Tafseer-e-Jalalain - Ash-Shu'araa : 176
كَذَّبَ اَصْحٰبُ لْئَیْكَةِ الْمُرْسَلِیْنَۚۖ
كَذَّبَ : جھٹلایا اَصْحٰبُ لْئَيْكَةِ : ایکہ (بن) والے الْمُرْسَلِيْنَ : رسول (جمع)
اور بن کے رہنے والوں نے بھی پیغمبروں کو جھٹلایا
آیت نمبر 176 تا 191 ترجمہ : ایکہ والوں نے (بھی) رسولوں کی تکذیب کی ایک قرأۃ میں حذف ہمزہ اور اس کی حرکت لام کو دینے اور ۃ کے فتحہ کے ساتھ ہے وہ (ایکہ) مدین کے قریب درختوں کی جھاڑی تھی جبکہ ان سے حضرت شعیب (علیہ السلام) نے فرمایا (یہاں) اخوہم نہیں کہا اس لئے کہ شعیب (علیہ السلام) ان میں سے نہیں تھے کیا تم کو خوف نہیں ؟ میں تمہارا امانتدار رسول ہوں اللہ سے ڈرو اور میرا کہا مانو میں اس پر تم سے کوئی صلہ نہیں چاہتا میرا صلہ بس پروردگار عالم پر ہے، ناپ پورا بھرا کرو کم دینے والوں میں شامل نہ ہو صحیح ترازو سے تولا کرو، ایسی ترازو جس میں پاسنگ نہ ہو لوگوں کی چیزوں میں کمی نہ کرو یعنی ان کے حق میں سے کچھ بھی کم نہ کیا کرو اور ملک میں قتل وغیرہ کے ذریعہ سرکشی کے ساتھ فساد پھیلاتے ہوئے مت پھرا کرو عَثِیَ ثا کے کسرہ کے ساتھ بمعنی اَفْسَدَ ہے، مُفْسِدِیْنَ اپنے عامل تَعْثَوْا سے معنًا حال ہے اس سے ڈرو جس نے تم کو اور (دیگر) پہلی مخلوق کو پیدا کیا ان لوگوں نے کہا تو ان لوگوں میں سے ہے جن پر جادو کردیا گیا ہے اور تو تو ہم جیسا ہی انسان ہے اور ہم تو تجھ کو جھوٹوں میں سمجھتے ہیں اِنْ مخففہ من الثقیلہ ہے اور اس کا اسم محذوف ہے اَیْ اِنَّہٗ سو اگر تو اپنے (دعوئے رسالت) میں سچا ہے تو ہمارے اوپر آسمان کا کوئی ٹکڑا گرا دے کِسْفًا میں سین کے سکون اور اس کے فتحہ کے ساتھ بمعنی ٹکڑا (شعیب (علیہ السلام) نے) کہا میرا رب تمہارے اعمال سے بخوبی واقف ہے سو وہ تم کو اس کا بدلہ دے گا سو وہ لوگ شعیب کو برابر جھٹلاتے رہے سو ان کو سائبان والے دن کے عذاب نے آپکڑا، وہ ایک بدلی تھی، ان کے شدید گرمی میں مبتلا ہونے کے بعد ان پر سایہ فگن ہوگئی تھی بعد ازاں اس بدلی نے ان پر آگ برسائی جس کی وجہ سے وہ جل کر خاک ہوگئے، بلاشبہ وہ بڑے بھاری دن کا عذاب تھا بلاشبہ اس میں بڑی نشانی ہے اور ان میں سے اکثر مومن نہیں تھے اور یقیناً تیرا رب ہی غلبہ والا مہربانی والا ہے۔ تحقیق، ترکیب و تفسیری فوائد اَیْکَۃَ ایک قرأۃ میں لَیْکَۃَ بھی ہے، اَیْکَۃ گھنے جنگل کو کہتے ہیں اَصْحَابُ الاَیْکَۃِ سے حضرت شعیب (علیہ السلام) کی قوم اور مدین کے اطراف کے باشندے مراد ہیں، بیان کیا گیا ہے کہ اَیْکَۃُ گھنے درخت کو بھی کہتے ہیں غَیْضَۃ غین کے فتحہ کے ساتھ جنگل اور جھاڑی کو کہتے ہیں، مدین حضرت شعیب (علیہ السلام) کی بستی کا نام ہے مدین بن ابراہیم (علیہ السلام) نے اس شہر کو بسایا تھا اس لئے ان کے نام ہی سے موسوم ہوگیا، مدین اور مصر کے درمیان آٹھ روز کی مسافت ہے۔ قولہ : مفسدین تعْثَوْا کے معنی سے حال مؤکدہ ہے حال و ذوالحال کے لفظ اگرچہ مختلف ہیں مگر معنی متحد ہیں اس لئے کہ تَعْثَوْا عَثِیَ سے مشتق ہے جس کے معنی فساد کرنے کے ہیں۔ قولہ : الجبلۃ اور جبلّ مخلوق کے معنی میں ہے دوسرے مقام پر فرمایا وَلَقد اَضَلُّ جِبِلاًّ کثیراً اس (شیطان) نے تم میں سے بہت سے لوگوں کو گمراہ کردیا۔ قولہ : فَاَسْقطَ الخ کو بعض نے ان کنت مِنْ الصادقین کا جواب مقدم قرار دیا ہے اور بعض حضرات نے جواب شرط محذوف مانا ہے جس پر جملہ فاسقِطْ دلالت کر رہا ہے۔ (روح المعانی) تفسیر و تشریح قصہ ہفتم اصحاب الایکہ : کَذَّبَ اَصْحَابُ الَایْکَۃّ ایکہ جنگل کو کہتے ہیں اس سے حضرت شعیب (علیہ السلام) کی قوم اور مدین کے اطراف کے باشندے مراد ہیں، یہ بھی کہا گیا ہے کہ ایکہ گھنے درخت کو کہتے ہیں جس کو دُوْم بھی کہا جاتا ہے ایسا ہی ایک درخت مدین کی نواحی آبادی میں تھا جس کی لوگ پوجا پاٹ کرتے تھے، وہاں کے باشندوں کو اصحاب الایکہ کہا جاتا تھا، حضرت شعیب (علیہ السلام) کا دائرہ نبوت اور حدود دعوت و تبلیغ مدین سے لیکر اس نواحی آبادی تک تھا جہاں ایکہ درخت کی پوجا ہوتی تھی، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اصحاب ایکہ اور اہل مدین کے پیغمبر ایک ہی یعنی شعیب (علیہ السلام) ہی تھے، ایکہ چونکہ قوم نہیں تھی بلکہ درخت تھا اس لئے اخوت نسبی کا یہاں ذکر نہیں کیا، البتہ جہاں مدین کے ضمن میں حضرت شعیب (علیہ السلام) کا نام لیا گیا ہے، وہاں ان کی اخوت نسبی کا ذکر بھی ملتا ہے کیونکہ مدین قوم کا نام ہے وَاِلی مدینَ اخاھم شعیباً (اعراف 85) بعض مفسرین نے ایکہ اور مدین کو الگ الگ بستی قرار دیکر کہا ہے کہ یہ مختلف دوامتیں ہیں جن کی طرف حضرت شعیب (علیہ السلام) کو بھیجا تھا ایک مرتبہ ایکہ کی طرف اور دوسری مرتبہ مدین کی طرف، ابن کثیر رحمۃ اللہ نے فرمایا ہے کہ صحیح بات یہی ہے کہ ایک ہی امت ہے اَوْفُوْا الکَیْلَ والمِیْزَانَ کا جو وعظ اہل مدین کو کیا گیا یہی وعظ یہاں اصحاب ایکہ کو کیا جا رہا ہے جس سے صاف واضح ہے یہ ایک ہی امت ہے دو نہیں۔ وَزِنو بالقسطاس المستقیم قسطاس کو بعض حضرات نے رومی لفظ قرار دیا ہے جس کے معنی عدل و انصاف کے ہیں بعض نے عربی مان کر قِسْطٌ سے ماخوذ قرار دیا ہے قِسْط کے معنی بھی انصاف کے ہیں، مراد یہ ہے کہ ترازو اور دیگر ناپنے کے آلات درست رکھو اور صحیح طور پر استعمال کرو یعنی ڈنڈی نہ مارو اور نہ پاسنگ رکھو۔ وَلاَ تَبْخَسُوْا اَشیاءَھُمْ یعنی لوگوں کی چیزوں میں کمی نہ کرو، اور اشیاء میں کمی نہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ جس کا جتنا حق ہے اس میں کمی نہ کرو خواہ ناپنے تولنے کی چیز ہو یا کوئی دوسری چیز اس سے معلوم ہوا کہ کوئی ملازم یا مزدور اپنے مقرر وقت میں چوری کرتا ہے یعنی وقت کم لگاتا ہے وہ بھی اس وعید میں داخل ہے، امام مالک (رح) نے مؤطا میں روایت نقل فرمائی ہے کہ حضرت عمر فاروق ؓ نے ایک شخص کو دیکھا کہ نماز عصر میں شریک نہیں ہوا وجہ معلوم کی تو اس نے کچھ عذر بیان کیا تو حضرت فاروق ؓ نے فرمایا طَفَّفْتَ یعنی تو نے تولنے میں کمی کردی چونکہ نماز کوئی تولنے کی چیز نہیں اسلئے یہ حدیث نقل فرما کر امام مالک نے فرمایا وفاءٌ وتطفیفٌ یعنی حق کے مطابق یا کم کرنا ہر چیز میں ہے صرعف ناپ تول ہی میں نہیں ہے۔ فَاَخَذَھُمْ عذابُ یومٍ الظلّۃ یوم الظُلَّۃ کے عذاب کا واقعہ یہ ہے حق تعالیٰ نے حضرت شعیب (علیہ السلام) کی قوم پر سات روز تک سخت گرمی مسلط فرما دی نہ گھر میں چین اور نہ باہر پھر ان کے قریبی جنگل میں ایک گہرا بادل بھیج دیا جس کے نیچے ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی پوری قوم اس بادل کے نیچے جمع ہوگئی جب پوری قوم اس بادل کے نیچے جمع ہوگئی تو اس بادل نے پانی کے بجائے آگ برسادی جس سے سب لوگ جل کر خاکستر ہوگئے (کذارواہ ابن عباس) (روح، معارف) اہل مدین کو قوم ثمود کی طرف چیخ کے ذریعہ اور اصحاب ایکہ کو ظلّہ (سائبان) کے عذاب کے ذریعہ ہلاک کیا گیا، اہل مدین کے عذاب کے بارے میں سورة ہود میں فرمایا گیا وَاَخَذَتِ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا الصَّیْحَۃ اہل مدین کو ایک چیخ نے پکڑ لیا۔ (جس کی وجہ سے ان کے کلیجے پھٹ گئے) ۔
Top