Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer-e-Jalalain - Ash-Shu'araa : 192
وَ اِنَّهٗ لَتَنْزِیْلُ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَؕ
وَاِنَّهٗ
: اور بیشک یہ
لَتَنْزِيْلُ
: البتہ اتارا ہوا
رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ
: سارے جہانوں کا رب
اور یہ (قرآن خدائے) پروردگار عالم کا اتارا ہوا ہے
آیت نمبر 192 تا 227 ترجمہ : بلاشبہ یہ یعنی قرآن رب العالمین کا نازل فرمودہ ہے اس کو روح الامین یعنی جبرائیل آپ کے قلب پر لیکر اترے ہیں صاف عربی زبان میں تاکہ آپ ڈرانے والوں میں ہوجائیں اور ایک قرأۃ میں نَزَّلَ تشدید اور روح کے نصب کے ساتھ ہے اور فاعل اللہ ہے اور بلاشبہ محمد ﷺ پر نازل شدہ قرآن کی خبر پہلے لوگوں کی کتابوں مثلاً تورات و انجیل میں ہے کیا ان کے لئے قرآن کی صداقت کی یہ نشانی کافی نہیں کہ اس کو بنی اسرائیل کے علماء بھی جانتے ہیں ؟ جیسا کہ عبد اللہ بن سلام اور ان کے وہ ساتھی جو ایمان لائے، وہ اس کی حقانیت کی خبر دیتے ہیں اور یَکُنْ یا کے ساتھ اور آیۃً کے نصب کے ساتھ اور تا کے ساتھ اور آیۃً کے رفع کے ساتھ اور اگر بالفرض ہم اس قرآن کو کسی عجمی شخص پر نازل کرتے اور وہ اس قرآن کو کفار مکہ کو پڑھا کر سناتا تب یہ لوگ اس کے اتباع سے تکبر کرتے ہوئے اس پر ایمان نہ لاتے اعجَمِینَ اعجم کی جمع ہے اسی طرح یعنی جس طرح عجمی کی قرأۃ کی وجہ قرآن کی تکذیب ہم نے (ان کے قلوب میں) داخل کردی مجرمین یعنی کفار مکہ کے قلوب میں نبی کی قرأۃ کی وجہ سے (بھی) تکذیب داخل کردی، یہ لوگ اس قرآن پر ایمان نہ لائیں گے یہاں تک کہ دردناک عذاب کو دیکھ لیں پھر وہ عذاب ان پر اچانک آجائے اور ان کو اس کی خبر بھی نہ ہو، پھر کہیں گے کہ کیا ہم کو مہلت دی جائے گی ؟ تاکہ ہم ایمان لے آئیں تو ان کو جواب دیا جائے گا کہ نہیں، ان لوگوں نے سوال کیا یہ عذاب کب آئے گا ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کیا یہ لوگ ہمارے عذاب کی جلدی مچا رہے ہیں ؟ اچھا یہ بتاؤ اگر ہم نے ان کو کئی سال بھی فائدہ اٹھانے دیا پھر اس کے بعد ان پر وہ عذاب آجائے جس کا ان سے وعدہ کیا گیا تھا تو وہ سالہا سال کی سود مندی ان سے عذاب کے دفع کرنے میں یا اس کے ہلکا کرنے میں کیا کام آئے گی ؟ اور ہم نے کسی بستی کو ہلاک نہیں کیا مگر یہ کہ اس کے لئے ڈرانے والے ایسے انبیاء موجود تھے جو ان کو نصحیت کے طور پر ڈراتے تھے اور ڈرانے کے بعد ان کو ہلاک کرنے میں ہم ظالم نہیں تھے اور مشرکین کے قول کو رد کرنے کے لئے (یہ آیت) نازل ہوئی (یعنی) اس قرآن کو شیاطین نہیں لائے، اور نہ وہ اس کے قابل کہ اس کو لیکر نازل ہوں اور نہ ان میں اس کی مجال (بلکہ) بلاشبہ وہ تو فرشتوں کے کلام کو سننے سے بھی محروم کر دئیے گئے ہیں یعنی شعلوں کے ذریعہ روک دئیے گئے ہیں پس تو اللہ کے ساتھ کسی اور معبود کو نہ پکارو نہ تو تو سزا پانے والوں میں ہوجائے گا اگر تو نے وہ کام کرلیا جس کی طرف تجھ کو بلایا ہے اور آپ اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیے، اور وہ بنو ہاشم اور بنو مطلب ہیں اور ان کو کھلم کھلا ڈرایا، روایت کیا اس کو بخاری اور مسلم نے اور مومنین یعنی موحدین میں سے جس نے آپ کی پیروی اختیار کرلی ہے تو آپ ان کے ساتھ فروتنی سے پیش آئیے اور اگر تیرے اہل خاندان تیری نافرمانی کریں تو ان سے کہہ دیجئے کہ میں تمہارے اعمال یعنی غیر اللہ کی بندگی سے بری ہوں اور پورا بھروسہ غالب مہربان اللہ پر رکھئے وَتَوَکَّلْ واؤ اور فاء (دونوں) کے ساتھ ہے یعنی اپنے تمام کام اسی کو سونپ دیجئے، جو کہ آپ کے نماز کے لئے کھڑا ہونے کو اور ارکان صلوٰۃ میں آپ کی نشست و برخاست کو (یعنی) قیام و قعود و رکوع و سجود کی حالت کو سجدہ کرنے والوں میں یعنی نماز پڑھنے والوں میں دیکھتا ہے بیشک وہی سننے والا اور جاننے والا ہے اے کفار مکہ کیا میں تم کو بتاؤں کہ شیاطین کس شخص پر اترتے ہیں ؟ اصل میں دو تاؤں میں سے ایک تا کو حذف کرکے (سن لو) شیاطین ہر جھوٹے گنگہارفاجر جیسا کہ کاہنوں میں سے مسیلمہ کذاب وغیرہ، اور شیاطین سنی ہوئی بات کو یعنی جس کو ملائکہ سے سن لیتے ہیں کاہنوں پر القاء کردیتے ہیں اور ان میں سے اکثر جھوٹے ہیں اس سنی ہوئی بات میں بہت سا جھوٹ ملا دیتے ہیں اور یہ شیاطین کو آسمان پر جانے سے روکے جانے سے پہلے تھا اور شاعروں کی پیروی ان کے شعر میں گمراہ لوگ کرتے ہیں تو وہ شعر پڑھتے ہیں اور شعراء سے نقل کرتے ہیں سو یہی ہیں مذموم (قابل مذمت) کیا آپ نہیں جانتے کہ یہی لوگ کلام اور اس کی اصناف کی ہر وادی میں بھٹکتے رہتے ہیں (یعنی) متحیر پھرتے رہتے ہیں، چناچہ مدح اور ہجو میں حد سے تجاوز کر جاتے ہیں اور یہ بات کہتے ہیں جو کرتے نہیں یعنی جھوٹ بولتے ہیں سوائے ان شاعروں کے جو ایمان لائے اور اعمال صالحہ کئے اور بکثرت اللہ کا ذکر کیا یعنی شعر نے ان کو ذکر سے غافل نہیں کیا اور کافروں سے ان کی ہجو کرکے اپنی مظلومی کے بعد انتقام لیا ان کافروں کے فی الجملہ مومنین کی ہجو کرنے کی وجہ سے لہٰذا یہ لوگ قابل مذمت نہیں ہیں، اللہ تعالیٰ برائی کے ساتھ آواز بلند کرنے کو پسند نہیں فرماتا مگر مظلوم کو اجازت ہے سو جس نے تمہارے اوپر ظلم کیا تو تم بھی اس کے اوپر اتنا ہی ظلم کرسکتے ہو، اور عنقریب ظلم کرنے والے ان شعراء وغیرہ کو معلوم ہوجائے گا کہ وہ موت کے بعد کس کروٹ الٹتے ہیں (یعنی کس ٹھکانہ میں) تحقیق، ترکیب و تفسیری فوائد بِلسان عربیٍ ، بہٖ کی ضمیر سے اعادہ جار کے ساتھ بدل ہے، اور المنذرینَ کے متعلق بھی ہوسکتا ہے یعنی تاکہ آپ ان رسولوں میں سے ہوجائیں جو عربی زبان میں ڈرایا اور خوشخبری دیا کرتے تھے، جیسا کہ ہود (علیہ السلام) و صالح (علیہ السلام) و شعیب (علیہ السلام) اور اسماعیل علیہ السلام۔ قولہ : ای ذکر القرآن اس عبارت کے اضافہ کا مقصد ایک شبہ کا جواب ہے، شبہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے قول اِنَّہٗ لَفِیْ زُبُرِ الاَوَّلِیْنَ سے معلوم ہوتا کہ قرآن بنفس نفیس سابقہ کتابوں میں موجود ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ جواب : جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ قرآن سابقہ کتب میں بنفس نفیس موجود نہیں ہے بلکہ قرآن کا ذکر اور اس کی صفت کتب سابقہ میں موجود ہے۔ قولہ : کعبد اللہ بن سلام واصحابہٖ عبد اللہ بن سلام کے ساتھی جو کہ یہودی سے مسلمان ہوئے تھے عبد اللہ بن سلام کے علاوہ چار تھے (1) اسَدٌ (2) اُسَیْد (3) ثعلبۃ (4) ابن یامین یہ پانچوں حضرت علماء یہود میں سے تھے بعد میں اسلام لائے اور بہت خوب لائے قولہ : یَکُنْ بالتحتانیۃ ونصبِ آیۃً ، آیۃً ، یکن کی خبر مقسم ہے اس کا اسم اَنْ یَعْلَمَہٗ ہے اور آیۃٌ کے رفع کے ساتھ تکن کا اسم ہے اور لَھُمْ خبر مقدم ہے اور اَنْ یعلمہٗ اسم سے بدل ہے اگر تکن تامہ ہو تو آیۃً اس کا فاعل ہوگا اور اَنْ یعلمہٗ اس سے بدل ہوگا۔ قولہ : جمع اعجم یعنی اعجمین اَعْجَمْ کی جمع ہے سوال، اَفْعَل فُعْلاءُ کی جمع واؤ نون اور یا نون کے ساتھ نہیں آتی لہٰذا اَعْجَمِیْن اَعْجَمْ کی جمع صحیح نہیں ہے، جواب اصل میں اعجمِیٍّ ہے یائے نسبتی کو تخفیف کے لئے حذف کردیا گیا ہے لہٰذا اَعجَمیٌّ کی اعجمین جمع لانا درست ہے۔ قولہ : کذٰلکَ یہ سلکناہ کا معمول ہے اور سلکناہٗ میں ہٗ ضمیر کا مرجع قرآن ہے حذف مضاف کے ساتھ، ای سلکنا تکذیبَہٗ ۔ قولہ : اَفَرَاَیْتَ کا عطف فیقولوا پر ہے، درمیان میں جملہ معترضہ ہے۔ قولہ : اِلاَّ لھَا مُّنذِرونَ یہ جملہ ہو کر قریۃ کی صفت ہے اور قریۃ سے حاصل بھی ہوسکتا ہے۔ قولہ : من قریۃ میں مِن مفعول پر زائدہ ہے اور یہ سابق میں نفی ہونے کی وجہ سے جائز ہے۔ سوال : الاّ کے بعد سے واؤ کو کیوں ترک کردیا ؟ حالانکہ وَم۔ ا اَھْلَکْنَا من القریۃِ الاَّ ولھَا کتابٌ معلومٌ میں واؤ موجود ہے۔ جواب : اصل ترک واؤ ہے اس لئے کہ جملہ قریۃ کی صفت ہے اور موصوف صفت کے درمیان واؤ نہ ہونا اصل ہے اور اگر کہیں واؤ لایا جاتا ہے تو وصل صفت بالموصوف کی تاکید کے لئے لایا جاتا ہے جیسا کہ سبعۃ وثامنھم کلبھم (جمل) لَھَا محذوف سے متعلق ہو کر خبر مقدم ہے اور منذرون مبتداء مؤخر ہے مبتداء خبر مقدم سے مل کر جملہ ہو کر یا تو قَرْیَۃ کی صفت یا حال ہے خبر ہونے کی صورت میں تقدیر عبارت یہ ہے قد اَنْذَرَ اَھْلَھَا منذرونَ حال ہونے کی صورت میں تقدیر عبارت یہ ہے اِلاَّ کائناً لھا منذرون۔ قولہ : ذِکرٰی یا تو منذرون کی ضمیر سے حال ہے ای منذرون ذَوَیْ ذِکریٰ یا مذکرین ذکریٰ اور اگر اپنے ظاہر پر باقی رکھا جائے تو مبالغہ حمل ہوگا جیسے ریدٌ عدلٌ یا ذکریٰ منصوب ہے مصدریت کی بنا پر اس صورت میں منذرون مدکرون کے معنی میں ہوگا تقدیر عبارت یہ ہوگی مذکرون ذکریٰ ای تذکرۃً ذکریٰ منذرون کی علت یعنی مفعول لہ بھی ہوسکتا ہے ای تنذِرُھم لاجل تذْکیرھِمْ العواقِبَ اور ذکریٰ مبتداء محذوف کی خبر بھی ہوسکتا ہے ای ھذہٖ ذکریٰ اس صورت میں جملہ معترضہ ہوگا۔ قولہ : ردًّا لِقَوْلِ المشرکین قول کا مقولہ محذوف ہے اور یہ ہے اِنَ الشیٰطین یُلْقُوْنَ القرآنَ الیہِ ۔ قولہ : شُھُبٌ شِھابٌ کی جمع ہے بمعنی آگ کی چمک، ٹوٹا ہوا تارہ، قولہ : فتکون مِنَ المعذبین شرط محذوف کی جزاء مقدم ہے جیسا کہ شارح نے اِنْ فَعَلْتَ ذٰلکَ سے اشارہ کردیا ہے۔ قولہ : بالواؤ والفاء یعنی توکل میں دو قرأتیں ہیں واؤ کے ساتھ اور فاء کے ساتھ واو کے ساتھ ہونے کی صورت میں اَنْذِرْ پر عطف ہوگا اور فاء کی صورت میں جواب شرط یعنی فَقُلْ اِنِّیْ بَرِئٌ سے بدل ہوگا۔ قولہ : تَقَلُّبَکَ یَرَاکَ کے کاف پر معطوف ہے۔ قولہ : وفی الساجدینَ میں فی بمعنی مع ہے۔ قولہ : عَلیٰ مَنْ تَنَزَّلُ کے متعلق ہے اگر اُنَبّئُکُمْ متعدی بسہ مفعول ہو تو جملہ تَنَزَّلُ الشیاطین قائم مقام دو مفعولوں کے ہوگا یعنی ثانی اور ثالث کے اور اول مفعول ضمیر کُمْ ہے اور اگر متعدی بدو مفعول ہو تو جملہ مفعول ثانی کے قائم مقام ہوگا۔ قولہ : مثل مسیلمۃ کا مثال میں پیش کرنا مناسب معلوم نہیں ہوتا اس لئے کہ اول تو مسیلمہ نے آپ ﷺ کی بعثت کے بعد نبوت کا دعویٰ کیا جبکہ شیاطین کی آسمانوں پر آمد ورفت بند کردی گئی تھی لہٰذا اس کو شیطانوں کا آسمانی خبروں کا دینا صحیح نہیں ہے دوسری بات یہ ہے مسیلمہ کاہنوں میں سے نہیں تھا وہ مفتری اور کذاب تھا لہٰذا مفسر علام کا من الکھنۃ کہنا درست معلوم نہیں ہوتا وغیرہ جیسا کہ سطیح یہ کاہن تھا کاہن آئندہ کی خبر دینے والے کو کہتے ہیں اور عرّاف امور ماضیہ کی خبر دینے والے کو کہتے ہیں (جمل) ۔ قولہ : ای کفار مکۃَ میں ای ندائیہ بھی ہوسکتا ہے جیسا کہ ظاہر ہے اور تفسیریہ بھی ہوسکتا ہے اس صورت میں مُفَسَّرْ اُنَبِّئُکُمْ میں کُمْ ضمیر ہوگی۔ قولہ : یَھِیْمُوْنَ اَنَّ کی خبر ہے اور فی کُلِّ وادٍ اس سے متعلق ہے۔ قولہ : اِلاَّ الذین آمَنُوْا الخ یہ مَذْھُوْمُوْنَ محذوف سابق سے استثناء ہے۔ تفسیر وتشریح اِنہ۔۔۔۔ العالمین یہاں سے اللہ تعالیٰ قرآن کی اور اس کے نازل کرنے والے کی اور جس پر نازل کیا گیا ہے مدح فرما رہے ہیں، خلاصہ یہ ہے کہ کفار مکہ نے قرآن کے وحی الٰہی اور منزل من اللہ ہونے کا انکار کیا اور اسی بنا پر رسالت محمدیہ ﷺ اور دعوت محمدیہ ﷺ کا انکار کیا اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء (علیہم السلام) کے واقعات بیان کرکے یہ واضح کیا کہ یہ قرآن یقیناً وحی الٰہی ہے اور محمد ﷺ اسکے سچے رسول ہیں کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو یہ پیغمبر جو نہ پڑھ سکتا ہے اور نہ لکھ سکتا ہے گزشتہ انبیاء اور قوموں کے واقعات کس طرح بیان کرسکتا تھا ؟ اس لئے یہ قرآن یقیناً رب العالمین ہی کی طرف سے نازل کردہ ہے جسے ایک امانتدار فرشتہ یعنی جبرائیل (علیہ السلام) لے کر آئے۔ بلِسان عربی مبین اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن وہی ہے جو عربی زبان میں ہو قرآن کا ترجمہ خواہ کسی زبان میں ہو قرآن نہیں کہلائے گا لیکن اِنّہٗ لفی زبر الاولینَ سے بظاہر اس کے خلاف معلوم ہوتا ہے اس لئے کہ یہ بات ظاہر ہے کہ کسب سابقہ عربی زبان میں نہیں تھیں لہٰذا قرآن کے سابقہ کتابوں میں ہونے کا مطلب اس کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے کہ قرآن کے معانی اور مضامنین سابقہ کتب میں موجود تھے ؟ دونوں باتوں میں بظاہر متضاد معلوم ہوتا ہے، اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ صرف مضامین قرآن کو بھی بعض اوقات تو سُّعاً قرآن کہہ دیا جاتا ہے اسلئے کہ اصل مقصود کسی کتاب کا اس کے مضامین ہی ہوتے ہیں (معارف) دوسرا جواب یہ ہے اِنَّہٗ لَفِیْ زُرُرِ الاَوَّلِیْنَ کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کی خبر اور اس کی صفت اور اس کے نزول کی خوشخبری کتب سابقہ میں موجود ہے (جمل) لہٰذا معلوم ہوا کہ قرآن الفاظ اور معانی دونوں کے مجموعہ کا نام ہے اسی وجہ سے امت کا اس پر اتفاق ہے کہ نماز میں الفاظ قرآن کی قرأۃ کے بجائے ان کا ترجمہ خواہ کسی بھی زبان میں ہو بدون اضطرار کے کافی نہیں، بعض ائمہ سے جو اس میں توسع کا قول منقول ہے ان سے بھی اپنے اس قول سے رجوع ثابت ہے۔ ترجمہ قرآن کو قرآن کہنا جائز نہیں : اسی طرح قرآن کا صرف ترجمہ بغیر عربی متن کے لکھا جائے تو اس کو قرآن کہنا درست نہیں ہے مثلاً اردو کا قرآن یا فارسی یا انگریزی کا قرآن کہہ دیتے ہیں یہ جائز نہیں، اور نہ محض قرآن کے ترجمہ کو قرآن کے نام سے شائع کرنا جائز ہے۔ اَوَلَمْ یِکُنْ لَھُمْ آیَۃً اَنْ ۔۔۔۔ اسرائیل، کفار مکہ مذہبی معاملات میں یہود کی طرف رجوع کرتے تھے چناچہ جب محمد ﷺ نے دعوئے نبوت فرمایا تو مشرکین مکہ کی ایک جماعت تحقیق کے لئے مدینہ علماء یہود کے پاس گئی تھی علماء یہود نے علامت کے طور پر تین سوال سکھائے تھے کہ اگر ان کا جواب دیدیں تو نبی ہیں ورنہ نہیں، حضرت سلمان فارسی ؓ کو بھی ایک یہودی عالم نے آخری نبی محمد ﷺ کی تین علامتیں بتائی تھیں اول یہ کہ وہ صدقہ قبول نہیں کرے گا، ہدیہ قبول کرے گا، اور یہ کہ اس کے دونوں شانوں کے درمیان مہر نبوت ہوگی چناچہ حضرت سلمان فارسی نبی آخر الزماں کی تلاش میں مدینہ تشریف لائے اور آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر مذکورہ تینوں علامتوں کی تصدیق کرنے کے بعد ایمان لائے، عناد اور دشمنی کی وجہ سے اگرچہ یہودی علماء آپ ﷺ نبوت کا اگرچہ کھلم کھلا اعلان و اقرار نہیں کرتے تھے مگر نجی مجلسوں میں اور دل میں آپ کی نبوت کے معترف تھے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا یعرفونہ کما یعرفون ابناءھم۔ مشرکین مکہ جب اپنے دیگر مذہبی معاملات میں علماء یہود پر اعتماد کرتے ہیں تو آپ کی نبوت و رسالت کے بارے میں کیوں اعتماد نہیں کرتے ؟ حالانکہ بڑے علماء یہود جو ایمان لا چکے تھے وہ صراحت اور وضاحت کے ساتھ کہتے تھے کہ محمد ﷺ اللہ کے آخری نبی ہیں یہ وہی نبی ہیں جن کی خوشخبری توریت و انجیل میں دی گئی ہے، مطلب یہ ہے کہ کیا یہ بات کہ علماء بنی اسرائیل قرآن کی صداقت اور حقانیت کی شہادت دے رہے ہیں مشرکین مکہ کے ایمان لانے اور قرآن کو آسمانی کتاب باور کرنے کے لئے کافی نہیں ہے ؟ مگر ضد اور عناد کی وجہ سے قبول نہیں کرتے۔ وَاَنْذِرْ عَشِیْرَتکَ الاَقْرَبینَ پیغمبروں کی دعوت صرف رشتہ داروں کے لئے نہیں بلکہ پوری قوم کے لئے ہوتی ہے اور محمد ﷺ تو پوری نسل انسانی کے لئے ہادی اور رہبر بن کر آئے تھے، قریبی رشتہ داروں کو دعوت ایمان، دعوت عام کے منافی نہیں بلکہ اس کا ایک حصہ یا ایک ترجیحی پہلو ہے جس طرح حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے بھی سب سے پہلے اپنے والد آزر کو توحید کی دعوت دی تھی، چناچہ نبی ﷺ اس حکم کے نازل ہونے کے بعد صفا پہاڑی پر چڑھ گئے اور یاصباہ کہہ کر آواز دی، یہ کلمہ اس وقت بولا جاتا تھا جب دشمن اچانک حملہ کر دے، یہ کلمہ سن کر لوگ جمع ہوگئے آپ نے قریش کے مختلف قبیلوں کے نام لے لے کر فرمایا یَا معشرَ قریش اِشْتَرُوْا اَنْفُسَکُمْ لاَ اَغْنِی عنکُمْ من اللہ شیئاً یا بنی عبد المطلِب لا اَغْنِی عنک منَ اللہِ شیئاً یا صفیہ عمۃ رسول اللہ لا اغنی عنک شیئاً یا فاطمہ بنت رسول اللہ سلینی ماشئتِ من مالی لا اغْنی عنک من اللہ شیئاً (خازن بحوالہ جمل) اور آپ نے فرمایا بتاؤ اگر میں تم سے یہ کہوں کہ اس پہاڑ کی پشت پر دشمن کا لشکر موجود ہے جو تم پر حملہ آور ہونا چاہتا ہے تو کیا تم سچ مانو گے ؟ سب نے کہا ہاں یقیناً ہم تصدیق کریں گے، اس کے بعد آپ نے فرمایا ” اللہ نے مجھے نذیر بنا کر بھیجا ہے میں تمہیں ایک سخت عذاب سے ڈراتا ہوں “ اس پر ابو لہب نے کہا تبًّا لکَ اَم۔ ا دَعَوْتَنَا اِلاَّ لھٰذَا تیرے لئے ہلاکت ہو، کیا تو نے ہمیں اسی لئے بلایا تھا ؟ اس کے جواب میں سورة تبت نازل ہوئی۔ اِلَّذِیْ ۔۔۔۔ السجدین یعنی آپ جب تنہا تہجد وغیرہ نماز کے لئے کھڑے ہوتے ہیں اس وقت بھی وہ آپ کو دیکھتا ہے اور جب آپ لوگوں کے ساتھ نماز پڑھتے ہیں اس وقت بھی دیکھتا ہے۔ شعر کی تعریف : والشعراء۔۔۔۔ الغاوٗونَ شعر لغت میں ہر اس کلام کو کہا جاتا ہے جس میں محض خیالی غیر حقیقی مضامین بیان کئے گئے ہوں جس میں کوئی بحر، وزن، ردیف، اور قافیہ کچھ شرط نہیں، فن منطق میں بھی ایسے ہی مضامین کو ادلہ شعر یہ اور قضایا شعریہ کہا جاتا ہے، اصطلاحی شعر و غزل میں بھی چونکہ عموماً خیالات ہی کا غلبہ ہوتا ہے اس لئے اصطلاح شعراء میں کلام موزوں و مقفیٰ کو شعر کہنے لگے ہیں۔ (معارف) جب مذکورہ آیت نازل ہوئی تو حضرت عبد اللہ بن رواحہ، حسان بن ثابت، اور کعب بن مالک جو شعراء صحابہ میں مشہور ہیں روتے ہوئے آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا اے اللہ کے رسول اللہ ذوالجلال نے یہ آیت نازل فرمائی ہے اور ہم بھی شعر کہتے ہیں، آپ نے فرمایا آیت کے آخری حصہ کو پڑھو، مقصد یہ تھا کہ تمہارے اشعار بیہودہ اور غلط مقصد کے لئے نہیں ہوتے لہٰذا تم اس استثناء میں داخل ہو جو آیت کے آخری حصہ میں مذکور ہے، اس لئے مفسرین نے فرمایا کہ ابتدائی آیت میں مشرکین شعراء مراد ہیں، مشرکین مکہ محفل مشاعرہ قائم کرتے جس میں اسلام کا تمسخر کرتے مسلمانوں اور آپ ﷺ کی ہجو کرتے اور سامعین خوب داد دیتے اور ہجو کے اشعار کو یاد کرلیتے اور خون شہرت دیتے آیت میں یہی شعراء اور ان کی اتباع کرنے والے مراد ہیں۔ لطیفہ : ایک رئیس کے دربار میں چند شعراء انعام و اکرام کی غرض سے حاضر ہوئے ایک شخص جو کہ شاعر نہیں تھا وہ بھی طفیلی بن کر شعراء کے ساتھ چلا گیا شاعروں نے اپنے اپنے انداز سے رئیس کی بہت تعریف کی جب شعراء اپنا اپنا کلام سنا چکے اور انعام و اکرام حاصل کرچکے تو رئیس نے اس طفیلی سے بھی اشعار پڑھنے کے لئے کہا طفیلی چونکہ شاعر تو تھا نہیں اشعار کیا سناتا ؟ برجستہ جواب دیا کہ شعراء تو یہ حضرات ہیں میں یتبعھُمُ الغَاوٗون میں سے ہوں اور اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا ہے الشعراء یتبعھُمْ الغاوٗون رئیس بہت ہنسا اور اس کو بھی خوب انعام دیا، آیت میں اگرچہ مشرکین شعراء مراد ہیں مگر چونکہ شاعروں کی اکثریت ایسی ہوتی ہے کہ وہ مدح و ذم میں اصل و ضابطہ کے بجائے ذاتی پسند و ناپسند کے مطابق اظہار رائے کرتے ہیں، علاوہ ازیں اس قدر غلو اور مبالغہ آرائی سے کام لیتے ہیں کہ نہ صرف یہ کہ کذب بیانی اور دروغ گوئی کی پرواہ نہیں کرتے بلکہ ایمان اور عقیدہ کی حدود کا بھی خیال نہیں رکھتے فرزدق نے سلیمان بن عبد الملک کی مجلس میں چند اشعار پڑھے جن میں ایک شعر یہ بھی تھا : فبِتنَ کأنّھُنَّ مُصرَّعَات وبتُّ افضُّ اغلاق الختام دو شیزاؤں نے اس طرح رات گزاری گویا کہ وہ پچھاڑی ہوئی ہیں اور میں نے اس طرح رات گزاری کہ میں سربند مہروں کو توڑ رہا ہوں، سلیمان نے کہا تیرے اوپر واجب ہوگئی، فرزدق نے کہا حد میرے اوپر سے ساقط ہوگئی، اللہ تعالیٰ نے فرمایا وانھم یقولون مالا یفعلون چناچہ اس کو معاف کردیا۔ شاعروں کی گپ کا نمونہ : اے رشک مسیحا تیری رفتار کے قرباں ٹھوکر سے میری لاش کئی بار جلادی اے بادصبا ہم تجھے کیا باد کریں گے اس گل کی خبر تو نے کبھی ہم کو نہ لادی ایک شاعر اپنے ممدوح کے حقہ کی تعریف کرتا ہوا کہتا ہے : حقہ نہیں عصاء ہے یہ موسیٰ کے ہاتھ میں بےجان بولتا ہے یہ مسیحا کے ہاتھ میں مبالغہ کے چند اور نمونہ ملاحظہ فرمائیے : رونے پہ چشم تر مری باندھے اگر کمر کیسی زمیں، فلک پہ ہو پانی کمر کمر گھوڑے کی برق رفتاری کے لئے : یک جست میں جو خوف نہ رکھتا خدا سے وہ جاتا نکل احاطۂ علم خدا سے وہ کسی شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے رن ایک طرف، چرخ کہن کانپ رہا ہے ہر شیر نیستان زمن کانپ رہا ہے رستم کا بدن زیر کفن کانپ رہا ہے شمشیر بکف دیکھ کے حیدر کے پسر کو جبرئیل لرزتے ہیں سمیٹے ہوئے پر کو اس قوم کے شاعر چونکہ شاعرانہ تخیلات کی تلاش میں خیالی دنیا میں ادھر ادھر بھٹکتے رہتے ہیں اسی لئے ان کے بارے میں کہا گیا ہے فی کل وادٍ یھیمون تخیلات کی وادی میں سرمارتے پھرتے ہیں۔ مذکورہ آیت سے جو شعر و شاعری کی سخت مذمت اور ان کا عند اللہ مبغوض ہونا معلوم ہوتا ہے وہ مطلق نہیں ہے بلکہ جس شعر میں خدا تعالیٰ کی نافرمانی یا اللہ کی یاد سے غفلت یا جھوٹ ناحق کسی انسان کی مذمت و توہین ہو فحش کلام اور فواحش کے لئے محرک ہو وہ مذموم اور مکروہ ہے اور ایسا شاعر قابل مذمت ہے، اور جن شعراء کے اشعار ان معاصی اور مکروہات سے پاک ہوں ان کو اللہ تعالیٰ نے الا الذینَ آمنُوا وعملوا الصّٰلِحٰتِ کے ذریعہ مستثنیٰ فرما دیا ہے، بلکہ بعض اشعار تو حکیمانہ مضامین اور وعظ و نصیحت پر مشتمل ہونے کی وجہ سے طاعت اور ثواب میں داخل ہیں جیسا کہ حضرت ابی بن کعب کی روایت ہے اِنّ بعض الشعر لحکمۃ (بخاری) اس کی مزید تائید مندرجہ ذیل روایات سے بھی ہوتی ہے عمر بن الشرید اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضور ﷺ نے مجھ سے امیہ بن ابہی صلت کے سو قافیہ تک اشعار سنے (معارف) مطرف فرماتے ہیں کہ میں نے کوفہ سے بصرہ تک حضرت عمر بن حصین ؓ کے ساتھ سفر کیا اور ہر منزل پر وہ شعر سناتے تھے، امام بخاری فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ ؓ شعر کہا کرتی تھیں، ابو یعلی نے ابن عمر سے مرفوعاً روایت کیا ہے کہ شعر ایک کلام ہے اگر اس کا مضمون اچھا اور مفید ہے تو شعر اچھا ہے اور اگر مضمون برا ہے یا گناہ ہے تو برا ہے دار قطنی نے روایت کی ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ نے حضور ﷺ سے شعر کے بارے میں سوال کیا، آپ نے فرمایا ھو کلام، فحسنہٗ حسَنٌ وقبیحہٗ قبیحٌ بلکہ اگر اشعار خدا اور اس کے رسول کی محبت بڑھانے والے اور موت و آخرت کو یاد دلانے والے یا بغرض نصرت و انتقام مؤمنین و ابطال باطل و احقاق حق ہوں تو مستحب ہیں، حضرت حسان ؓ آپ کی جانب سے مشرکین مکہ کی ہجو کا جواب دیا کرتے تھے آپ نے حضرت حسان کے لئے کفار کی ہجو کا جواب دینے پر دعا فرمائی اَجب عنی اَللّٰھُمَّ اَیدہٗ بروح القُدُس اے حسان ہماری طرف سے کفار کو جواب دو اے اللہ تو جبرائیل کے ذریعہ حسان کی مدد فرما۔ (خلاصۃ التفاسیر تائب لکھنؤی) آنحضرت ﷺ نے شرید سے جو آپ کے پیچھے سوار تھے فرمایا کہ امیہ بن ابی صلت کے کچھ اشعار یاد ہوں تو سناؤ، شرید فرماتے ہیں میں نے پڑھا آپ نے فرمایا اور پڑھو میں نے پڑھا پھر فرمایا اور پڑھو یہاں تک کہ میں نے سو اشعار پڑھے، آپ ہر بار فرماتے اور پڑھو، اور آپ نے یہ بھی فرمایا گویا کہ وہ اپنے شعر سے اسلام ظاہر کرتا ہے یا گویا کہ اسلام لانا چاہتا ہے، اور ایسے ہی آپ نے فرمایا گویا کہ وہ اپنے شعر سے اسلام ظاہر کرتا ہے یا گویا کہ اسلام لانا چاہتا ہے، اور ایسے ہی آپ نے فرمایا شعراء کے کلام میں راست ترین لبید کا یہ شعر ہے۔ اَلاَ کُلُّ شئٍ ماسوی اللہ باطلاً (رواہ مسلم) خلاصۃ التفاسیر تائب۔ تمت
Top