Tafseer-e-Jalalain - Al-Qasas : 51
وَ لَقَدْ وَصَّلْنَا لَهُمُ الْقَوْلَ لَعَلَّهُمْ یَتَذَكَّرُوْنَؕ
وَلَقَدْ وَصَّلْنَا : اور البتہ ہم نے مسلسل بھیجا لَهُمُ : ان کے لیے الْقَوْلَ : (اپنا) کلام لَعَلَّهُمْ : تاکہ وہ يَتَذَكَّرُوْنَ : نصیحت پکڑیں
اور ہم پے درپے ان لوگوں کے پاس (ہدایت کی) باتیں بھیجتے رہے ہیں تاکہ نصیحت پکڑیں
آیت نمبر 51 تا 60 ترجمہ : اور ہم نے لوگوں کے لئے قول یعنی قرآن کو (کھول کر بیان کیا) پیہم بھیجا تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں اور ایمان لے آئیں جن کو ہم نے اس قرآن سے پہلے کتاب عطا فرمائی وہ اس قرآن پر بھی ایمان رکھتے ہیں یہ آیت یہود کی اس جماعت کے بارے میں نازل ہوئی جنہوں نے اسلام قبول کرلیا تھا، جیسا کہ عبد اللہ بن سلام وغیرہ اور ان نصاریٰ کے بارے میں جو حبشہ اور شام سے آئے تھے اور جب ان کو قرآن پڑھ کر سنایا جاتا ہے تو وہ کہہ دیتے ہیں کہ اس کے ہمارے رب کی طرف سے حق ہونے پر ہمارا ایمان ہے ہم تو اس سے پہلے ہی سے مسلمان یعنی موحد ہیں یہ لوگ اپنے دونوں کتابوں پر ایمان رکھنے کی وجہ سے اور دونوں پر عمل (کی مشقت) پر صبر کرنے کی وجہ سے دوہرا اجر دئیے جائیں گے، اور یہ لوگ نیکی سے بدی کا دفعیہ کردیتے ہیں اور ہم نے ان کو جو کچھ دیا ہے اس میں سے (راہ خدا میں) صدقہ کرتے ہیں اور جب کسی سے لغو بات اور اذیت کی بات سنتے ہیں تو اس سے کنارہ کرلیتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں ہمارا عمل ہمارے لئے ہے اور تمہارا عمل تمہارے لئے ہے ہم تو تم کو سلام کرتے ہیں یہ سلام متارکت (یعنی پیچھا چھڑانے کا سلام) ہوتا ہے (نہ کہ سلام تحیہ) یعنی تم ہماری طرف سے گالی وغیرہ سے سلامت رہو ہم ناسمجھ لوگوں سے مصاحبت (الجھنا) نہیں چاہتے (آئندہ آیت) آپ ﷺ کے اپنے چچا ابو طالب کے ایمان پر زیادہ حریص ہونے کے بارے میں نازل ہوئی آپ جس کو چاہیں ہدایت نہیں کرسکتے بلکہ اللہ جس کو چاہے ہدایت کردیتا ہے، ہدایت پانے والوں کا علم اسی کو ہے تو آپ ﷺ کی قوم کہنے لگی اگر ہم آپ کے ساتھ ہو کر ہدایت کے تابعدار بن جائیں تو ہم اپنے ملک سے اچک لئے جائیں یعنی فی الفور ہم کو ہمارے ملک سے نکال باہر کیا جائے کیا ہم نے ان کو امن اور امن والے حرم میں جگہ نہیں دی ؟ کہ وہ اس میں قتل و غارت گری سے جو کہ عرب میں باہم (عام طریقہ پر) واقع ہو رہی ہے مامون رہ رہے ہیں جہاں ہر قسم کے پھل ہر جانب سے کھچے چلے آتے ہیں جو ہمارے پاس سے ان کے لئے بطور رزق کے ہیں لیکن ان میں سے اکثر لوگ نہیں جانتے کہ جو کچھ ہم کہتے ہیں وہ حق ہے اور ہم بہت سی ایسی بستیاں ہلاک کرچکے ہیں جو اپنے سامان عیش پر نازاں تھیں اور قریہ سے اہل قریہ مراد ہیں یہ ہیں ان کے مکانات، جو ان کے بعد آئے نہ رہ سکے مگر بہت کم، مسافروں کے لئے ایک دن یا دن کا کچھ حصہ اور آخر کار ہم ہی ان کے وارث رہے اور تیرا رب کسی ایک بستی کو بھی اہل بستی کے ظلم کی وجہ سے (اس وقت تک) ہلاک نہیں کرتا جب تک کہ (بستیوں) کے صدر مقام میں کسی پیغمبر کو نہ بھیج دے جو ان کو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائے اور ہم بستیوں کو اسی وقت ہلاک کرتے ہیں جب کہ بستی والے رسولوں کی تکذیب کرکے ظلم پر کمر کس لیں اور جو کچھ تم کو دیا گیا ہے وہ محض دنیوی زندگی کا سامان اور اس کی زینت ہے جس سے تم اپنی زندگی میں فائدہ اٹھاتے ہو اور اس سے زینت حاصل کرتے ہو پھر فنا ہوجاتا ہے ہاں اللہ کے پاس جو ہے وہ بہت ہی بہتر اور دیرپا ہے کیا تم نہیں سمجھتے ؟ یعقلون میں یا اور تا کے ساتھ دونوں قرأتیں ہیں اور یقیناً باقی فانی سے بدر جہا بہتر ہے۔ تحقیق، ترکیب و تفسیری فوائد وَصَّلْنَا ماضی جمع متکلم (تفعیل) ہم نے پے در پے بھیجا، ہم نے کھول کر بیان کیا۔ قولہ : الذین موصول اپنے صلہ سے مل کر جملہ ہو کر مبتدا ھُمْ مبتدا کی خبر اور بہٖ یومنون سے متعلق مبتداء ثانی اپنی خبر سے مل کر مبتدا اول کی خبر۔ قولہ : ایضاً ای کما آمنوا بکتابھم۔ قولہ : بصبرھم سے اشارہ کردیا کہ ما مصدریہ ہے۔ قولہ : یَدْرَءُوْنَ ، یُنْفِقُونَ ، وَاِذَا سِمِعُوْا ان سب کا عطف، یُوْتُوْنَ پر ہے۔ قولہ : وَالاَذٰی من الکفارِ یہ عطف عام علی الخاص کے قبیل سے ہے۔ قولہ : لا تَھْدِی مَنْ اَحْبَبْتَ اس میں ایصال الی المطلوب کی نفی ہے نہ کہ اراء ۃِ طریق کی، لہٰذا اس قول اور اِنَّکَ لَتَھْدِی اِلی صِراط المستقیمِ میں کوئی تعارض نہیں ہے وقالوا ای قومہ قوم سے مراد آپ ﷺ کی قوم ہے اور قائل حارث بن عثمان بن نوفل بن عبد مناف ہے۔ قولہ : یُجْبٰی ای یُحْمَلُ ویُسَاقُ الیہ، مِنْ کُلِّ اوبٍ ای من کلِّ جانبٍ ۔ قولہ : ثمرات کلِّ شیئ یہ کثرت سے کنایہ ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے قول اُوْتِیَتْ مِنْ کُلِّ شیئٍ میں ہر ضرورت کی شئ مراد ہے نہ کہ دنیا کی ہر شئ۔ قولہ : معِیْشتھا ای عَیْشَھا معِیٌشتَھَا حذف مضاف کے ساتھ ظرفیت کی وجہ سے منصوب ہے اور مفسر علام نے معِیْشۃً کی تفسیر عیشٌ سے کی ہے اب تقدیر عبارت یہ ہوگی بَطِرَتْ فِی زمن حیَاتِھا۔ قولہ : لَمْ تُسْکَنْ یہ جملہ ہو کر حال ہے اور عامل تِلْکَ بمعنی اشیر ہے تلک مبتداء کی خبر ثانی بھی ہوسکتی ہے۔ قولہ : وَمَا اُوْتِیْتُمْ مِنْ شئ فَمَتاعُ الحیوٰۃِ الدنیا ما شرطیہ ہے اور مِن شیئٍ اس کا بیان ہے فمَتاعُ الحیوٰۃ الدنیا ھو مبتداء محذوف کی خبر ہے اور جملہ ہو کر جواب شرط ہے۔ تفسیر و تشریح ولقد وصلنا (الآیۃ) وصلنا توصلٌ سے مشتق ہے جس کے لغوی معنی تاروں میں تار ملا کر رسی بٹنا، حق تعالیٰ نے لوگوں کی ہدایت کے لئے انبیاء کی بعثت کا سلسلہ جاری رکھا یعنی ایک رسول کے بعد دوسرا اور ایک کتاب کے بعد دوسری کتاب بھیجتے رہے حتی کہ آپ ﷺ کی بعثت کے بعد رشد و ہدایت کا امت مرحومہ کے ذریعہ ایساتکوینی سلسلہ جاری فرما دیا کہ اب کسی نبی کی ضرورت نہیں رہی۔ شان نزول : الذین آتینھم الکتاب (الآیۃ) اس آیت میں ان اہل کتاب کا ذکر ہے جو رسول اللہ ﷺ کی بعثت سے پہلے ہی تورات اور انجیل کی دی ہوئی بشارتوں کی بناء پر آپ ﷺ کی بعثت اور نزول قرآن پر یقین رکھتے تھے جب آپ ﷺ کی بعثت ہوئی تو اپنے سابق یقین کی بنا پر ایمان لے آئے، حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نجاشی بادشاہ حبشہ کے درباریوں میں سے چالیس آدمی مدینہ طیبہ میں اس وقت حاضر ہوئے جب رسول اللہ ﷺ غزوۂ خیبر میں مشغول تھے یہ لوگ بھی جہاد میں شریک ہوگئے، بعض کو کچھ زخم بھی لگے مگر ان میں سے کوئی مقتول نہیں ہوا، ان لوگوں نے جب صحابہ کرام کی معاشی تنگی کا حال دیکھا تو آپ سے درخواست کی کہ ہم اللہ کے فضل سے مالدار اور صاحب ثروت ہیں ہم اپنے ملک واپس جاکر صحابہ کے لئے مال فراہم کرکے لائیں آپ اجازت دیدیں، اس پر یہ آیت نازل ہوئی (اخرجہ ابن مردویہ الطبرنی، مظہری) ۔ اور حضرت سعید بن جبیر سے روایت ہے کہ حضرت جعفر ؓ اپنے ساتھیوں کے ساتھ جب ہجرت مدینہ سے پہلے حبشہ گئے تھے اور نجاشی کے دربار میں اسلامی تعلیمات پیش کیں تو نجاشی اور اس کے اہل دربار جو اہل کتاب تھے اور توریت و انجیل میں رسول اللہ ﷺ کی بشارت اور علامتیں دیکھے ہوئے تھے ان کے دلوں میں اسی وقت اللہ نے ایمان ڈال دیا۔ (مظہری) اولئک یؤتون اجرھم مرتین بما صبروا صبر سے مراد ہر قسم کے حالات میں انبیاء اور کتاب الٰہی پر ایمان لانا اور اس پر ثابت قدمی سے قائم رہنا ہے، پہلی کتاب آئی تو اس پر اس کے بعد دوسری پر ایمان رکھا، پہلے نبی پر ایمان لائے اس کے بعد دوسرا نبی آیا تو اس پر ایمان لائے، ان کے لئے دوہرا اجر ہے، حدیث شریف میں بھی ان کی یہ فضیلت بیان کی گئی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا تین آدمیوں کے لئے دوہرا اجر ہے ان میں ایک وہ اہل کتاب ہے جو اپنے نبی پر ایمان رکھتا تھا اور پھر مجھ پر ایمان لایا۔ (مسلم شریف کتاب الایمان) برائی کو جواب برائی سے نہیں دیتے بلکہ معاف کردیتے ہیں اور درگزر سے کام لیتے ہیں، اور جاہلوں سے صاحب سلام کہہ کر گزر جاتے ہیں یعنی ان لوگوں کی ایک عمدہ عادت یہ ہے کہ جب کسی جاہل دشمن سے لغویات سنتے ہیں تو اس کا جواب دینے کی بجائے یہ کہہ دیتے ہیں کہ ہمارا سلام لو ہم جاہل لوگوں سے الجھنا پسند نہیں کرتے، اس کو سلام متارکت یا مسالمت کہتے ہیں اور جس سلام کی ممانعت ہے وہ سلام تحیہ ہے جو مسلمانوں میں بوقت ملاقات رائج ہے۔ شان نزول : انک لا تھدی من احببت (الآیۃ) جب آپ ﷺ کے ہمدرد اور غمگسار چچا ابو طالب کا انتقال ہونے لگا تو آپ ﷺ اپنے چچا کی خدمت میں تشریف لے گئے اور فرمایا چچا جان آپ اپنی زبان سے ایک مرتبہ یہ کلمہ لا الٰہ الاَّ اللہ کہہ لیں تاکہ میں روز قیامت اللہ کے سامنے سفارش کو سکوں لیکن دیگر رؤساء قریش موجود تھے جن کی وجہ سے ایمان سے محروم رہے، مگر یہ فرمایا اے میرے بھتیجے میں جانتا ہوں کہ تم سچے ہو لیکن میں اس بات کو ناپسند کرتا ہوں کہ لوگ میرے مرنے کے بعد کہیں کہ موت سے ڈر گیا، اگر یہ اندیشہ نہ ہوتا تو میں یہ کلمہ کہہ کر ضرور تمہاری آنکھیں ٹھنڈی کردیتا ہے اس لئے کہ میں تمہارے شدت غم اور خیر خواہی کو دیکھ رہا ہوں، پھر یہ اشعار پڑھے لقد علمت باَنّ دین محمد من خیر ادیان البریۃ دینا لو لا الملامۃ او حذار مسبّہ لوجدتنی سمعًا بذاک مبینا اور پھر فرمایا، لکنی سوف اموت علیٰ ملۃ الاشیاخ عبد المطلب وھاشم وعبد مناف ثم مات، نبی ﷺ کو اس بات کا بڑا قلق اور صدمہ ہوا، اس موقع پر اللہ تعالیٰ اِنّکَ لا تھدی من اَحْبَبْتَ نازل فرمائی، یعنی کسی کو مومن بنادینا اور ایمان دل میں اتار دینا آپ کی قدرت میں نہیں ہے آپ کا کام کوشش کرنا ہے اور بس، تفسیر روح المعانی میں ہے کہ خواجہ ابو طالب کے کفر و ایمان کے بارے میں بےضرورت گفتگو اور بحث و مباحثہ سے اجتناب کرنا چاہیے کہ اس سے آنحضرت کی طبعی ایذا کا احتمال ہے۔ (واللہ اعلم بالصواب) وقالوا ان تتبع الھدیٰ معک یہ آیت الحارث بن عثمان بن نوفل بن مناف کے بارے میں نازل ہوئی تھی حارث بن عثمان وغیرہ نے اپنے ایمان نہ لانے کی ایک وجہ یہ بیان کی کہ اگرچہ ہم آپ کی تعلیمات کو حق جانتے ہیں مگر ہمیں خطرہ یہ ہے کہ اگر ہم آپ کی ہدایت پر عمل کرکے آپ کے ساتھ ہوجائیں تو سارا عرب ہمارا دشمن ہوجائے گا اور ہمیں ہماری زمین مکہ سے اچک لیا جائے گا (نکال باہر کیا جائے گا) قرآن کریم ان کے اس عذر لنگ کا جواب دیتے ہوئے فرماتا ہے اَوَلَمْ نُمَکَنْ لَھُمْ (الآیۃ) یعنی ان کا یہ عذر اس لئے باطل ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے ان کے کفر کے باوجود ان کی حفاظت کا ایک قدرتی سامان یہ کر رکھا ہے کہ ارض مکہ کو حرام بنادیا جس میں قتل و غارت گری سخت حرام ہے، جب اللہ تعالیٰ نے ان کے کفر و شرک کے باوجود اس سرزمین میں امن دے رکھا ہے تو ایمان لانے کی صورت میں وہ ان کو کیسے ہلاک ہونے دے گا ؟
Top