Tafseer-e-Jalalain - Al-Anbiyaa : 30
اَوَ لَمْ یَرَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰهُمَا١ؕ وَ جَعَلْنَا مِنَ الْمَآءِ كُلَّ شَیْءٍ حَیٍّ١ؕ اَفَلَا یُؤْمِنُوْنَ
اَوَ : کیا لَمْ يَرَ : نہیں دیکھا الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو كَفَرُوْٓا : انہوں نے کفر کیا اَنَّ : کہ السَّمٰوٰتِ : آسمان (جمع) وَالْاَرْضَ : اور زمین كَانَتَا : دونوں تھے رَتْقًا : بند فَفَتَقْنٰهُمَا : پس ہم نے دونوں کو کھول دیا وَجَعَلْنَا : اور ہم نے کیا مِنَ الْمَآءِ : پانی سے كُلَّ شَيْءٍ : ہر شے حَيٍّ : زندہ اَفَلَا يُؤْمِنُوْنَ : کیا پس وہ ایمان نہیں لاتے ہو
کیا کافروں نے نہیں دیکھا کہ آسمان اور زمین دونوں ملے ہوئے تھے تو ہم نے ان کو جدا جدا کردیا ؟ اور تمام جاندار چیزیں ہم نے پانی سے بنائیں پھر یہ لوگ ایمان کیوں نہیں لاتے ؟
آیت نمبر 30 تا 41 ترجمہ : کیا کافر یہ نہیں جانتے کہ آسمان اور زمین (منہ) بند تھے ؟ اَوَلَمْ میں واؤ اور ترک واؤ دونوں ہیں رَتَقًا بمعنی سَدًّا ہے اور سَدًّا بمعنی مَسْدُوْدًا ہے پھر ہم نھے ان کو کھول دیا یعنی سات آسمان اور سات زمین بنادیں یا فتق سماء کا مطلب یہ ہے کہ آسمان سے بارش نہیں ہوتی تھی پھر بارش ہونے لگی، اور فتق ارض کا مطلب یہ ہے کہ زمین اگاتی نہیں تھی پھر اگانے لگی اور ہم نے آسمان سے برسنے والے اور زمینی چشموں سے نکلنے والے پانی سے ہر جاندار کو بنایا گھاس وغیرہ کو لہٰذا پانی ہر جاندار کے لئے سبب حیات ہے پھر بھی میری توحید پر ایمان نہیں لاتے اور ہم نے زمین پر ثابت رہنے والے پہاڑ بنائے تاکہ وہ مخلوق کو لیکر (اضطرابی) حرکت نہ کرے اور ہم نے ان میں یعنی پہاڑوں میں کشادہ راستے بنا دئیے سُبُلاً ، فجاجًا سے بدل ہے یعنی آرپار کشادہ راستے تاکہ لوگ سفر کے دوران اپنی منزل مقصود تک رسائی حاصل کرسکیں اور ہم نے آسمان کو زمین کے لئے گرنے سے محفوظ چھت بنادیا جیسا کہ گھر کی چھت ہوتی ہے اور یہ لوگ (آسمان میں موجود) شمس و قمر کی نشانیوں سے اعراض کئے ہوئے ہیں یعنی آسمان کی نشانیوں میں غور فکر نہیں کرتے تاکہ ان کو اس بات کی علم ہوجائے کہ اس کا خالق وہ ہے کہ جس کا کوئی شریک نہیں ہے اور وہ وہ ذات ہے کہ اس نے رات اور دن اور سورج اور چاند بنائے کّلٌّ کی تنوین مضاف الیہ یعنی شمس و قمر کے عوض میں ہے اور مضاف الیہ کے تابع کے عوض میں ہے اور وہ نجوم ہیں ان میں سے یر ایک فلک میں یعنی چکی کے مانند اپنے آسمانی مدار میں تیر رہا ہے۔ یعنی تیزی سے چل رہا ہے جیسا کہ تیرنے والا پانی میں تیزی سے چلتا ہے اور تیرنے والے کے ساتھ تشبیہ دینے کی وجہ سے یَسْبَحُوْنَ واو نون کے ساتھ جمع لائے ہیں جو کہ ذُوِالعقول کے لئے ہے اور جب کافروں نے یہ کہا کہ محمد عنقریب مرجائیں گے تو وَمَا جَعَلْنَا لبشرٍ مِن قبلِکَ الخُلد نازل ہوئی یعنی ہم نے آپ سے پہلے بھی کسی بشر کو دوام یعنی دنیا میں دائمی بقا عطا نہیں کی، پس اگر آپ کا انتقال ہوجائے تو کیا یہ لوگ دنیا میں ہمیشہ ہمیش رہیں گے ؟ نہیں، جملہ اخیرہ (یعنی فَاِن متّ ) ہمزہ استفہام انکاری کے محل میں ہے ہر جاندار کو دنیا میں موت کا مزہ چکھنا ہے اور ہم تم کو پرکھنے کے لئے بری اور اچھی حالت مثلاً فقر اور غنا اور مرض اور صحت سے آزمائیں گے فتنۃً مفعول لہ ہے یعنی تاکہ ہم دیکھیں کہ تم صبر و شکر کرتے ہو یا نہیں، اور تم ہماری طرف لوٹائے جاؤ گے تو ہم تم کو بدلہ دیں گے اور یہ کافر جب آپ کو دیکھتے ہیں تو بس آپ کا مذاق اڑانے لگتے ہیں یعنی آپ کا مذاق بناتے ہیں، اور آپس میں کہتے ہیں کہ کیا یہی صاحب ہیں وہ جو تمہارے معبودوں کا ذکر برائی سے کیا کرتے ہیں ؟ اور یہ لوگ رحمان کے ذکر کے منکر ہیں جبکہ ان لوگوں نے کہا ہم رحمٰن کو نہیں جانتے اور ان کے عذاب کو جلدی طلب کرنے کے بارے میں آیت خُلِقَ الانسان مِنْ عجلٍ نازل ہوئی یعنی انسان اپنے احوال کے بارے میں عجلت پسندی کی وجہ سے گویا کہ انسان عجلت (کے مادہ) سے بنا ہوا ہے، ہم عنقریب آپ کو اپنی نشانیاں یعنی میری عذاب کے وعدے دکھائے دیتے ہیں لہٰذا اس بارے میں مجھ سے جلدی مت کرو چناچہ ان کو بدر میں قتل کا عذاب دکھا دیا اور یہ لوگ یوں کہتے ہیں کہ وہ قیامت کا وعدہ کب آئے گا، اگر تم عذاب کے وعدے میں سچے ہو، کاش کافروں کو اس وقت کی خبر ہوتی کہ جب یہ کافر آگ کو نہ اپنے آگے سے روک سکیں دفع کرسکیں گے اور نہ پیچھے سے اور نہ ان کی مدد کی جائے گی یعنی وہ قیامت کے دن عذاب سے نہیں بچائے جائیں گے اور لَوْ کا جواب ما قالوا ذٰلک ہے بلکہ قیامت ان کو ایک دم آلے گی سو ان کو بدحواس متحیر کر دے گی پھر نہ ان کو اس کے بٹانے کی قدرت ہوگی اور نہ ان کو مہلت دی جائے گی یعنی توبہ یا عذر خواہی کی مہلت نہ دی جائے گی آپ سے پہلے جو پیغمبر گزر چکے ہیں ان کے ساتھ بھی تمسخر کیا گیا اس میں آپ ﷺ کے لئے تسلی ہے، سو ہنسی کرنے والوں کو ہی اس چیز نے گھیر لیا (نازل ہوگئی) جس کی وہ ہنسی اڑاتے تھے اور وہ عذاب ہے لہٰذا اسی طریقہ سے (عذاب) ان لوگوں کو بھی آگھیرے گا جو آپ کا مذاق اڑاتے ہیں۔ تحقیق، ترکیب و تفسیری فوائد قولہ : اَوَلَمْ یَرَ ہمزہ فعل محذوف پر داخل ہے اور واو عاطفہ کے ذریعہ یَرَ کا محذوف پر عطف ہے، تقدیر عبارت یہ ہے اَوَلَمْ یَتَفَکَرُوْا وَلَمْ یَعْلَمُوْا اَنَّ السَّمٰوٰت والَارْضِ کانَتَا رَتَقًا کانتا تثنیہ کا صیغہ ہے حالانکہ اس کی ضمیر سمٰوٰت والارض کی طرف راجع ہے جو کہ جمع ہیں لہٰذا مرجع اور ضمیر میں مطابقت نہیں ہے۔ جواب : دونوع یا دو جنس مراد ہیں، اس لئے آسمان ایک نوع ہے اور زمین دوسری نوع ہے اور رویتہ سے رویت قلبی مراد ہے، واو کے ساتھ اور ترک واو کے ساتھ دونوں قرأتیں ہیں، قولہ : رَتْقًا کانتَا کی خبر ہے مصدر ہونے کی وجہ سے مفرد استعمال ہوئی ہے، مبالغۃ حمل بھی درست ہے اور مضاف محذوف مان کر بھی حمل درست ہے ای ذوی رَتْقٍ ای کانتا شیئاً واحدًا مفسر علام نے بمعنی مسدودۃً مقدر مان کر اشارہ کردیا کہ مصدر بمعنی اسم مفعول ہے رَتْقًا (ن) مصدر ہے منہ بند، ملا ہوا، جڑا ہوا، یہاں مصدر اسم مفعول یا اسم فاعل کے معنی میں ہے فَتْقًا (ن، ض) پھاڑنا، گھولنا، الگ کرنا۔ قولہ : وَجَعَلْنَا مِنَ المَاءِ کُلَّ شَئٍ حَئٍ اگر جَعَلَ بمعنی صَیَّرَ ہو تو متعدی بدو مفعول ہوگا، اور جار مجرور اپنے متعلق محذوف ناشِیًا یا متسببًا سے متعلق ہو کر مفعول ثانی مقدم ہوگا اور کُلَّ شَئٍ مفعول اول مؤخر ہوگا تقدیر عبارت یہ ہوگی وجَعَلْنَا نَاشِیًا من الماءِ کُلّ شئٍ حَیّ اور اگر جعل بمعنی خَلَقَ ہو تو متعدی بیک مفعول ہوگا اور وہ کل شئٍ ہے اور من الماء جار مجرور سے مل کر جعلنا کے متعلق ہے۔ قولہ : رَوَاسِیَ رواسِیَ جمع راسیَۃٍ اور اسی بمعنی راسخ وثابت اور مختار میں ہے کہ جبال ثابت کو بھی راسیۃ کہتے ہیں، رَسَا الشّئَ سے ماخوذ ہے جبکہ شئ ثابت اور مستقر ہوجائے، مفسر علام نے، لاَ ، مقدر مانا ہے تاکہ ان تمید بِھَا کا علت بننا صحیح ہوجائے، اس لئے پہاڑوں کا قیام عدم تحرک کے لئے فِجَاجًا دو پہاڑوں کے درمیان کشادہ راستہ فجاج کا واحد فَجَّ ہے جیسے سھام کا واحد سَھْمٌ ہے۔ قولہ : وللتشبیہ بہ اَتٰی بضمیر جمعٍ مَنْ یَعْقِل اس پوری عبارت کے اضافہ کا مقصد ایک سوال مقدر کا جواب ہے، سوال یہ ہے یَسْبَحُون کا فاعل شمس و قمر اور نجوم ہیں جو کہ غیر ذوالعقول ہیں ان کے لئے جمع مؤنث غائب کا صیغہ ہونا چاہیے نہ کہ جمع مذکر غائب کا اور واؤ نون کے ساتھ جمع تو ذوالعقول کی لائی جاتی ہے نہ کہ غیر ذوالعقول کی۔ جواب : جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ چونکہ شمس و قمر کی طرف یَسْبَحُوْنَ کی نسبت کی گئی ہے اور سَبْحٌ یعنی تیرنا ذوالعقول کا فعل ہے تو اس مناسبت سے یَسْبَحُون کو واؤ نون کے ساتھ لایا گیا ہے، عدم الخلد کو بشر کے ساتھ خاص کیا حالانکہ دیگر ذی روح بلکہ کائنات کی کسی شئ کے لئے خلود فی الدنیا نہیں ہے، جواب یہ ہے کہ ان کا سوال بھی آپ ﷺ کے لئے موت کی توقع بشر ہونے کی حیثیت ہی سے تھی۔ قولہ : فالجملۃ الاخیرۃ محل الاستفھام الانکاری اس عبارت کا مقصد بھی ایک شبہ کا ازالہ ہے، شبہ یہ ہے کہ ہمزہ استفہام انکاری فاِن مُتَّ پر داخل ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کی موت کا بھی انکار ہے اور ان کے خلود کا بھی، حالانکہ مقصد ان کے خلود کا انکار ہے، جواب کا ماحصل یہ ہے کہ ہمزہ دراصل جملہ اخیرہ ہی پر داخل ہے مگر چونکہ ہمزہ صدارت کلام کو چاہتا ہے اس لئے اس کو جملہ کے شروع میں لایا گیا ہے ورنہ اصل تقدیر عبارت یہ ہے اَفَھم الخٰلِدُوْنَ اِن مُتَّ کُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَۃُ المَوتِ نفس سے مراد نفس ناطقہ ہے اور موت سے مراد قوت حیوانیہ کا زوال اور روح کا جسد سے انفصال ہے اور ذائقہ سے مراد یہاں ادراک بالقوۃ الذائقۃ نہیں ہے اس لئے کہ موت مطعومات کے قبیل نہیں ہے بلکہ مطلقًا ادراک مراد ہے، اور ادراک سے بھی موت کے مبادیات موت مثلاً آلام وغیرہ کا ادراک مراد ہے اس لئے کہ موت کا ادراک دخول فی الجسد سے پہلے ممکن نہیں ہے اور دخول کے بعد انسان مردہ ہوجاتا ہے اس وقت ادراک ممکن نہیں رہتا۔ قولہ : فِتنَۃً اس کے منصوب ہونے کی تین وجہ ہوسکتی ہیں (1) نَبْلُوَکم کا مفعول لہ ہونے کی وجہ سے (2) مصدر موضع حال میں واقع ہونے کی وجہ سے ای نَبْلُوَکم قانتینَ (3) نبلوکم کا مفعول مطلق بغیر لفظہٖ ہونے کی وجہ، اس لئے کہ نَبْلُو اور فتنَۃٌ دونوں متحد المعنی ہیں وَاِذَا رَآکَ الَّذِیْنَ کفرُوْا اس جملہ کا عطف ماسبق میں وَاَسَرُّوْا النَّجْوٰی پر ہے، اور شرط ہے أھٰذَا الَّذِیْ یذکر آلھَتَکم اس کی جزاء ہے جزاء سے پہلے یقولون مقدر ہے اور ان یتخذونک اِلاَّ ھُزُوًا شرط وجزاء کے درمیان جملہ معترضہ ہے اور ھُزُوًّا مصدر مفعول کے معنی میں ہے وھُمْ بِذِکرِ الرحمٰن ھُمْ کافِرُوْنَ اول، ھم مبتدا ہے ثانی ھم اس کی تاکید ہے کافرون اس کی خبر ہے اور بذکر الرحمٰن، کافرون سے متعلق ہے تقدیر عبارت یہ ہے ھم کافرون بذکر الرحمٰن اور وھم بذکر الرحمٰن الخ جملہ حالیہ ہونے کی وجہ سے محلاً منصوب ہے، مفسر علیہ الرحمۃ نے لھُمْ کا اضافہ کرکے اس بات کی طرف اشارہ کردیا ذکر مصدر کی اضافت رحمٰن کی جانب یہ اضافت مصدر الی الفاعل ہے، اور بعض حضرات نے اضافت مصدر الی المفعول بھی کہا ہے اس وقت تقدیر عبارت و ذکرھم الرحمٰن بالتوحیدِ ہوگی (جمل) قولہ : خُلِقَ مِنْ عجلٍ ایسا ہی ہے جیسا کہ کہا جائے خُلِقَ مِنْ طِیْنٍ ہر انسان چونکہ فطرۃً ہر معاملہ میں جلد باز واقع ہوا ہے گویا کہ اس کی پیدائش عجلت کے خمیر سے ہے اسی لئے بطور مبالغہ خُلِقَ من عَجَل کہا گیا ہے۔ قولہ : لَوْ یَعْلَمُ الَّذِیْنَ کفَرُوْا حِیْنَ لایَکُفُّوْنَ الآیۃ لو شرطیہ ہے اور جواب محذوف ہے جیسا کہ مفسر علام نے ظاہر کردیا ہے ای لَوْ یعلم ما قالوا ذٰلک (ای متی ھٰذا الوعد) اور قولہ : حِینَ یعلم کا مفعول بہ ہے نہ ظرف، ترجمہ یہ ہوگا اگر یہ کافر اس وقت کو جان لیں کہ جب یہ عذاب دفع نہ کرسکیں گے۔ قولہ : ماکانوا بہ حَاقَ کا فاعل ہے اور ھو العذاب میں ھو کا مرجع ما ہے۔ تفسیر و تشریح اولم یر الذین کفروا اس جگہ رویت سے مطلقاً علم مراد ہے خواہ وہ آنکھوں سے حاصل ہو یا استدلال اور عقل سے، اس لئے کہ آئندہ جو مضمون آرہا ہے اسمیں سے کچھ کا تعلق مشاہدہ سے ہے اور کچھ کا علم استدلالی سے، اس آیت میں رتق اور فتقَ کے دو لفظ استعمال ہوئے ہیں، رتق کے معنی بند ہونے اور فتق کے معنی کھول دینے کے ہیں ان کے مجموعہ کو رتق و فتق کہتے ہیں، اس کا ایک مفہوم کسی کام کے انتظام اور اس کے پورے اختیار کے ہیں، رتق و فتق یعنی حل و عقد کا مختار ہونا، آیت کے الفاظ کا ترجمہ یہ ہے آسمان اور زمین بند تھے ہم نے ان کو کھول دیا، کھولنے اور بند ہونے سے کیا مراد ہے ؟ اس کی مراد میں مفسرین نے مختلف اقوال نقل کئے ہیں جمہور صحابہ اور جموہر مفسرین نے آسمان کے بند ہونے سے بارش کا نہ ہونا اور زمین کے بند ہونے سے پیداوار کا بند ہونا مراد لیا ہے اور کھولنے سے ان دونوں کا جاری ہونا مراد لیا ہے۔ بعض مفسرین نے رتق اور فتق کا یہ مطلب بھی بیان کیا ہے کہ ابتداء میں زمین و آسمان ایک تھے دونوں باہم ملے ہوئے تھے ہم نے دونوں کو الگ کردیا، علامہ شبیر احمد عثمانی نے مذکورہ دونوں تفسیروں کو بڑی خوبی سے جمع کردیا ہے، فرماتے ہیں کہ رتق کے اصل معنی ملنے اور ایک دوسرے میں گھسنے کے ہیں ابتداءً زمین و آسمان دونوں ظلمت عدم میں ایک دوسرے سے غیر متمیز پڑے تھے پھر وجود کے ابتدائی مراحل میں دونوں خلط ملط رہے، بعدہٗ قدرت کے ہاتھ نے دونوں کو ایک دوسرے سے جدا کیا اس تمیز کے بعد ہر ایک کے طبقات الگ الگ بنے اس پر بھی منہ بند تھے، نہ آسمان سے بارش ہوتی تھی اور نہ زمین سے روئیدگی آخر خدا تعالیٰ نے بنی نوع انسان کے فائدہ کے لئے دونوں کے منہ کھول دئیے اوپر سے پانی کا دہانہ کھلا، نیچے سے زمین کے مسام کھل گئے اسی زمین سے حق تعالیٰ نے نہریں اور کانیں اور طرح طرح کے سبزے نکالے آسمان کو بیشمار ستاروں سے آراستہ کیا جن میں سے ہر ایک کا مدار اور چال جدا جدا ہیں، وَجَعَلنَا منَ الماءِ کل شئ حیّ اس جملہ سے پہلی تفسیر کا راجح ہونا معلوم ہوتا ہے، بحر محیط میں اسی کو اختیار کیا ہے، ہر جاندار کی تخلیق میں پانی کا دخل ضرور ہے، اور جاندار اور ذی روح اہل تحقیق کے نزدیک صرف حیوانات ہی نہیں ہیں بلکہ نباتات بلکہ جمادات میں بھی روح محققین کے نزدیک ثابت ہے اور ظاہر ہے کہ پانی کو ان سب چیزوں کی تخلیق و ارتقاء میں بڑا دخل ہے۔ زمین کو جب ابتداءً پیدا کیا گیا تو اس میں اضطرابی حرکت تھی قرآن میں اس کے لئے تمید کا لفظ استعمال کیا گیا ہے، مَیْدٌ عربی میں اضطرابی حرکت کو کہتے ہیں، آیت کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین پر پہاڑوں کا بوجھ اس کا توازن برقرار رکھنے کے لئے ڈال دیا ہے تاکہ اس کی لرزش اور اضطرابی حرکت موقوف ہوجائے اور حیوانوں کے لئے رہنے اور بسنے کے قابل ہوجائے۔ (مزید تفصیل کے لئے تفسیر کبیر کی طرف رجوع کریں) کُلٌّ فی فَلَکٍ یَّسْبَحونَ فلک دراصل ہر دائرے اور گول چیز کو کہا جاتا ہے اسی وجہ سے چرغ میں جو گول چمڑا لگا رہتا ہے اس کو فلکۃ المِغزل کہتے ہیں (روح) اسی مناسبت سے آسمان کو فلک کہتے ہیں، یہاں شمس و قمر کے مدار مراد ہیں جن پر وہ حرکت کرتے ہیں، الفاظ قرآن میں اس کی کوئی تصریح نہیں ہے کہ یہ مدار آسمان کے اندر ہیں یا باہر فضاء میں، حالیہ تحقیقات نے واضح کردیا ہے کہ یہ مدار خلا میں آسمان سے بہت نیچے ہیں، تمام سیارے اپنے اپنے مدار میں گردش کر رہے ہیں۔ وما جعلنا لبشر من قبلک الخلد سابقہ آیات میں کفار و مشرکین کے باطل دعو وں اور مشرکانہ عقیدوں کی جن میں حضرت مسیح و عزیز وغیرہ کو خدا کا شریک یا فرشتوں اور مسیح کو خدا کی اولاد کہا گیا ان گمراہ کن عقائد کی تردید واضح دلائل کے ساتھ آئی ہے جس کا مخالفین کے پاس کوئی جواب نہ تھا ایسے موقعہ پر جب مخالف حجت اور دلیل سے مغلوب ہوجاتا ہے تو جھنجلاہٹ میں بےتکی اور بےجوڑ باتیں کرنے لگتا ہے، اسی کا نتیجہ تھا کہ مشرکین مکہ اس کی تمنا کرتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ کی جلد وفات ہوجائے جیسا کہ بعض روایات میں ہے، قرآن عزیز نے بھی ان کے اس مقولہ کو ذکر کیا ہے جس میں انہوں نے آپ کی موت کی تمنا اور خواہش کا اظہار کیا ہے، مذکورہ آیت میں حق تعالیٰ نے ان کی اس بیہودی تمنا اور آرزو کے دو جواب دئے ہیں وہ یہ کہ اگر ہمارے رسول ﷺ کی جلد ہی وفات ہوگئی تو تمہیں کیا فائدہ پہنچے گا ؟ اگر تمہارا مقصد یہ ہے کہ جب ان کی موت ہوجائے گی تو ہم لوگوں کو بتلائیں گے کہ یہ نبی اور رسول نہیں تھے ورنہ تو موت نہ آتی تو اس کا یہ جواب دیا کہ جن انبیاء کی نبوت کو تم بھی مانتے ہو کیا ان کو موت نہیں آئی ؟ جب ان کی موت سے ان کی نبوت اور رسالت میں کوئی فرق نہیں آیا تو آپ ﷺ کی موت سے آپ کی نبوت کے خلاف کوئی پروپیگنڈہ کیسے کیا جاسکتا ہے ؟ اور اگر تمہارا مقصد آپ ﷺ کی وفات سے اپنا غصہ ٹھنڈا کرنا ہے تو یاد رکھو کہ موت کا یہ مرحلہ تمہیں بھی درپیش ہے آخر تمہیں بھی مرنا ہے پھر کسی کی موت سے خوش ہونے کے لیا معنی ؟ ؎ گر بمرد جائے شادمانی نیست زندگانی ما نیز جاودانی نیست (سعدی) کل نفس ذائقۃ الموت یعنی ہر نفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے، یہاں ہر نفس سے نفوس ارضیہ مراد ہیں یعنی زمینی جانداروں کو موت آنا لازمی ہے، نفوس ملائکہ اس میں داخل نہیں ہیں، قیامت کے دن فرشتوں کو بھی موت آئے گی یا نہیں اس میں اختلاف ہے، بعض حضرات نے فرمایا کہ ایک لحظہ کے لئے تو سب پر موت طاری ہوجائے گی خواہ انسان اور نفوس ارضیہ ہوں یا فرشتے اور نفوس سماویہ، بعض مفسرین نے کہا ہے فرشتے اور جنت کے حوروغلمان مستثنیٰ ہیں۔ (روح المعانی) ذائقۃ الموت سے اس بات کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے کہ ہر نفس موت کی خاص تکلیف محسوس کرے گا کیونکہ مزہ چکھنے کا محاورہ ایسے ہی موقعہ پر استعمال ہوتا ہے۔ ونبلوکم بالشر والخیر فتنۃً یعنی خیر و شر کے ذریعہ ہم انسان کی آزمائش کرتے ہیں، شر سے مراد ہر خلاف طبع چیز ہے، جیسے بیماری رنج و غم اور فقر و فاقہ اور خیر سے اس کے بالمقابل ہر مرغوب طبع چیز ہے جیسے صحت و عافیت خوشی و راحت مذکورہ دونوں قسم کی چیزیں اس دنیا میں آزمائش کیلئے دی جاتی ہے یعنی اس بات کی آزمائش کرنا ہوتا ہے کہ خلاف طبع امور پر صبر کرکے اس کا حق ادا کرتا ہے یا نہیں اسی طرح مرغوب خاطر چیزوں پر شکر کرکے اس کا حق ادا کرتا ہے یا نہیں۔ خلق الانسان من عجل الخ یہ کفار کے مطالبہ عذاب کے جواب میں ہے، مطلب یہ ہے کہ انسان کی طبیعت میں جس طرح کچھ کمزوریاں ہیں ان میں سے ایک کمزوری عجلت کی بھی ہے اور جو چیز طبیعت اور جبلت میں داخل ہوتی ہے عرب اس کو اسی عنوان سے تعبیر کرتے ہیں یعنی یہ شخص اس چیز سے پیدا کیا گیا ہے جیسے اگر کسی کے مزاج میں غصہ غالب ہو تو کہا جائے گا کہ یہ غصہ کا بنا ہوا آدمی ہے، چناچہ کفار کی جلد بازی کا نتیجہ غزوۂ بدر وغیرہ میں کفار کو کھلی آنکھوں دکھا دیا۔
Top