے کہ ذریعہ علم مشاعر خمسہ ہی ہیں خواہ ظاہرہ ہوں یا باطنہ۔ قولہ : اَلْمُخَادَعَۃُ ھُنَا مِنْ وَّاحِدٍ : اس عبارت کے اضافہ کا فائدہ ایک اعتراض کا جواب ہے۔ اعتراض : باب مفاعلہ طرفین سے شرکت کا تقاضہ کرتا ہے منافقین کی طرف سے تو مکرو خداع سمجھ میں آتا ہے مگر اللہ کی طرف سے اس کی نسبت سمجھ میں نہیں آتی اس لئے کہ مکرو فریب خصائل رذیلہ میں سے ہے، جن سے اللہ تعالیٰ پاک ہے۔ جواب : باب مفاعلۃ اگرچہ طرفین کی شرکت کا تقاضہ کرتا ہے مگر یہ قاعدہ کلیہ نہیں ہے، اس لئے کہ اس کی ایک خاصیت موافقت مجرد بھی ہے جیسے : عاقبت اللص۔ وسَافَرَ بمعنی سَفَرَ ، لہٰذا خادعَ بمعنی خَدَعَ ہے۔ اعتراض : یُخَادِعُوْنَ اللہ : وہ اللہ کو دھوکا دیتے ہیں، کیا اللہ دھوکا کھا سکتا ہے، وہ تو علیم بذات الصدور ہے، اس سے کسی کا کوئی راز مخفی نہیں دھوکا تو وہ کھاتا ہے جو خادع کے خدع اور ما کر کے مکر سے بیخبر ہو۔ جواب : لفظ اللہ، تحسین کلام کے لئے ہے، معنی مقصود نہیں، تقدیر عبارت اس طرح ہے : ” یُخَادِعُوْن رسول اللہ وَالَّذِیْنَ ّمَنُوْا “ یا مقصد تحسین معنوی ہے، اس طور پر کہ یہ استعارہ رمثیلیہ ہے، مشبہ بہ کو مشبہ کیلئے مستعار لیا گیا ہے، یعنی اللہ کے ساتھ منافقین کے معاملہ کو اس شخص کے حال کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے جو اپنے صاحب کے ساتھ دھوکا دہی کا معاملہ کرتا ہے، یا مجاز عقلی کے طور ہر اللہ کی طرف نسبت کردی گئی ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے قول : ” فَاَنَّ لِلہِ خُمْسَہٗ وَلِلرَّسُوْلِ وَلِذِی الْقُرْبٰی “ میں اسناد مجازی ہے، یا مشاکلت کے طور پر خدا کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کردی گئی ہے جیسے : اللہ تعالیٰ کے قول : ’ وَجَزؤُا سَیّئَۃٍ سَیَّئَۃٌ‘ میں قولہ : فِیْ قُلُوْبِھِمْ مَّرَضٌ: مرض، طبیعت کے حد اعتدال سے نکل جانے کو کہتے ہیں، جس کی وجہ سے افعال و افکار میں خلل واقع ہوجاتا ہے یہاں مرض سے روحانی مرض مراد ہے اور یہ بھی احتمال ہے کہ جسمانی مرض مراد ہو، جب یہ دونوں امراض اپنی انتہا کو پہنچ جاتے ہیں تو روحانی اور جسمانی موت کا باعث ہوجاتے ہیں۔ روحانی امراض : مثلاً کفر، شرک، شک، نفاق، جہل، بخل، وغیرہ، علامہ سیوطی (رح) تعالیٰ نے اپنے قول شک و نفاق سے، روحانی مرض کی جانب اور یُمَرِّضُ قلوبَھُمْ سے جسمانی مرض کی طرف اشارہ کیا ہے۔ قولہ : مُوْلَمٌ، لام کے فتحہ کے ساتھ اس لئے کہ فعیل بمعنی مفعول مستعمل نہیں ہے (ترویح الارواح) عذابٌ مُوْلَمُ ، ایسا شدید عذاب کہ شدت کی وجہ سے خود عذاب بھی اذیت محسوس کرنے لگے یہ بطور مبالغہ ہے، اس لئے کہ : اَلِیْمٌ، مَعذّب کی صفت ہے، نہ کہ عذاب کی بعض حضرات نے مولِمٌ لام کے کسرہ کے ساتھ بھی کہا ہے، اس صورت میں عذاب کی طرف الیمٌ کی نسبت حقیقی ہوگی۔ اللغۃ والبلاغۃ اَلمشاکلۃُ فی قولھمْ ، ” یخٰدِعون اللہ “ لأن المفاعلۃ تقتضی المشارکۃَ فی المعنی وقد اطلق علیہ تعالیٰ مقابلا لما ذکرہٗ من خداع المنافقین کمقابلۃ المکر بمکرھم، ومن امثلۃِ ھذا الفن فی الشعر قول بعضھم۔ ؎ قالوا : التمس شیئًا نجدلک طبخۃ قلت : اطبخو الی جُبِّۃً وقمیصا تفسیر و تشریح مذکورہ بالا آیات میں پہلی دو آیتوں میں منافقین کے متعلق فرمایا کہ لوگوں میں بعض ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے اللہ پر حالانکہ وہ بالکل ایمان لانے والے نہیں، بلکہ وہ اللہ سے اور مومنین سے فریب کرتے ہیں، واقعہ یہ ہے کہ وہ کسی کے ساتھ فریب نہیں کرتے بجز اپنی ذات کے اور اس کا ان کو احساس بھی نہیں۔ ان آیتوں میں منافقین کے دعوائے ایمان کو فریب محض بلکہ خود فریبی قرار دیا گیا ہے اس لئے کہ اللہ کو کوئی فریب نہیں دے سکتا جو سمجھتا ہے کہ میں اللہ کو فریب دے رہا ہوں، وہ خود اپنی ذات کو فریب دے رہا ہے، البتہ اللہ کے رسول اور مومنین کے ساتھ ان کی چالبازی کو ایک حیثیت سے اللہ کے ساتھ چالبازی فرمایا گیا ہے۔ مدینہ میں نفاق کی ابتداء : نفاق کی تاریخ اگرچہ بڑی قدیم ہے، مگر اسلام میں نفاق کی ابتداء آپ ﷺ کے مدینہ تشریف لانے کے بعد ہوئی مگر شباب؁ 2 ھ میں غزوہ بدر میں مسلمانوں کی کامیابی کے بعد آیا۔ اسلام میں نفاق کے اسباب : آپ ﷺ جب مدینہ تشریف لائے تو آپ نے پہلا اور اہم کام یہ انجام دیا کہ مدینہ اور اطراف مدینہ میں رہنے والے یہود اور غیر یہود سے معاہدہ امن فرمایا تاکہ امن اور اطمینان کی فضا میں لوگوں کو اسلام کو سمجھنے کا موقع ملے، جس کے نتیجے میں مدینہ میں مسلمان ایک بڑی طاقت سمجھے جانے لگے، مگر ایک طبقہ کو جس کو سردار عبداللہ بن ابی ابن سلول تھا، یہ صورت حال ناپسند اور ناگوار تھی، ابھی قوموں اور قبیلوں سے معاہدہ کا سلسلہ جاری ہی تھا کہ مسلمانوں کے خلاف اندرونی خفیہ سازشوں اور بیرونی کھلی عداوتوں کا سلسلہ شروع ہوگیا، مدینہ میں ایک شخص جس کا نام عبداللہ بن ابی ابن سلول تھا، بہت عقلمند ہوشیار، چالاک اور تجربہ کار شخص تھا، اوس و خزرج کے تمام قبائل پر اس کا کافی اثر و رسوخ تھا، لوگ اس کی سرداری کو متفقہ طور پر تسلیم کرتے تھے، اوس اور خزرج چند روز قبل ہی جنگ بعاث میں آپس میں صف آرا ہو کر اور اپنے اپنے بہادروں کو قتل کرا کر کمزور ہوچکے تھے، عبداللہ بن ابی نے اس حالت سے فائدہ اٹھانے اور دونوں قبیلوں میں اپنی مقبولیت بڑھانے میں کوئی کوتاہی اور غفلت نہیں کی، اہل مدینہ یہ طے کرچکے تھے کہ : عبداللہ بن ابی کو مدینہ کا افسر اعلیٰ اور بادشاہ بنالیں اور ایک عظیم الشان اجلاس منعقد کرکے اس کا باقاعدہ اعلان کردیں، عبداللہ بن ابی کی تاجپوشی کے لئے ایک قیمتی تاج بھی بنوا لیا گیا تھا، اب صرف اعلان ہی باقی تھا، اسی دوران مدینہ میں اسلام اور پیغمبر اسلام داخل ہوگئے۔ آپ ﷺ کے مدینہ منورہ تشریف لانے کے بعد لوگوں کا رخ آپ ﷺ کی جانب ہوگیا اور آپ مسلم قائد اور رہبر تسلیم کے لئے گئے، جب عبداللہ نے یہ صورت حال دیکھی اور اپنی تمناؤں کا خون ہوتے اور امیدوں پر پانی پھرتے دیکھا تو اس کے دل میں رقابت کی آگ بھڑکنے لگی، اور بادشاہت اور سرداری خاک میں ملتی نظر آنے لگی، چونکہ عبداللہ بڑا چالاک اور ہوشیار شخص تھا، آنحضرت ﷺ کو اگرچہ اپنا رقیب اور حریف سمجھتا تھا، لیکن اس دشمنی کے اظہار کو غیر مفید سمجھ کر اپنے دل میں چھپائے رہا، اوس و خزرج کے وہ لوگ جو ابھی تک مسلمان نہیں ہوئے تھے وہ سب عبداللہ کے زیر اثر تھے، جب مکہ کے مشرکوں کو معلوم ہوا کہ آنحضرت ﷺ اور ان کے رفقاء مدینہ میں پہنچ کر اطمینان کی زندگی بسر کرنے لگے ہیں اور مذہب اسلام کا دائرہ روز بروز وسیع ہو رہا ہے، تو انہوں نے عبداللہ بن ابی اور مدینہ کے دیگر مشرکوں سے رابطہ قائم کرکے ساز باز شروع کردی، غزوہ بدر میں مسلمانوں کی شاندار کامیابی نے منافقین اور مشرکین مکہ کی دشمنی کی جلتی آگ پر تیل کا کام دیا۔
Top