Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer-e-Jalalain - Al-Anbiyaa : 51
وَ لَقَدْ اٰتَیْنَاۤ اِبْرٰهِیْمَ رُشْدَهٗ مِنْ قَبْلُ وَ كُنَّا بِهٖ عٰلِمِیْنَۚ
وَ
: اور
لَقَدْ اٰتَيْنَآ
: تحقیق البتہ ہم نے دی
اِبْرٰهِيْمَ
: ابراہیم
رُشْدَهٗ
: ہدایت یابی (فہم سلیم)
مِنْ قَبْلُ
: اس سے قبل
وَكُنَّا
: اور ہم تھے
بِهٖ
: اس کے
عٰلِمِيْنَ
: جاننے والے
اور ہم نے ابراہیم کو پہلے ہی سے ہدایت دی تھی اور ہم ان کے حال سے واقف تھے۔
آیت نمبر 51 تا 67 ترجمہ : اور ہم نے پہلے ہی ابراہیم کو یعنی سن بلوغ کے پہنچنے سے پہلے ہوشمندی عطا فرمائی تھی اور ہم اس بات سے بخوبی واقف تھے کہ وہ اس کا اہل ہے جبکہ اس نے اپنے باپ سے اور اپنی قوم سے کہا یہ مورتیاں (بت) جن کے تم مجاور بنے بیٹھے ہو کیا ہیں ؟ یعنی ان کی بندگی میں لگے ہوئے ہو تو سب نے جواب دیا ہم نے اپنے آباو اجداد کو انہیں کی عبادت کرتے ہوئے پایا ہے لہٰذا ہم نے انہیں کی اقتداء اختیار کیا ہے تو ابراہیم (علیہ السلام) نے ان سے کہا پھر تو تم اور تمہارے آبا ان کی بندگی کرنے کی وجہ سے کھلی گمراہی میں ہو، تو کہنے لگے کیا تم اپنے اس قول میں ہم سے سچ بات کہتے ہو ؟ یا اس بات میں (یوں ہی) مذاق کر رہے ہو ؟ ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا نہیں، بلکہ تمہارا رب جو کہ مستحق عبادت ہے وہ رب مالک ہے زمین اور آسمانوں کا جس نے ان کو بغیر کسی سابق نمونے کے پیدا فرمایا اور میں تو اس بات پر جو میں نے کہی ہے گواہ ہوں (قائل ہوں) اور خدا کی قسم میں تمہارے بتوں کے ساتھ تمہارے چلے جانے کے بعد ضرور ایک چال چلوں گا تو ان کے اپنی عید کے دن اپنے میلے میں چلے جانے کے بعد ان بتوں کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا جُذَاذًا جیم کے ضمہ اور کسرہ کے ساتھ، تبر سے ٹکڑے ٹکڑے کردیا مگر ان میں کے بڑے کو (چھوڑ دیا) اور تبر اس کی گردن میں لٹکا دیا تاکہ وہ اس کی طرف رجوع کریں ان کے (میلے) سے لوٹنے اور ان کے ساتھ جو حرکت کی گئی تھی اس کو دیکھنے کے بعد کہنے لگے ہمارے معبودوں کے ساتھ یہ حرکت کس نے کی ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ شخص اس معاملہ میں ظالموں میں سے ہے تو ان لوگوں نے آپس میں کہا ہم نے ایک نوجوان کو جس کو ابراہیم کہا جاتا ہے ان بتوں کی تنقیص (برائی) کرتے سنا ہے تو وہ لوگ کہنے لگے تو اچھا اس کو سب کے سامنے برسر عام حاضر کرو تاکہ لوگ اس کے خلاف اس بات کی گواہی دیں کہ یہی ہے (یہ حرکت) کرنے والا شخص تو اس کے آنے کے بعد لوگوں نے اس سے معلوم کیا کہ کیا تو نے ہمارے معبودوں کے ساتھ یہ حرکت کی ہے اے ابراہیم ؟ اپنے فعل سے سکوت اختیار کرتے ہوئے کہا نہیں بلکہ ان کے اس بڑے (گرو) نے کی ہے، یہ حرکت کرنے والے کے بارے میں ان ہی سے معلوم کرو اگر یہ بول سکتے ہوں ؟ اس میں جواب شرط مقدم ہے اور ماقبل میں مشرکین کیلئے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جت جن کا عاجز عن الفعل ہونا معلوم اور متعین ہے وہ معبود نہیں ہوسکتے، چناچہ یہ لوگ (حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی تقریر سن کر) سوچ میں پڑگئے اور اپنے دلوں میں کہنے لگے تم ہی درحقیقت ظالم ہو ایسی چیز کی بندگی کرکے جو بول بھی نہ سکے پھر ان کی کھوپڑی اوندھی ہوگئی (یعنی جہل وعناد کی طرف پلٹ گئے) یعنی اپنے کفر کی طرف پلٹ گئے، اور کہنے لگے واللہ (اے ابراہیم) تم تو جانتے ہی ہو کہ یہ بولنے پر قادر نہیں ہیں یعنی پھر تم ہم کو ان سے سوال کرنے کیلئے کیوں کہتے ہو ؟ تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جواب دیا کہ کیا خدا کو چھوڑ کر یعنی اس کے عوض ایسی چیز کی عبادت کرتے ہو کہ جو تم کو رزق وغیرہ کا کچھ نفع نہیں پہنچا سکتی اور اگر تم ان کی عبادت نہ کرو تو تم کو کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتی تف ہے تم پر، فا کے فتحہ اور کسرہ کیساتھ مصدر کے معنی میں یعنی تبًّا وقُبْحًا (کے معنی میں) اور ان پر بھی جن کی تم اللہ کو چھوڑ کر عبادت کرتے ہو کیا تمہیں اتنی سی بھی عقل نہیں ؟ یعنی یہ بت عبادت کے مستحق نہیں اور نہ معبود بننے کی ان میں صلاحیت ہے عبادت کا مستحق تو اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ تحقیق، ترکیب و تفسیری فوائد ولقد آتینا ابراہیم واؤ قسمیہ ہے ای وَعِزَّتِنَا وَجَلالِنا ابراہیم رشدہ رشد صلاحیت، ہوشیاری، ہدایت، حسن تدبیر من قبل مضاف الیہ محذوف ہے ای قبل بلوغہ، قبلہٗ کی ضمیر حضرت موسیٰ و عیسیٰ و محمد ﷺ کی طرف بھی راجع ہوسکتی ہے، التماثیلُ جمع تمثال پتھر یا دھات وغیرہ کی مورتی عاکفون جمع عاکفٍ ملازم، معتکف، مجاور۔ قولہ : لھا عاکفون، عاکف کا صلہ علیٰ آتا ہے لیکن یہاں لام استعمال ہوا ہے مفسر علام نے اشارہ کردیا کہ لام بمعنی علیٰ ہے اور اگر عاکف متضمن بمعنی عابد لیا جائے تو اس وقت لام صلہ لانا درست ہوگا اور اگر لام تعدیہ کے بجائے اختصاص کے لئے لے لیا جائے تو صلہ لام لانا بھی صحیح ہوگا جیسا کہ قالوا وجدنا آبائنا لھا عابدین میں عابدین کا صلہ لام استعمال ہوا ہے۔ قولہ : فجعلھم من ھم ضمیر مذکر ذوالعقول کے لئے مشرکین کے گمان کے اعتبار سے استعمال ہوئی ہے۔ قولہ : جذاذا مصدر ہونے کی وجہ سے جمع نہیں لایا گیا اور بعض حضرات نے جذاذ کو جذاذۃ کی جمع کہا ہے جیسا کہ زجاج زجاجۃٌ کی جمع ہے، اور بعض حضرات نے جُذاذٌ مصدر بمعنی مجذوذ کے لیا ہے۔ قولہ : مَنْ فعل ھٰذا من مبتداء ہے اور فعل ھذا اس کی خبر ہے اور انہ لمن الظلمین جملہ مستانفہ ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ من موصولہ اپنے صلہ سے ملکر مبتداء اور انہ لمن الظلمین اس کی خبر۔ قولہ سمعنا فتی یذکر، سمعنا، چونکہ ایسی شئ پر داخل ہے کہ جو مسموع نہیں ہوسکتی اور وہ فتی ہے اس لئے کہ فتی دیکھنے کی چیز ہے نہ کہ سننے کی ایسی صورت میں سمع متعدی بدو مفعول ہوتا ہے، لہٰذا یہاں سمعنا متعدی بدو مفعول ہے مفعول اول فتی ہے اور یذکرھم جملہ ہو کر مفعول ثانی ہے، اور اگر سمع شئ مسموع پر داخل ہو تو متعدی بیک مفعول ہوتا ہے جیسا کہ تو کہے سمعت کلام زیدٍ ۔ قولہ : یقال لہ ابراہیم یہ فتی کی صفت ثانیہ ہے ابراہیم کے مرفوع ہونے کی چند وجوہ ہوسکتی ہیں اول، یقال کا نائب فاعل ہونے کی وجہ سے یقال لہ ابراہیم ای یسمی لہ ابراہیم اس صورت میں ابراہیم سے مراد لفظ ابراہیم ہوگا نہ کہ مسمی ابراہیم، دوسری وجہ یہ ہے کہ ابراہیم مبتدا محذوف کی خبر ہو ای یقال لہ ھذا ابراہیم، یا ابراہیم مبتداء ہو اور اس کی خبر محذوف ہو ای یقال لہ ابراھیم فاعل ذٰلک۔ قولہ : کبیرھم ھٰذا، ھذا کبیرھم سے بدل ہے یا صفت ہے۔ قولہ : نکسوا علی رؤسھم جمہور کی قرأت میں نکسوا مبنی للمفعول ہے یعنی ان کی کھوپڑی الٹ دی گئی اور الٹنے والا اللہ تعالیٰ ہے، مطلب یہ ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی تقریر سے بتوں کا عاجز اور بےبس ہونا سمجھ میں آگیا تھا اور قریب تھا کہ حق کی طرف رجوع کریں مگر ان کی کھوپڑی پھر گئی جس کی وجہ سے کفر کی طرف پلٹ گئے، مفسر علام نے من اللہ کا اضافہ فرما کر اسی قرأت کی طرف اشارہ کیا ہے اور شاذ قرأت میں نکسوا نون کے فتحہ اور کاف کی تشدید کے ساتھ مبنی للفاعل بھی ہے اس صورت میں نکسوا کے فاعل خود مشرکین ہوں گے اور مطلب یہ ہوگا کہ مشرکین نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی مدلل تقریر سن کر شرمندگی اور ندامت کی وجہ سے سرجھکا لیا مگر کچھ دیر کے بعد کفر کی طرف پلٹ گئے۔ قولہ : قالوا واللہ یہ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ لَقَد علمے قسم محذوف کا جواب ہے۔ قولہ : افلا تعقلون فا عاطفہ ہے معطوف علیہ فعل محذوف ہے جس پر ہمزہ داخل ہے تقدیر عبارت یہ ہے اجھلتم فلا تعقلون۔ تفسیر و تشریح ولقد آتینا۔۔۔۔ قبل، من قبل سے مراد یا تو یہ ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) کو رشد (ہدایت یا ہوشمندی) دینے کا واقعہ آپ ﷺ اور موسیٰ و ہارون و عیسیٰ (علیہم السلام) سے پہلے کا ہے یا مطلب یہ ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو نبوت عطا کرنے سے پہلے ہی ہوشمندی عطا کردی گئی تھی، اور یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ بلوغ سے پہلے ہی آپ کو ہوشمندی اور صلاحیت عطا کردی گئی تھی اور ہم اپنے علم ازلی کے اعتبار سے اس بات کو جانتے تھے کہ وہ اس رشد کا اہل ہے اور وہ اس کا صحیح استعمال کرے گا، جبکہ اس نے اپنے باپ سے اور اپنی قوم سے کہا کہ یہ مورتیاں جن کے تم مجاور بنے بیٹھے ہو کیا ہیں ؟ یعنی ذرا ان کی اصلیت اور حقیقت کو بیان کرو آخر پتھر کی خودتراشیدہ مورتیاں خدا کس طرح بن گئیں قالوا وجدنا آباءنا الخ یعنی عقل اور فطرت اور نقل معتدبہ کی کوئی شہادت ہماری تائید میں نہیں ہے نہ سہی لیکن سب سے بڑی اور بھاری دلیل بت پرستی کے حق و صواب ہونے کی یہ ہے کہ اوپر سے ہمارے باپ دادا انہیں کی پوجا کرتے چلے ائے ہیں پھر ہم اپنے بڑوں کا طریقہ کیسے چھوڑ دیں۔ قال لقد کنتم انتم الخ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جواب دیا کہ اس دلیل سے تمہاری حقانیت اور عقلمندی ثابت نہیں ہوئی البتہ یہ ثابت ہوا کہ تمہارے باپ دادا بھی تمہاری طرح گمراہ اور بیوقوف تھے جنکی کو رانہ تقلید میں تم گمراہ ہو رہے ہو۔ پوری قوم کے عقیدہ کے خلاف ابراہیم (علیہ السلام) کی ایسی سخت اور مدلل گفتگو سن کر ان میں ہلچل مچ گئی کہنے لگے کیا سچ مچ تیرا عقیدہ یہی ہے یا ہنسی اور دل لگی کرتا ہے، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جواب دیا، میرا عقیدہ ہی یہ ہے اور پورے یقین اور بصیرت کے ساتھ اس کی شہادت دیتا ہوں میرا تمہارا سب کا رب وہی ایک خدا ہے جس نے آسمان اور زمین پیدا کئے۔ حضرت ابراہیم نے آہستہ سے کہا کہ تمہارے چلے جانے کے بعد تمہارے بتوں کا علاج کر دوں گا، یہ بات حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے یا تو اپنے دل میں کہی یا کمزور قسم کے لوگوں کے سامنے آہستہ سے کہی، یہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ زبانی نہی عن المنکر تو میں کرچکا اب نہی عن المنکر فعلی کروں گا، چناچہ جب قوم جش منانے کے لئے میلے میں باہر چلی گئی تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے موقعہ کو غنیمت سمجھ کر سب بتوں کو توڑ پھوڑ کر دکھ دیا اور صرف بڑے بت کو جو جسم و جثہ کے اعتبار سے سب سے بڑا تھا چھوڑ دیا اور کلہاڑی اس کے گلے میں لٹکا دی، تاکہ وہ لوگ جب واپس آکر یہ صورت حال دیکھیں تو قدرتی طور پر ان کا خیال اس بڑے بت کی طرف ہو، یا الزاماً اس کی طرف رجوع کرایا جاسکے، چناچہ جب وہ لوگ میلے سے واپس آئے تو بڑا حیرت انگیز منظر دیکھا کہ سب بت ٹوٹے پڑے ہیں اور کلہاڑی بڑے بت کے گلے میں لٹکی ہوئی ہے تو کہنے لگے یہ گستاخی اور بےادبی کی حرکت ہمارے معبودوں کے ساتھ کس نے کی ہے ؟ یقیناً جس نے یہ حرکت کی ہے بڑا ظالم اور بےرحم ہے، چناچہ بعض لوگوں نے جنہوں نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا مقولہ تاللہ لاکیدن اصنامکم سنا ہوگا کہنے لگے وہ نوجوان ابراہیم (علیہ السلام) ہے نا، وہ ہمارے بتوں کے خلاف باتیں کرتا ہے معلوم ہوتا ہے یہ اسی کی کارستانی ہے۔ پھر سب کہنے لگے اس کو مجمع عام کے سامنے لاؤ تاکہ سب لوگ دیکھیں چناچہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو مجمع عام میں لایا گیا اور ان سے معلوم کیا گیا، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جواب دیا کہ یہ کام تو اس بڑے بت نے کیا ہے اگر یہ (ٹوٹے ہوئے بت) بول سکتے ہیں تو انہیں سے معلوم کرو یہ خود ہی اپنے توڑنے والے کو بتادیں گے، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے یہ بات بطور تعریض و تبکیت کہی تاکہ لوگ یہ جان لیں کہ جو نہ بول سکتا ہو اور اپنی مصیبت کی فریاد بھی نہ کرسکتا ہو اور نہ خود اپنا دفاع کرسکتا ہو بلکہ پڑا پڑا مار کھا تا رہے وہ معبود نہیں ہوسکتا۔ ایک حدیث میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے اس قول بل فعلہ کبیرھم کو لفظ کذب سے تعبیر کیا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے تین جھوٹ بولے دو اللہ کے لئے ایک انی سقیم اور دوسرا بل فعلہ کبیرھم ھذا اور تیسرا حضرت سارہ کو اپنی بہن کہنا (صحیح بخاری کتاب الانبیاء باب واتخذ اللہ ابراھیم خلیلاً ) زمانہ حال کے بعض مفسرین نے مرزا قادیانی اور کچھ دوسرے مستشرقین سے مغلوب مسلمانوں نے اس حدیث کو صحیح السند ہونے کے باوجود اس لئے غلط اور باطل کہہ دیا ہے کہ اس سے حضرت خلیل اللہ کی طرف جھوٹ کی نسبت ہوتی ہے اور سند کے تمام راویوں کو جھوٹا کہہ دینا اس سے بہتر ہے کہ خلیل اللہ کو جھوٹا قرار دیا جائے، کیونکہ وہ قرآن کے خلاف ہے لیکن ان کی یہ رائے صحیح نہیں ہے، یقیناً حقیقت کے اعتبار سے انہیں جھوٹ نہیں کہا جاسکتا بلکہ یہ توریہ ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ایسا ذو معنیین لفظ بولا جائے کہ متکلم اس کا ایک معنی مراد لے اور مخاطب دوسرے معنی سمجھے، دینی ضرورت اور مصلحت کے لئے تو ریہ درست ہے، ظلم سے بچنے کے لئے باتفاق فقہاء بالکل جائز ہے۔ توریہ شیعوں کے تقیہ سے بالکل مختلف چیز ہے، تقیہ میں صریح جھوٹ بولا جاتا ہے اور اس پر عمل بھی کیا جاتا ہے، توریہ میں صریح جھوٹ نہیں ہوتا بلکہ جس معنی سے متکلم بول رہا ہے وہ بالکل صحیح ہوتے ہیں، جیسے اسلامی رشتہ سے بیوی اور شوہر کا بھائی بہن ہونا، سفر ہجرت کے دوران جب کہ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی گرفتاری کے لئے سو اونٹ انعام رکھا ہوا تھا، ایک شخص کا راستہ میں ملنا اور حضرت ابوبکر صدیق سے آپ ﷺ کے بارے میں دریافت کرنا کہ یہ کون ہے ؟ حضرت ابوبکر صدیق کا رجل یھدینی السبیل توریہ کے طور پر فرمانا، یہ دینی السبیل کے دو معنی ہیں دینی رہنمائی کرنے والا اور سفر کے لئے رہبری کرنے والا، حضرت ابوبکر کا مقصد آخرت اور دینی رہبری تھی اور مخاطب سفر کی رہبری سمجھا اسی کو توریہ کہتے ہیں صحابہ اور اسلاف کی زندگی میں اس قسم کی صدہا مثالیں آپ کو مل سکتی ہیں۔ حدیث شریف میں بھی حضرت ابراہیم خلیل اللہ کے بارے میں کذبات ثلٰثہ کا ذکر ہے، ان کا پہلا کذب فعلہ کبیرھم ھٰذا ہے اس کی بہت سی توجیہات کی گئیں ہیں مگر ان میں سب سے صاف اور بےغبار توجیہ یہ ہے کہ یہ اسناد مجازی کے قبیل سے ہے، عربی میں اس کی بہت سی مثالیں مذکور ہیں مثلاً انبت الربیع البقل چونکہ موسم ربیع بقل کو اگانے کا بظاہر سبب ہے اس لئے انبات کی نسبت بقل کی جانب کردی گئی ہے، ورنہ حقیقت میں انبات اللہ تعالیٰ کا فعل ہے، دوسری مثال بنی الامیر المدینۃ ہے چونکہ امیر کے حکم سے مدینہ کی تعبیر ہوئی ہے اس لئے نباء کی نسبت امیر کی جانب کردی گئی ہے ورنہ بنانے والے تو درحقیقت معمار اور بنائین ہیں، اسی طرح فعلہٗ کبیرھم ھٰذا میں بھی اسناد مجازی ہے، چونکہ مشرکوں نے بڑے بت کو خدا کا درجہ دے رکھا تھا اور رات دن اس کی بندگی کرتے تھے تو گویا کہ بتوں کو توڑنے پر اس بڑے بت نے ہی آمادہ کیا گویا کہ بڑا بت ہی ان بتوں کو توڑنے کا سبب بنا اسی سببیت کی وجہ سے فعل کی نسبت بڑے بت کی طرف کردی گئ ہے، دوسرا انی سقیم ہے سقیم کے معنی جس طرح بیماری کے آتے ہیں اسی طرح دلی رنج وغم کے بھی آتے ہیں، اس میں شک کی کیا گنجائش ہے کہ حضرت ابراہیم خلیل اللہ اپنی قوم کی گمراہی کو دیکھ کر کس قدر رنجیدہ اور غم زدہ ہوں گے لہٰذا آپ کی انی سقیم کہنا اپنی جگہ درست اور بالکل صحیح تھا، تیسرا حضرت سارہ کو بہن بتانا تو یہ بھی کوئی خلاف واقعہ بات نہیں تھی اس لئے کہ حضرت ابراہیم اور حضرت سارہ دونوں آپس میں دینی اور اسلامی بھائی بہن تھے اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اس کی وضاحت بھی کردی تھی کہ میں نے ظالم بادشاہ کے سامنے تم کو اپنی بہن بتایا ہے لہٰذا تم بھی اس کے خلاف نہ کہنا اور ہم دونوں دینی اور اسلامی بھائی ہیں، ظالم بادشاہ کی دست درازی اور اس کے شل ہونے نیز حضرت سارہ کو صحیح سلامت رخصت کرنے کے واقعہ کے لئے تفسیر کی کتابوں کی طرف رجوع کریں۔ حدیث میں کذبات ثلٰثہ کا ذکر جس ضمن میں آیا ہے وہ بھی قابل غور ہے اور وہ ہے میدان محشر میں اللہ کے روبرو جاکر سفارش کرنے سے اس لئے گریز کرنا کہ ان سے دنیا میں تین موقعوں پر لغزش کا صدور ہوا ہے درآنحالیکہ وہ لغزشیں نہیں ہیں یعنی حقیقت اور مقصد کے اعتبار سے وہ جھوٹ نہیں ہے مگر اللہ کی عظمف اور جلال کی وجہ سے اتنے خوف زدہ ہوں گے کہ یہ باتیں جھوٹ کے ساتھ ظاہری مماثلت کی وجہ سے قابل گرفت نظر آئیں گی گویا کہ حدیث کا مقصد حضرت ابراہیم کو جھوٹا ثابت کرنا ہرگز نہیں ہے بلکہ اس کیفیت کا اظہار ہے جو قیامت کے دن خشیت الٰہی کی وجہ سے ان پر طاری ہوگی۔ علامہ شبیر احمد عثمانی نے فوائد عثمانی میں بل فعلہ کبیرھم ھذا کی توجیہ اس طرح فرمائی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے علیٰ سبیل الفرض فعلہ کبیرھم ھذا فرمایا تھا جیسا کہ مناظروں میں ہوتا ہے یعنی مجھ سے دریافت کرنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ یہ فرض کرلیا جائے کہ اس بڑے گرو گھنٹال نے جو صحیح سالم کھڑا ہے اور توڑنے کا آلہ بھی اس کے پاس موجود ہے یہ کام کیا ہوگا، لیجئے بحث و تحقیق کے وقت بطور الزام و تبکیت میں یہ دعویٰ کرتا ہوں کہ بڑے بت نے سب چھوٹوں کو توڑ ڈالا اب آپ کے پاس کیا دلیل ہے کہ ایسا نہیں ہوا کیا دنیا میں ایسا ہوتا نہیں ہے کہ بڑے سانپ چھوٹے سانپوں کو بڑی مچھلی چھوٹی مچھلیوں کو نگل جاتی ہے، اور بڑے بادشاہ چھوٹی سلطنتوں کو تباہ کر ڈالتے ہیں، اس لئے فیصلہ کی بہتر صورت میرے اور تمہارے درمیان یہ ہے کہ تم خود اپنے معبودوں ہی سے دریافت کرلو کہ یہ ماجرا کس طرح ہوا گر یہ کچھ بول سکتے ہیں، تو کیا ایسے اہم معاملہ میں بول کر میرے جھوٹ سچ کا فیصلہ نہ کردیں گے، مذکورہ تقریر سے ظاہر ہوگیا کہ بل فعلہ کبیرھم ھذا کہنا خلاف واقعہ خبر دینے کے طور پر نہ تھا جسے حقیقۃً جھوٹ کہا جائے بلکہ ان کی تجہیل و تحمیق کے لئے ایک فرضی احتمال کو بصورت دعوی لیکر بطور تعریض والزام کلام کیا تھا جیسا کہ عموماً بحث و مناظرہ میں ہوتا ہے توڑ پھوڑ کر بڑے بت کی جانب منسوب کرنے میں ایک مصلحت دینی یہ تھی کہ شاید لوگوں کو اس طرف توجہ ہوجائے کہ شاید اس بڑے بت کو اس پر غصہ آگیا ہو کہ میرے ساتھ عبادت میں ان چھوٹے بتوں کو کیوں شریک کیا جاتا ہے اگر یہ خیال ان کے دلوں میں پیدا ہو تو توحید کا راستہ کھل جاتا ہے کہ جب ایک بڑا بت چھوٹے بتوں کی شرکت گوارا نہیں کرتا تو رب العالمین ان پتھروں کی شرکت اپنے ساتھ کیسے گوارہ کرے، اسی طرح بعض احادیث میں اس پر لفظ کذب کا اطلاق صورتاً کیا گیا ہے، مفسرین نے اس کے علاوہ اس کی توجیہ میں اور بھی کئی محمل بیان کئے ہیں۔ فرجعوا الیٰ انفسھم پھر وہ سوچ میں پڑگئے، اور اپنے دل میں کہنے لگے کہ واقعتاً تم ہی ظاہم ہو ان بےزبان پتھروں کو پوجنے سے کیا حاصل ؟ جو مصیبت کے وقت خود اپنی مدد بھی کرسکیں اور پڑے ہوئے اپنے ہاتھ پیر توڑ واتے رہیں جو خود اپنی مدد نہ کرسکے، وہ دوسروں کی کیا مدد کرسکتا ہے گویا کہ حق کی ایک کرن ان کے دل میں روشن ہوئی مگر پھر تسویل شیطانی کی وجہ سے پلٹ گئے اور کفر و ضلالت کو حق و ہدایت پر ترجیح دینے لگے، اور کہنے لگے کہ تو جان بوجھ کر ہم سے ایسی ناممکن بات کا مطالبہ کیوں کرتا ہے کہیں پتھر بھی بولتے ہیں ؟ جب مشرکوں نے اپنے بتوں کی بےبسی اور عاجزی کا اقرار کرلیا تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو گرفت کرنے اور الزام دینے کا موقعہ مل گیا، اور فرمایا پھر تو تم کو ڈوب مرنا چاہیے کہ جو بت اس قدر مجبور و بےبس ہوں کہ ایک لفظ نہ بول سکتے ہوں اور کسی آڑے وقت میں کچھ کام نہ آسکتے ہوں ایسے بےاختیار بتوں کو خدائی کا درجہ دینا کس قدر حماقت اور بےعقلی کی بات ہے، کیا تم اتنی موٹی سی بات بھی نہیں سمجھ سکتے۔
Top