Tafseer-e-Jalalain - Al-Hajj : 26
وَ اِذْ بَوَّاْنَا لِاِبْرٰهِیْمَ مَكَانَ الْبَیْتِ اَنْ لَّا تُشْرِكْ بِیْ شَیْئًا وَّ طَهِّرْ بَیْتِیَ لِلطَّآئِفِیْنَ وَ الْقَآئِمِیْنَ وَ الرُّكَّعِ السُّجُوْدِ
وَاِذْ : اور جب بَوَّاْنَا : ہم نے ٹھیک کردی لِاِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم کے لیے مَكَانَ الْبَيْتِ : خانہ کعبہ کی جگہ اَنْ : کہ لَّا تُشْرِكْ : نہ شریک کرنا بِيْ : میرے ساتھ شَيْئًا : کسی شے وَّطَهِّرْ : اور پاک رکھنا بَيْتِيَ : میرا گھر لِلطَّآئِفِيْنَ : طواف کرنے والوں کے لیے وَالْقَآئِمِيْنَ : اور قیام کرنے والے وَالرُّكَّعِ : اور رکوع کرنے والے السُّجُوْدِ : سجدہ کرنے والے
جب ہم نے ابراہیم کے لئے خانہ کعبہ کو مقام مقرر کیا (اور ارشاد فرمایا) کہ میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کیجئیو اور طواف کرنے والوں اور قیام کرنے والوں اور رکوع کرنے والوں (اور) سجدہ کرنے والوں کے لئے میرے گھر کو صاف رکھا کرو
آیت نمبر 26 تا 33 ترجمہ : اور اس واقعہ کا ذکر کیجئے جب ہم نے ابرا ہیم کو خانہ کعبہ کی جگہ کی نشا ند ہی کردی تاکہ اس کی تعمیر کریں اور بیت اللہ کو طوفان (نو ح) کے زما نہ میں اٹھا لیا گیا، اور ہم نے اس کو یہ حکم دیا کہ میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کرنا، اور میرے گھر کو بتوں سے طواف کرنے والوں کے لئے اور قیام اور رکوع اور سجود کرنے والوں کے لئے پاک رکھنا، رُکعٍ جمع راکعٍ اور سجود جمع ساجدٍ اور مراد تمام پڑھنے والے ہیں، اور لوگوں میں حج کا اعلان کردے، چناچہ (حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے) جبل ابی قبیس پر چڑھ کر اعلان فرمایا ” اے لوگو ! تمہارے رب نے ایک گھر بنایا ہے اور تمہارے اوپر اس کا حج کرنا واجب کیا ہے لہٰذا تم اپنے رب کی ندا پر لبیک کہو اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے چہرے کو دائیں بائیں اور شرقاً و غرباً گھمایا، چناچہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی آواز پر مردوں کی پشت سے اور عورتوں کے ارحام سے ہر اس شخص نے لبیک کہا کہ جس کی قسمت میں حج لکھا ہوا تھا ” لبیک اللھم لبیک “ اور جواب امر ” یاتوک رجالا “ ہے رجالاً کے معنی پاپیادہ کے ہیں اور رجال رجل کی جمع ہے جیسے قائم کی جمع قیام ہے، چلے آئیں گے لوگ تیرے پاس پیدل اور سوار ہو کر دبلے اونٹوں پر، ضامر دبلے اونٹ کا کہتے ہیں اس کا اطلاق نر و مادہ دونوں پر ہوتا ہے آئیں گی وہ انٹنیاں دور و دراز راستہ سے یا تین بصیغہ جمع ضامر کے معنی کی رعایت کی وجہ سے لایا گیا ہے تاکہ تجارت کے ذریعہ اپنے دنیوی فوائد کے لئے یا اخروی فوائد یا دونوں فوائد کے لئے اپنے منافع کی جگہ حاضر ہوں یہ تین قول ہیں اور (اس لئے آویں) تاکہ ایام مقررہ یعنی عشرۂ ذی الحجہ یا یوم عرفہ یا یوم نحر میں ایام تشریق کے آخری دن تک، یہ تین قول ہیں، ان چوپایوں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ نے ان کو دئیے ہیں وہ اونٹ اور گائے اور بکریاں ہیں جو کہ یوم نحر میں اور اس کے بعد ہدایا اور ضحایا میں سے ذبح کی جاتی ہیں پس تم خود بھی کھاؤ اگر وہ مستحب ہوں اور صاحب فقر کو یعنی شدید حاجت مند کو کھلاؤ پھر ان کو چاہیے کہ اپنا میل کچیل دور کرکے نذر پوری کریں والیوفوا فا کی تخفیف اور تشدید کے ساتھ ہے، اور بیت عتیق کا طواف افاضہ (زیارت) کریں یعنی قدیم گھر کا، اس لئے کہ وہ پہلا گھر ہے جو بنایا گیا ذٰلک مبتداء محذوف کی خبر ہے (تقدیر عبارت یہ ہے) الامر ذٰلک المذکور یا الشان ذٰلک المذکور یعنی مذکورہ بات تو پوری ہوئی اور جو شخص اللہ کی محترم چیزوں کی تعظیم کرے گا اور وہی وہ چیزیں ہیں کہ جن کی بےحرمتی جائز نہیں تو ان کی تعظیم اس کے حق میں اس کے رب کے نزدیک آخرت میں بہتر ہے اور تمہارے لئے جانوروں کو ذبح کرنے کے بعد حلال کردیا گیا ہے باستثناء ان جانوروں کے کہ جن کی حرمت تم کو حرمت علیکم المیتۃ (الآیۃ) میں بتادی گئی ہے سو یہ مستثنیٰ منقطع ہے اور اس کا مستثنیٰ متصل ہونا بھی جائز ہے اور حرمت موت وغیرہ کے لاحق ہونے کی وجہ سے ہے سو تم گندگی سے جو کہ وہ بت ہیں کنارہ کش رہو من بیانیہ ہے یعنی رجس جو کہ وہ بت ہیں اور جھوٹی بات سے بچتے رہو یعنی شرک فی التلبیہ سے اور جھوٹی گواہی سے بچتے رہو اس طور سے کہ اللہ کی طرف جھکے رہو تابع فرمان رہو، اس کے دین کے علاوہ ہر چیز سے اعراض کرتے رہو اس کے ساتھ کسی کو شریک مت ٹھہراؤ یہ ماقبل کی تاکید ہے اور یہ دونوں (حنفاء اور غیر مشرکین) اجتنبوا کے واؤ سے حال ہیں اور جس شخص نے اللہ کے ساتھ شرک کیا تو گویا کہ وہ آسمان سے گرپڑا پھر یا تو پرندے اس کو اچک لیں گے یعنی جلدی سے اس کو پکڑ لیں گے یا ہوا اس کو دور دراز جگہ پر ڈالدے گی اور مکان بعید یہ ہے کہ اس کی خلاصی کو توقع نہیں کی جاسکتی، یہ سن لیا ذٰلک سے پہلے الامر مبتدا محذوف اور سنو جو شخص شعائر اللہ کی عزت و حرمت کرے گا بیشک ان کی تعظیم ان کی پرہیزگاری کی وجہ سے ہے اور وہ، وہ بدنے ہیں جو حرم کی جانب سے بطور ہدی بھیجے جاتے ہین، اور شعائر اللہ کی تعظیم کی صورت یہ ہے کہ ان کی اچھی طرح دیکھ بھال کرے اور ان کو (کھلا پلا کر) فربہ کرے، اور ان (قربانی کے جانوروں) کو شعائر اس لئے کہا جاتا ہے کہ ان کے کوئی ایسی علامت لگا دی جاتی ہے جس کی وجہ سے وہ پہچانے جاتے ہیں جیسا کہ ان کی گواہان میں نیزہ سے زخم لگا دینا اور تمہارے لئے ان میں وقت مقرر یعنی ذبح ہونے تک کچھ منافع ہیں، مثلاً ان پر سوار ہونا اور ان پر کسی ایسی چیز کا لادنا کہ جو ان کے لئے مضرت رساں نہ ہو پھر ان کے مقام یعنی ان کے قربان کرنے کی جگہ بیت اللہ کے قریب ہے اور مراد پورا حرم ہے۔ تحقیق و ترکیب و تفسیری فوائد قولہ : بعانا بوا تبویۃً سے ماضی جمع متکلم ہے، ہم نے جگہ دی ہے، زجاج نے کہا ہے بوانا کے معنی بینا لہ مکان البیت لیبنیہ ویکون مباءۃ لہٗ مفسر علام نے بوانا کی تفسیر بینا سے کرکے اس بات کی طرف اشارہ کردیا کہ لابراھیم میں لام زائدہ نہیں ہے بلکہ بطور صلہ تعدیہ کے لئے ہے اور اگر بوانا، انزلنا کے معنی میں ہو تو لام کو زائدہ ماننا پڑے گا اس لئے کہ بوأنا اس وقت متعدی بنفسہ ہے، قولہ : امرناہ کی تقدیر سے اشارہ کیا ہے کہ أن لا تشرک بہ محذوف کا معمول ہے اور اس محذوف کا عطف بوانا پر ہے، وطھر بیتی اس سے پہلے امرنا یا قلنا محذوف ہے۔ قولہ : یاتوک خطاب کا صیغہ یا تو اس وجہ سے استعمال فرمایا ہے کہ حجاج کی بیت اللہ میں حاضری حضرت ابراہیم ہی کے اعلان کے نتیجہ میں ہوتی ہے، یا پھر مضاف محذوف ہے ای یا تو بیتک اور بیت کی اضافت کاخطاب کی جانب تعمیر کی وجہ سے ہے، قولہ : ضامر دبلا جس کی کمر پتلی ہو یہ ضمور سے مشتق ہے تضمیر کہتے ہیں گھوڑے کو فربہ کرنے کے بعد دوڑا کر دبلا کرنا تاکہ وہ تیز رفتار ہوجائے۔ قولہ : یاتین یہ جمع کا صیغہ ہے ضامر کی صفت ہے حالانکہ ضامر مفرد ہے، کل ضامر جمع کے معنی میں ہے معنی ہی کی رعایت کی وجہ سے یاتین بصیغہ جمع لایا گیا ہے ورنہ تو یاتی واحد مذکر غائب کا صیغہ لانا چاہیے تھا۔ قولہ : لیشھدوا اس کا تعلق اذن اور یاتوک دونوں سے ہوسکتا ہے ثانی ظاہر ہے۔ اذا کانت مستحبۃ امام شافعی (رح) کے یہاں چونکہ ضحایا واجبہ سے مالدار کے لئے کھانا درست نہیں ہے، اس لئے مفسر علام نے اذا کانت مستحبۃ کا اضافہ فرمایا امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک سوائے دم جنایت کے مالداروں کے لئے کھانا جائز ہے، جیسے دم تمتع اور دم قران۔ قولہ : طواف الافاضہ یہ طواف رکن ہے، اسی کو طواف زیارت بھی کہتے ہیں اس کو افاضہ اس لئے کہا کہ اس کا وقت عرفات سے فارغ ہونے کے بعد ہے۔ قولہ : البیت العتیق، عتیق دو معنی میں مستعمل ہے اول بمعنی قدیم چونکہ عبادت خانہ کے طور پر بیت اللہ کو سب سے اول بنایا گیا تھا، اس لئے اس کو عتیق یعنی قدیم کہنا درست ہے اور دوسرے معنی، آزاد کے ہیں یعنی عتیق بمعنی معتق حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے چونکہ اس کو جبابرہ کے تسلط سے آزاد کردیا ہے، اس لئے اس کو عتیق کہا گیا ہے، اب رہا حجاج بن یوسف کا تسلط تو وہ حضرت زبیر ؓ کو بیت اللہ سے نکالنے کے لئے تھا نہ کہ بیت اللہ کو منہدم کرنے کے ارادہ سے مقصد پورا ہونے کے بعد حجاج نے دوبارہ بیت اللہ کی تعبیر کرا دی تھی، اور بعض حضرات نے عتیق کے معنی کریم کے بھی بیان کئے ہیں، ای البیت الکریم (جمل) قولہ : تحریمہ کے اضافہ کا مقصد اس بات کی طرف اشارہ کرنا ہے کہ یتلیٰ کا نائب فاعل محذوف ہے، مفسر علام اگر تحریمہ محذوف ماننے کے بجائے آیت التحریم محذوف مانتے تو زیادہ بہتر ہوتا اس لئے کہ متلوآیۃ تحریم ہے نہ کہ تحریم۔ قولہ : فالاستثناء منقطع الا ما یتلیٰ علیکم یہ مستثنیٰ منقطع ہے اس لئے کہ مستثنیٰ جو کہ المیتۃُ والدمُ ولحم الخنزیر الآیۃ ہے مستثنیٰ منہ الانعام کی جنس سے نہیں ہے لہٰذا یہ مستثنیٰ منقطع ہے اور مستثنیٰ متصل بھی ہوسکتا ہے بایں طور کہ الا ما یتلیٰ علیکم میں ما سے مراد وہ مردار ہے جو عارض موت کی وجہ سے مرگیا ہو یا غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا گیا، اس صورت میں چونکہ مستثنیٰ مستثنیٰ منہ کی جنس سے ہے لہٰذا مستثنیٰ متصل ہوگا۔ قولہ : حنفاء یہ اجتنبوا کی ضمیر واؤ سے حال ہے۔ قولہ : شعائر اللہ اعمال حج کو کہتے ہیں اس کا واحد شعیرۃٌ یا شعارۃٌ ہے اور مشاعر مواضع المناسک کے معنی میں ہے۔ قولہ : ھی البدن سیاق پر حمل کرتے ہوئے شعائر کی تفسیر بُدُن سے کی ہے، بہتر یہ تھا کہ اس کو عام رکھتے جو دیگر شعائر کو بھی شامل ہوجاتا۔ قولہ : من تقوی القلوب منھم منہم کا اضافہ کرکے اشارہ کردیا کہ من یعظم میں من موصولہ ہے اور من تقوی القلوب جملہ ہو کر صلہ ہے جس میں عائد کا ہونا ضروری ہے اور وہ منھم ہے۔ قولہ : طعن نیزہ سے زخم لگانا سنام اونٹ کی کوہان کو کہتے ہیں۔ قولہ : کر کو بھا یہ امام شافعی (رح) کے نزدیک ہے احناف کے نزدیک بغیر حالت اضطراری کے سوار ہونا درست نہیں ہے۔ قولہ : المراد الحرم قرب شئ کو عین شئ کا حکم دیدیا گیا ہے، اس لئے کہ ہدی بیت اللہ میں ذبح نہیں کی جاتی بلکہ حدود حرم میں ذبح کرنا ضروری ہے نہ کہ بیت اللہ یا مسجد حرام میں، امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک ہدی کا حدود حرم میں ذبح ہونا ضروری ہے۔ قولہ : محلھا الی البیت العتیق یعنی ہدایا اور ضحایا کے ذبح کرنے کی جگہ بیت اللہ کے قریب ہے یعنی حدود حرم میں خواہ مکہ میں ہو یا منیٰ میں تفسیر و تشریح بناء بیت اللہ کی ابتداء : واذ بوانا لابراھیم اس سے پہلی آیت میں مسجد حرام اور حرم سے روکنے والوں کے لئے شدید عذاب اور وعید شدید آئی ہے، آگے کی آیت میں بیت اللہ کے فضائل اور عظمت کا بیان ہے بوءً لغت میں ٹھکانہ دینے کو کہتے ہیں، اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ حضرت ابراہیم اور ان کے صاحبزادے اسماعیل کو ملک شام سے ہجرت کراکر مکہ میں قیام پذیر کردیا، اور مقام بیت اللہ کی نشاندہی بھی فرما دی تاکہ ازسر نو اس کی تعمیر کی جاسکے، بیت اللہ کا وجود اگرچہ حضرت آدم (علیہ السلام) کے وجود کے ساتھ ساتھ ہوا تھا مگر طوفان نوح میں اس کو اٹھالیا گیا، اور مدتوں تک بےنشان رہا، جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) بیت اللہ کے قریب قیام پذیر ہوگئے اور بیت اللہ کی تعمیر کا ارادہ فرمایا تو اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائی کہ الٰہ العالمین تو مجھے مقام بیت اللہ کی نشاندہی فرما دے، کہا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک زور دار ہوا بھیجی جس کی وجہ سے بیت اللہ کی بنادیں ظاہر ہوگئیں، ایک روایت میں یہ بھی آیا ہے کہ بیت اللہ کے بقدر ایک بدلی آئی اور مقام بیت اللہ پر سایہ فگن ہوگئی اس میں ایک سر نمودار ہوا جو یہ نداء کرتا تھا، اے ابراہیم تم میری حدود کے مطابق بیت اللہ کی تعمیر شروع کرو، چناچہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اسی کے مطابق بیت اللہ کی تعمیر فرمائی (جمل) آنحضرت ﷺ نے فرمایا ” سب سے پہلی مسجد جو روئے زمین پر تعمیر ہوئی وہ مسجد حرام (بیت اللہ) ہے اور اس کے چالیس سال بعد مسجد اقصیٰ تعمیر ہوئی “۔ (مسند احمد 5/150، 166، 167، و مسلم کتاب المساجد) قولہ : أن لا تشرک بکی شیئاً یہ بناء بیت اللہ کی غرض کا بیان ہے، یعنی اس میں صرف میری عبادت کی جائے، مشرکین نے جو اس میں صدہا بت سجا رکھے ہیں جن کی وہ عبادت کرتے ہیں یہ ظلم عظیم ہے، قولہ : وطھر بیتی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو حکم دیا جا رہا ہے کہ میرے گھر کو آپ ظاہری اور باطنی ہر قسم کی نجاست سے پاک رکھئے، بیت اللہ چونکہ محض چہار دیواری کا نام نہیں ہے بلکہ اس قطعہ ارضی کا نام ہے جہاں بیت اللہ بنا ہوا ہے لہٰذا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو حکم ہوا کہ بیت اللہ کی جگہ کو بھی پاک رکھئے، اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ خطاب اگرچہ حضرت خلیل (علیہ السلام) کو ہے مگر مراد آئندہ آنے والی امت ہو۔ واذن فی فی الناس بالحج ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ نے نقل کیا ہے کہ جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو فرضیت حج کے اعلان کا حکم ہوا تو حضرت ابراہیم نے عرض کیا، یہاں جنگل ہے جہاں آبادی ہے، وہاں میری آواز کس طرح پہنچے گی اللہ تعالیٰ نے فرمایا آپ کی ذمہ داری صرف اعلان کرنے کی ہے پوری دنیا میں پہنچانے اور پھیلانے کی ذمہ داری ہماری ہے، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے مقام ابراہیم پر اور ایک روایت میں جبل ابی قبیس پر کھڑے ہو کر دونوں کانوں میں انگلیاں ڈال کر یمیناً وشمالاً ، شرقاً و غرباً ہر طرف یہ ندا دی کہ اے لوگو ! تمہارے رب نے اپنا گھر بنایا ہے اور تم پر اس کا حج فرض کیا تم سب اس کے حکم کی تعمیل کرو، اسی روایت میں یہ بھی ہے کہ بطور معجزہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی آواز پوری دنیا میں پہنچا دی بلکہ ان تک بھی پہنچا دی جو ابھی تک پیدا بھی نہیں ہوئے تھے، بلکہ اصلاب آباء یا ارحام امہات میں تھے اور جس روح نے بھی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی آواز پر لبیک کہا اور جتنی مرتبہ کہا وہ ضرور بیت اللہ حاضر ہوگا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی نداء کی تاثیر : حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی آواز کو جو اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں تک جو پہنچایا تھا اس کی تاثیر قیامت تک کے لئے قائم ہوگئی اور وہ ” یأتوک رجالاً وعلیٰ کل ضامرٍ یاتین من کل فج عمیق “ یعنی اطراف عالم سے لوگ بیت اللہ کی طرف چلے آویں گے کوئی پیادہ تو کوئی سوار اور سواری سے آنے والے بھی دور دراز ملکوں سے آئیں گے، جس کی وجہ سے ان کی سواریاں بھی لاغر ہوجائیں گی چناچہ ہزار ہا سال گزر چکے ہیں مگر بیت اللہ کی طرف آنے والوں کی یہی کیفیت ہے لیشھدوا منافع لھم یعنی ان کی یہ حاضری خود انہی کے منافع کے لئے ہے لفظ منافع کو نکرہ لانے میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اس میں دینی منافع تو بیشمار ہیں ہی دنیوی منافع بھی بیشمار ہیں، دوسرا فائدہ یہ بتلایا گیا ہے کہ ویذکروا اسم اللہ فی ایام معلوماتٍ (الآیۃ) تاکہ وہ اللہ کے نام لیں ایام معلومات میں ان چوپایوں پر جو اللہ تعالیٰ نے ان کو عطا کئے ہیں، اس میں سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ قربانی کے گوشت اور اس سے حاصل ہونے والے فوائد پر نظر نہ ہونی چاہیے بلکہ اصل چیز اللہ کا ذکر ہے جو ان دونوں میں جانور قربان کرنے کے وقت جانوروں پر لیا جاتا ہے اصل روح عبادت یہی ہے قربانی کا گوشت حلال کردیا گیا یہ مزید انعام ہے، ایام معلومات سے وہی ایام مراد ہیں جن میں قربانی جائز ہے یعنی ذی الحجہ کی دسویں، گیارہوں، بارہویں تاریخیں اور چونکہ مارزقھم من بھیمۃ الانعام کے الفاظ عام ہیں اس میں ہر طرح کی قربانی داخل ہے، خواہ واجب ہو یا مستحب۔ فکلوا منھا یہاں کلوا اگرچہ بصیغہ امر ایا ہے مگر مراد اس سے اباحت و جواز ہے جیسا کہ قرآن میں ” اذا حللتم فاصطادوا “ میں شکار کا حکم بمعنی اجازت ہے۔ مسئلہ : زمانہ حج میں مختلف وجوہ کی بنا پر جانور ذبح کئے جاتے ہیں ان میں ایک قسم وہ ہے جو کسی جرم کی سزا کے طور پر واجب ہوتی ہے، مثلاً حرم کے خلاف یا احرام کے خلاف کوئی عمل کرلیا، اس کی جزاء میں کسی جانور کی قربانی واجب ہوتی ہے، جس کی تفصیل کتب فقہ میں موجود ہے، اس قربانی کو اصطلاح فقہ میں دم جنایت کہتے ہیں، اس میں کچھ تفصیل ہے بعض ممنوعات کے کرلینے سے گائے یا اونٹ ہی کی قربانی کرنا ضروری ہوتی ہے اور بعض کے لئے بکرا دنبہ کافی ہوجاتا ہے، بعض میں صدقہ سے ہی کام چل جاتا ہے، یہ سب مسائل فقہ کی کتابوں میں دیکھے جاسکتے ہیں، جو قربانی دم جنایت کے طور پر واجب ہوتی ہے، وہ صرف فقراء و مساکین کا حق ہے، اس کا گوشت نہ خود کھانا درست ہے اور نہ مالداروں کے لئے، باقی قسمیں خواہ واجب ہوں یا نفل اس میں دم تمتع اور دم قران بھی داخل ہے، ان سب کا گوشت سب کے لئے کھانا درست ہے اس آیت میں اسی کا بیان ہے، اور کم از کم ایک تہائی حصہ فقراء و مساکین کو دیدیا جائے اسی امر مستحب کا بیان آیت کے اگلے جملہ میں اس طرح فرمایا ہے ” واطعموا البائس الفقیر “ مطلب یہ کہ قربانی کے گوشت میں سے فقیر اور تنگدست لوگوں کو بھی کھلانا اور دینا مستحب ہے۔ ثم لیقضوا تفثھم احرام باندھنے کے بعد سے چونکہ حجامت نہیں بنواتے اور نہ ناخن وغیرہ لیتے ہیں اور زیادہ مل ول کر غسل بھی نہیں کرسکتے، جس کی وجہ سے بدن پر میل کچیل جم جاتا ہے جو کہ عاشقانہ اور مستانہ ایک کیفیت ہے، اب دس تاریخ کو یہ تمام قصے تمام ہوجاتے ہیں، حجامت بنوا کر غسل کرکے سلے ہوئے کپڑے پہنتے ہیں اور طواف زیارت کو جاتے ہیں اور جس کو ذبح و قربانی کرنی ہوتی ہے وہ پہلے ہی کرلیتا ہے، اور منتیں پوری کرنے سے یہ مراد ہے کہ اللہ کے نام کی جو نذر مانی ہو اس کو پورا کرے اور اقرب الی الصواب نذر سے مراد مناسک حج ہیں۔ افعال حج میں ترتیب کا درجہ : افعال حج کی جو ترتیب قرآن اور حدیث میں آئی ہے اسی ترتیب سے حج کے ارکان ادا کرنا کم از کم سنت ضرور ہے، واجب ہونے میں اختلاف ہے، امام اعظم ابوحنیفہ (رح) اور امام مالک کے نزدیک واجب ہے جس کے خلاف کرنے سے دم واجب ہوتا ہے، امام شافعی (رح) کے نزدیک سنت ہے، اس لئے ان کے نزدیک ترتیب ماثور کے خلاف کرنے سے اجر وثواب میں کمی واقع ہوجاتی ہے مگر دم واجب نہیں ہوتا، حضرت ابن عباس ؓ سے مروی حدیث میں ہے ” من قدم شیئاً من نسکہٖ او اخر فلیھرق دماً “ رواہ ابن ابکی شیبہ موقوفاً وھو فی حکم المرفوع (مظہری) یعنی جس شخص نے افعال حج میں سے کسی کو مقدم یا مؤخر کیا تو اس پر دم دینا لازم ہے، یہ روایت طحاوی نے بھی مختلف طرق سے نقل کی ہے۔ ولیطوفوا بالبیت العتیق اس سے طواف زیارت مراد ہے جو دسویں تاریخ کو رمی جمرہ اور قربانی سے فارغ ہونے کے بعد کیا جاتا ہے، یہ حج کا دوسرا رکن ہے پہلا رکن وقوف عرفہ ہے۔ احلت لکم الانعام الا ما یتلیٰ علیکم انعام سے مراد اونٹ، گائے، بکرا، مینڈھا، دنبہ وغیرہ ہیں، یہ جانور حالت احرام میں بھی حالت ہیں اور الا ما یتلیٰ سے جن جانوروں کو مستثنیٰ کرنے کا ذکر ہے ان کا بیان دوسری آیت میں آیا ہے، وہ مردار جانور اور موقوذہ اور جس پر اللہ کا نام قصداً ترک کردیا گیا ہو یا جس پر غیر اللہ کا نام لیا گیا ہو یہ سب ہمیشہ کے لئے حرام ہیں حالت احرام ہو یا نہ ہو۔
Top