Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Tafseer-e-Jalalain - An-Naml : 1
طٰسٓ١۫ تِلْكَ اٰیٰتُ الْقُرْاٰنِ وَ كِتَابٍ مُّبِیْنٍۙ
طٰسٓ
: طا۔ سین
تِلْكَ
: یہ
اٰيٰتُ
: آیتیں
الْقُرْاٰنِ
: قرآن
وَكِتَابٍ
: اور کتاب
مُّبِيْنٍ
: روشن واضح
طس، یہ قرآن اور کتاب روشن کی آیتیں ہیں
آیت نمبر 1 تا 14 ترجمہ : طس اس کی مراد اللہ ہی بہتر جانتا ہے یہ آیتیں ہیں قرآن کی اور کتاب مبین کی یعنی حق کو باطل سے ممتاز کرنے والی کتاب کی، زیادتی صفت کے ساتھ (القرآن) پر عطف ہے، وہ ہدایت ہے یعنی گمراہی سے ہدایت کرنے والی ہے اور مومنین یعنی اس کی تصدیق کرنے والوں کو جنت کی خوشخبری ہے، وہ (مومن) جو نماز قائم کرتے ہیں یعنی نماز کو اس کے طریقہ کے مطابق ادا کرتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور وہ آخرت پر یقین رکھتے ہیں (یعنی) دلیل کے ساتھ اس پر یقین رکھتے ہیں، اور (ھم) مبتداء اور اس کی خبر (یوقنون) کے درمیان (بالآخرۃ) کے فصل کی وجہ سے ھم کا اعادہ کیا گیا ہے جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ہم نے ان کیلئے ان کے اعمال قبیحہ کو مزین کردیا ہے، خواہش نفس کی آمیزش کی وجہ سے حتی کہ وہ برے اعمال کو بھی اچھے سمجھتے ہیں سو وہ بھٹکتے پھرتے ہیں (یعنی) وہ ان اعمال میں متحیر ہیں ہمارے نزدیک قبیح ہونے کی وجہ سے یہی ہیں وہ لوگ جن کے لئے بڑا عذاب ہے یعنی دنیا میں سخت عذاب ہے (وہ) قتل و قید ہے اور وہ لوگ آخرت میں بھی سخت خسارہ میں ہیں ان کے دائمی عذاب کی طرف لوٹنے کی وجہ سے یقیناً آپ کو حکمت والے علم والے کی طرف سے قرآن مشقتوں کے ساتھ دیا جا رہا ہے اس وقت کو یاد کیجئے کہ جب موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے اہل (یعنی) بیوی سے مدین سے مصر واپسی کے وقت کہا تھا، میں نے دور سے آگ ریکھی ہے وہاں سے یا تو راستہ کی کوئی خبر لیکر آیا (اور حضرت موسیٰ علیہ السلام) راستہ بھول گئے تھے یا کوئی جلتا ہوا شعلہ ہی لے آؤں (بِشِھَابٍ قَبَس) اضافت بیانیہ کے ساتھ، اور ترک اضافت کے ساتھ بھی ہے، یعنی لکڑی یا رسی کے سرے میں آگ کا شعلہ تاکہ تم تاپو اور طا افتعال کی تا سے بدلی ہوئی ہے اور (تَصْطَلُوْنَ ) صَلِیَ بالنار کسرۂ لام اور فتحہ لام سے مشتق ہے، سردی سے بچاؤ حاصل کیا جب وہاں پہنچے تو آواز دی گئی بابرکت ہے وہ جو اس آگ میں ہے یعنی موسیٰ اور وہ بھی جو اس کے پاس ہے یعنی ملائکہ یا اس کے برعکس اور بارک متعدی بنفسہٖ ہے اور متعدی بالحرف بھی، اور فی کے بعد (لفظ) مکان محذوف ہے اور اللہ رب العالمین پاک ہے (یہ جملہ) بھی ان جملوں کے ہے جن کے ذریعہ ندادی گئی، اس جملہ کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ جملہ عیوب سے پاک ہے اے موسیٰ بات یہ ہے کہ میں اللہ ہوں زبردست حکمت والا اور تم اپنا عصا ڈالو چناچہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے عصا ڈال دیا سو جب موسیٰ نے اس کو اس طرح حرکت کرتے دیکھا گویا کہ وہ سپولیا ہے یعنی پتلا سانپ ہے تو وہ (موسیٰ ) پیٹھ پھیر کر بھاگے اور پلٹ کر بھی نہ دیکھا ارشاد ہوا اے موسیٰ اس سے ڈرو نہیں ہمارے حضور پیغمبر سانپ وغیرہ سے ڈرا نہیں کرتے ہاں مگر جس نے اپنے اوپر ظلم کیا پھر برائی کے بعد برائی کی جگہ نیکی کرے یعنی توبہ کرے تو میں مغفرت والا رحمت والا ہوں تو بہ کو قبول کروں گا اور اس کی مغفرت کر دوں گا اور اپنا ہاتھ اپنے گریبان میں یعنی (اپنی) قمیص کے گریبان میں داخل کیجئے اپنے گندمی رنگ کے برخلاف وہ بلا کسی مرض کے چمکدار ہو کر نکلے گا یعنی برص وغیرہ کے بغیر اس میں ایسی چمک ہوگی کہ آنکھوں کو خیرہ کر دے گا (یہ دو معجزے) ان نو معجزوں میں سے ہیں جن کو لیکر فرعون اور اس کی قوم کے پاس بھیجا جا رہا ہے وہ بلاشبہ حد سے تجاوز کرنے والوں میں سے ہیں جب ان لوگوں کے پاس ہمارے آنکھیں کھولنے والے واضح اور روشن معجزے پہنچے تو وہ لوگ کہنے لگے یہ صریح یعنی کھلا ہوا جادو ہے اور ان کا انکار کردیا یعنی اقرار نہیں کیا حالانکہ ان کے دل یقین کرچکے تھے یعنی ان کو اس بات کا یقین ہوگیا تھا کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے اور یہ بما جاء بھا موسیٰ سے انکار ایمان سے ظلم اور تکبر کے طور پر تھا بما جاء موسیٰ کا تعلق الجحد سے ہے پس آپ دیکھ لیجئے ان مفسدوں کا کیسا انجام ہوا جیسا کہ آپ ان کی ہلاکت سے واقف ہیں۔ تحقیق، ترکیب و تفسیری فوائد قولہ : عَطْفٌ بزیادۃِ صفۃٍاس عبارت سے مفسر علام کا مقصد ایک سوال کا جواب دینا ہے سوال یہ ہے کتاب کا عطف القرآن پر عطف الشئ علی نفسہٖ کے قبیل سے ہے اسلئے کہ دونوں ہم معنی ہیں لہٰذا اس عطف کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ جواب : جب معطوف کسی صفت زائد پر مشتمل ہو تو عطف فائدہ سے خالی نہیں ہوتا یہاں معطوف یعنی کتاب صفت مبین کے ساتھ متصف ہے یہ عطف بلا فائدہ نہ ہوا۔ قولہ : یُوْتُوْنَ ایتاءٌ سے مضارع جمع مذکر غائب معروف ہے وہ دیتے ہیں۔ قولہ : وَھُمْ بالآخرۃِ ھُمْ یُؤقِنُونَ ، ھم مبتداء یوُقِنُونَ اس کی خبر بالآخرۃ یوقنونَ کا متعلق مقدم مبتداء اور خبر کے درمیان جار مجرور کا فصل ہونے کی وجہ سے ھم کا اعادہ کیا گیا ہے تاکہ خبر کا مبتداء کے ساتھ صورۃً اتصال ہوجائے، مفسر علام نے واُعِیْدَھم الخ کا اضافہ اسی مقصد کے لئے کیا ہے۔ قولہ : یَعْمَھُوْنَ عَمْہٌ سے مشتق ہے جس کے معنی حیرت اور تردد کے ہیں۔ قولہ : لِقُبْحِھَا عندناَ اس عبارت سے یہ شبہ دور کرنا ہے کہ کافروں کے اپنے افعال میں متحیر اور متردد ہونے کا کیا مطلب ہے ؟ جبکہ وہ سوچ سمجھ کر اپنے اختیار تمیزی کے ساتھ کفر اور اعمال کفریہ کو اختیار کرتے ہیں۔ جواب : ہمارے نزدیک متحیر ہیں نہ کہ اپنے نزدیک مطلب یہ ہے کہ تزئین شیطان اور اخبار رحمٰن میں تعارض کی وجہ سے متحیر ہیں اور ان کے اندر اتنی بصیرت نہیں کہ حسن اور قبیح کے درمیان فرق کرسکیں اور وہ اس میں بھی متحیر رہتے ہیں کہ کفر اور اعمال کفریہ پر ہی قائم و دائم رہیں یا ترک کردیں، مگر یہ تفسیر خلجان اور شبہ سے خالی نہیں ہے اس لئے کہ جب کفار اپنے اعمال کو حسن سمجھتے ہیں تو پھر ان کے متحیر ہونے کے کوئی معنی نہیں ہیں اس لئے بہتر تفسیر وہ ہے جو دیگر حضرات نے کی ہے وہ یہ کہ یَعْمَھُوْنَ یَسْتَمِرُّوْنَ ویداوِمُوْنَ علَیْھَا کے معنی میں ہے (کما ذکرہ ابو سعود) اور ابن عباس ؓ اور قتادہ نے یَعْمَھُوْنَ کی تفسیر یَلْعبُوْنَ سے کی ہے (جمل ملخصاً ) ۔ قولہ : لِمَصِیْرِھم یہ اَخْسرُوْنَ کی علت ہے، اَخْسَرُ اسم تفضیل مبالغہ کے لئے ہے نہ کہ تشریک کے لئے اس لئے کہ مومنوں کے لئے خسران نہیں ہے وَھُمْ فی الآخرۃِ ھُمُ الاَخْسَرُوْنَ کا اعراب وہی ہے جو ھم بالآخرۃِ ھم یوقنونَ کا ہے، بعض حضرات نے کہا ہے کہ مفضل علیہ خود کفار ہی ہیں مگر زمان و مکان کے اختلاف کے ساتھ یعنی کفار دنیا کے اعتبار سے آخرت میں زیادہ خسارہ میں ہوں گے۔ قولہ : لَتُلَقّٰی تجھے تلقین کیا جاتا ہے، تجھے سکھلایا جاتا ہے، واحد مذکر حاضر مضارع مجہول، اصل میں تُتَلَقّٰی تھا ایک تا کو حذف کردیا گیا ہے، یہ متعدی بدو مفعول ہے پہلا مفعول قائم مقام فاعل ہے اور دوسرا مفعول القرآن ہے۔ قولہ : بِشِدَّۃٍ اس لئے کہ اس میں تکالیف شاقہ ہیں یعنی نزول کے وقت بھی مشقت ہوتی ہے اور عمل کے وقت بھی۔ قولہ : بِشِدَّۃٍ اس لئے کہ اس میں تکالیف شاقہ ہیں یعنی نزول کے وقت بھی مشقت ہوتی ہے اور عمل کے وقت بھی۔ قولہ : بالاِضافۃِ پیش نظر نسخہ جلالین میں ترک اضافت کے ساتھ ہے لہٰذا اس صورت میں قبَسٍ بمعنی مقبوس شھابٍ سے بدل ہے یا نعت ہے اور اگر اضافت کے ساتھ ہو جیسا کہ موجودہ نسخہ میں ہے تو یہ اضافت بیانیہ ہوگی۔ قولہ : شُعلۃِ نارٍ یہ مضاف اور مضاف الیہ دونوں کی تفسیر ہے یعنی شہاب بمعنی شعلہ اور قبس بمعنی نارٍ ۔ قولہ : فتیلۃ بتی، بٹی ہوئی چیز۔ قولہ : نُودِیَ اس کا نائب فاعل موسیٰ (علیہ السلام) ہیں، اس صورت میں اَنْ تفسیر یہ ہے اس لئے کہ ماقبل میں نودِیَ بمعنی قیل موجود ہے، مطلب یہ ہے اَن تفسیر یہ مراد لینے کے لئے ضروری ہے کہ ماقبل میں قول یا قول سے مشتق کوئی صیغہ ہو یا قول کے معنی دینے والا کوئی صیغہ ہو، چناچہ اَن تفسیریہ سے پہلے اگرچہ قول یا اس کے مشتقات میں سے کوئی نہیں ہے مگر نودِیَ جو کہ قول کے ہم معنی ہے موجود ہے، لہٰذا یہ اَن تفسیریہ ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ مخففہ عن الثقیلہ ہو اور اس کا اسم ضمیر شان ہو اور بورک اس کی خبر ہو، اور اَنْ مصدریہ بھی ہوسکتا ہے حذف حرف جر کے ساتھ ای بأن اور مدخول اَن مصدر کے معنی میں ہو، ای نودِیَ بِبَرکَۃ مَنْ فی النَّارِ بَارَکَ متعدی بنفسہٖ بھی استعمال ہوتا ہے جیسا کہ کہا جاتا ہے بارک اللہ یہ متعدی بنفسہٖ کی مثال ہے یا بارک الرجلَ آدمی کے لئے برکت کی دعا کی اور حرف یعنی لام وفی وعلیٰ کے ساتھ بھی استعمال ہوتا ہے متعدی بالحرف کی مثالیں بَارَکَ اللہ لَکَ ، بارَکَ اللہُ فِیکَ ، بَارَکَ اللہ علَیْکَ ۔ قولہ : مِن جملۃِ ما نُوْدِیَ مطلب یہ ہے کہ جس چیز کی نداء دی گئی اس میں جملہ تنزیہیہ بھی ہے یعنی سبحان اللہ رب العالمین۔ قولہ : تَھْتَزُّ یہ رآھا کی ضمیر مفعولی سے حال ہے وَلیّٰ مُدْبرًا لمّا کا جواب ہے۔ قولہ : اِلاَّ لکنّ مَن ظَلَمَ مفسر علام نے الاَّ کی تفسیر لکنّ سے کرکے اس بات کی طرف اشارہ کردیا کہ یہ مستثنیٰ منقطع ہے مطلب یہ ہے کہ مَنْ ظَلَمَ سے مراد غیر مرسلین ہیں۔ قولہ : مَنْ ظَلَمَ مبتداء ہے اور فاِنّی غفور رّحیم اس کی خبر ہے۔ قولہ : مُبْصِرَۃً آیات سے حال ہے اور آیات کی جانب مبصرۃ کی اسناد مجازی ہے اس لئے کہ آیات دیکھنے والی نہیں ہوتیں بلکہ ان کی روشنی میں دیکھا جاتا ہے جیسا کہ نھرٌ جارٍ میں اسناد مجازی ہے بعض مفسرین نے فرمایا کہ مبصرۃ اسم فاعل بمعنی اسم مفعول ہے جیسے دافِقٌ بمعنی مَدْفوقٌ۔ قولہ : اِسْتَیْقَھَتْھَا اَنْفُسُھُمْ یہ جَحَدُوْا کے واؤ سے بتقدیر قد حال ہے۔ قولہ : ای تَیَقّنُوا اس سے اشارہ کردیا ہے کہ اِسْتَیْقَنَتْھَا میں سین زائدہ ہے۔ قولہ : ظلمًا وعُلُوًّا اس کا تعلق جَحَدُوْا سے ہے یعنی ظلمًا وعلُوًا انکار کی علت ہے۔ قولہ : کَیْفَ کانَ عاقبۃ المفسدین کَیْفَ ، کانَ کی خبر مقدم ہے اور عاقبۃ المفسدین اسم مؤخر ہے اور پورا جملہ اُنْظُر بمعنی تفکر سے متعلق ہونے کی وجہ سے محل نصب میں ہے۔ تفسیر و تشریح طٰسٓ اس کی حقیقی مراد تو اللہ ہی کو معلوم ہے، اس صورت میں چونکہ چیونٹیوں کا ایک واقعہ مذکور ہے اور چیونٹی کو عربی میں نملٌ کہتے ہیں اس لئے اس سورت کا نام سورة نمل رکھا گیا ہے اس سورة کا دوسرا نام سورة سلیمان بھی ہے۔ (روح المعانی) زینا لھم اعمالھم یہ گناہوں کی نحوست اور وبال ہی ہے کہ برائیں اچھی معلوم ہونے لگتی ہیں، آخرت پر عدم ایمان اس کا بنیادی سبب ہے زَیَّاَّر میں نسبت باری تعالیٰ کی طرف کی گئ ہے یہ اس لئے ہے کہ کوئی بھی کام باری تعالیٰ کی مشئیت اور اس کے ارادہ کے بغیر نہیں ہوسکتا مگر مشیئت اور ارادہ کے لئے رضا مندی ضروری نہیں ہے جیسا کہ کڑوی دوا انسان اپنے ارادہ سے تو پیتا ہے مگر رضا اور خوش دلی سے نہیں، تاہم اللہ تعالیٰ کا دستور یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نیک اور بد دونوں راستے واضح فرما دئیے ہیں اللہ تعالیٰ نے فرمایا وَھَدَیْنَاہٗ النَّجْدَیْن البتہ انسان اپنے ارادہ اور اختیار سے جو راستہ بھی اختیار کرتا ہے خواہ نیک ہو یا بد اللہ تعالیٰ اس کے لئے وہی راستہ آسان فرما دیتے ہیں۔ واذکر اذ۔۔۔۔ لاھلہ یہ اس وقت کا واقعہ ہے کہ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) مدین سے اپنی اہلیہ کو ساتھ لیکر واپس مصر آرہے تھے، تاریک رات میں راستہ بھول گئے تھے اور سردی کا موسم تھا سردی سے بچاؤ کے لئے آگ کی ضرورت تھی، دور سے آپ کو کوہ طور پر آگ کے شعلے نظر آئے تو آپ اس خیال سے کہ آگ کے پاس اگر کوئی شخص ہوا تو اس سے راستہ معلوم کرلوں گا ورنہ آگ تو، لے ہی آؤں گا تاکہ اس کے ذریعہ سردی سے بچاؤ حاصل کیا جاسکے چناچہ موسیٰ (علیہ السلام) آگ کے شعلو ﷺ کے قریب پہنچے تو ایک سرسبز درخت سے شعلے بلند ہوتے نظر آئے یہ شعلے حقیقت میں آگ نہیں تھے یہ اللہ کا نور تھا۔ فلما جاءھا۔۔۔۔ النار، چناچہ جب موسیٰ (علیہ السلام) آگ کے پاس پہنچے تو ندا آئی کہ مبارک ہے وہ جو آگ میں ہے اور وہ جو اس کے آس پاس ہے، نودِیَ کا نائب فاعل حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ہیں پکارنے والے حق تعالیٰ شانہ بھی ہوسکتے ہیں اور ملائکہ بھی، بورِکَ بمعنی تبارکَ ہے مَنْ فی النار میں مَنْ سے مراد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بھی ہوسکتے ہیں جیسا کہ مفسر علام کی رائے ہے اور وہ درخت بھی مراد ہوسکتا ہے جس پر آگ نظر آئی تھی نور الٰہی اور ذات حق شانہ تعالیٰ بھی ہوسکتی ہے (خلاصۃ التفاسیر) نار سے نور مراد ہے ابن کثیر نے حضرت ابن عباس ؓ کا قول نقل کیا ہے کہ درخت پر آگ نہیں تھی بلکہ نور تھا جس کی چمک بڑھتی جاتی تھی، اگر مَنْ فی النار سے حق تعالیٰ شانہ یا اس کا نور یا درخت مراد ہو تو حَولَہٗ سے مراد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ملائکہ مراد ہوں گے اور اگر مَنْ فی النَّار سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) مراد ہوں تو مَنْ حَوْلَہٗ سے ملائکہ مراد ہوں گے اور یہی روایت اولیٰ معلوم ہوتی ہے، اور موسیٰ (علیہ السلام) کا داخل نور ہونا یا تو باعتبار کمال قرب تھا یا فنائے صادق (معالم، بحوالہ خلاصۃ التفاسیر) مذکورہ توجیہات میں سے بعض سے خدا کے لئے جسم اور صفت حادث سے متصف ہونے کا یا حلول کا شبہ پیدا ہوتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا سبحٰن اللہ رب العٰلمینَ اللہ تعالیٰ تمام تحتیلات و ممکنات و حوادثات سے منزہ اور پاک ہے، آواز سننے کی جو کیفیت تفسیر بحر محیط میں ابو حیان نے اور روح المعانی میں آلوسی (رح) نے نقل کی ہے وہ یہ ہے موسیٰ (علیہ السلام) نے آواز اس طرح سنی کہ ہر جانب سے یکساں آرہی تھی جس کی کوئی جہت متعین نہیں ہوسکتی تھی، اور سننا بھی ایک عجیب انداز سے ہوا کہ صرف کان نہیں بلکہ جس کے تمام اعضاء سن رہے تھے جو ایک معجزہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ وَاَلْقِ عَصَاکَ (الآیۃ) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبر عالم الغیب نہیں ہوتے ورنہ موسیٰ (علیہ السلام) اپنی ہاتھ کی لاٹھی سے نہ ڈرتے، دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ طبعی خوف نبوت کے منافی نہیں ہے جب موسیٰ (علیہ السلام) نے دیکھا کہ ان کی لاٹھی سانپ بن کر جھوم رہی ہے تو پیٹھ پھیر کر بھاگے اور مڑ کر بھی نہ دیکھا، یہ خوف طبعی تھا جانٌّ ہلکے سانپ کو کہتے ہیں کہیں پر جان کہا گیا ہے اور کہیں پر ثعبانٌ، ثعبان بڑے سانپ (اژد ہے) کو کہتے ہیں، دونوں میں کوئی تعارض نہیں ہے اس لئے ابتداءٍ جانّ اور انتہاءً ثعبان ہوگیا تھا، یا جسم و جثہ کے اعتبار سے ثعبان تھا مگر سرعت حرکت کے اعتبار سے جانٌّ تھا۔ اِلاَّ مَنْ ظَلَمَ ثُمَّ بَدَّلَ حُسْنًا بَعْدَ سُوْءٍ فَاِنِّی غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ اس سے پہلی آیت میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزہ عصاء کا ذکر تھا جس میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ڈر کے مارے پیٹھ پھیر کر بھاگنے کا ذکر ہے اس کے بعد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے دوسرے معجزے یدبیضاء کا ذکر ہے درمیان میں اس استثناء کا ذکر کس لئے کیا ہے ؟ اور یہ استثناء منقطع ہے یا متصل ؟ اس میں حضرات مفسرین کے اقوال مختلف ہیں بعض حضرات نے استثناء کو منقطع قرار دیا ہے اس صورت میں آیت کا مفہوم یہ ہوگا کہ پہلی آیت میں انبیاء کرام پر خوف نہ ہونے کا ذکر تھا برسبیل تذکرہ ان لوگوں کا بھی ذکر آگیا جن پر خوف طاری ہونا چاہیے، یعنی وہ لوگ جن سے کوئی خطا سرزد ہوئی پھر توبہ کرکے نیک اعمال اختیار کرلئے ایسے حضرات کی اگرچہ اللہ تعالیٰ خطا معاف کردیتے ہیں مگر معافی کے بعد بھی گناہ کے بعض آثار باقی رہنے کا احتمال ہے اس سے یہ حضرات ہمیشہ خائف رہتے ہیں، اور اگر اس استثناء کو متصل قرار دیں تو معنی آیت کے یہ ہوں گے کہ اللہ کے رسول ڈرا نہیں کرتے بجز ان کے کہ جن سے کوئی خطا (یعنی کوئی لغزش سرزد ہوگئی ہو) پھر اس سے بھی توبہ کرلی ہو تو اس توبہ سے یہ لغزش معاف ہوجاتی ہے اور صحیح تر بات یہ ہے کہ انبیاء سے جو لغزش سرزد ہوئی ہے، وہ درحقیقت گناہ ہی نہیں ہے نہ کبیرہ نہ صغیرہ البتہ صورت گناہ کی تھی ورنہ درحقیقت خطائے اجتہادی تھی، اس مضمون میں اس طرف بھی اشارہ پایا گیا کہ موسیٰ (علیہ السلام) سے جو قبطی کو قتل کرنے کی لغزش ہوگئی تھی وہ اگرچہ اللہ تعالیٰ نے معاف فرما دی مگر اس کا یہ اثر رہا کہ موسیٰ (علیہ السلام) پر خوف طاری ہوگیا اگر یہ لغزش نہ ہوئی ہوتی تو یہ وقتی خوف بھی نہ ہوتا۔ (قرطبی بحوالہ معارف)
Top