Tafseer-e-Jalalain - Al-Anbiyaa : 24
اَمِ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِهٖۤ اٰلِهَةً١ؕ قُلْ هَاتُوْا بُرْهَانَكُمْ١ۚ هٰذَا ذِكْرُ مَنْ مَّعِیَ وَ ذِكْرُ مَنْ قَبْلِیْ١ؕ بَلْ اَكْثَرُهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ١ۙ الْحَقَّ فَهُمْ مُّعْرِضُوْنَ
اَمِ : کیا اتَّخَذُوْا : انہوں نے بنالیے ہیں مِنْ دُوْنِهٖٓ : اللہ کے سوائے اٰلِهَةً : اور معبود قُلْ : فرمادیں هَاتُوْا : لاؤ (پیش کرو) بُرْهَانَكُمْ : اپنی دلیل ھٰذَا ذِكْرُ : یہ کتاب مَنْ : جو مَّعِيَ : میرے ساتھ وَذِكْرُ : اور کتاب مَنْ قَبْلِيْ : جو مجھ سے پہلے بَلْ : بلکہ (البتہ) اَكْثَرُهُمْ : ان میں اکثر لَا يَعْلَمُوْنَ : نہیں جانتے ہیں الْحَقَّ : حق فَهُمْ : پس وہ مُّعْرِضُوْنَ : روگردانی کرتے ہیں
کیا لوگوں نے خدا کو چھوڑ کر معبود بنا لیے ہیں ؟ کہہ دو کہ (اس بات پر) اپنی دلیل پیش کرو یہ (میری اور) میرے ساتھ والوں کی کتاب بھی ہے اور جو مجھ سے پہلے (پیغمبر) ہوئے ہیں انکی کتابیں بھی ہیں بلکہ (بات یہ ہے کہ) ان میں اکثر حق بات کو نہیں جانتے اور اس لئے منہ پھیر لیتے ہیں
آیت نمبر 24 تا 29 ترجمہ : کیا ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے علاوہ اور معبود بنا رکھے ہیں ؟ اس میں استفہام توبیخی ہے ان سے کہہ دو کہ لاؤ اس بات (یعنی اتخاذ اِلٰہ پر) اپنی دلیل پیش کرو ان کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے (نہ عقلی نہ نقلی) یہ میرے ساتھیوں کی کتاب موجود ہے یعنی میری امت کی اور وہ قرآن ہے اور مجھ سے پہلی امتوں کی (کتابیں) موجود ہیں اور وہ تورات و انجیل وغیرہما ہیں اللہ کی کتابوں میں سے، ان میں سے کسی میں بھی یہ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ دیگر معبود ہیں جیسا کہ یہ لوگ کہتے ہیں، اللہ تو اس سے وراء الوراء ہے بات یہ ہے کہ ان میں سے اکثر لوگ حق کو نہیں جانتے یعنی اللہ کی توحید کو اسی وجہ سے حق تک پہنچانے والی دلیل سے اعراض کر رہے ہیں آپ سے پہلے بھی جو رسول ہم نے بھیجا اس کی طرف بھی یہی وحی بھیجی گئی کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں لہٰذا میری بندگی کرو یعنی میری توحید کا اقرار کرو، ایک قرأت میں یوحٰی کے بجائے نُوْحِیْ ہے نون کے ساتھ اور حاء کے کسرہ کے ساتھ یہ مشرک کہتے ہیں کہ رحمٰن نے فرشتوں میں سے اولاد بنا رکھی ہے اس کی ذات پاک ہے بلکہ وہ تو اس کے باعزت بندے ہیں اور عبودیت ولادت کے منافی ہے وہ اس سے بڑھ کر بات نہیں کرتے یعنی وہ ازخود کوئی بات نہیں کرتے مگر اجازت کے بعد اور وہ اس کے حکم کے بعد اس کے حکم کے مطابق عمل کرتے ہیں وہ ان کے اگلے پچھلے تمام امور سے واقف ہے یعنی جو کرچکے ہیں اور جو آئندہ کریں گے اور وہ کسی کی سفارش نہیں کرتے بجز اس کے کہ جس کے لئے اللہ راضی ہو کہ اس کی سفارش کی جائے اور وہ خدا تعالیٰ کی ہیبت سے لرزاں و ترساں رہتے ہیں یعنی خائف رہتے ہیں اگر ان میں سے کوئی بھی کہے کہ میں خدا کے سوا معبود ہوں وہ ابلیس ہے جس نے اپنی بندگی کی دعوت دی اور اپنی طاعت کا حکم دیا تو ہم اس کو جہنم کی سزا دیں گے ہم ایسی ہی جیسی کہ اس کو سزا دیں گے ظالموں یعنی مشرکوں کو بھی سزا دیں گے۔ تحقیق، ترکیب و تفسیری فوائد ام اتخذوا من دونہ ام استفہام توبیخی بمعنی بل ہے اور ایک مضمون سے دوسرے مضمون کی طرف انتقال کے لئے ہے، یعنی تعدد الٰہ کے بطلان کو ثابت کرنے کے بعد اتخاذ الٰہ متعدہ کے بطلان کو ظاہر فرما رہے ہیں۔ قولہ : ھٰذا ذِکْرُ من مَعِی وَذِکرُ مَنْ قَبْلِی ھٰذا اسم اشارہ مبتداء ہے مشار الیہ کتب سماویہ ہیں، ھٰذا مبتدا کی دو خبریں ہیں، خبر اول سے قرآن مراد ہے اور خبر ثانی سے قرآن کے علاوہ کتب سماویہ مراد ہیں، جیسا کہ مفسر علام نے اشارہ کیا ہے۔ قولہ : وَمَا اَرْسَلْنَا مِن قَبْلِکَ یہ ماقبل کے مضمون کی تاکید ہے۔ قولہ : قالوا کی ضمیر فاعلی عرب کے بعض فرقوں کی طرف راجع ہے جو کہ ملائکہ کے بارے میں خدا کی بیٹیاں ہونے کے قائل تھے، ان میں مشہوریہ ہیں (1) خزاعہ (2) جہینۃ (3) بنو سلمہ (4) بنو ملیح۔ قولہ : یَعلم ما بین ایدِیْھم الخ یہ جملہ مستانفہ ہے ماقبل کی علت اور مابعد کی تمہید ہے۔ قولہ : ومَنْ یقل منھم، ملائکہ کا یہ قول بالفرض والتقدیر ہے ورنہ فرشتوں میں معصیت کی صلاحیت نہیں ہے، اور اگر یقل کا فاعل ابلیس کو قرار دیا جائے تو یہ خرابی لازم آئے گی کہ وہ درحقیقت ملائکہ میں سے نہیں ہے اور دوسری خرابی یہ لازم آئے گی کہ ابلیس نے کبھی الوہیۃ کا دعویٰ نہیں کیا بلکہ وہ تو اعبد الملائکہ تھا البتہ رحمت خداوندی سے مایوس ہوگیا ہے وَاَمَرَ بطاعتھا کا مطلب یہ ہے کہ اس نے لوگوں کے دلوں میں وسوسہ ڈالا کہ وہ اس کی بات مانیں اور توحید کو چھوڑ کر بت پرستی اختیار کریں، یہی اس کا اپنی بندگی اور اطاعت کی طرف بلانا ہے۔ قولہ : فذلک نجزیہ ذٰلک مبتدا ہونے کی وجہ سے محلاً مرفوع ہے اور نَجْزیْہِ اس کی خبر ہے اور پورا جملہ جواب شرط ہونے کی وجہ سے محلاً مجزام ہے۔ تفسیر و تشریح ام اتخذوا من دونہ الخ ذکر من معی سے قرآن اور دوسرے ذکر سے سابقہ کتب سماویہ مراد ہیں، مطلب ہے کہ قرآن میں اور اس سے قبل کی دیگر کتابوں میں صرف ایک ہی معبود کی الوہیت و ربوبیت کا ذکر ملتا ہے لیکن یہ مشرکین حق کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں اور بدستور توحید سے منہ موڑے ہوئے ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ خدا کے واحد اور معبود برحق ہونے کی میرے پاس عقلی اور نقلی اور واقعاتی دلیلیں موجود ہیں عقلی دلیل کی طرف لوکان فیھما آلِھَۃً لَفَسَدَتَا سے اشارہ کردیا اور نقلی دلیل کی طرف ھٰذا ذکر مَنْ معیَ الخ سے اشارہ کردیا، اور واقعاتی دلیل کی طرف ومَا اَرْسَلْنا من قبلک مِن رَّسولٍ اِلاَّ نوحی الیہ اَنْہ لا الٰہ اِلاَّ اَنا فاعبُدْن سے اشارہ کردیا یعنی واقعہ یہ ہے کہ آپ سے پہلے جتنے بھی ہم نے رسول بھیجے ہیں ان سب کا بھی یہی پیغام تھا کہ میرے علاوہ کوئی معبود نہیں اور میں ہی بندگی کے لائق ہوں اور تمہارے پاس اگر کوئی عقلی یا نقلی دلیل ہو تو اس کو پیش کرو قُل ھَاتُوْا بُرھانَکم۔ لایسبقونہ بالقول الخ اس آیت سے مشرکین کے الملائکۃ بناتُ اللہِ کے دعوے کی تردید ہے، یعنی فرشتے اللہ تعالیٰ کی اولاد تو کیا ہوتے وہ تو ایسے خائف اور مؤدب رہتے ہیں کہ نہ قول میں اللہ سے سبقت کرتے ہیں نہ عمل میں کبھی اس کا خلاف کرتے ہیں، قول میں سبقت نہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ جب تک حق تعالیٰ ہی کی طرف سے اشارہ نہ ہو خود کوئی کلام نہیں کرتے، اس آیت میں چھوٹوں کے لئے بڑوں کے ادب کی تعلیم کی طرف بھی اشارہ ہے۔ ومن یقل منھم اگر مَنْ سے مراد ملائکہ کافرو مراد ہے تو علی سبیل الفرض ہوگا اس کا وقوع ضروری نہیں، مطلب یہ ہے کہ بالفرض اگر فرشتہ ایسی بات کہتے تو ہم اس کو بھی جہنم کی سزا دیں گے، اور یہ بھی احتمال ہے کہ ابلیس مراد ہو اس لئے کہ وہ بھی فرشتوں میں شامل تھا مگر اس صورت میں یہ سوال پیدا ہوگا کہ ابلیس نے کبھی بھی الوہیت کا دعویٰ نہیں کیا اور نہ کبھی اپنی بندگی کی دعوت دی تو پھر مفسر علام کا یہ فرمانا کہ ابلیس نے اپنی عبادت کی طرف لوگوں کو بلایا تو اس کا جواب یہ ہے اپنی بندگی کی دعوت کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کو اپنی اتباع اور بات ماننے کی دعوت دی تھی اسی کو شیطان کی عبادت سے تعبیر کردیا گیا ہے جیسا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے والد صاحب سے کہا تھا یَا اَبَتِ لاتَعبد الشیطان حالانکہ آزر شیطان کی بندگی نہیں کرتا تھا بلکہ شیطان کے کہنے اور بہکانے سے بتوں کی بندگی کرتا تھا، بےچوں و چرا شیطان کی بات ماننے کو ہی شیطان کی بندگی کہا گیا ہے۔
Top